خواجہ اور اس کے گواہ

Engineer Iftikhar Chaudhary

خواجہ اور اس کے گواہ

باعث افتخار: انجنیئر افتخار چودھری

مزے کی بات ہے کہ جو مکمل ڈیفالٹ کر جانے کی بات ہم نے بھی ایک خواجہ وہ جو ہے وہ جو ہے خواجہ صاحب کا نام ہے اصف ان کی زبانی سنی تھی ہم نے تو ادھر ادھر سے تو ویسے اپوزیشن والے بات کرتے ہی رہتے ہیں لیکن اپ نے کہا تھا کہ پاکستان ڈیفالٹ ہونے والا نہیں ہے پاکستان ڈیفالٹ ہو چکا ہے پھر اگلے دن کوئی اور بات ہو جاتی ہے پھر کبھی بیرون ملک پاکستانیوں کی بات ہوتی ہے اور جناب یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ پاکستانی تو اس قابل ہی نہیں ہے کہ ان کو ووٹ کا حق دیا جائے کبھی تقسیم کر دیتے ہیں ان کی امریکہ والوں کی اوورسیز پاکستانیوں کی اور پھر اگلے دن اس کی معافی مانگ لی جاتی ہے لگتا یوں ہے کہ یہ گھر سے ایک کوا کھا کے ائے ہیں میرا ایک بھتیجہ ہے وہ سکول میں پڑھتا تھا گوجرانوالہ میں وہ رہتا تھا تو وہ بہت زیادہ شور شربہ کرتا تھا اج تو ماشاءاللہ بڑی کمپنی کا ریجنل مینجر ہے تو وہ اس کو ٹانگے والا کہتا تھا وہ عاصم یار تو کوئی کوا کھا کے نیں ائس تو کہنے لگا نہیں میں کوا نہیں کھا کے آیا میں کتا کھا کے ایا ہوں میں یہ تو نہیں کہنا چاہتا سابق وزیر دفاع کو
لیکن خدا کی قسم اس بات پہ حیرانگی ہوتی ہے کہ جب ہم اپنے لوگوں کا مقابلہ کرتے ہیں دوسروں کے ساتھ تو ان کی بات اور گفتگو اور ان کی بات اور گفتگو کا اگر ہم مقابلہ کریں تو ہم بالکل فیل ہو جاتے ہیں چلیے مانا پاکستان اپ اپنے معاشی حالات ٹھیک نہیں کر سکتا لیکن پاکستان اپنی بات تو ٹھیک کر سکتا ہے وہ کسی نے کہا تھا ایک بہت خوبصورت شخص گھوڑے پہ بیٹھ کے آی اور آکے فقیر کے سامنے کھڑا ہو گیا اور فقیر نے کہا بھائی کچھ بولو تو صحیح تاکہ میں تولوں کہ تم چیز کیا ہو اور جب یہ بولیں تو اس طرح کی بات کرتے ہیں شرم اتی ہے اب سنیں میرے دوست ملک محی الدین نے میرے ساتھ جو اپنا دکھڑا کھولا کہانی سنیں کیا لوگ کر رہے ہیں اپ کے بارے میں کیا اپ کرتے ہیں اپ کو یہ ۔۔۔۔ذرا بھی نہیں اتی ایک ملک کا وزیر دفاع جب بول رہا تو دنیا اسے سنتی ہے اور آپ ہیں کہ ہوش میں نہیں ہوتے ۔نزے کی بات ہے باہر عمران خان کے بارے میں کہتے کہ یہ طالبان خان ہیں اور ادھر یہودی کا ایجینٹ
ملک محی الدین میرے بہت اچھے دوست ہیں جدہ میں بھی رہے تو دوستوں سے بڑھ کر دوست رہے اسی طرح جیسے چوہدری اکرم ہیں ملک سرفراز ہے چوہدری شہباز سردار شیر بہادر مسعود پوری نور محمد جرال سے بہت اچھا یارانہ رہا اور ایک دوسرے کے دکھ بانٹتے رہے اور اکٹھے ہم نے بہت ساری یہ تقریبات کرتے تھے حلقہ یاران وطن بالکل ہم نے سجا رکھا تھا اور پاکستان کمیونٹی کے سب سے اچھے متحرک لوگوں میں ہم شمار ہوتے تھے فاروق جاوید بھی اس میں شامل ہیں اور بہت سارے لوگ ہیں نام سب کا نہیں لیا جا سکتا لیکن اج وہ بڑی زبردست بات کر رہے تھے وہ صرف اپنے پاکستان مسلم لیگ کی بات نہیں کرتے جس طرح ہم پاکستان تحریک انصاف کی ہر وقت بات نہیں کرتے کوئی اچھی بات ہو تو اس کو سراحتیں کوئی بری بات ہو تو اس کو مزاحمت کرتے ہیں تو اج وہ ذکر کر رہے تھے کہ یہ دیکھیں کیا ہے خواجہ صاحب نے اب وہ خواجہ صاحب کہہ رہے تھے ان کا ان کے بارے میں صاحب کہنا حیران کن ہے سابق وزیر دفاع ہیں خواجہ اصف صاحب ان کے بارے میں کہہ رہے تھے صاحب تو ویسے میں نے لگا دیا صاحب عزت اور احترام والوں وہ نام کے ساتھ لگایا جاتا ہے یہ صاحب تو میرا خیال میں دھوپ میں بیٹھے رہے اور ان کے بال سفید ہو گئے کبھی یہ چھلانگ لگاتے ہیں نہروں کے اندر اور بندے کا سانس اندر کا اندر اور باہر کا باہر رہ جاتا ہے اور دعا کرتا ہے کہ یا اللہ پاک یہ نیچے ہی رہ جائیں کبھی انہوں نے کہا تھا ٹریکٹر ٹرالی اس کو شیرین محترمہ کا اور شیری مزاری کو جس کو دنیا سلام کرتی ہے جو بڑوں بڑوں کی ٹیچر ہے ڈیفینس کے بڑے بڑے اداروں میں تو اس کو نام لیا جاتا ہے
کبھی کسی کا نام لیتے ہیں اور کچھ دیر بعد دوسرے جو رگڑتے ہیں لگتا ہے عبدالقادر پٹیل کو کچھ ۔۔۔ا گئی ہے
منڈیا سیالکوٹیا کے بارے میں سنا تھا اپنی باتوں سے لوگوں کے دل موہ لیتا ہے لگتا ہے نور جہاں جھوٹ بول رہی تھی
عورتوں کے بارے میں جو خیالات خواجہ جی کی نہ نکلے ہیں یہ کسی طور مناسب نہیں ہیں ۔اصل میں ن لیگیوں کے ماضی اس قسم کے القابات محترمہ بے نظیر کے بارے میں کہہ چکے ہیں
ان کے والد محترم جو جنرل ضیاء کی مجلس شوریٰ کا چیئرمین رہے تھے یہ حضرات ان کے بارے میں معذرت خواہانہ بیان دے چکے ہیں جھوٹ بولا ہے تو اس ہے قارئین بھی رہ۔ آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہئے
ضیاء کے برخوردار بنے تو رہو
اور تمہاری دعائیں قبول ہوئی کہ چوہدری اختر وریو وہاں نہیں ہے چوھری اختر وریو کے ہوتے ہوئے سیالکوٹ کے اندر کوئی کوئی بندے کا پتر کوئی اس طرح کی بات کر جاتا تو میں سمجھتا تو میں تو اس نے اٹھنا ہی نہیں دیا ایک بار گجر کے ہوتے ہوئے میاں نواز شریف نے کہا سنا ہے وڈیو صاحب آپ کو گالیاں دیتے ہیں
انہوں نے مائیک پکڑ کے کہا گالیاں میں دیتا ہوں گالی نکال کے کے کہا جو کوئی۔۔۔۔دوسرا نکالے تو میں دیکھوں
بات اب چوھدری اختر علی وریو کی ہو رہی ہے تو ایک اور واقعہ بھی اپ کو سنا دوں بے نظیر کی حکومت تھی اور ان کی گورنمنٹ جو تھی اس میں جنیجو لیک بھی شامل تھے تو کوئی کام سے وہ پہنچے وزیراعظم ہاؤس تو ان کو جانے نہیں دیا گیا اور کہا گیا کہ گاڑی کو نیچے کھڑی کریں تو انہوں نے اپنے ڈرائیور کو کہا کہ گیٹ کے اوپر گاڑی مار دو اس نے ہلکی سی گاڑی ماری اور اس کو گالی دے کے گئے ہیں زور سے مارو کسی کا باپ بھی میری گاڑی نہیں روک سکتا اور وہ پولیس والا بھی زخمی ہو گیا اور سیدھا جا کے بے نظیر کو کہا کہ ہمارے کوششوں سے اپ پرائم منسٹر بنے ہیں تو مجھے روکا گیا ہے اور میری انسلٹ کی گئی ہے تو انہوں نے کہا کہ بریو بھائی یہ ائندہ کبھی نہیں ہوگا وہ ایسا دلیر بندہ تھا یہ اس طرح تمہاری طرح یمیانی مارتا تھا اسمبلی کے اندر کئی بار میں اپ کو ایک بات بتا دوں یہ پنجاب کی جتنی بھی کیا کہتے ہیں اس کو چونگیوں کے ٹھیکے ہیں یہ میرے کہنے کے اوپر بند ہوئے چوھری اکرم نے ایک ان کے اعزاز میں کیا تھا فنکشن جدہ میں کوئی ڈھائی تین سو بندے تھے وہاں میں نے یہ کہا تھا کہ ہم ہم لوگوں کو یہ مجبوری ہے تو وہاں حرف نے کہی کے ہوتے ہوئے انہوں نے اعلان کر دیا کہ جاؤ افتخار میں اج سے ابھی اعلان کر رہا ہوں کہ کوئی چنگی نہیں ہوگی کوئی ٹھیکے پہ کسی کو نہیں روکے گا اور اج تک نہیں روکا جا سکا یہ تھی بات چودری اختر کی

