”کفِ خاک“ کی نظمیں

Shahid Ewan

بلاتامل، شاہد اعوان

بقول شخصے بات کو کہیں سے شروع کر لیا جائے اگر آپ کا موضوع منطقی حقیقتوں پر مبنی ہے تو وہ اپنے مطلب کے نتائج پر طلوع کے آثار دے سکتا ہے۔

ادب اپنی تسطیر میں جس خام مواد سے ظہور کرتا ہے اس کے عددی اور فکری جغرافیہ کا تعین نہیں کیا جا سکتا نہ اس کی ہیئت اور جنس پر انگلی اٹھائی جا سکتی ہے نہ ہی جمال کشائی میں کمیت اور کیفیت کا کوئی نصاب مقرر کیا جا سکتا ہے۔

ادب کاکتنا حصہ ارشادی اور بظاہر افادی ہے اور کتنا معنوی اور سمت نمائی سے تعلق رکھتا ہے شعرو ادب نازو نعمت ہی سہی مگر اس کے مصارف کی بھی عقلی گنجائش موجود ہے۔

جمال کے کافیے نہ اپنی فطرت میں مختصر ہیں اور نہ تنگ کیے جاسکتے ہیں، تہذیب اپنی جنس میں طرزِ عمل ہے مگر حواس کے قرینوں میں جمال ہے۔

شعرو ادب لسانی فطرت میں جذبات کے متوازی، لفظی ومعنوی قطع وبرید ہی سہی مگر یہ کتر بے دنت لباسِ شعرو ادب کا داخلی تقاضا ہے۔ دراصل شعرو ادب میں موجود تراش خراش ہمیں ان داخلی جذباتی موسموں کے عوارضات پر منطبق کرناہوتی ہے جو لمحہ لمحہ رنگ بدلتے ہیں، پیرہن بدلتے ہیں، جنس نہ بھی بدلیں مگر نوعات میں ڈھلنے کے لئے مصر رہتے ہیں۔

جمال اپنی فطرت میں انشائی رویوں کا طلبگار ہے اور استفادہ کے لئے اپنی باہیں کھول کر رکھتا ہے۔ صاحبو! جن مناظر کی ہسٹری، کیمسٹری اور مسٹری ناقابل پیمائش ہو ان کی صلاحیت اور قابلیت سے منحرف نہیں ہو نا چاہئے، جمال کی ریزش و ارزش اپنی لطافت کا جواز کبھی کبھی کثیف مواد یا طریقہ کار سے بھی لے لیتی ہے۔ غالب بھی جمال اور لطافت کے لئے کثافت کو شرط کہتے ہیں

:
؎لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی!
ڈاکٹر خاور چوہدری کی تحریر و سخن کا فقیر ایک عرصے سے قاری ہے سچ پوچھئے تو ان کی ہر آنے والی تصنیف ادب کے قرینوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے ان کے کالموں سے لے کر نثری و شعری مجموعوں تک ہر ایک خاصے کی چیز ہوتی ہے وہ لطیف پیرائے میں بڑی سے بڑی بات کہہ جانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔

”کفِ خاک“ کی نظمیں پڑھنے کے قابل ہیں خاورؔ کی نظمیں جہاں دل کی چیخیں ہیں ان میں سارے رنگ اور خوشبوئیں موجود ہیں وہ دلی جذبات کو بھی اجاگر کرتی ہیں اور تخلیق کار کی ذہنی کیفیات کوبھی معطر کرتی ہیں، وہ سماجی اور معاشرتی رویوں کو بھی شدت سے محسوس کرتے ہیں ان نظموں کا خمیر سچائی اور تجربے کی بنیاد ہے۔

جدید نظم شاعر سے سات آسمانوں سے بڑا تناظر مانگتی ہے اور پھر ہتھیلی پر بجھی راکھ سے زمرد بخت نقش کرنے کے قابل ہوتی ہے۔ بقول مشکور حسین یادؔ

ہم نے دعائیں کیں تو وہ بادل برس پڑا
پھر یہ ہوا کمال، مکمل برس پڑا
شب یوں چھلک رہی تھی اندھیروں سے تیرگی
جیسے کسی کی آنکھ سے کاجل برس پڑا

خاور چوہدری ’سیلانی‘ شخصیت کے مالک ہیں انہوں نے گھاٹ گھاٹ کاپانی پیا ہے کبھی وسیب نگر بہاول نگر، کبھی بے آب و گیاہ میانوالی اور کبھی جنگل میں منگل ’جنڈ‘ میں پڑاؤ ڈالتے ہیں اسی لئے شاید وہ پکھی واسیوں کے دکھ کو سمجھتے ہیں:
؎اسی جُھگیاں پٹیندے پے آں

کہتے ہیں:

ہم پکھی واس ہیں۔۔یک پہلے دھرتی پہ اترے
جنگل، بیلے، دریا، صحراپاؤں کی دھول کیے
قریہ قریہ، بستی بستی اپنے خون سے پھول کھلائے

خاورؔ پرندوں کی آوازوں سے بھی خوب آشنا ہیں:

کوئل کُوکے تو ہر جانب سُر بکھیرے
پی ہُو۔۔پی ہُو کرے پپیہا
مور جو ناچیں رقص کرے آکاش پہ جیون
منوا آگ لگائے

شاعر اکیسویں صدی پر یوں نوحہ خواں ہے:

گوگل پر سب کچھ ڈھونڈا جا سکتا ہے
سیلولر، سات سمندر کی دوری بانہوں میں بھر لیتا ہے
اک کلک پر ہر سائٹ کھل جاتی ہے
رنگ برنگی دنیا ہے، ہر شے رخشندہ ہے
سوئی سے لے کر گاڑی تک
خیمے سے لے کر بنگلے تک ہر چیز بٹن کی دوری پر ہے

خاورؔ کی نظر خواجہ سراؤں تک جا پہنچی:

خداوند! کوئی شکوہ نہیں تم سے
فقط کہنا یہی تھا بس
ہمیں انسانوں کی بستی میں تم تخلیق گر کرتے
کوئی جسموں کو برچھی میں پروتا تو
تیرے بندے چلے آتے
ہماری روح کے زخموں پہ مرہم ہی لگا دیتے۔۔۔
ہماری آنکھوں سے بہتے سمندر کو سمجھ سکتے
رگوں میں دوڑتے خون کو کوئی وقعت ہی دے دیتے!!

بہرحال آپ جتنی بار کتاب کا مطالعہ کرتے جائیں گے آپ پر فہم کی نئی سے نئی جہتیں کھلتی چلی جائیں گی۔ شکریہ جناب خاورؔچوہدری

Comments are closed.