حج: ایک عظیم فریضہ اور ہمارے حکومتی انتظامات کی کمزوری

باعث افتخار انجینئر افتخار چودھری

Engineer Iftikhar Chaudhary

ہمارے پیارے دوست شمشاد مانگٹ نے اج ایک انتہائی اہم مسئلے کی جانب توجہ دلائی ہے اور وہ ہے حج ان کا کہنا ہے کہ 67 ہزار حاجیوں کا حج خطرے میں ہے
حج ایک ایسا عظیم عبادت ہے جسے ادا کرنے کے لیے ہر مسلمان اپنی زندگی کی جمع پونجی، اپنی دعائیں اور زندگی بھر کی آرزو لے کر سعودی عرب روانہ ہوتا ہے۔ اس عظیم فریضے کی اہمیت کو قرآن مجید میں یوں بیان کیا گیا ہے:”وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ”(سورة الحج: 27)
“اور لوگوں میں حج کا اعلان کرو، وہ تمہارے پاس ہر دور سے پیدل اور دبلے جانوروں پر سوار ہو کر آئیں گے تاکہ وہ اپنی منفعت کا مشاہدہ کریں اور اللہ کا ذکر کریں ان دنوں میں جو مخصوص ہیں، ان جانوروں میں سے جو اللہ نے انہیں دیے ہیں، تو تم بھی اس میں سے کھاؤ اور غریبوں کو کھلاؤ۔” یقیناً، یہ ایک ایسا فریضہ ہے جو انسان کو روحانیت کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے، اور اس کی عبادت میں شریک ہونے کا مقصد صرف دنیاوی فائدہ نہیں بلکہ روحانی سکون حاصل کرنا ہے۔
لیکن جب ہم اس فریضے کی بات کرتے ہیں تو ایک طرف سعودی حکومت کی طرف سے بے شمار سہولتیں اور مہمان نوازی موجود ہے، تو دوسری طرف پاکستان میں حج کے انتظامات میں مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے۔ حالیہ دنوں میں جب 67 ہزار پاکستانی حاجیوں کی روانگی کا معاملہ سامنے آیا، تو ہم نے دیکھا کہ اس کی پیچیدگیاں اور مسائل بڑھ گئے ہیں۔ حکومت کے مختلف اداروں کے درمیان ہم آہنگی کی کمی اور ناقص انتظامات نے اس عظیم فریضے کو ایک چیلنج بنا دیا ہے۔
اس وقت جب حج کے لیے پاکستانی عوام کی خواہشات اور دعائیں جُڑی ہوئی ہیں، وہاں یہ صورتحال ناقابلِ فہم ہو گئی ہے۔ کیونکہ 67 ہزار حاجی جنہوں نے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی اس مقدس سفر کے لیے مختص کی تھی، وہ اب غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس معاملے پر حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ سعودی حکومت سے براہِ راست رابطہ کرے اور ان حاجیوں کی روانگی میں کوئی رکاوٹ نہ آنے دے۔
قرآن مجید میں جہاں اللہ تعالی نے اس فریضے کی اہمیت کا ذکر کیا ہے، وہیں ہم پر یہ بھی فرض ہے کہ ہم اس فریضے کو صحیح طریقے سے ادا کریں۔ اس کے لیے ہمارے حکام کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ حاجی بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے اس عظیم فریضے کو ادا کریں۔
پاکستانی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سعودی حکومت سے درخواست کرے کہ وہ اس معاملے کو حل کرے اور حجاج کرام کے لیے کسی قسم کی مشکلات پیدا نہ ہونے دے۔ سعودی عرب ہمیشہ سے مسلمانوں کے لیے ایک قابلِ اعتماد اور مہمان نواز ملک رہا ہے۔ سعودی حکام، بالخصوص نواف المالکی، جو اس وقت سعودی سفارتخانے میں پاکستان کے ساتھ رابطے میں ہیں، ان کا کردار اس معاملے میں اہم ہو گا۔ ہم پوری امید رکھتے ہیں کہ وہ اس پیچیدہ صورتحال کو بخوبی حل کریں گے۔