لوگ کدھر چلے گئے وریوں کے میں گیا تھا پچھلے دنون بڑے محل بن گئے وائٹ ہاؤس بن گئے لیکن وریوں سے وہ ان کے ان کے بچوں سے ان کی اولاد سے جو دلیری اور ایک کیا کہتا ہے وہ بانکپن ان کے ہاتھوں سے چلا گیا ان کے گھر سے چلا گیا وہ کسی نے کیا کہا تھا تیمور سے تیمور کی اولاد تھی اسی طرح نہ نکلی وہ اور طرح کی نکلی اور یہ اور طرح کی نکلی
عمران خان انشاءاللہ العزیز اس سفید بالوں والے کو ضرور نپٹے گا اس کے ساتھ پچھلی بار عمران خان نے کچھ نہیں کیا عمران خان نے ہمیشہ کوئی پولیٹیکل انتکام۔نہیں لیا کوئی پولیٹیکل ورکر کوئی چیز ایسی اس نے کوئی چیز نہیں کی کہ جس سے یہ ثابت ہو کے یہ غیر جمہوری حکومت ہے بہت سارے لوگ اب کیا کہتے ہیں یہ شہریار افریدی کو کیوں اپ نے بند کر دیا اس لیے بند کر دیا
کہ اس کے پاس ایک جرنل نے رپورٹ کی تھی کہ رانا ثنا اللہ چرس کا کام کرتا ہے فیم کا کام کرتا ہے اور فلاں ڈرگ کا کام کرتا ہے اب کیا کرے وہ جرنل کی بات پہ اعتبار نہ کرے تو جناب علی اپ نے اس کو بار بار کئی جگہ پہ اس کو اس طرح رگڑا لگا رہے ہیں کہ اس کے بھائی مر گیا اس کے جنازے پہ نہیں جانے دیا اس کی بہن مر گئی اس کو جنازے پے نہیں جانے دیا اب کس قسم کی روایت قائم کر رہے ہیں سیاست دان ہی سیاست دان کا دشمن ہے یہ کر رہے ہیں میاں شہباز شریف صاحب اپ کو پتہ ہے جب میاں شریف صاحب کی ڈیتھ ہوئی تھی تو میں وہاں تھا میں ان کا جنازہ پڑھنے کے لیے گیا ہوا تھا اور اپ رو رہے تھے میرے گلے لگتے رو رہے تھے اپ کہہ رہے تھے کہ بڑے میاں صاحب ہمارے ساتھ کیا ہوا جرنیل مشرف نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ آپ جائیں ان کے جنازے پہ لیکن اپ نے خود نہیں جانا گوارا کیا اور بریگیڈئر جاوید اقبال کو بھیج دیا تو اس جیسا ظلم کبھی بھی نہیں ہوا اپ پھر اس کے بعد حبیب جالب کے شعر پڑھیں گے اور یہ ہو گیا اور وہ ہو گیا ایسے دستور کو صبح میں بے نور کو میں نے ہی مانتا میں نے ہی مانتا او بھئی ماننا یہ ہے کہ اپ نکالو ان لوگوں کو پانچ پانچ چھ چھ سات سات دفعہ ان کو ان کو ضمانتیں ملی اور پھر اپ ان کو اندر بند کر دیتے ہیں یہ علی محمد خان کیا اپ کو لگتا ہے کرپٹ ادمی ہے یہ پوچھا تھا ایک اینکر نے اور کسی نے کہا تھا کہ پی ٹی ائی کے سارے لوگ کرپٹ ہیں تو اس نے کہا کہ اچھا سارے کرپٹ ہیں یہ بتاؤ علی محمد خان کہتے ہیں جی نہیں وہ علی محمد تو خان نہیں اب اس بندے کے ساتھ بھی یہ سلوک کر رہے ہیں یہ خواجہ صاحب اپ نے جو کچھ کیا ہے عورتوں کے ساتھ یہ زیب نہیں دیتا یہ ہماری پنجاب کی روایت نہیں ہے پہلے ہم نے کہا تھا کچھ لوگوں نے کہا کہ پنجابی گالیاں دیتے ہیں نہیں میں نے کہا نہیں یہ غلط ہے گالیاں دینء والے لوگ بے ضمیر لوگ گالیاں دیتے ہیں پنجابی جو ہیں بہت خوبصورت لہجے کے مالک ہیں پنجابی جو ہیں اس طرح نہیں کرتے پنجاب بلے شاہ کی دھرتی ہے اس طرح کی ایک پیار اور محبت دینے والی دھرتی ہے اپ اس پاکستان کو خدا کے لیے اور اس پنجاب کو مت بدنام کریں اپ ائے روز اسمبلی کے اندر اور جسے اسمبلی کے اندر یہ خواجہ بیٹھا ہوتا ہے وہ دوسرا راجہ بیٹھا ہوا ہے اپوزیشن لیڈر اگر میں کہتا ہوں کہ عمران خان نے سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ قومی اسمبلی سے اپنے بندے باہر نکالے اگر اس نے رہنے دئے ہوتے تو پھر اپ بات کرتے پھر اپ بات کر کے دیکھتے پھر دیکھتے کہ کیا کرتا اپ کے ساتھ مراد سعید کیا کرتے اپ کے ساتھ دوسرے لوگ جو ہمارے ہیں یہ کیا بات کر رہی ہے تماشہ بنا دیا ہمارے اسمبلیاں اور ایک دفعہ اپ کچھ کہتے ہیں دوسری دفعہ معافیاں مانگتے ہیں اسی طرح وہ پیپل پارٹی کا ایک فراڈیا تھا وہ ہے کیا نام ہے اس کا پٹیل وزیر صحت اس کی باتیں سنیں تو ہنسی اتی ہے ہم نے جو بنایا وہ بھی خوب تھا ہم نے بھی جو بنایا انہوں بھی ماشاءاللہ اب ان کی جیب کٹی ہوئی تھی اور اس کی جیب میں پورا ہی نہیں اتا تھا اور سارے پیسے ہی کھا گیا اور وہ کیانی بناؤں اب جناب علی لیڈر بنا ہوا ہے استحقام پاکستان کا اور یار ہم لوگوں کو کیوں ذلیل کروا دیا تم لوگوں نے ساتھ میں تم عمران خان کے ساتھ لگے تو تم اس کے کلوز تھے تو ہم تو اپ کو اسی لیے اپ کی عزت کرتے تھے کہ اپ ان کے کلوز ہیں ہمارے قائد کے کلوز ہیں اور اپ کیا کر دیا اب سارے لوگ بھاگ گئے ہو لوٹے ہو تم لٹیرے ہو اور اللہ تعالی ان کو خوش رکھے جو لوگ اس اس بات پہ قائم ہیں اور اس بات پہ ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں عمران خان کے ووٹر کو کچھ بھی نہیں ہوا لیکن افسوس یہ ہوا ہے کہ عمران خان کے جو ساتھی تھے وہ بالکل ایسے بزدل نکلے اور یہ جو اپنا کیا نام ہے اپ کا خواجہ اصف صاحب اپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
ہم صرف انہی خواجہ اصف صاحب کی بات نہیں کرتے یہ خواجہ کے جتنے بھی گواہ ہیں سارے ڈڈو ہیں کیا عدلیہ میں لے کے جاتے ہیں اور کس طرح کے جج اپ نے بٹھا دیے ہوتے ہیں اپ کو پتہ ہے کہ جج عمران خان کے وکیل کو کیا کہتا ہے کہتا ہے ب**** بند کرو اور اس کے جواب میں بھی اس نے وہی نقطہ اس کے منہ پہ دے مارا او یار ہم کیا ہیں ہم دنیا کی کون سی جگہ پہ کھڑے ہیں عدلیہ کی ریٹنگ میں ہم سب سے زیادہ کم معاشی طور پہ ہم کمزور ہر لحاظ سے زبان کے لحاظ سے بھی کمزور گفتگو کے لحاظ سے بھی کمزور یا اللہ پاک یہ پاکستان کس لیے دیا تھا یا اللہ پاک یہ پاکستان اس لیے بنا تھا پاکستان اس لیے بنا تھا ہمیں تو کہا گیا تھا نواز شریف نے خود کہا تھا نوے میں کہ میں بیرون ملک پاکستانیوں کو باہر نہیں رہنے دوں گا پاکستان لاؤں گا پھر عمران خان نے کہا کہ پاکستان لاؤں گا کچھ عمران خان کے کہنے پہ ا کے اس نواز شریف کا کہنے پہ اگئے اور بہت سارے ذلیل ہو گئے اور بعض کا ہاتھ اللہ نے پکڑ لیا یا اللہ پاک پاکستان کے اوپر کرم فرما یا اگلےماہ اگست کا مہینہ ائے گا اب ہم نے کہنا شروع کر دینا ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں یہ ہے زندگی زندہ قوم کی نشانیاں یہ ہے اسلامیہ یونیورسٹی کا حال یہ اسلامی یونیورسٹی ہے جہاں پہ پانچ ہزار بچیوں کی جو ننگی فلمیں بنا لی جائیں اور جب فلمیں بنانے کا کام بڑے اوپر سے کریں گے تو نیچے والے کیوں نہیں بنائیں گے اللہ پاک کرم فرما یا اللہ پاک کرم فرما یا اللہ پاک رحم فرما یا اللہ پاک کرم فرما


