بلا تامل: شاہد اعوان
سطح زمین کے 30%رقبے پر درخت موجود ہیں جو زمین پر زندگی کی علامت ہیں۔ انسانی زندگی میں درخت بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں جو ہمارے گھروں، ہسپتالوں اور صنعتوں کو آباد کئے ہوئے ہیں درخت ہمیں نائٹروجن، کاربن اور آکسیجن فراہم کرتے ہیں یہ موسموں کی تبدیلیوں کو روکنے میں ہماری مدد کرتے ہیں، بارشوں اور موسموں کے حملے سے بچاتے ہیں۔ جنگلات کی لکڑی سے بے شمار فائدے حاصل ہوتے ہیں جنگلات نے سب سے بڑا تحفہ ہمیں لکڑی کا دیا ہے ہمارے استعمال کا سب سے پہلا خام مال جنگلات مہیا کرتے ہیں ہر بڑی صنعت کا انحصار جنگلات پر ہی ہے گھر میں لکڑی کی دیوار کو حرارت کے لئے 20%کم توانائی کی ضرورت ہوتی ہے اور دوسرے عمارتی سامان سے بنی ہوئی دیوار کو 30%کم کولنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ لکڑی سے ہمیں ہارڈ بورڈ، پلائی ووڈ، شہتیر اور چپ بورڈ حاصل ہوتے ہیں جس سے ہم خوبصورت فرنیچر بنا کر گھروں اور دفاتر کو سجاتے ہیں۔ لکڑی کا سب سے بڑا فائدہ کاغذ کی تیاری ہے موجودہ دور میں کاغذ کی اہمیت زیادہ ہو چکی ہے جس کے بغیر زندگی کا کوئی عمل مکمل نہیں ہوتا۔ صنعتی لکڑی کا ستعمال 1.5بلین ٹن ہے جو پلاسٹک اور سٹیل کے استعمال سے کہیں زیادہ ہے۔ لکڑی کے بغیر انسانی زندگی میں خوبصورتی بہت کم ہو جاتی ہے درختوں کی اہمیت اور اس کے فروغ کے لئے محکمہ جنگلات کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے مگر یہ محکمہ الامآشااللہ لکڑی کاٹنے اور بیچنے میں سرفہرست ہے جنگلات میں آئے روز آگ کا لگنا اور دیکھتے ہی دیکھتے جنگلوں کا بھسم ہو جانا اب ایک معمول بن چکا ہے۔ بارشوں کے نہ ہونے کا سبب بھی درختوں کی کٹائی بتائی جاتی ہے جو مبینہ طور پر اس میں محکمہ جنگلات کے کرپٹ اہلکاروں کا شاخسانہ ہے۔ ایک سروے کے مطابق ہر سال اتنے درخت لگائے نہیں جاتے جتنے کاٹ دئیے جاتے ہیں یا انہیں جلا دیا جاتا ہے، ہر سال نئے درخت لگانے کے دعوے تو بہت کیے جاتے ہیں لیکن زمین پر ان کا وجود کہیں نظر نہیں آتا۔ مارچ اپریل اور جولائی اگست وہ چار مہینے ہیں جب وطن عزیز میں زمین پر نئے پودوں کی کاشت کی جاتی ہے وہ کہاں تک اگتے ہیں اور مکمل درخت بنتے ہیں اس کا کوئی حساب کتاب نہیں رکھا جاتا۔ ایک مشہور مقولہ ہے ”بشر دو شجر“، اگر اس فارمولے پر عمل کیا جائے تو ملک کی بالغ آبادی جو تقریباٌ 12کروڑ بنتی ہے تو24کروڑ درخت ہر سال لگ جانے چاہئیں۔ درخت بھی جاندار شے ہیں وہ ہوا، پانی اور تحفظ کا تقاضا کرتے ہیں پودے بچوں کی طرح نازک اور حساس ہوتے ہیں جب تک ان کی اچھی طرح دیکھ بھال نہ کی جائے وہ ضائع ہوجاتے ہیں۔ درختوں کو نقصان پہنچانے اور بربادکرنے میں کسی محکمے سے زیادہ عام شہری بھی برابر کے شریک ہیں دراصل درخت لگانے کے شوقین لوگ کم اور ان کو برباد کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہمارے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ کئی محکموں کے سربراہ یوں تو پودوں اور درختوں سے عشق رکھتے ہیں مگر ان کے دفاتر دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں درختوں پودوں سے کوئی سروکار نہیں۔ ہمارے انتہائی قابل احترام بزرگ دوست ملک فتح خان جو متعدد بڑے عہدوں پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں ان دنوں ایک فلاحی ادارے NRSPکے سربراہ ہیں انہیں درختوں سے عشق کی حد تک لگاؤ ہے ان کا دفتر ہو یا ان کی نرسریاں وہ قابل دید ہیں انہوں نے نجی طور پر اپنے آبائی علاقہ تلہ گنگ میں ہزاروں کنال پر زیتون کے درخت لگائے ہیں جن سے اب فروٹ بھی حاصل کیا جا رہا ہے اس طرح وہ مختلف اضلاع میں اپنے محکمے کی طرف سے سالانہ ہزاروں پودے مفت تقسیم کرتے ہیں اور ماحول کو خوشگوار بنانے میں اپنا قومی فریضہ خوب انجام دے رہے ہیں اسی مشن کو جاری رکھتے ہوئے اس سال موسم برسات میں اب تک NRSPکے پلیٹ فارم سے 35ہزار پودے مختلف شہروں میں تقسیم کر چکے ہیں۔ چند روز قبل انہوں نے تحصیل تلہ گنگ اور تحصیل لاوہ کے لئے ہزاروں پودے عطیہ کیے جو بڑے ہو کر سایہ دار درخت بنیں گے اس ضمن میں پریس کلب لاوہ کے ذریعے تقریباٌ بیس ہزار پودے بانٹے گئے جبکہ فقیر کی درخواست پر ملک صاحب نے کمال مہربانی فرماتے ہوئے میرے گاؤں کی سماجی تنظیم اتحاد ویلفیئر سوسائٹی کھوئیاں کے لئے تقریباٌ900پودے دئیے اس موقع پر انچارج محترمہ مبین الماس اور پروگرام آفیسر ملک شہزاد بھی موجود تھے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ گرین پاکستان کے مشن پر گامزن ماحول کو خوشگوار اور سرسبز و شاداب بنانے کے لئے NRSP کی کوششیں قابل تحسین ہیں۔ میرے گاؤں کھوئیاں کے ہونہار نوجوانوں نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ وہ ناصرف پودے اگانے میں بھرپور کردار ادا کریں گے بلکہ ان کی دیکھ بھال اور تحفظ کو بھی یقینی بنائیں گے۔ اتحاد سوسائٹی کے طاہر ملک، جاوید اقبال ملک، ملک مختار احمد اور ان کی پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے جنہوں نے تمام پودے اپنی موجودگی میں گاؤں کے لوگوں میں تقسیم کیے۔ ہم ان سطور کے ذریعے NRSPاور ملک فتح خان کے تہہ دل سے ممنون و مشکور ہیں جو ملک کو سرسبز بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرر ہے ہیں۔
Comments are closed.