پاکستان میں جنگلات کی کٹائی کا تباہ کن اثر ، سیلابوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے بحران میں اضافے کا خدشہ
اسلام آباد
شمشاد مانگٹ
پاکستان میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی نے بارشوں اور سیلابوں کی شدت میں اضافہ کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں حالیہ مون سون کے دوران 300 سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ماہرین نے اس صورتحال کو پاکستان کی موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف شدید کمزوری قرار دیا ہے۔
گوادر پرو کی رپورٹ کے مطابق، مالاکنڈ اور ملحقہ علاقوں میں سیلاب کی تباہی نے گھروں، پلوں اور بجلی کے نظام کو شدید نقصان پہنچایا۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ جنگلات کی کمی ہر سال سیلاب کی شدت میں اضافہ کر رہی ہے۔ آزاد کشمیر کی کسان شازیہ بی بی نے کہا کہ وہ درخت جو کبھی پہاڑوں کو مضبوطی سے تھامے ہوئے تھے، اب ختم ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے سیلاب کی شدت بڑھ گئی ہے۔
پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 1992 میں 3.78 ملین ہیکٹر تھا، جو اب کم ہو کر 2025 تک 3.09 ملین ہیکٹر رہ گیا ہے، جو کل زمین کا صرف پانچ فیصد ہے اور یہ جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔ آزاد کشمیر میں جنگلات کا رقبہ 2000 میں 46 فیصد سے گھٹ کر 2020 میں 39 فیصد رہ چکا ہے، جس کا نتیجہ بڑھتے ہوئے سیلابوں اور لینڈ سلائیڈنگ کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
ماحولیاتی ماہر اقتصادیات ڈاکٹر پرویز عامر نے کہا کہ جنگلات کی کٹائی پاکستان کے سیلابوں کے خلاف دفاعی نظام کو تباہ کر رہی ہے، جس سے انسانی جانوں اور اقتصادی نقصان کا سامنا ہو رہا ہے۔ اس کے برعکس، چین نے 2012 سے اب تک 66 ملین ہیکٹر سے زائد درخت لگا کر جنگلات کا رقبہ 25 فیصد تک بڑھایا ہے۔
چینی حکمت عملی میں شجرکاری کے علاوہ ندی نالوں کے کنارے زوننگ، سیلاب کے خطرے والے علاقوں میں تعمیرات پر پابندی، اور پہاڑی علاقوں میں چیک ڈیمز بنانا شامل ہے۔ ان اقدامات نے چین میں سیلاب کی شدت میں 30 فیصد تک کمی کی ہے۔
پاکستان کے لیے چین کی یہ حکمت عملی ایک ماڈل کے طور پر اہمیت رکھتی ہے، جس میں دوبارہ شجرکاری کے ساتھ ساتھ بہتر ندی نالوں کا انتظام، سیلاب زدہ علاقوں میں تعمیرات کی روک تھام، اور شہری پانی جذب کرنے والے انفراسٹرکچر کی ترقی شامل ہے۔
ماہرین نے حکومت سے جنگلات کی کٹائی پر سخت پابندیاں، غیر قانونی لکڑی کی کٹائی کی روک تھام، موسمیاتی فنڈز کے شفاف استعمال، اور جنگلات پر منحصر کمیونٹیز کو متبادل روزگار فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
آزاد کشمیر میں عثمان نامی ایک اسکول ٹیچر نے مقامی سطح پر بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی کا آغاز کیا ہے، جو اب سیکڑوں رضاکاروں کی حمایت سے جاری ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مقامی فلاحی تنظیموں کو بااختیار بنا کر جنگلات کی بحالی اور سیلابوں کے خلاف مزاحمت کی رفتار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فوری اصلاحات نہ کی گئیں تو پاکستان آنے والے سالوں میں بار بار سیلاب، ہیٹ ویوز اور خشک سالی کا شکار رہے گا۔
Comments are closed.