یہ بھی پڑھیں: انتخابی اصلاحات بل صدر کو منظوری کے لیے بھجوا دیا گیا


1824 کی جنگ آزادی اور مارشل قوم گجر کا کردار ۔۔۔ گجر بمقابلہ انگریز

باعث افتخار۔ انجنیئر افتخار چودھری

ہر قوم قبیلے کا ایک فخر ہوتا ہے اور مجھے اپنے گھر ہونے کا فخر ہے کیوں کہ قبائل شناخت کے کیے ہوتے ہیں اور میری شناخت گجر ہے کیونکہ اس قوم کے لوگوں نے کبھی غلامی نہیں قبول کی اور ان کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ اپنے درمیان رہنے والے دوسری اقوام کو پیار اور محبت سے رہنے دیتے ہیں اور برداشت کرتے ہیں جبکہ دوسری اکثریتی اقوام میں ان کا رہنا مشکل کر دیا جاتا ہے
میں نے ہمیشہ گجروں جو یہ شکائت کرتے دیکھا ہے اور ان کی مسائل حل کرنے کی کوشش کی ہے
مری اور گردو نواح حتی کے کہوٹہ کے گجر اس قسم کی شکایت کرتے ہیں یہ تعصب سیاسی پارٹیوں میں بھی گھس آیا ہے وہ قومیں جو پاکستان میں کہیں نظر نہیں آتیں کچھ علاقوں میں اکثریت پانے کے بعد لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیتی ہیں
چوہدری نثار احمد کویٹہ والے نے یہ تحریر بھیجی ہے جو آپ کے قاریین کی نظر ہے ۔کچھ مورخین نے 1824 ء کی گجر برٹش جنگ کو جنگ آزادی 1857ء کا پیش خیمہ قرار دیا ہے اور تاریخی لحاظ سے یہ بات سو فیصد درست ہے کہ 1857ء کی جنگ کا باقاعدہ آغاز بھی انہیں گجروں نے کیا تھا جن کے آباواجداد اور رشتہ دار 1824ء کی جنگ میں مارے گئے تھے ۔
تاریخ
جدید ضلع ہریدوار میں ، رورکی شہر کے مشرق میں لانڈھاؤرا نام کا ایک قصبہ ہے۔ یہ قصبہ 1947 تک پرمار ؍پنور خاندان کے گوجر بادشاہوں کا دارالحکومت رہا ہے۔ اس کے عروج کے وقت، لانڈھاؤراریاست میں 804 دیہات تھے اور اس کے حکمرانوں کا اثر پورے مغربی اترپردیش میں تھا۔ ہریانہ کے کرنال خطے اور گڑھوال میں بھی ان پنوار گجر حکمرانوں کا وسیع اثر و رسوخ تھا۔
1803 میں ، انگریزوں نے گوالیار کے سندھائیوں کو شکست دے کر پورے اترپردیش کو اپنی عسکری سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا ۔ لانڈھوڑہ ، ناگرگرجر خاندان ، بھاٹی گجر خاندان (گوتم بدھ نگر) کے داسدوری (میرٹھ) ، جوٹ کچسار (گدھار کا علاقہ) وغیرہ کی تمام طاقتور شاہی ریاستیں اس خطے میں نظر آتی تھیں جو انگریز کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھتی تھیں ۔1813 ء میں ، لانڈھاؤرا کے بادشاہ رام دیال سنگھ گجر کا انتقال ہو گیا۔ شاہی خاندان میں اس کے جانشین کے سوال پر گہرے اختلافات تھے۔ صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریزوں نے ریاست کے ایک حصے کو مختلف دعویداروں میں تقسیم کیا اور ریاست کے بڑے حصے کو اپنی سلطنت میں ضم کر دیا۔ لنگہار ریاستوں کا ایک جھرمٹ تھا ، کُنجا – بہادر پور ، جو سہارنپور رورکی روڈ پر لارڈ پور کے قریب واقع ہے ، اس تعلقہ میں 44 گاؤں تھے ،۔ 1819 میں وجے سنگھ گجر یہاں کے تعلقہ دار بنے۔ وجے سنگھ لانڈھاؤرا رائل خاندان کا قریبی رشتہ دار تھا۔ وجے سنگھ گجر کے ذہن میں برطانوی سامراجی پالیسیوں کے خلاف شدید غم و غصہ تھا۔ وہ کبھی بھی لانڈھوڑہ کی سلطنت کی تقسیم کو قبول نہیں کرسکتا تھا۔ دوسری طرف ، اس خطے میں حکومت کی مالی بدانتظامی اور کئی سالوں سے لگاتار خشک سالی نے کسانوں کے لیے صورت حال کو بہت تشویشناک بنا دیا تھا ۔ انگریزی ظلم و بربریت اور بڑھتے ہوئے ٹیکس نے انہیں بغاوت پر مجبور کر دیا۔ علاقے کے کسان بھی انگریزوں کی استحصالی پالیسیوں کے سخت خلاف تھے اور وہ بھی انگریزوں کے خلاف لڑنے کو تیار تھے ۔ کسانوں میں بہت ساری انقلابی تنظیمیں پیدا ہوئیں جو برطانوی حکمرانی کے خلاف کام کر رہی تھیں ۔ یہ تنظیمیں عسکری تربیت یافتہ تھیں اور ان کے ارکان نیزوں اور تلواروں سے لیس تھے اور ضرورت پڑنے پر کسی بھی لڑائی کا سامنا کر سکتی تھیں ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور انگریز فوج ان کو بدنام کرنے کے لیے انہیں ڈاکوؤں کے گروہ کہتی تھی ۔ انہی میں سے ایک تنظیم کے اہم راہنما کلیان سنگھ عرف کلوا گجر تھے ۔ یہ تنظیم دہرادون کے علاقے میں سرگرم عمل تھی اور یہاں اس نے انگریزی سرکار کو چینلج کیا ہوا تھا ۔ دوسری تنظیم کے سربراہ کووار گجر اور بھورے گجر تھے۔ یہ تنظیم سہارنپور کے علاقے میں سرگرم تھی اور انگریزوں کے لیے درد سربنی ہوئی تھی۔ اسی طرح سہارنپور۔ ہریدوار۔ دہرادون کے علاقے انگریزوں کے خلاف عسکری مزاحمت کے گڑھ بن چکے تھے ۔
کونجا بہادر پور کے تعلقہ دار راجہ وجے سنگھ انگریزی سرکار کے خلاف تھے اور لانڈھاورا کی گجر ریاست کی دوبارہ بحالی چاہتے تھے ۔ کونجا، ہردوار کے مقامی لوگ وجے سنگھ کے موقف کے حمایتی تھے ۔لہٰذا مغربی اترپردیش کے انگریز مخالف کلکٹروں ، تعلقہ داروں ، سرداروں اورباغی تنظیموں نے اس سے رابطہ قائم کیا اور مسلح انقلاب کے ذریعہ انگریزوں سے نجات کا منصوبہ بنایا ۔
چنانچہ وجے سنگھ گجر کی دعوت پر بھاگون پور ضلع سہارنپور میں کاشتکاروں کا ایک عام اجتماع بلایا گیا تھا۔ اس اجلاس میں ہریانہ ، سہارن پور ، ہریدوار ، دہرادون ،مراد آباد ، میرٹھ اور یمنا کراسنگ کے کسانوں نے حصہ لیا۔ میٹنگ میں موجود تمام کسانوں نے وجے سنگھ گجر کی انقلابی منصوبے کی تائید کی ۔ اس اجلاس میں وجے سنگھ سے جنگ آزادی کی قیادت کرنے کی اپیل کی گئی ، جسے انہوں نے خوشی سے قبول کیا۔علاقے کے تمام رہنماؤں نے وجے سنگھ کو آزادی کی جدوجہد میں مکمل مدد فراہم کرنے کا یقین دلایا۔ کلیان سنگھ عرف کلوا گجر نے بھی وجئے سنگھ کی قیادت قبول کرلی۔ اب وجے سنگھ گجر انگریزوں سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے موقع کی تلاش میں تھے ۔
1824ء میں جب انگریزوں کو برما کے محاذ پر شکست ہوئی تو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لانڈھاورا کے گجروں نے بھی انگریزوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا ۔ بارک پور میں بھی فوجی بغاوت پھیلی اور ادھر لانڈھورا میں بھی وجے سنگھ گجر کے منصوبہ کے مطابق کسانوں نے بغاوت کا اعلان کر دیا ۔ وجے سنگ نے مسلح باغی تنظیموں کو اکٹھا کیا اور کلیان سنگھ گجر کو فوج کا کمانڈر انچیف بنا یا ۔ کلیان سنگھ گجر جدوجہد آزادی کے ابتدائی دور میں اپنے فوجی دستے کے ساتھ شیوالک کی پہاڑیوں میں سرگرم تھے اور اس نے دہرادون کے علاقے میں اچھا اثر و رسوخ حاصل کیا تھا۔ نواڈا گاؤں کے شیخ جمام اور سیاجم انگریزوں کے خصوصی مخبر تھے اور انگریزوں کو انقلابیوں کی سرگرمیوں کے بارے میں خفیہ معلومات دیتے رہتے تھے ۔ کلیان سنگھ نے نواڈا گاؤں پر حملہ کرکے ان غداروں کو سزا دی اور ان کی املاک ضبط کر لیں ۔ اس واقعہ کو انگریز مجسٹریٹ نے انگریزی ریاست کے خلاف کھلی بغاوت قرار دیا اور کلیان سنگھ کی گرفتاری کا حکم دیا ۔ لیکن کلیان سنگھ گجر نے اس کی پروا کیے بغیر 30 مئی 1824 ء کو رائے پور گاؤں پر حملہ کیا اور وہاں موجود انگریز کے مخبروں کو گرفتار کرکے دہرادون لے گیا اور انہیں دہرادون کے ضلعی صدر مقام کے قریب سزا دی۔ کلیان سنگھ کا یہ عمل انگریز سرکار کی رٹ کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا لہٰذا اسسٹنٹ مجسٹریٹ نے صورت حال کی سنگینی کوبھانپتے ہوئے سرمور بٹالین کو بلایا۔ چونکہ سرمور بٹالین کی نسبت کلیان سنگھ گجر کے پاس عسکری طاقت کم تھی لہٰذا اس نے دہرادون کا علاقہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور سہارنپور، جالا پور اور کارا پور کے علاقوں کو اپنی جدوجہد کا مرکز بنایا ۔
7 ستمبر 1824ء کوکلیان سنگھ گجر نے کاراپورپر حملہ کرکے پولیس چیک پوسٹ کو تباہ کر دیا ۔ پانچ دن بعد اس نے بھگوان پورگاؤں پر حملہ کیا اور اسے بھی انگریزوں سے چھین لیا ۔ سہارنپور کے جوائنٹ مجسٹریٹ گیرتھل نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا۔ رپورٹ میں کلیان سنگھ کی کارروائیوں کو انگریز سرکار کے خلاف بغاوت قرار دیا گیا اور اس کی سرپرستی کرنے پر وجے سنگھ گجر کے خلاف سمن جاری کیا گیا ۔ وجے سنگھ نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی اور فیصلہ کن جنگ کی تیاری شروع کر دی ۔
یکم اکتوبر 1824ء کو جدید اسلحہ سے لیس200پولیس گارڈز کی سخت سیکیورٹی میں انگریز کا سرکاری خزانہجالاپور سے سہارنپور جارہا تھا۔ کلیان سنگھ گجر نے اپنے دستے کے ہمراہ بلیک ہاتھ نامی جگہ پر اس سرکاری قافلے پر حملہ کیا ، برطانوی پولیس نے بری طرح شکست کھائی اور خزانہ چھوڑ کر بھاگ گئی ۔ اس کامیابی کے بعد کلیان سنگھ گجر اور وجے سنگھ گجر نے مل کر لانڈھاورا کی گجر ریاست کے احیاء کا اعلان کر دیا۔ عوام کی جانب سے بھی وجے سنگھ گجر کی حکمرانی تسلیم کر لی گئی اور کلیان سنگھ گجر کو آرمی چیف بنایا گیا ۔ وجسے سنگھ گجر نے اپنی نئی ریاست کو مستحکم کرنے کے کئی احکامات جاری کیے۔ رائے پور سمیت متعدد دیہاتیوں نے اس ریاست کو تسلیم کرتے ہوئے مناسب ٹیکس دینا قبول کر لیا اوراس طرح اس پورے علاقے میں آزادی کی ہوائیں چلنے لگیں۔ کلیان سنگھ گجر نے جدوجہد آزادی کو نئی طاقت فراہم کرنے کے لیے سہارنپور جیل میں قید جنگجو قیدیوں کو رہا کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ منصوبے کے مطابق اس نے سہارنپور شہر پر حملہ کیا اور اسے انگریزی حکمرانی سے آزاد کرا لیا۔ انگریز انتظامیہ گجروں کی ان کارروائیوں سے خوفزدہ ہو چکی تھی لہٰذا اس نے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے باہر سے ایک بہت بڑی فوج کو طلب کر لیا ۔ چنانچہ گورکھا رجمنٹ کی کمانڈ کیپٹن ینگ کے ہاتھ میں دے کر کونجا بھیجا گیا ۔
3 اکتوبر کو برطانوی فوج نے قلعے پر حملہ کر دیا ۔ گجر فوج نے جوابی کاررائی شروع کی لیکن گجر فوج کے پاس صرف دو گن تھیں اور وہ صرف تلواروں ، تیروں اور نیزوں سے لڑ رہے تھے ۔ جبکہ ان کے مقابلے میں انگریزوں کی گورکھا رجمنٹ ہر طرح کے جدید اسلحہ سے لیس تھی ۔ اس کے باوجود گجر فوج بہادری سے لڑی ۔ خاص طور پر کلیان سنگھ گجر کی بہادری کی تعریف انگریزوں نے اپنی کتابوں میں بھی کی ہے وہ صرف تلوار سے لڑ رہا تھا جبکہ انگریز کمانڈروں کے پاس آتشیں اسلحہ تھا اس کے باوجود کلیان سنگھ نے انگریزی فوج کے سینکڑوں سپاہیوں کو جہنم واصل کیا ۔ آخر میں جنرل شور بھی کلیا ن سنگھ گجر کے ہاتھوں جہنم میں پہنچنے والا تھا کہ کیپٹن ینگ نے کلیان سنگھ پر فائر کھول دیا لیکن اس کے باوجو دوہ جنرل شور کو ایسا زخم دینے میں کامیاب رہا جس کی وجہ سے وہ بھی زندہ نہ رہ سکا ۔ اس سارے واقعہ کو جنرل شور نے اپنی ڈائری کا حصہ بنایا جو بعد ازاں لندن اور واشنگٹن سے شائع ہوئی ۔
اس جدوجہد آزادی کی خبر پورے اترپردیش میں پھیل گئی اور گجرراجہ کونجاکے گجروں کی مدد کو پہنچنے لگے ۔ ان میں میرٹھ اور دادری کے گجر راجہ بھی شامل تھے جو اپنی فوج کے ہمراہ کونجا پہنچے ۔ منجف نگر کے کلسیان چوہان گجر بھی بڑی تعداد میں آزادی کی اس جدوجہد میں وجے سنگھ گجر کا ساتھ دینے نکل آئے ۔
جب انگریزوں کو اس ہلچل کا علم ہوا تو ان کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ انہوں نے بڑی چالاکی سے پورے مغربی اترپردیش میں کلیان سنگھ کے قتل کی خبر پھیلا دی ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے قلعہ کُنجا کی شکست اور آزادی پسند جنگجوؤں کی شکست کی بھی غلط افواہیں دیں۔ انگریزی چال کامیاب رہی۔ افواہوں سے متاثر ہوکر ، دوسرے علاقوں سے آنے والے آزادی پسندوں کی حوصلہ شکنی کی گئی اور مایوس ہوکر اپنے علاقوں کو لوٹ گئے۔ انگریزوں نے توپ سے قلعہ پر گولہ باری شروع کردی ۔ آخر میں یہ قلعہ کی دیوار ٹوٹ گئی ۔ اب انگریزوں کی گورکھا فوج قلعے میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی۔ دونوں طرف سے زبردست جنگ ہوئی۔ اسسٹنٹ مجسٹریٹ شور کی جنگ میں بری طرح زخمی ہوا اور بعدازاں اسی زخم کی وجہ سے مرا ۔ لیکن آخرکار وجے سنگھ گجربھی لڑے ہوئے وطن پر قربان ہوگیا ۔
گجروں کی شکست کی وجہ بنیادی طور پر جدید ہتھیاروں کی کمی تھی ، وہ زیادہ تر تلوار ، نیزہ دار بندوق جیسے ہتھیاروں سے لڑتے تھے۔ جب کہ اس وقت برطانوی فوج کے پاس جدید رائفل (303 بور) اور کاربائن موجود تھا۔ اس پر ، ہندوستانیوں نے بہادری سے مقابلہ کیا اور انہوں نے آخری سانس تک انگریزوں سے جنگ جاری رکھی ۔ برطانوی حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق ، 152 آزادی پسند جنگجووطن پر قربان ہوئے ، 129 زخمی اور 40 گرفتار ہوئے ۔ لیکن حقیقت میں وطن پر قربان ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ جو بچ گئے تھے انہیں بعدازاں انگریز کے جاسوسوں اور ایجنٹوں کی وجہ سے مخبریاں کرکے پکڑا گیا اور سینکڑوں کے حساب سے اجتماعی پھانسیاں دی گئیں ۔
انقلابیوں کو پھانسی چڑھا کر بھی انگریز کے ایجنٹوں کا دل نہیں بھرا تو انہوں نے قلعہ کی دیواریں بھی گرا دیں اورفتح کا جشن مناتے ہوئے برطانوی فوج کی گورکھا رجمنٹ دہرادون پہنچی۔ ہندوستانیوں کو پریشان کرنے کے لیے برطانوی حکومت نے راجہ وجے سنگھ گجر کے سینے اور کلیان سنگھ گجر کا سر لوہے کے نیزوں لٹکایا اور دہرادون جیل کے گیٹ پر لٹکا دیا۔ کیپٹن ینگ نے کُنجا کی لڑائی کے بعد قبول کر لیا تھا کہ اگر یہ بغاوت تیز رفتار ی سے کچلی نہ جاتی تو آئندہ دو دن کے اندر اس کو ہزاروں کی حمایت حاصل ہو جاتی اور یہ بغاوت پورے مغربی اترپردیش میں پھیل جاتی ۔
سچ تو یہ ہے کہ انگریز اوراس کے ایجنٹوں نے یہ جنگ فریب اور مکر کی چالوں کی وجہ سے جیتی لیکن اس کے باوجود گجروں نے بہادری سے لڑتے ہوئے وطن کی آزادی پر قربان ہونا قبول کیا ۔ اگر گجروں کے


