ہم ہر سال یوم آزادی مناتے ہیں، کیسے مناتے ہیں؟ سب بخوبی جانتے ہیں۔ آزادی کی اصل روح کو سمجھے بغیر جھنڈے لہرا کر، جھنڈیاں لگا کر، موٹر سائیکلوں کے سلنسر نکال کر، باجے بجا کر، ویلنگ کر کے، آتش بازی و ہوائی فائرنگ اور پرچم کشائی کر کے اپنی ”آزادی“ کا کھل کر اظہار کرتے ہیں۔ چند لمحوں کے لئے رسمی تقریبات ہر سال منا کر اگلے روز15اگست کو سب بھول چکے ہوتے ہیں۔
آج تقسیم ہند اور قیامِ پاکستان کے مناظر شعور کی آنکھ سے دیکھنے والے لوگ خال خال ہی بچے ہیں جبکہ آج کے نوجوان کو تاریخ پڑھنے میں کوئی دلچسپی ہی نہیں وہ ہر سال یوم آزادی پر اپنی کروڑوں کی عالی شان گاڑی پرقومی پرچم تو بڑے اہتمام سے لگاتا ہے مگر اندر ڈیک پر انڈیا کے گانے لگا کر رقص بھی کرتا ہے اور اپنی ”آزادی“ کا اعلان کرتا ہے۔
”آزادی“ کے یہ مناظر دیکھ کر سوچا اس 14اگست پر آزادی حاصل کرنے والوں کی کہانی ہی لکھ ڈالوں کہ شاید ٹچ موبائل پر انگلیاں گھماتے گھماتے اوٹ پٹانگ اخلاق باختہ ویڈیو کلپس سے فراغت پا کر کسی نوجوان کی نظر اس تحریر پر پڑ جائے اور اسے آزادی کی قدروں کا اندازہ ہی ہو جائے کہ اس خطہئ ارضی کے لئے اس کے بزرگوں نے کتنی قربانیاں دیں، کتنی مصیبتیں جھیلیں، کتنے سہاگ اجڑے، کتنی عصمتیں لٹیں، کتنے معصوم نیزوں کی ’انیوں‘ پر جھولے۔
تب کہیں جا کر ہمیں آزادی کا سورج دیکھنا نصیب ہوا۔ آزادی کی یہ کہانی کسی مسلمان کی نہیں بلکہ معروف افسانہ نگار کرشن چند کی زبانی ہے وہ پشاور سے دہلی کا ٹرین کا سفر یوں بیان کرتے ہیں: ”جب گاڑی امرتسر پہنچی تو سکھوں کے نعروں نے زمین و آسمان کو ملا دیا یہاں مسلمانوں کی لاشوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے ہندوجاٹ، سکھ اور ڈوگرے ہر ڈبے میں جھانک کر پوچھتے ”کوئی شکار ہے مطلب کوئی مسلمان ہے؟“ ہر ڈبے میں آٹھ دس سکھ اور جاٹ بھی بیٹھ گئے یہ رائفلوں اور بلموں سے مسلح تھے اور مشرقی پنجاب میں ”شکار“ کی تلاش میں جارہے تھے ان میں ایک کے دل میں شبہ ہوا اس نے ایک برہمن سے پوچھا ”برہمن کہاں جا رہے ہو؟“ ”ہردوار۔۔۔تیرتھ کرنے“۔ جاٹ ہنسا اور کہا ”آؤ بسم اللہ کریں“۔
اتنا کہہ کر اس کے سینے میں خنجر پیوست کر دیا۔ انہیں اس برہمن پر شک تھا کہ یہ مسلمان ہے مارنے کے بعد اس کے ختنے چیک کیے گئے تو معلوم ہوا کہ وہ واقعی مسلمان نہ تھا۔ ٹرین کو ایک جنگل میں کھڑا کر کے بڑی تعداد میں مزارع اپنے بیوی بچوں کو کھیتوں میں چھپا کر بیٹھے تھے جب سب کا صفایا کر دیا اور ایک دودھ پیتے بچے کو نیزے پر اٹھایا ہوا تھا اور نعرے لگا رہے تھے ”آئی بیساکھی، آئی بیساکھی“۔