پاکستان میں اس وقت جو حج انتظامات ہو رہے ہیں، ان میں سردار یوسف صاحب کا کردار قابلِ تحسین ہے۔ ماضی میں ان کی زیر نگرانی حج کے انتظامات بہت کامیاب رہے تھے۔ ان کے ساتھ سینیٹر طلحہ نے بھی حج کی بہترین اقدامات کئے تھے اس بار یہ ایک نیا چیلنج ہے جس کی مجھے پوری امید ہے کہ وزارت حج یہ مسئلہ سردار یوسف کی قیادت میں حل کر لے گی
ماضی میں حج کے انتظامات میں جو کرپشن کی گئی تھی وہ گزشتہ چند سالوں سے نہیں ہو رہی لیکن یہ یاد رکھیں کہ حج افس کے اندر اور حاجیوں کے عمارتوں کے لین دین میں جو کرپشن ہوتی تھی وہ اج بھی لوگ وہاں پہ موجود ہیں اور اس کی نشاندہی میں نے سینیٹر طلحہ کو بھی کرائی تھی اور سردار یوسف سے بھی کہا تھا ایک سابق کونسل جنرل اور اس کے ساتھ ملے ہوئے ایک پریس کونسلر نے جس طرح حاجیوں کے مال کو لوٹا تھا وہ پاکستانی کمیونٹی کو پوری طرح علم ہے ہم نے وہاں رہتے ہوئے مولانا عبدالستار نیازی کو بھی بتایا تھا کہ حاجیوں کے معاملات ٹھیک نہیں ہیں جن کا انہوں نے بروقت نوٹس لیا تھا اور ڈی جی حج کو برطرف کر دیا تھا
ماضی قریب میں سردار یوسف اور سینٹر طلحہ نے بڑے اچھے حج کرائے تھے۔
اور ان دونوں کی محنت سے یہ عمل بہت بہتر طریقے سے انجام پایا تھا۔ ہمیں امید ہے کہ اس بار بھی ان کی قیادت میں اس مسئلے کا حل نکلے گا۔وزارت حج کا کام حج کرانا ہے اور حاجیوں کی ٹرانسپورٹ کے سلسلے میں سعودی ایئر لائن اور پی ائی اے نے بہت محنت سے اس کام کو انجام دینا ہے۔
تاہم، یہ مسئلہ صرف حکومت پاکستان یا کسی ایک فرد کا نہیں، بلکہ پورے پاکستان کی عوام کا مسئلہ ہے۔ 67 ہزار حاجی جو سعودی عرب روانہ ہو رہے ہیں، ان کی دعائیں اور محنتیں ہمارے تمام اداروں کی ذمہ داری ہیں۔ یہ مسئلہ کسی بھی سیاسی یا انتظامی تنقید سے بالاتر ہو کر ایک روحانی فریضہ ہے، اور اس میں کامیابی کے لیے سب کو ایک ہو کر کام کرنا ہوگا۔
سعودی حکومت کی مہمان نوازی ایک الگ داستان ہے۔ وہاں کی حکومت ہمیشہ حجاج کرام کو بہترین سہولتیں فراہم کرتی ہے، اور ہر سال سعودی عرب آنے والے لاکھوں حاجیوں کے لیے ان کا انتظام مثالی ہوتا ہے۔ ہم نے ہمیشہ سعودی حکام کو ان کی مہمان نوازی اور انتظامات کے حوالے سے سراہا ہے۔ یقیناً، سعودی گورنمنٹ اس مرتبہ بھی اپنے جلیل القدر مہمانوں کو مایوس نہیں کرے گی اور ان کے لیے بہترین انتظامات کرے گی۔
اب ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ حج کا یہ فریضہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ہمیں اس میں سیاست یا ذاتی مفادات کو درمیان میں نہیں لانا چاہیے۔ حکومت پاکستان، سعودی حکام اور تمام حج آپریٹرز کو مل کر اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا تاکہ کوئی بھی حاجی اس فریضے سے محروم نہ رہے۔ یہ ہماری قومی امانت ہے، اور اس کا ہر حال میں تحفظ کیا جانا چاہیے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمارے حکام کو اس عظیم فریضے کی اہمیت کو سمجھنے کی توفیق دے اور سعودی حکام کی مہمان نوازی کے تحت ہم سب کو اس فریضے کو بہترین طریقے سے ادا کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔

Comments are closed.