مزید پڑھیں: سوشل میڈیا کے اثرات


پاس بھی جدید اسلح ہوتا تو آج برصغیر کی تاریخ مختلف ہوتی ۔

گمنام راہوں کے شہید باعث افتخار۔ انجنیئر افتخار چودھری

ان کو بھی،، ہیپی فادر ڈے ،،جن کے نوخیز بچوں کو باپ نے دلاسہ دیا کہ تمہراے لئے گڑیا لائوں گا اور ماں کو کہا اماں دعا کرنا میں چلا گیاتوسارے گھر کی تقدیر بدل دوں گا
اور بہن کو گلے سے لگاتے ہوئے کہا پگلی روتی کیوں ہیں میں تیری شادی ایسی کروں گا کہ خاندن والے دنگ رہ جائیں گا
یہ سفر آج سے نہیں 1947 میں بھی شروع ہوا تھا جب پہلی ٹرین نے لاہور کو چھوا تھا
آج مک گئی اے غماں والی شام
تینوں ساڈا پہلا سلام
1977 میں میں بھی گجرانوالہ اسٹیشن سے کراچی پہنچا وہاں سے عمرے ویزے پر جدہ روانہ ہوا
اس وقت ایک دو سال لگانے کا پروگرام تھا
میری ماں نے میرے آنسوؤں کو پوچھتے ہوئے کہا تھا کہ جائو بیٹا جوان اور گھوڑے کاکوئی دیس نہیں ہوتا
اور میں اوکھے سوکھے ویلا گزار گیا ایک کمرے میں سات گدوں پر دس سو کر گزارا کیا اس سعودی بچی نوراں کو سلام جو ہمیں رمضان میں برف دے کر جاتی
من کو سکون ملتا میری عنابیہ نے اس بار عزیزیہ میں لوگوں کو اگطارکا سامان دیا تو مجھے سعودی عرب کی نوراں یاد آگئی جس کو عروہ اور عنابیہ کے دادا کو کلو خمسہ میں برف دی تھی ۔
دو سال والے نے ستائیس سال گزارے اور دوسری نسل کو بھی اسی ویلنے کا ایندھن بنا دیا
ایک بار نواز شریف نے نے ہم سے وعدہ کیا کہ میں بیرون ملک پاکستانیوں کو پاکستان سے باہر نہیں رہنے دوں گا
اور دوسری بار خان نے کہا کہ ملک میں لوگ بیرون ملک سے نوکریاں کرنے آئیں گیں
بہت سے لوگ ا بھی گئے اور پھر خان کی حکومت کو چلتا کر دیا ۔آج باجوہ کے دیس کے لوگ یونان میں شہید ہو گئے
جن کی لاشوں کا پتہ نہیں چلا رہا ۔
کب ختم ہو گی غموں والی شام
کب صبح طلوع ہو گی
اللہ تعالیٰ خود ڈانگ نہیں مارے گا اس کے کام بولتے ہیں ۔یہ زلزلے یہ طوفان یہ نو مئی یہ سب اللہ کی طرف سے ہیں ۔قائد اعظم کا نواسہ کرایے کے مکان پر زلیل ہو رہا ہے اور اس کے نانا کے مکان کی حرمت پر دس ہزار قیدی بنا لئے گئے اور سنا ہے کہ چند لوگوں کو فوج عدالتیں بھی سزا دیں گے ۔اللہ نہ کرے ایسا ہو
خدا کا خوف کرو اس سے پہلے کہ ملک پر طوفان آئیں زلزلے آئیں اپنی عزت اور حرمت کو ادارے بچائیں
کون آپ کا مخالف ہے یہ لوگ 65 اور 71 میں بھی آپ کے ساتھ تھے اور اب بھی ساتھ ہیں میجر گورو آریہ کو کون جواں دیتا ہے اور جنرل بخشی کو کون ہیں ںخشےا؟میں انجنیئر افتخار چودھری ۔
مشرقی پاکستان میں لوگوں نے رات کے اندھیروں میں اور دن کے روشنی میں آپ کا ساتھ دیا آج بنگالی بہاری پھانسیوں پر جھول رہے ہیں
نہ اپ کو فکر ہے اور نہ ہمیں لاکھوں کی تعداد میں افغانی پاکستان کے کونے کونے میں رہتے ہیں دو اڑھائی لاکھ بہاری نہیں بلائے جاتے ۔ ہم فوج ہیں اوررہیں گے اسلیے کہ ہمارے گھروں میں شہید ہیں اور غازی بھی
آج طارق ملک نے استعفی دیا کہ رانا ثناء اللہ ان سے غیر قانونی کام کرا رہا ہے ۔اپ اڑھائی لاکھ کو کے ائو اور فیصل آباد میں درج کروا کو تمہارے سینے میں ٹھنڈ پڑ جائے گی اور ان کی شام الم ختم ہو گی
کاش ان لوگوں میں کوئی زرداری کا بیٹا بھی ہوتا اور نواز شریف کا بھی ،جنہوں نے اس ملک کے وسائل کو بے دردری سے لوٹا اور پاکستان کی تھالی سے سب چٹ کر گئے
یہ سب لوگ سپنوں کے سوداگر تھے یہ ان ملکوں میں جا رہے تھے کہ جہاں انسانیت زندہ ہے
جہاں لوگوں کو بھوکا نہیں مرنے دیا جاتا
افسوس تہ یہ ہے کہ خواجہ آصف نے یورپ اور امریکہ میں بسنے والے پاکستانیوں کو ،،گالیاں،، دیں اج امریکہ کو آپ اور ہم گالیاں دیتے ہیں آج۔بارڈر کھولیں تو ہم سب لائن میں لگ کر ویزے لیں گے
یہ ملک جسے ،،ملک بے آئین ،، کہا گیا ہے
جسے ایک پنجابی شاعر نے کچھ یوں بیان کیا ہے
چھڈدے چوڑے والیے کڑیے چھڈ دے چھڈ دے میری باں میں نیں رہنا ایس گراں
جتھے شاعر بھول نہ سکن دل دیاںئ گنجلاں کھول نہ سکن میں نیں رہنا ایسی تھاں
وہ ہمیں اچھے نہیں لگتے اگر زندہ بچ جاتے تو ان کے ڈالر اچھے لگنے دیں ۔
آج مجھے شہر یار آفریدی سے بھی معذرت کرنی ہے میں نے اسے جرمنی جانے سے منع کیا تھا
اسی 502 میں میں نے اسے تلقین کی پاکستان چھوڑ کے مت جائیے گا اور اس کے بعد وہ رکا اور پاکستان کی جی بھر کے خدمت کی اور آخر میں اس کے ساتھ ہم نے اس کے ساتھ کیا کیا ؟
افسوس سب کام پی ڈی ایم اور رانا ثناء اللہ کرتا ہے اور نام ایسٹیلشمنٹ کا لگا دیتا ہے
کشتی یونان کے مسافرو آپ کی شہادت کو سلام ان باہوں بہنوں مائوں کے معذرت جن کے خواب ادھورے رہ گئے ۔ان گمنام راہوں کے شہیدوں کو سلام


یہ پڑھیں: یتیم چھوکرا


سلامت رہے ہماری فوج

باعث افتخار: انجنیئر چودھری

ویسے ہم نہ کب سوچا تھا کہ اس دوران نو مئی آ جائے گا جسکی آڑ میں ہمیں یہ دن بھی دیکھنا پڑیں گے کہ دس ہزار جیل میں اور اتنے باہر جبری چھٹیاں منانے عزیزوں دوستوں کے ہاں مہمان بنیں گئے
لوک طعنے دیتے ہیں کہ آپ لوگ نعرے تو لگاتے تھے کہ ،، ہم لے کے رہیں گے آزادی، تیرا باپ بھی دے گا ازادی،، او بابا ہم تو یہ نعرے لگاتے تھے کہ بابا شریف حاکم علی زرداری مفتی محمود سے ہم آزادی لیں گیں یہ تو نہیں پتہ تھا کہ تم جنرل عاصم منیر ہمارے مقابل کھڑے کر دو گئے
وہ کیا کہتے ہیں ماں سے لڑائی ہو گئی ہتھ کس جگہ پائیے
ماں سے لڑائی ہو گئی تو ہاتھ کہاں ڈالیں اس فوج کے ساتھ کس نے کہا تھا کہ ہم ان سے آزادی مانگتے تھے ویسے میاں نواز شریف کو میں سمجھاتا رہا لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد ہم نے بھی پنگا لے لیاوہ ریٹائر جنرل تھے جو سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر تھے اور مجھے نواز شریف کا ساتھی قرار دے کر جدہ جیل میں بند کرا دیا میں وہاں اکہتر دن بند رہا واپس پر ماں کا جنازہ دیکھا اس طرح عظمت نیازی کے والد صاحب اس دنیا سے اپنے بیٹے کے غم میں چلے گئے ۔استحکام پاکستان میں لوگوں نے اپنے آپ کو مستحکم کیا ہم تو ،،لیا نہ دیا گلاس توڑے بارہ انے،،ہم تو خوامخواہ ہی رگڑے میں آگئے
لیکن کیا کریں دل کے ہاتھوں مجبور ہیں کسی کو مصیبت کے دنوں میں چھوڑ نہیں سکتے اور قاسم کے آبا سے تعلق بھی بہت پرانا تھا
اسی لیے لوگوں کو سمجھاتا رہا کہ فوج میں کوئی ریٹائر نہیں ہوتا باز آجائو یہ نیوٹرل کا نعرہ بھی نہ لگائو اور کسی کو برا بھی مت کہو ۔مشاہد حسین کہا کرتے تھے میاں صاحب کڈ کڑاکے دیو اور بعد میں یہی مشاہد ق لیگ میں چلے گئے اور مزے کئے اور میاں نواز شریف سرور پیلیس پہنچ گئے
اس طرح عمران خان کے وزیر مشیر اسے دھکہ دے کر استحکام پاکستان بنا بیٹھے
اللہ کرے گا کہ چیزیں جلدسامنے آجائیں گی لیکن ضرورت اس بات کی ،،پہلے جو آگ لگی ہے بجھادی جھائے،،
کتنا افسوس کی بات ہے کہ جو لوگ فوج کے خلاف تھے وہ فوج کے ساتھ مل گئے اور پاکستان تحریک انصاف کو آگے رکھ لیا
یہ سال 2001 کی بات ہے میاں نواز شریف نے کہا کہ اس فوج کو ۔۔۔۔مارنے چاہئے میں نے کہا میاں صاحب ایک فوج کے حوالدار کو سنبھال نہیں سکتے اور آپ پوری فوج کو گالیاں دے رہے ہیں پاس بیٹھے میاں شہباز شریف نے اس بات کو سراہا
اور آخر آپ نے دیکھ لیا کہ جیت اسی سوچ کی ہوئی جو میں کہتا تھا
دنیا میں جمہوریتوں کے کئی رنگ ہیں ترکی کی جمہوریت کو جنرل کنعان کے دور سے دیکھیں
اور آج طیب اردوگان کو سامنے رکھیں
ایک دم ہی یہ سفر طے نہیں ہوا ویسے میرا اپنا خیال ہے کہ کنٹرولڈ جمہوریت ہونا چاہئے
وگرنہ یہ سیاست دان اس ملک کو بیچ کر پتیسہ کھا جاتے
نواز شریف اور زرداری کا دور دیکھیں
اور آج کل وہ لوگ بھی سامنے آ گئے ہیں جنہوں نے عمران خان کے دور میں پاکستان کے وسائل کو مادر وطن کا دودھ سمجھ کر پیا ۔
وہی لوگ جو جیلوں کی چیز تھے انہوں نے اب نعرہ لگایا ہے کہ پاکستان کو استحکام بخشا جائے گا۔ہم نےایک وقت کہا تھا کہ کیانی کی جیب پھٹی ہوئی ہے اور جناب بزدار وسیم پلس نہیں ہیں افسوس کہ لوگ بولنے نہیں دیتے اور پارٹی کے اندر رہ کر بھی گونگھے بنا دیتے ہیں
اس وقت اندر کی بات کرنے کو نہیں چاہتا کہ پارٹی مصیبت میں ہے اور مصیبت میں گلے شکوے نہیں کرتے
لیکن اتنی بات ضرور کروں گا کہ آپ کو کس نے کہا تھا کہ ایسٹیلشمنٹ کے ساتھ پنگا لیں
کون آپ کو شہ دیتا رہا
آپ سمجھتے رہے کہ مولوی فضل الرحمن کا باپ پاکستان کو تسلیم نہیں کرتا تھا اور کہتا تھا کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں ہیں حاکم علی زرداری قائد اعظم کا مخالف تھا خود میاں شریف گورنر جیلانی کو رشوتیں دے کر بیٹے کو آگے بڑھاتا رہا
ان لوگوں نے گجرانوالہ میں جنرل باجوہ جنرل فیض حمید کے خلاف ہذیان بکا اور مولوی فضل الرحمان نے کہا کہ ہم جی ایچ کیو آئیں گے زرداری نے کہا کہ تم تین سال رہو گے اور ہم ادھر ہی ہیں
لیکن ان کی یہ ،،ستم ظریفیان،، معاف کر دی گئیں اور ہمیں دھر لیا گیا ایک بات کا بھی دکھ ہے نو مئی کے واقعات جو ہوئے وہ بغیر تحقیق کے پی ٹی آئی پر ڈال دیے گئے
پاکستان تحریک انصاف اچھا کرے کہ اگر جلسوں کی اجازت ملے تو پہلا جلسہ جی ایچ کیو کے سامنے کریں اور فوج کے شہداء کے ساتھ اظہار یک جہتی کریں اس طرح جناح ہائوس کے سامنےبھی جلسہ کیا جائے
یہ فوج ہماری ہے
یہ کسی کانگریسی ملا کی نہیں اور نہ ہی حاکم علی زرداری اور میاں شریف کی
یہ ہماری اور عمران خان کی فوج ہے۔