جالندھر سے آگے پٹھانوں کا ایک گاؤں تھا یہاں گاڑی کو روک کر بلوائی گاؤں میں گھس گئے سپاہی، مہاجرین اور جاٹ پٹھانوں سے مقابلہ کیا لیکن آخر میں سب مارے گئے جب عورتوں کی باری آئی انہیں کھلے میدان میں اکٹھا کیا گیا جہاں گیہوں کے کھلیان تھے سرسوں کے پھول کھلتے تھے اس وسیع میدان میں جہاں پنجاب کے دل نے ہیر رانجھا اور سوہنی مہینوال کے لافانی الفت کے گیت گائے تھے وہاں پچاس عورتیں اور پانچ سو مرد یوں ذبح کر دئیے گئے جیسے عید قربان پر مسلمان گائے اور بکرے ذبح کرتے ہیں۔ ان کی نعشیں ٹرین میں پھینک دی گئیں آگے ایک نہر آتی تھی وہاں گاڑی روک کر سب نعشوں کو اس میں پھینک دیا گیا۔
وہاں بلوائیوں نے دیسی شراب کی بوتلیں کھولیں تو خون اور شراب کی بدبو کھیل گئی۔ لدھیانہ پہنچ کر لٹیرے گاڑی سے اتر گئے اور شہر میں جا کر انہوں نے مسلمانوں کے محلے تلاش کر کے لوٹ مار کی اور مال غنیمت لاد کر ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ انبالہ ریلوے اسٹیشن پر رات کے وقت ایک فرسٹ کلاس ڈبے میں مسلمان ڈپٹی کمشنر اور اس کے بیوی بچے سوار ہوئے ان کو فوجیوں کے پہرے میں لایا گیا تھا، ٹرین انبالہ سے دس کلومیٹر چلی ہو گی کہ اچانک گاڑی روک دی گئی اور فرسٹ کلاس ڈبے کو بلوائیوں نے گھیر لیا اور شیشے توڑ کر ڈی سی کے بیوی بچوں کو قتل کیا اور اس کی نوجوان بیٹی کو اغواء کر کے لے گئے۔
نوجوان لڑکی کے پاس ”اشتراکیت عمل اور فلسفہ از جان سٹریٹجی“ کی کتاب تھی، لڑکی کو آٹھ دس نوجوانوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ جب اس لڑکی کی نعش کو کتے اور گدھ چیر پھاڑ رہے تھے تو یہ کتاب ورق ورق ہو کر بکھر رہی تھی اور شراب میں دھت جاٹ سکھ جے ہند اور مہاتما گاندھی کی جے کے نعرے بلند کر رہے تھے۔“
یہ ہے وہ آزادی جو لاکھوں انسانوں کے خون سے رنگی ہوئی ہے اسے اتنا ارزاں نہ جانئے یہ سودا اتنا سستے میں حاصل نہیں ہوا یہ پینڈے بہت اوکھے تھے خون کے دریا پار کر کے لوگ پاکستان آئے تھے۔ تقسیم کا ایک اور درد ناک منظر مشاہدہ کیجئے:
نکاح کی تقریب جاری تھی نکاح خواں نے دولہا سے اس کا نام پوچھ کر لکھا اور پھر اس کے والد کانام پوچھا۔ دولہا اس سوال سے گھبرا گیا اور نکاح خواں سے کہا ”ہم دو ماں بیٹا ہیں میں نے کبھی اپنی والدہ سے اپنے والد کا نام پوچھا ہی نہیں لہٰذا میں اپنی والدہ سے پوچھ کر آتا ہوں۔“ محفل میں موجود لوگوں میں سے کسی کوبھی اس کے والد کانام معلوم نہ تھا۔ گھر میں داخل ہو کر نوجوان نے والدہ سے اپنے والد کانام پوچھا۔ والدہ بھی گھبرا گئی اور گم سم خاموش ساکت ہو گئی۔
دولہا نے کئی بار یہی سوال اپنی والدہ سے پوچھا اور آخر کار کوئی جواب نہ پا کر شدید طیش میں آگیا اور غصے میں آ کر اپنی ماں سے نہ جانے کیا کیا اول فول بکنے لگا۔ گھر مین جمع تمام عورتیں بھی خاموشی سے ماں بیٹے کا مکالمہ سنتی رہیں اور حیران تھیں کہ آج تک یہ سوال کرنے کا خیال ہمیں کیوں نہیں آیا جبکہ ماں بیٹے کی زندگی اسی محلے میں گزری ہے یہ چھوٹا سا تھا جب سے ہم ان دونوں کو اپنی گلی میں اسی مکان میں دیکھ رہے ہیں اس عورت نے شاید اپنے بچے کو اسی وجہ سے سکول بھی داخل نہیں کروایا کہ اس کے باپ کانام تووہ جانتی نہیں۔
