پاک پی ڈبلیو ڈی کی بندش کے اصل حقائق ۔

پاک پی ڈبلیو ڈی کے مختلف منصوبوں میں قومی خزانہ سے کھربوں روپے کرپشن کی نذر ہوئے. تحقیقات کرنے اور ثبوتوں کو منظر عام پر لانے کے بجائے کرپشن کا ہی الزام لگا کر پاک پی ڈبلیو ڈی کی بندش ایک غیر دانشمندانہ ہی نہیں بلکہ مجرمانہ حکومتی فیصلہ سمجھا جارہا ہے جس کے مستقبل میں دور رس منفی نتائج نکل سکتے ہیں۔یہ تو ایسا ہی ہے نہ پاکستان پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ (پاک پی ڈبلیو ڈی) رہے گا نہ تعمیر وطن, خوشحالی وطن جیسے کئی منصوبوں میں اربوں کھربوں روپے کی کرپشن کے ثبوت عدالتوں میں فراہم ہوں گے نہ اس محکمہ کے کرپشن کے کیسز باقی رہیں گے یعنی نہ رہے بانس نہ بجے گی بانسری…پاک پی ڈبلیو ڈی کی بندش کے حوالے سے وزیر اعظم کے حالیہ اعلان سے پورے ملک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے, دراصل اس محکمہ میں سیاستدانوں نے سول و ملٹری بیوروکریسی سے ملکر اربوں کھربوں روپے کی کرپشن کی ہے. ملکی تعمیر وترقی پر خرچ ہونے والا پیسہ سیاستدانوں, بیوروکریسی نے خوب لوٹا اور منی لانڈرنگ کی گئی. ملکی وسائل بیرون ملک منتقل ہوئے. سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے قومی وسائل کو استعمال کیا گیا. اب یہ اس ڈیپارٹمنٹ کے وجود کو ختم کرکے اپنی لوٹ کھسوٹ کے کیسز اور ثبوت ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ مجھے معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہوا تو اس پر لکھنا مناسب سمجھا,وفاقی تعمیراتی محکمے کے طور پر قائم پاک پی ڈبلیو ڈی پورے پاکستان میں وفاقی عمارتوں کی ترقی اور دیکھ بھال میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ہم اس محکمہ میں بہتر اصلاحات لا سکتے ہیں.محکمہ کی ذمہ داریوں میں سرکاری عمارتوں کی ڈیزائننگ، تعمیر اور دیکھ بھال شامل ہے۔ پاک پی ڈبلیو ڈی اس بات کو یقینی بنانا کہ وفاقی محکموں کی عمارتیں فعال اور اچھی حالت میں رہیں۔ پاک پی ڈبلیو ڈی کے انجینئرز اور ملازمین نے وفاقی املاک کی ساختی سالمیت اور جمالیاتی حسن کو برقرار رکھنے کے لیے مسلسل کام کیا ہے۔اس میں جو کرپشن میں ملوث رہے ہیں ان کے خلاف ضرور قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے. وفاقی عمارتوں بشمول آفس کمپلیکس، گیسٹ ہاؤسز اور دیگر سرکاری عمارتیں جو بہترین حالت میں بہترین حالت میں موجود ہیں یہ پاک پی ڈبلیو ڈی کی افرادی قوت کی لگن اور مہارت کی عکاسی کرتی ہے۔ حکومتی احمکانہ پالیسی کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ پاک PWD کی بندش سےانجینئرز اور ملازمین کی ایک بڑی تعداد کو بےروزگار کرکے اور انہیں سرپلس پول میں بھیج کر ایک نئی اتھارٹی قائم کرے گی جس میں ناتجربہ کار انجینیئرز بھرتی کرکے ان کو پاک PWD والا کام سونپا جائے گا ۔ پاک پی ڈبلیو ڈی کے انجینیئرز جو پبلک سروس کمیشن کے ذریعے آئے ہیں اور تجربات کے مراحل سے گزرتے ہوئے ترقیاں حاصل کی ہیں ۔ کیا ناتجربہ کار انجینیئرز ان تجربہ کار لوگوں کے برابر کبھی نہیں ہوسکتے۔ کرپشن کا الزام لگا کرقیام پاکستان سے قبل قائم کئے جانے والے محکمے کو بند کرنا سمجھ سے بالا تر ہے ۔ اگر کسی محکمے میں کرپشن ہو تو کیا یہی حل ہے کہ اسے بند کر دیا جائے؟ اگر محکمے بند کرنے کا یہی معیار قائم کیا گیا تو کیا کوئی بھی محکمہ بند ہونے سے بچ پائے گا؟ اگر پاک پی ڈبلیو ڈی میں کوئی خرابی ہے تو اس کو درست کیا جانا چاہیئے دنیا بھر میں یہی ہوتا ہے ۔ پاک پی ڈبلیو ڈی کی بندش سے بڑی تعداد میں بے روزگار پروفیشنلزاور ملازمین ملک کی بے روزگاری کی شرح میں مزید اضافے کا سبب بنیں گے۔ پاک پی ڈبلیو ڈی کی بندش دراصل بہت بڑی سازش ہے۔ ایک خبر جو ہر طرف گردش کر رہی ہے کہ لینڈ مافیا کی نظریں پاک پی ڈبلیو ڈی کے قیمتی اثاثوں پر ہیں ۔ پاک پی ڈبلیو ڈی کی بندش کے بعد لینڈ مافیا جو حکومتی صفوں میں موجود ہے ان قیمتی اثاثوں کی بندربانٹ کا ارادہ رکھتا ہے اسی لیئے پاک پی ڈبلیو ڈی کی بندش کوبرق رفتاری سے مکمل کیا جا رہا ہے۔ پاک پی ڈبلیو ڈی کے قیمتی اثاثے ملک بھر میں بڑے شہروں میں اہم مقامات پر واقع ہیں۔ یہ جائیدادیں لینڈ مافیا کے لیے انتہائی پرکشش ہیں۔ پاک پی ڈبلیو ڈی کی غیر موجودگی ان قیمتی اثاثوں پر غیر قانونی قبضے اور تخصیص کا باعث بن سکتی ہے۔ کرپشن کا الزام لگا کر ایک قدیم تعمیراتی محکمے کو بند کرنا وفاقی حکومت کی کمزوری اور کرپشن پر قابو پانے کی صلاحیت پر سوال اٹھاتا ہے ۔ پاکستان میں بہت سے سرکاری اور نجی شعبوں میں بدعنوانی درحقیقت ایک وسیع مسئلہ ہے جو آج سے نہیں قیام پاکسان سے ہے۔ بدعنوانی کی وجہ سے ایک پورے محکمے کو بند کرنا ایک خطرناک نظیر قائم کرے گا۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اصلاحات اور نگرانی کے ذریعے بدعنوانی سے نمٹنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ کرپش کے سدباب کی بجائے محکموں کو بند کرنے سے انتظامی افراتفری اور اہم انفراسٹرکچر تباہ ہو جاتا ہے۔ بدعنوانی اور نااہلی کی بنیادی وجوہات کو دور کرکے پاک پی ڈبلیو ڈی کے ذریعے وفاقی انفراسٹرکچر کی بحالی اور ترقی کو یقینی بناتے ہوئے عوام کی موثر خدمت جاری رکھی جا سکتی ہے۔ پاک پی ڈبلیو ڈی کو بند کرنے کا فیصلہ حکومت کو یکطرفہ طور پر نہیں لینا چاہیے۔ پارلیمنٹ میں نمائندگی کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں کوپاک پی ڈبلیو ڈی کی بندش کے خلاف ایک مضبوط آواز اٹھانی چاہیے ۔ قومی اہمیت کے فیصلے چند سیاسی افراد کے مالی مفادات کی تکمیل کے بجائے عوام کے بہترین مفاد میں کیے جانے چاہیئیں۔ حکومت کے پاک پی ڈبلیو ڈی کی بندش کے فیصلہ جس کے دور رس منفی نتائج ہوسکتے ہیں۔ حکومت کو محکمے کو بند کرنے کے بجائے ری اسٹرکچرنگ اور اصلاحات پر عمل درآمد پر توجہ دینی چاہیے تاکہ بدعنوانی اور نااہلی کے مسائل کو حل کیا جا سکے۔ ایسا کرنے سے پاک پی ڈبلیو ڈی قومی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا جاری رکھ سکتا ہے، قومی اثاثے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں اور بڑی تعداد میں ہنر مند پیشہ ور افراد بے روزگارہونے سے بچ سکتے ہیں ۔ سارے ملازمین کرپٹ ہیں نہ کام کے ادارے غلط ہیں اصل جو اصل خرابی کی جڑ ہے جو حکمران چند افسران کو استعمال کرکے کرپشن کرتے رہے ہیں ان کے خلاف احتسابی عمل شروع ہونا چاہئے تھا. لیکن بدقسمتی سے یہاں کرپشن کے کیسز صاف کیے جارہے ہیں اصل ثبوتوں کو ہی مٹایا جارہا ہے.اس ڈپارٹمنٹ کے ایک افسر کو عدالت بار بار طلب کررہی ہے وہ پیش ہی نہیں ہورہا.عدالتوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے یا ان کے ساتھ حکومتی سطح پر کسی بھی کرپشن کے جینوئین کیس میں تعاون ہی نہیں کیا جاتا. یہ حکومتی روش نہایت افسوسناک ہی نہیں بلکہ ملک کے لئے انتہائی نقصان دہ اور خطرناک ہے. موجودہ حکومت کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے چند لوگوں کے مالی فوائد پر قوم کے طویل مدتی فوائد کو ترجیح دینا چاہیے۔ اس وسیع کرپشن میں ملوث ہاتھ کسی صورت بچ نہیں سکتے. اس ڈیپارٹمنٹ میں لوٹ کھسوٹ کے مزید حقائق ہم اگلی قسط میں قارئین کی نذر کریں گے. جو پہلے بھی منظر عام پر کسی حد تک آچکے ہیں.

تحریر: (عمران چوہدری)

Chaudary Imran

Comments are closed.