ویسے ہم نہ کب سوچا تھا کہ اس دوران نو مئی آ جائے گا جسکی آڑ میں ہمیں یہ دن بھی دیکھنا پڑیں گے کہ دس ہزار جیل میں اور اتنے باہر جبری چھٹیاں منانے عزیزوں دوستوں کے ہاں مہمان بنیں گئے
لوک طعنے دیتے ہیں کہ آپ لوگ نعرے تو کھاتے تھے کہ ،، ہم کے کے رہیں گے آزادی تیرا باپ بھی دے گا ازادی،، او بابا ہم تو یہ نعرے لگاتے تھے کہ بابا شریف حاکم علی زرداری مفتی محمود سے ہم آزادی لیں گیں یہ تو نہیں پتہ تھا کہ تم جنرل عاصم منیر ہو ہمارے مقابل کھڑے کر دو گئے
وہ کیا کہتے ہیں ماں سے لڑائی ہو گئی ہتھ کس جگہ پائیے
ماں سے لڑائی ہو گئی تو ہاتھ کہاں ڈالیں اس فوج کے ساتھ کس نے کہا تھا کہ ہم ان سے آزادی مانگتے تھے ویسے میاں نواز شریف کو میں سمجھاتا رہا لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد ہم نے بھی پنگا لے کیاوہ ریٹائر جنرل تھے جو سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر تھے اور مجھے نواز شریف کا ساتھی قرار دے کر جدہ جیل میں بند کرا دیا میں وہاں اکہتر دن بند رہا واپس پر ماں کا جنازہ دیکھا اس طرح عظمت نیازی کے والد صاحب اس دنیا سے اپنے بیٹے کے غم میں چلے گئے ۔اسحکام پاکستان میں لوگوں نے اپنے آپ کو مستحکم کیا ہم تو ،،لیا نہ دیا گلاس توڑے بارہ انے،،ہم تو خوامخواہ ہی رگڑے میں آگئے
لیکن کیا کریں دل کے ہاتھوں مجبور ہیں کسی کو مصیبت کے دنوں میں چھوڑ نہیں سکتے
اسی لیے لوگوں کو سمجھاتا رہا کہ فوج میں کوئی ریاٹیر نہیں ہوتا باز اجائو یہ نیوٹرل کا نعرہ بھی نہ لگائو اور کسی کو برا بھی مت کہو ۔مشاہد حسین کہا کرتے تھے میاں صاحب کڈ کڑاکے دیو اور بعد میں یہی مشاہد ق لیگ میں چلے گئے اور مزے کئے
اس طرح عمران خان کے وزیر مشیر اسے دھکہ دے کر اسلام پاکستان بنا بیٹھے
اللہ کرے گا کہ چیزیں جلدسامنے آجائیں گی لیکن ضرورت اس بات کی ،،پہلے جو آگ لگی ہے بجھائی جھائے،،
کتنا افسوس کی بات ہے کہ جو لوگ فوج کے خلاف تھے وہ فوج کے ساتھ مل گئے اور پاکستان تحریک انصاف کو آگے رکھ کیا
یہ سال 2001 کی بات ہے میاں نواز شریف نے کہا کہ اس فوج کو ۔۔۔۔مارنے چاہئے میں نے کہا میاں صاحب ایک فوج کے حوالدار کو سنبھال نہیں سکتے اور آپ پوری فوج کو گالیاں دے رہے ہیں پاس بیٹھے میاں شہباز شریف نے اس بات کو سراہا
اور آخر آپ نے دیکھ لیا کہ جیتی وہی سوچ جو میں کہتا تھا
دنیا میں جمہوریتوں کے کئی رنگ ہیں ترکی کی جمہوریت کو جنرل کنعان کے دور سے دیکھیں
اور آج طیب اردوگان کو سامنے رکھیں
ایک دم ہی یہ سفر طے نہیں ہوا ویسے میرا اپنا خیال ہے کہ کنٹرولڈ جمہوریت ہونا چاہئے
وگرنہ یہ سیاست دان اس ملک کو بیچ کر پتیسہ کھا جاتے
نواز شریف اور زرداری کا دور دیکھیں
اور آج کل کو وہ لوگ بھی سامنے آ گئے ہیں جنہوں نے عمران خان کے دور میں پاکستان کے وسائل کو مادر وطن کا دودھ سمجھ کر پیا ۔
وہی لوگ جو جیلوں کی چیز تھے انہوں نے اب نعرہ لگایا ہے کہ پاکستان کو استحکام بخشا جائے گا۔ہم نے کسی وقت کہا بھی تھا کہ کیانی کی جیب پھٹی ہوئی ہے اور جناب بزدار وسیم پلس نہیں ہیں افسوس کہ لوگ بولنے نہیں دیتے اور پارٹی کے اندر رہ کر بھی گونگھے بنا دیتے ہیں
اس وقت اندر کی بات کرنے کو نہیں چاہتا کہ پارٹی مصیبت میں ہے اور مصیبت میں گلے شکوے نہیں کرتے
لیکن اتنی بات ضرور کروں گا کہ آپ کو کس نے کہا تھا کہ ایسٹیلشمنٹ کے ساتھ پنگا لیں
کون آپ کو شہ دیتا رہا
آپ سمجھتے رہے کہ مولوی فضل الرحمن کا باپ پاکستان کو تسلیم نہیں کرتا تھا اور کہتا تھا کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں ہیں حاکم علی زرداری قائد اعظم کا مخالف تھا خود میاں شریف گورنر جیلانی کو رشوتیں دے کر بیٹے کو بڑھتا رہا
ان لوگوں نے گجرانوالہ میں جنرل باجوہ جنرل فیض حمید کے خلاف ہذیان بکا اور مولوی فضل الرحمان نے کہا کہ ہم جی ایچ کیو آئیں گے زرداری نے کہا کہ تم تین سال رہو گے اور ہم ادھر ہی ہیں
لیکن ان کی یہ ،،ستم ظریفیان،، معاف کر دی گئیں اور ہمیں دھر لیا گیا ایک بات کا بھی دکھ ہے نو مئی کے واقعات جو ہوئے وہ بغیر تحقیق کے پی ٹی آئی پر ڈال دیے گئے
پاکستان تحریک انصاف اچھا کرے کی اگر جلسوں کی اجازت ملے تو پہلا جلسہ جی ایچ کیو کے سامنے کریں اور فوج کے شہداء کے ساتھ اظہار یک جہتی کریں اس طرح جناح ہائوس کے بھی جلسہ کیا جائے
یہ فوج ہماری ہے
یہ کسی کانگریسی ملا کی نہیں اور نہ ہی حاکم علی زرداری اور میاں شریف کی


ضروری نوٹ وفاقی: دارلحکومت ،کھنہ پل کے علاقہ میں بھکاریوں اور مالشیو سنے عام شہریوں کا جینا حرام کر دیا