اچانک اس نے اپنی ماں سے کہا ”اگر تو مجھے میرے باپ کا نام نہیں بتا سکتی تو اس شرمندگی کی زندگی سے بہتر ہے میں خود کشی کرلوں۔“ جیسے ہی ماں نے بیٹے کے یہ الفاظ سنے تو تڑپ اٹھی اور بھاگ کر اسے روکا اور کہا ”میری بات سن لو پھر جو جی میں آئے کر لینا۔“ چند عورتیں آگے بڑھیں اور جوان کو اپنے اقدام سے روک لیا کہ پہلے اس کی بات تو سنو۔ پورے گھر میں خاموشی چھا گئی سبھی عورت کے لب ہلنے کے منتظر تھے وہ گویا ہوئی:”پاکستان بننے کے بعد ہمارے والد، چچا، بھائیوں اور خاندان کے تمام مرد و عورت ہجرت کر کے پاکستان کے لئے عازم سفر ہوئے راستے میں کسی جگہ ہمارے قافلے پر ہندو بلوائیوں نے حملہ کر دیا ہمارے مرد جان توڑ کر لڑے لیکن ان کی تعداد اور اسلحے کی وجہ سے ہمارے حفاظت نہ کر سکے اور سب شہید ہو گئے۔
لڑائی کے دوران میرے والد نے رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم عورتوں کو نکالنا چاہا لیکن میرے علاوہ کسی کو بچانے میں کامیاب نہ ہو سکے میرے خاندان کی باقی عورتوں کا کیا حال ہوا میں نہیں جانتی مردوں اور عورتوں میں کوئی زندہ بچا بھی یا نہیں مجھے کچھ پتہ نہیں۔ وہاں سے بھاگنے کے بعد میں انتہائی خوفنزدہ حالت میں دن تو چھپ کر گزار دیتی اور رات کو اللہ کانام لے کر اس راستے پر چل پڑتی جو روانگی سے پہلے ہمارے مرد حضرات آپس میں تذکرہ کرتے رہتے تھے۔ ایک رات دوران سفر میں نے ایک جگہ کسی بچے کی رونے کی آواز سنی آگے جا کر دیکھا تو کئی لاشوں کے درمیان ایک شیر خوار بچہ پڑا ہوا تھا میں نے اسے اٹھا لیا سینے سے لگائے سفر کرتی آخر کار پاکستان پہنچ گئی۔
مہاجر کیمپوں میں کسی جگہ بھی مجھے اپنے خاندان کا کوئی فرد نظر نہ آیا اور یوں میری دنیا صرف میرے اور اس بچے تک محدود رہ گئی میری عمر کم تھی اور ابھی میری شادی بھی نہ ہوئی تھی چنانچہ اپنی باقی زندگی میں نے اس بچے کی خاطر تنہا ہی گزار دی اور آج وہ بچہ میرے سامنے کھڑا ہے۔
اب بتاؤ رات کے اندھیرے میں لاشوں کے درمیان سے اٹھائے گئے بچے کے باپ کا نام مجھے کون بتاتا۔۔۔؟؟؟“ ماں کی بات مکمل ہونے تک ہر آنکھ اشکبار تھی اور وہ بیٹا جو کچھ دیر پہلے ماں کو جلی کٹی سنا رہا تھا حیرت و ممنویت کا پہاڑ بنا کھڑا تھا پھر شرمندگی کے ساتھ آگے بڑھا اور اس عورت کے احسانات کا بوجھ اٹھائے اس کے قدموں میں گر گیا۔
آج جب میں اپنی نوجوان نسل کو آزادی کا ”جشن“ مناتے دیکھتا ہوں تو مجھے وہ ماں اور اس جیسی قربان ہونے والی لاکھوں جانیں یاد آجاتی ہیں جو اپنی محنت کی کمائی دیکھے بغیر اس پاک وطن کی خاطر قربان ہو گئیں۔ اللہ ہمیں تحریک پاکستان میں قربان ہونے والی ان لاکھوں قربانیوں اور ان کے ”ثمر“ پاکستان کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اہلِ وطن کو آزادی کی اصل روح کو سمجھنے کا حوصلہ عطا فرمائے۔
بلا تامل، شاہد اعوان
Comments are closed.