19 مارچ سے 29 مئی تک

باعث افتخار: انجنیئر افتخار چودھری

آج کے دن میں اکہتر دن کی جیل کاٹ کر لاہور ایئر پورٹ پر اترا
بات پرانی ہے کوئی زیادہ پرانی بھی نہیں کوئی اکیس سال پرانی ۔ہمیں جدہ میں ترحیل بند کیا گیا تھا 23 مارچ والے دن برادر حامد صدیقی کے بیٹے بھی ہمارے ساتھ بند تھے صبح سویرے اٹھے ناشتے کے بعد ہم سارے سیاسی قیدی گہ شپ لگاتے تھے وسیم صدیقی نے کہا چوہدری صاحب دل تو کرتا ہے کہ بھارت کا یوم آزادی منائیں
یہ سن کر میرے ہوش اڑ گئے
میں نے فورا جواں دیا کہ کوئی کرایہ دار اگر مکان پر قبضہ کر لے تو گھر کے شیشے نہیں توڑے جاتے ۔ان دنوں ملک مارشل لاء کی زد میں تھا مجھے اس ترحیل جیل آئے کوئی چار روز ہوئے تھے ۔ترحیل اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں ملک سے باہر جانے والوں کو بند کیا جاتا ہے
یہ باقاعدہ طور پر جیل تو نہیں ہوتی البتہ لوگوں کو بیرکوں میں رکھا جاتا ہے
یہ جد ہ میں محمود سعید مارکیٹ کے سامنے جہاں کبھی جدہ ایئر پورٹ ہوتا تھا یہ بیرک کسی وقت سعودیہ ایئر لائن کے ہینگر ہوتے تھے
یہی کوئی بار پانچ سو مختلف بیرکوں میں رکھے جاتے تھے
انسانی حقوق کا خیال رکھا جاتا تھا بہترین قسم کے عربی کھانے پیش کیے جاتے تھے بیرکوں کا گرمی کے موسم میں میں اے سی کی ٹھنڈک اتنی ہوتی ہر کوئی کمبل لے کر سوتا تھا
ہمارے ساتھ جو لوگ تھے ان میں اکثر مسلم لیگ نون کے تھے کچھ ایسے بھی تھے جن کا تعلق مسلم لیگ ق سے تھا اور جو جنرل مجید کے قریب تھے کچھ ایسے بھی تھے جو اعجاز الحق اور شیخ رشید کے قریبی ساتھی تھے
ہم سب ہی ،،جماع نواز شریف،، کے جرم میں اندر تھے میرے کبھی بھی مسلم لیگ ن سے تعلق نہ تھا البتہ جب ایک بار سوپر مینوں نے پوچھا کہ آپ کا نواز شریف کے ساتھ کیا تعلق ہے تو میں نے جواب دیا کہ پہلے تو نہیں تھا اب ہے جو کرنا ہے کر لو ۔سعودی عرب میں کون سی پارٹی شغل میلہ لگانے کے لیے لوگ چھوٹے موٹے فنکشن کر لیا کرتے تھے ۔
ہوا یوں کہ عظمت نیازی جن کا تعلق مسلم لیگ ق سے تھا وہ کسی وجہ سے دھر لیے گئے انہوں نے ایک دن مجھے فون کیا کہ آپ دو اخبارات کے نمائندے ہیں آپ بھی ہمارے لئے آواز نہیں اٹھاتے
پھر انہی دنوں اسکول کی مینیجنگ کمیٹی کے انتحابات ہو رہے تھے لوگوں نے مجھے کمیونٹی می طرف سے ہیڈ بنایا گیا ۔پاکستانی سفیر جنرل اس درانی تھے اور ان کا نائب کرنل طارق تھا اوپر سےمارشل لاء کا دور تھا انہی کی چلتی تھی قونصل جنرل بے چارے دپک کے رہتے تھے ۔سب کچھ فوجیوں یا سابق فوجیوں کے ہاتھ میں تھا
اسکول کی ایک کمیونٹی میٹینگ قونصل خانے میں تھی جس کی صدارت سفیر پاکستان کر رہے تھے ۔ساتھ میں جماعت اسلامی کے مرحوم دوست مسعود جاوید بٹھائے گئے
میں نے اعتراض اٹھایا کہ سر ہم نے جس کے خلاف یہ اجلاس منعقد کیا ہے آپ نے انہیں اپنے پہلو میں بٹھایا ہوا ہے انہیں نیچے ہمارے ساتھ بڑھائیں
جس کا موصوف نے برا منایا
اور مجھے بیٹھنے کے لیا حکم دیا گیا ۔میں نے احتجاج کرتے ہوئے تقریب کا بائیکاٹ کیا یہی وجہ تھی کہ موصوف کی طبع نازک پر گراں گزرا اور مجھے بھی ،،جماع نواز شریف،،، میں ڈال دیا گیا واقع کے دو۔ آر روز۔ عد مجھے میرے کمپنی سے سعودی اتھارٹی نے اٹھا کیا اور یوں میں ترحیل میں آگیا
بیت سوں کا خیال ہے کہ آپ کو سعدی عرب سے کیوں گرفتار کیا گیا ۔۔بس اتنا جان کیجئے جنرل مشرف پاکستان کے کل فی کل تھے بلکہ اس خطے میں امریکہ کے نمائندہ خاص تھے اور ان کا سعودی حکومت پر رعب داب تھا
نایین الیون میں سعودی عرب پر بھی نزلہ ھرا جس میں شاہ عبداللہ نے مشرف کی مدد سے جان خلاصی کرائی
اسی وجہ سے کرنل طارق سعودی اینٹیلجنس سے مل کر پاکستانیوں پر قہر بن کر ٹوٹے
یہ فرق ہوتا ہے سیاسی اور فوجی حکمرانوں میں ۔ویسے تو موجودہ حکومت نے بھی فوجیوں کی حکومت کو کی ھے چھوڑ دیا ہے
مزے کی بات ہے میں نے جنرل اسد درانی کے اس فعل کو پوری فوج کا قصور نہیں فرار نہیں دیا اور ہمیشہ فوج کا ساتھ دیا
مشرف کے بعد جب پیپلز پارٹی اور ن کی حکومت رہی میں نے سر توڑ کوشش کی کہ فوج کو بدنام کرنے والوں کا ساتھ نہیں دیا
اس وقت آپ کو پتہ چل گیا ہو گا کہ میں کیسے ن لیگ میں چلا گیا ۔اور ایک اہم واقعہ بھی ان دنوں ہوا میری چچا اور بیگم کے والد صاحب اس دنیا سے رخصت ہو گئے اس اندوہناک خبر نے ہمیں ہلا کے رکھ دیا لیکن بیگم کے حوصلے کی داد دیتا ہوں قونصل جنرل کی بیگم پیغام کے آئیں اگر نوید کی امی پاکستان جانے چاہیں تو ہم حاظر ہیں جس ہر میری بیگم نے جواب دیا میں اپنے خاوند جو چھوڑ کر نہیں جا سکتیں ۔یہ بات رہتی دنیا تک یاد رہے گی
میں در اصل بتانا چاہتا ہوں کی یوم پاکستان پر ہم پر کیا بیتی اس سے پہلے والے یوم پاکستان کو ہم نے نے اپنی گھر کی چھت پر منایا میں نے ایک Audi کسٹمر سے کہہ کر جو پاکستانی تھے اور ان کی الیکٹریشن کی دکان تھی سے کہہ کر اپنی بلڈنگ کی چھت پر چراغاں کیا
لوگ میری رہائش گاہ کو پاکستان بلڈنگ کہا کرتے تھے
اسی بلڈنگ کو چراغاں کر کے میں نے ایک انفرادیت پیدا کی ۔نہ اس سے پہلے اور نہ ہی اس کے بعد جدہ کیا پوری مڈل ایسٹ میں یہ اعزاز مجھے ہی حاصل رہا جو پردیس میں یہ کام کر گیا ۔اسی بلڈنگ کی چھت پر بچے ٹیبلو پیش کرتے تقریریں کرتے صدارتی ایوارڈ یافتہ نور جرال نے بھی نعت سنائی رو ء ف طاہر مرحوم نے بھی تقریر کی مشہور صحافی خالد منہاس بھی ان میں شامل تھے
آج کے بچے پاکستان کو لیڈ کر رہے ہیں ان میں پاکستان تحریک انصاف اور دیگر پارٹیوں میں اپنے کارنامے دکھا رہے ہیں
آج ہم ناشتے کی ٹیبل پر وسیم صدیقی کی بات کو یاد کرتے ہیں وسیم بیرون ملک سے ایم بی اے کی ڈگری کر کے آیا تھا وہ مشہور نقاد عرش صدیقی کا بھتیجا تھا ہم سب سے زیادہ اچھے مشاہرے پر بن لادن کمپنی میں کام کرتا تھا باقی دوست معمولی ملازمت کرتے تھے
لیکن اپنی اپنی جگہ اہم تھے البتہ عظمت نیازی کا کاروبار اچھا تھا بعد میں ہمارے ساتھ مسعود پوری بھی ان ملے ایک دو روز کے لئے ارشد خان بھی رونق بخشنے آ گئے مرحوم سعودی عرب مسلم لیگ کے صدر تھے ان کے بیٹے نے انہیں چھڑوا لیا بڑی چیز تھے شریفیہ خاندان سے بہت گہرا تعلق تھا
میں ان دنوں کی یاد کرتا ہوں تو ان کا تقابل آج سے کرتا ہوں ملک پاکستان میں لوگ سیاسی قیدی ہو رہے ہیں ان کی لسٹیں بھی عام کو چکی ہیں ان کے ساتھ تشدد کیا جا تا ہے اور جب پنجاب پولیس تشدد کرتی تو چوہا بھی ہاتھی بن کر کھیت سے نکل پڑتا ہے
انگیرز دور کے جنرل ڈائیر کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ۔بادر اور چار دیواری کے تقدس کو مجروح کیا جاتا ہے اس میں سینیٹر رکن اسمبلی بوڑھے جوان سب ایک ہی بھائو بیچے جاتے ہیں
اور تو اور چھوڑیں اس ملک میں شہباز گل کے ساتھ جو سلوک ہوا آپ کو علم ہے
اس قدرتشدد کے صرف موت نہیں
اسی دوران ارشد شریف کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھی دنیا جانتی ہے ۔ملک سے بھگایا گیا اور اور ابو ظہبی سے کینیا تک موت کو اس کے پیچھے لگایا گیا
ظل شاہ کل پی کی بات ہے ۔اوع افسوس یہ ہے کہ فتنہ گر کہتے ہیں کہ روڈ ایکسیڈینٹ میں مارا گیا
اعظم سواتی پچھہتر سالہ شخص کے ساتھ ہائی برڈ حکومت نے جو کچھ کیا وہ بیان کے قابل نہیں وہ آج بھی ان دنوں کو نہیں بھولتے ۔اس کے بر عکس سعودی عرب میں جو میں نے 71 دن گزارے ان کی تعریف نہ کروں تو اچھا نہیں ہو گا اللہ سعودی عرب کے شاہوں کو درازی عمر سے نوازے ۔اپ اگر کام کریں اور بس کام ان کے نظام کو نہ چھیڑیں تو آپ کو کچھ نہیں ہو گا اور ہاں اگر پنگے لئے تو پھر خیر نہیں ۔
نوجوان کیپٹن محمد زہرانی کی جتنی تعریف کروں کم ہے اس نے میرے فنگر پرنٹ نہیں ہونے دیے اگر فنگر پرنٹ ہو جاتے تو دوبارہ نہیں جا سکتا تھا
مجھے ہر طرح کی سہولت دی مستنصر حسین تارڑ کے نوجوان بیٹے نے میرا بہت خیال رکھا غالبا ان کا نام سلجوق تھا
قونصل جنرل نواز چوہدری نے فلیگ والی گاڑی سمیت جیل کا وزٹ کیا
غرض جدہ کی وہ جیل ان پاکستانی ظالموں کی جیل سے بہت بہتر تھے
ہمارے کھانا باہر سے آتا تھا
مسعود پوری کو تو میں ایک عرصے جانتا تھا ہماری فیملی تعلقات تھے لیکن جیل میں رہ کر ان کی ذاتی خصوصیات سے واقف ہوا
ہر دل عزیز اور مہربان حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے بھائی نہ صرف پاکستانیوں کے کام آتے بلکہ اپنے موبائل سے مصریوں صومالیوں اور دیگر ملکوں کے لوگوں کو انہیں فون کی سہولت دیتے ۔لاہور کے میاں منیر نے چوہدری فاروق جاوید کے کہنے پر جنرل مشرف کو شکائت لگائی کہ پاکستانی مارے گئے
مسعود پوری کا فون ہر ایک کے لیے کھلا رہتا ۔وہ اپنے اکائونٹ سے اپنے ہوٹل سے کھانا منگواتے ۔
میں نہیں سمجھتا کہ ان جیسا سچا پیار کرنے والا بھائی کوئی اور ہو گا ۔
یہاں میں ان لوگوں کا بھی ذکر کرنا چاہوں گا کہ جو میرے گرفتار ہوتے ہی پاکستان اور دوسرے ملکوں کو فرار ہو گئے خود احس رشید لندن چلے گئے تھے میں ان کا نام لے کر انہیں رسوا نہیں کرنا چاہتا لیکن وہ بھی یاد رہیں گے
میرے گھر اور میری بلڈنگ میں لوگ آتے نہیں تھے کہ کہیں پکڑے نہ جائیں ۔میرے بچے پریشان رہے ۔
چوہدری اکرم کو کبھی نہیں بلا سکتا جس نے جنرل اسد درانی کو کہااپ نے چار نامور پاکستانی بند کرا دیے ہیں جس ہر ان کا کہنا تھا یہ چار ہیں چار سو بھی ہوں تو بند کرایوں گا
وہ شہ سے زیادہ شہ کی وفاداری کر رہے تھے
ان سے بہت لوگوں نے بات کی وہ جو الریاض میں ان کے ساتھ رہے
قونصلیٹ کے چند لوگ میری جاسوسی کرتے تھے ان کا کام تھا کہ وہ اپنی بیگمات کے ذریعے معلومات حاصل کرتے ان کی خواہش تھی کہ پوچھا جائے یہ کب جا رہے ہیں تا کہ باقیماندہ لوگ رہا ہو سکیں ۔جنرل۔مشرف نے تو ہمیں رہا کرنے کا آرڈر دے دیا تھا یہ جنرل اسد درانی اور کرنل طارق تھے جو میرے جانے کے منتظر تھے اور وہی ہوا جو یہ چاہتے تھے
مجھے مسعود پوری نے کہا تھا کہ آپ چند دن ٹھہر جائیں ہمیں آرڈر آنے والا ہے آپ رک جائو اور ایی پورٹ سے واپس آ جائیں مگر میری صد تھی اب جانا ہی جانا ہے آخری بار کیپٹن صفر سے ہوئی اور وہ بھی الوداعی ملاقات تھی
ادھر میاں نواز شریف شہباز شریف کلثوم نواز نے بھی برابر رابطہ رکھا ۔میاں صاحب نے تو میرے ساتھ مسعود پوری کے فون ہر بات بھی کی حوصلہ دیا اور کہا کہ میں کوشش کر رہا ہوں ۔اپ کی دلیری کو سلام
اعجاز الحق تو آئے روز فون کر کے بے جی کو بتایا کرتے کہ افتخار ٹھیک ہے
ماں بڑا حوصلہ دیتی رہیں مگر جہاں واپس آ کر پتہ چلا کہ ان کا حوصلہ فون کی حد تک تھا اور وہ دن بھر روتی تھیں اور رات کو مصلی ہر دعا کیا کرتی تھیں
ان ظالموں کو کوئی دعا بد دعا کام نہیں کرتی تھیں اور میرے پاکستان آنے کے بعد چند روز ہی ذندہ رہیں
آج جب جنرل اسد درانی بات کرتے ہیں تو دل مسوس جاتا ہے ماں جی کہا کرتی تھی ،،او جانے،، میں بھی صبر کر لیتا ہوں
آج 23 مارچ ہے اور وہ بھی تھے آج میں گھر سے باہر کسی نامعلوم جگہ سے کالم لکھ رہا ہوں کہ ہارٹ آپریشن کے بعد میری صحت اچھی نہیں اگر صحت اچھی ہوتی تو کیا میں اسلام آباد میں عمران خان کا استقبال نہ کرتا اور میرے ہاتھ مائیک نہ ہوتا میں جو ایک شعلہ بیان ھونے کہ باوجود گونگے کی طرح 502 میں دبک کے نہ بیٹھا رہتا
جیلیں سونے کی بنی ہوں تو جیل ہی ہوتے ہیں مگر جدہ سعودی عرب کی جیل کے تقابل ان ظالموں کی جیل سے کرتا ہوں تو دلی افسوس ہوتا ہے
آپ شاہی نظام کو برا کہتے ہو اگر میں صرف صبح کا ناشتہ ہی لکھ دوں تو آپ حیران ہوں مکھن،جام اور روٹی اور دوپہر میں گوشت والے چاول اور رات کو اسی طرح ویسے ہم باہر سے کھانا منگواتے تھے یہ ان کی طرف سے تھا اور یہاں تو انسان کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا
سنا ہے عمران ریاض خان اب اس دنیا میں نہیں رہے اللہ نہ کرے اور یہ بھی سنا ہے کہ شہر یار آفریدی کے بازو مفلوج ہو گیا ہے
پتہ نہیں ظالم کس منہ سے اللہ کے سامنے جائیں گے
دعا کریں کہ پاکستان بچ جائے آمین


یہ بھی پڑھیں: بھیک کیلئے شیرخواربچوں کااستعمال اوراستحصال رو کاجائے


پی ٹی آئی کے دشمن

باعث افتخار: انجنیئر افتخار چودھری

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عادل راجہ اور مہدی اور اس قماش کے لوگ پی ٹی آئی کے دوست ہیں ؟بعض اوقات لڑائی جھگڑوں میں اس قسم کے لوگ بڑا نقصان کرا دیتے ہیں اپنے دائیں بائیں نظر دوڑائیں ،،اگ لایا مت،، انہیں ہی کہتے ہیں خود بیرون ملک بیٹھ کر گوگل سے پیسہ بٹورتے ہیں اور لیڈران کے کچے کانوں میں آگ بھرتے رہتے ہیں
عدنان خان کے دائیں بائیں بھی اسی قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔کوئی سمجھ دار بزرگ نہیں آپ نے دیکھا ہو گا کہ خان صاحب نے اس قسم کے لوگوں کو بھی مشیر رکھا ہوا ہے
اچھا مشیر اور دوست وہ ہے جو دوست کو اچھے کام کا مشورہ دے زندگی میں بہت سے جذباتی فیصلے کرتے کرتے میں اپنی دوست ملک محی الدین کی وجہ سے بچا ہوں کاش اس کا ساتھ بچا ہوں کاش اس کا ساتھ پاکستان میں بھی ہوتا
خان صاحب یہ جو بھی حالات ہیں اس میں ہمارا قصور بھی ہے اور ان دوستوں کا بھی جو آپ کی ہر بات ہر آمین کہتے ہیں میں جب بھی اپنے ساتھ بیٹھا آپ کو مشورے دیے اور آپ برہم بھی ہو جاتے یہی وجہ ہے کہ پورے ساڑھے تین سال کے اندر صرف ترجمانوں کی میٹینگ میں ایک بار شریک ہوا اور وہ بھی کسی مہربان کی وجہ سے اور وہاں بھی ہاتھ اٹھاتا ہی رہ گیا شہباز گل نے کہا آپ کیوں ہاتھ اٹھا رہے تھے میں نے کہا میں کہنا چاہتا عثمان بزدار کو ہٹائیں گل بولا چوہدری صاحب بات وہ کرتے ہیں جو لیڈر کو اچھے کھیل ۔آج وہی کچھ ہوا کہ لیڈر کی بات کو ٹوکنے والے پی ٹی آئی میں دور دور تک نظر نہیں آتے اور لیڈر کو مشکل میں دھکیلنے والے دور بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں
لیکن ہم ہی ہیں جو مشکل وقت کے ساتھ قائد کے ساتھ کھڑے ہیں ۔فوج کے ساتھ ٹکرائو کا مشورہ دینے والے ،،بیوقوف دوستوں،، کو سلام ۔افسوس صد افسوس کے اچھی خاصی کامیابیوں کے حصول کے بعد ہم نے راکھ چھاننے کو پسند کیا

سوچتا ہوں میں اتنا بڑا شخص نہیں نہ ہی میں عمران خان جیسے بڑا سیاست دان ہوں

پھر سوچتا ہوں وہ اکیلا رہ جائے گا میرے جیسے کئی صرف یہ جان کر عمران خان کا ساتھ دے رہے ہیں کہ وہ اکیلا ہے اور ہجوم میں بھی اکیلا ۔یہ زمان پارک اب تحریر سکوائر کیوں بن گیا ہے
مجھے ڈر ہے کہ وہ مرسی نہ بنا دیا جائے
آپ کو پتہ ہے وہ اپنے دکھ چھپا رہا ہے احمد سلطان صاحب کبھی آپ عمران خان کو روتے دیکھا ہے جی میں نے دیکھا ہے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ کسی پتھر دل کا بنا ہوا ہے نہیں وہ عام آدمی کی طرح سوچتا ہے
چند سال پہلے پنجاب یونیورسٹی میں عمران خان گئے ان کے اس دورے کی روداد تو آپ کو پتہ ہو گی
البتہ ایک تصویر دیکھی اس کے گریبان میں ایک طالب علم نے ہاتھ کچھ ایسے رکھا ہوا کہ جیسے وہ اس کے سانس کو ختم کرنا چاہتا ہو ۔ اس ایک تصویر نے آئی ایس ایف بنا دی
تصویر دیکھی تو سات نمبر گلی کے میرے دوست جو ایئر پورٹ سوسایٹی آفس میں کام کرتے تھے وہ شہر یار کے گھر سے نیچے کی طرف آ رہے تھے نیازی صاحب کا ایک ہی ڈریس تھا بوسکی کی قمیض اور سفید شلوار
میرے پاس سے گزرے تو میں نے خبریں اخبار میں چھپی تصویر انہیں دکھائی اور کہا بھائی دیکھو عمران خان کے ساتھ کیا ہوا ہے ؟ وہ بولے،، چوہدری صاحب چنگا ہویا اے،، یہ بندہ میرا رشتے دار ہے اسے خاندان کے لوگوں نے ہزار بار سمجھایا کہ تم شہزادوں جیسے زندگی گزار رہے تھے بلکہ کئی شہزادے وہ تمنا کرتے تھے کہ وہ عمران جیسی شہرت پائیں اس نے نہ اپنے باپ کی سنی نہ رشتے داروں کی اور آج یہ واقعہ ہو گیا۔
نیازی کو میں نے بیٹھک میں بٹھا لیا اور اس سے سننے لگا ۔
میں سعودی عرب سے 2002 میں جبری طور پر نکالا گیا تھا یہاں اسلام آباد میں موٹروں کی ایک کمپنی میں کام کرتا تھا ۔نیازی صاحب بولے جا رہا تھا اور میرے دل کے اندر طوفان اٹھ رہا تھا میں اس وقت پی ٹی آئی میں شمولیت کر چکا تھا اور مجھے عمران خان نے ڈپٹی سیکرٹری نامزد کیا تھا وہ کہے جا رہا تھا کہ عمران خان کیسی شاہانہ زندگی گزار رہا تھا جمائمہ کی قصے شہزادی ڈائنا کی باتیں دنیا کے ایک بڑے بزنس مین کا داماد بن جانا، کچھ میں جانتا تھا کچھ نیازی نے بتایا ۔میں میری سوچ اور طرف جا رہی تھی
رشتے دار کہہ رہا تھا کہ اس کو سیاست جیسے ،،گندے،، کام میں نہیں آنا چاہئے تھا آرام سے مزے کرتا شہرت اور دولت تو اس نے کما ہی لے تھی۔ اب لونڈوں کے ہاتھوں زلیل ہوریا ہے خود تو زلیل ہوا ہماری قبیلے کو بھی بدنام کر دیا ۔
پھر اس کے ایک اور ساتھی احسن رشید جنہوں نے مجھے پی ٹی آئی میں شامل کرایا وہ بھی یاد آئے جس کا ذکر بعد میں کسی اور کالم میں کروں گا
نیازی صاحب اور نمبر سے رخصت ہوئے تو میں نے سوچ لیا کہ نیازی عمران کو افتخار گجر کا ساتھ مل جائے تو کیا بات ہے ۔
میں نے زندگی بھر مظلوم کی خدمت کی ہے جدہ جیل بھی بھگتی وہ بھی ایک اور نیازی کے کہنے پر اشتعال میں آکر سفیر پاکستان کو للکارا تھا اس نیازی کا نام عظمت ہے اور آج کل رحیم یار خان میں رہتا ہے اس نے جیل سے مجھے فون ہے کہا کہ آپ اخباری نمائندے ہو ہماری مدد کرو ہمیں مشرف کے ٹوڈی نے بند کر رکھا ہے
میں نے اس نیازی کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں میں بھی چند دنوں میں اس کے پاس جیل میں پہنچ گیا ۔
عمران خان نے کتنے دکھ جھیلے یہ ایک لمبی داستان ہیں تحریک انصاف ، افسوس ہے اس جدوجہد کو کتابی شکل میں نہیں لا سکی یوں تو ہمارے پاس پڑھے لکھے لوگوں کی کمی نہیں لیکن اس جانب توجہ نہیں دی ۔ اور یہ کمی محسوس کی جائے گی ۔اعجاز رفیع بٹ شعبہ تعلیم و تربیت کے انچارج بنے ہیں انکے جذبے بھی ان کی قامت کی طرح ہیں انشاللہ امید ہے کہ وہ کریں گے
یہ سیاست در اصل ہے کیا اگر یہ ،،گند،، ہے تو پھر اچھے لوگوں نے اسے کیوں اپنایا ۔یہ الہی سنت ہے یہ اس لیے کہ اللہ کے بندوں کے کام آنا ہی سیاست ہے یہ الگ بات ہے کہ یہ سیاست غلط بندوں کے ہاتھ لگ گئی ۔آپ نے کبھی سوچا کہ چند لوگ ہماری دائیں بائیں ہوتے ہیں اور وہ ایک الگ دنیا کی باسی دکھائی دیتے ہیں فلاحی کام اور اور معاشرے کو خوبصورت بنانا ان کا مطمع نظر ہوتا ہے
اور وہ چند لوگ معاشرے کو بدل دیتے ہیں اسٹینلے والپرٹ نے کہا تھا کہ بعض لوگ تاریخ کو بدل دیتے ہیں اور جناح ایسے شخص ہیں جنہوں جغرافیہ بدلنے کے ساتھ تاریخ بھی بدل دی ۔قائد نے کھوٹے سکوں کے ساتھ پاکستان بنا ڈالا
بڑے لوگوں کی زندگی میں بڑے موڑ آتے ہیں وہ اپنی زندگی کو اللہ کی دی ہوئی امانت سمجھتے ہیں آپ مولانا مودودی کو دیکھ لیں انہوں نے اپنی زندگی میں کتنے لوگوں کو متاثر کیا ۔ایک وقت میں انکی مخالفت میں کتنے لوگ اکٹھے ہوئے ۔اور بہت سی مثالیں ہیں
لیکن عمران خان کی جدوجہد تو ہم نے اپنے سامنے دیکھی ہے ۔ایک اینکر نے پی ٹی آئی کے اوائل دنوں میں مجھ سے پوچھا عمران خان کو فلاحی کام ہی کرنے چاہئے تھے یہ سیاست میں ا کر انہوں نے کیا کمایا
میرا جواب تھا آپ کی مرضی ہے کہ وہ واشنگ پاؤڈر کی ،،مشہوری،، میں آتا اور کہتا پھرتا یہ لے لو،اچھا گند صاف کرے گا ا
اللہ نے اس سے بڑے کام لینے ہیں لوگ پوچھتے ہیں کہ عمران خان نے کون سے ایسا تیر مارا ہے اور اس نے اپنے ساڑھے تین سالہ کیا کیا کوئی میگا پراجیکٹ ؟میں یہاں تحریک انصاف کے وہ کام نہیں گنوانا چاہتا جو اس نے کیے ہیں اور جسے دنیا کے بہترین پروگرام گردانا گیا آپ آٹے تقسیم کرنے گئے تو 58 جانیں گنوا دیں
ان سب باتوں کو چھوڑ دیں آپ لوگوں کے میگا پراجیکٹ کیا تھے جس سے مال پانی بنتا وہ ہیں آپ کے میگا پراجیکٹ ہمراہ میگا سے بہت بڑا پراجیکٹ اپنے نبی کی حرمت کا عالم سے اعتراف کرانا ہے ۔
یوں تو کرونا کے دو سال ہمارے دور میں آئے ہم نے پاکستان میں بند صنعتوں کو چلایا آپ دیکھ لیں اب کیا حال ہے ٹیکسٹائل کی صنعت تباہ ہو گئی کئی ہزار لوگ بے کار پھر رہے ہیں مہنگائی کا جن بوتل سے باہر نہیں لوگوں کے گلے تک پہنچ گیا ہے ۔ہمیں اس بات ہے بھی گلہ نہیں کہ اب مہنگائی کے خلاف میڈیا بھی نہیں بولتا ۔اس دور میں تاریخ میں ایسی مہنگائی نہیں ہوئی لیکن اس میڈیا نے چپ سادھ رکھی ہے
سیاست کو خدا را گند نہ سمجھیں چند گندے لوگوں کی وجہ سے اس کام کو برا سمجھا گیا یہ کوئی ہمہ وقتی کام نہیں آپ اپنے روز مرہ کے کام کرتے ہوئے بھی سیاست کر سکتے ہیں ہاں اسے زریعے معاش بنانا غلط ہے
ضروری نہیں ہر سیاست دان زرداری اور نواز شریف یا فضل الرحمن ہیں اور میں یہ بھی کہتا ہوں کہ سارے لوگ تحریک انصاف کے ہی اچھے نہیں ان میں بھی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی دور میں غلط کام کئیے ہوں گے زرداری اور نواز شریف ہونا ایک کیفیت کا نام ہے جو کسی ہر بھی طاری ہو سکتی ہے یہ بیماری کا نام ہے ۔یہی وجہ ہے میں کہتا ہوں کہ تحریک انصاف کو اکثر ،ٹکٹ بدلنے کی ضرورت ہے ۔میں نے ایک پوسٹ لگائی کہ اگر عمران خان نواز شریف کو بھی ٹکٹ دیں تو ہمیں منظور ہے ۔
اکٹر لوگوں نے اسے سراہا لیکن میرے اچھے دوست حاجی عمران نے لکھا کیوں جی ہمیں یہ شعور عمران خان نے ہی دیا ہے کہ اچھے امیدواروں کا انتحاب کیا جائے حاجی عمران جیسے لوگ کسی بھی پارٹی کی شان ہوتے ہیں میں راشد حفیظ سے کہوں گا ان کا گلہ دور کریں ۔اصل بات یہ ہے کہ عمران خان کہ کہنے پر لوگ چلیں گے ان کے ٹکٹ کو بھی عزت دی جائے گی لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ان لوگوں کو منظر سے ہٹا دیا جائے جن پر کوئی کرپشن کا الزام ہو ۔
ایم کیو ایم کی ایک بات مجھے اچھی لگی کہ اس نے الیکٹیبل نہیں بننے دیے آج اللہ کے فضل سے پی ٹی آئی تیسرے انتحابات میں جا رہی ہے کچھ لوگ 2013 کے انتحابات میں سامنے آئے جن کے معاشی حالات ٹھیک نہ تھے ان کے ان کےوارے نیارے ہیں پارٹی کو چاہئے اب انہیں ،،مکمل ارام،، کرنے کا موقع دے اور ان لوگوں کو آگے لائے جو پارٹی کے ہر مشکل وقت میں فرنٹ لائیں ہر رہے ۔میری ان باتوں سے دوست ناراض ہوتے ہیں
بھلے سے ناراض ہوں کچھ لوگوں کا خیال ہے ہمارے بہت سے لوگ کرپشن اور لوٹ مار میں بدنام زمانہ پارٹیوں کو بھی پیچھے چھوڑ چکے ہیں
عمران خان ان ٹکٹ نہ دیں اور پھر وہ لوگ آگے لائیں جو صاف ستھرے ہوں ۔
ہم جب برے کو برا کہیں تو یہ نہ سوچیں کہ یہ ہماری برادری کا ہے یہ ہمارا رشتے دار ہے مزہ تو تب ہے کہ ہم سوچیں کہ ایماند دار ہے شکیل گجر میرا ایک دوست ہے اس نے جب میری پوسٹ ہڑھی تو کہا کہ چوہدری صاحب میں آپ کو جانتا ہوں لیکن خدا را یہ کام نہ کریں اچھا بندہ کوئی بھی ہو اسے آگے لائیں
بات اصل میں یہ ہے کہ اچھے برے کی پرکھ میں میرا عمران خان مارا جائے گا اس طرح تو پارٹی ہار جائے گی تو عمران خان خان تو گیا ۔ ہمارے منتحب شدہ لوگوں نے کارکنوں کو اس قدر تنگ کر رکھا ہے کہ لوگ نکو نکو ہو چکے ہیں ایسے میں افتخار چودھری کیا کرے ۔
اس کا حل یہ ہے کہ لوگ پارٹی سے وابستہ رہیں اور ہر برے شخص کو احساس دلاتے رہیں کہ تم برے ہوئے اور ہم ووٹ عمران خان کو دے رہے ہیں تمہیں نہیں
یہ بات بھی سچ ہے کہ ووٹ ہے ہی عمران خان کا
سیاست ایک جہد مسلسل ہے ایک اچھے لیڈر کے ارد گرد اچھے لوگ ہی رہ جائیں گے

میری بے جی باعث افتخار انجینئر افتخار چودھری
ملک سے باہر سعودی عرب سے میرے ایک دوست وقار صاحب بیت عرصہ رہے ہیں کچھ عرصہ پہلے انہوں نے ایک پوسٹ لگائی۔۔پوسٹ میں چند دوستوں کی بیٹھک کا ذکر تھا سب دوست ایک دوسرے کو بتا رہے تھے کہ میری ماں کو کھانے میں کیا پسند تھاہر کوئی کچھ نہ کچھ بتا رہا تھا لیکن ایک دوست نے آسمان کی طرف دیکھ کر گھورنا شروع کیا۔وہ بتا نہیں سکا سوچتا رہا کہ اس کی ماں کو کیا پسند تھا وہ اپنے خیالات کو جمع نہ کر سکا۔اس نے کہا دوستو!بہت سوچا بہت کچھ ذہن میں آیا زور دیا بس اتنا یاد ہے میری ماں کو،، بچا کھچا ،پسند تھا۔جو بھی بچ جاتا میری ماں اسے کھا لیتی تھیں
میں اس وقت سے سوچ رہا ہوں کہ اس محفل میں بیٹھا شخص میں تھا۔میں نے اپنی ماں کے ساتھ زندگی کے 47 سال گزارے ہوش کے 40 سمجھ لیں میں نے بے جی کو اہتمام سے کسی میز پر بیٹھے کھانا نہیں کھاتے دیکھا البتہ جب ماں جدہ آئیں تو ہم نے ریجیں نکالیں۔پانچ بھائیوں اور ایک بہن کے ساتھ ہم چھ بچے تھے ہر ایک کی اپنی فرمائش ہوا کرتی ماں محدود وسائل سے سب کو پورا کرنے کی کوشش کرتیں میری عادت تھی رات کے آخری پہر اٹھ جاتا ٹھنڈی چائے یا ٹھنڈے دودھ میں گڑ ملا کر روٹی کے ساتھ کھاتا۔ایک بار قلعہ دیدار سنگھ کسی شادی پر گئے۔بے جی نے میزبان خاتون سے کہا جو چائے مجھے دینی ہے وہ الگ کسی برتن میں ڈال دیں میرا بیٹا رات کو اٹھ کر مانگتا ہے میں اسے دوں گی۔میرے بچپن کی یادوں میں یہ ایک یاد ان دنوں کی ہے جب میں تقریبا ۵ سال کا تھا۔
مائیں تو ساری دنیا کی انمول ہوتی ہیں میری ماں بھی ان جیسی ماؤں کی طرح تھیں لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ ماں اپنی ہی بہترین ہوتی ہے ۔آج جب وقار بھائی زندگی کی ایک مشکل لڑائی میں مصروف ہیں آگیں دعا کریں وہ ٹھیک ہو جاءیں اللہ نے انہیں ٹھیک کر دیا ہے انہوں نے ذکر چھیڑا تو ماں یاد آ گئی۔ہمارے گھر میں جب کوئی خاص مہمان آتا تو آلو گوشت شوربے والا بنتا سبزی والے چاول توے کی روٹیاں۔گلابی رنگ کا کسٹرڈ بنایا جاتا جس میں کیلے ڈالے جاتے۔مہمانوں کے جانے کے بعد ماں ہمیں سیڑھیوں کے نیچے بنے چولہے کے پاس بٹھا کر کھانا کھلاتیں۔بعد میں خود ٹھنڈی روٹی کے ساتھ شوربے سے کھا کر اللہ کا شکر ادا کرتیں۔70سال کی عمر میں جدہ میں ایک مصری ڈاکٹر کے پاس لے گیا اس نے جب بے جی کا بلڈ پریشر چیک کیا تو کہا ما شاء اللہ بہت اچھا ہے۔ماں جی اس عمر میں دبلی پتلی تھیں پوتوں کے ساتھ مل کر خوب رونقیں لگاتیں۔بڑا بھاری سا گدا بغل میں دبا کر ایک کمرے میں لے جاتیں پوتے پوتی خوش ہو جاتے بے جی کی Raybone کی میری لگا کر تصویریں بناتے ۔ڈاکٹر دوست تھا کہنے لگا اپنی ماں سے پوچھیں کیا کھاتی ہیں بے جی نے بتایا زندگی میں کبھی ایک روٹی سے زیادہ نہیں کھائی اور پنکھے کے نیچے نہیں سوئی۔ایک بار گھر میں ہی گم ہو گئیں ہم عزیزیہ اسکول کے ساتھ والی گلی میں رہتے تھے پاکستانی دوست اس گلی کو چودھری والی گلی کہتے تھے۔بڑا تلاش کیا تو جائے نماز کے اوپر سوئی ہوئی پائی گئی اور وہ بھی بڑے ڈائنینگ ٹیبل کے نیچے۔ آج دلدار جو بیٹی کا باپ ہے اس نے ڈھونڈا کہ بے جی میرا چھوٹا کمبل ۔
اپنی بیگم سے ایک روز پوچھا کہ تم ہی بتاؤ کہ بے جی کو کھانے میں کیا پسند تھا تو اس نے بتایا کہ رمضان میں گھر کے بنے ہوئے دہی بھلے شوق سے کھاتی تھیں۔یقین کیجئے یہ اس نے بتایا تو مجھے پتہ چلا۔ایران میں چھوٹے بھائی کے پاس رہیں واپسی پر آ کر ایرانی لوگوں کے طرز حیات پر باتیں کرتیں ان کی یہ بات سن سن کر ہنسی چھوٹ گئی جب جبین نے بتایا کہ تہران چھت ہر چڑھ کر بادلوں سے باتیں کر رہی تھیں میریا حامد توں کدھر ہے؟, ۔چھوٹی بھاوج نے کہا بے جی یہ ایران یے حامد کینیڈہ میں ہے٫ حامد نواسہ تھا وہ اسے یاد کرتی تھیں
جدہ میں جب دفتر سے واپس آتا تو انہیں مکان کی بالکونی میں منتظر پاتا۔وقار صاحب مائیں تو سب ہی کی اچھی ہوتی ہیں میری بھی ان میں سے ہی ایک تھیں۔آج آپ نے ماؤں کی پسند کا کھانا پوچھا تو میرا جواب بھی آپ کی بھیجی ہوئی پوسٹ والے دوست کا تھا کہ میری ماں بچا ہوا کھانا پسند کرتی تھیں۔
دوست احباب انہیں ملنے آتے دعائیں لیتے تھے۔ماں جی اللہ والی تھیں اپنے گھر کی چھت پر تبلیغی جماعت کے اجتماع کروایا کرتی تھیں۔مولانا عبداللہ درخواستی بھی ہمارے گھر تشریف لا چکے ہیں۔ایک بار میرا ایک غریب دوست جسے تنگی ٗ حالات نے اس قدر مجبور کیا کہ وہ گھر چھوڑ کر چلا گیا اس کے پانچ بچوں اور بیوی کو گھر لے آئیں۔بہوئیں دیکھتی رہیں اور بے جی نے کہا یہ میرے بیٹے کا وہ دوست ہے جس نے اس کی گرفتاری کے موقع پر پولیس سے ہاتھا پائی کی تھی اور بیٹے کو اکیلے نہیں جانے دیا تھا۔فاروق میرے بچپن کا دوست تھا تحریک ختم نبوت میں مجھے اندیشہ ء نقص امن کے تحت باغبانپورہ چوک گجرانوالا سے گرفتار کیا گیا تو اس نے مجھے گرفتار کرنے پر مزاحمت کی۔مدرسہ اشرف العلوم کے پاس مجھے 1974 میں تحریک ختم نبوت میں حصہ لینے کی پاداش میں گرفتار کیا
گیا تھا۔وہ بچے پندرہ دن تک گھر رہے،ماں جی اس دنیا سے 2002 میں گئیں۔ان کا جہاں سے جانا اللہ کی رضا تھی۔لیکن اس میں جنرل مشرف دور کی سفاکیوں کا بڑا ہاتھ ہے۔مجھے جدہ میں چند دوستوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا جس میں قاری شکیل مرحوم ارشد خان مرحوم مسعود پوری مرزا آفتاب ڈاکٹر قسیم،عظمت نیازی،شہباز بٹ وغیرہ شامل تھے۔ان میں اکثر میاں نواز شریف کے قریبی تھے۔جنرل اسد درانی ان دنوں سفیر پاکستان تھے۔یہ وہ جنرل ریٹارڈ مرد آہن ہیں جنہوں نے اصغر خان کیس میں نام کمایا ہے مہران بینک سکینڈل میں رخ سیاہ کیا۔ٹھگز آف پاکستان سیریز میں اس قسم کے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے اس قوم کا بیڑہ غرق کیا۔ان مہاکلاکاروں میں جہاں سیاست دانوں کی لمبی لسٹ ہے اس میں کچھ لوگ پاکستان کے ایک معتبر ادارے سے ریٹائر ہو کر ملک عزیز کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے میں بھی لگے رہےمیاں نواز شریف گرچہ ایک معاہدے کے تحت وہاں تھے جس میں یہ شق شامل تھی کہ وہ سیاست نہیں کریں گے مگر مسلم لیگی دوستوں کی سیاست جاری تھی میں پاکستان کے ایک نامور اخبار کا نمائیندہ تھا جس سے حکومت وقت کو اس لئے تکلیف تھی کہ میں جدہ سے میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کی کوریج کرتا تھا۔بادشاہ کو یہ تکلیف تھی کہ نواز شریف کی کوریج کیوں ہوتی ہے معاف کرنا یہ وقت تھا جب عمران خان کو جنرل مشرف پسند تھے اور مجھے سخت نا پسند ۔مسلم لیگیے پکڑے گئے اور مجھے بھی ایک روز اوڈی کے سروس سنٹر سے اٹھا لیا گیا یہ 19 مارچ 2002 کی دوپہر تھی ساماکو کا دفتر آج کل جہاں ریلوے اسٹیشن ہے وہاں تھا اس سڑک کو شارع علی المرتضے کہتے تھے ایک کونے پر بالبیدکمپنی تھی اور دوسرے پر الناغی ۔ میری 71 دن کی جیل نے بے جی کوتوڑ کے رکھ دیا تھا۔ماں جی کو جب 29 مئی 2002 کو ملا تو وہ بہت کمزور تھیں ساتویں روز برین ہیمرج ہوا قومے میں چلی گئیں ۔ لوگوں نے جمہوریت کے لئے بہت قربانیاں دیں میرے حصے میں ماں آئی جو میری گرفتاری کی نظر ہو گئیں ۔پمز کے بستر پر بے جی کی حالت دیکھتا تو دل کرتا گردنیں اڑا دوں جس دن ان کی ڈیڈ باڈی میرے سامنے آئی دل کیا کہ بم باندوں اور پھٹ جاؤ ں مگر بے جی کا ایک تکیہ کلام تھا،، او جانے،،۔اس او جانے میں کتنے صبر کی تلقین تھی اس کا پتہ مجھے بعد کی زندگی میں ملا۔میری زندگی میں بعد میں بڑی خوشیاں آئیں اسی شہر جدہ جہاں سے جیل میں بند ہو کر گیا تھا عزتیں سمیٹیں پر ماں نہ تھی۔
2019 میں جدہ گیا تھا وہی گلیاں راستے پرانے گھر وہیں تھے لوگوں کے مکان تھے لیکن ہم کرائے دار ہو کر بھی مالک مکان تھے ماں جس جس گھر میں رہی ان کے دروازوں پر جا کر کھڑا ہوا جن گھروں میں گئی خاموش کھڑا دیکھتا رہا ایک شخص نے پوچھا کہ صاحب کیا ڈھونڈتے ہو میں نے کہا ماں ڈونڈتا ہوں۔وہ مجھے گھر کے اندر لے گیا ہر کمرے میں دیکھا جھانکا دیواریں کچن سب کچھ وہی تھا لیکن ماں نہ تھی نہ وہ رونقیں۔بڑی دل چسپ یادیں تھیں اس گلی کو لوگ انجینئر افتخار والی گلی کہتے تھے لوگ کون پاکستانی کہتے ۔گھر کی بالکونی کے پاس پارکنگ جہاں میری گاڑی کھڑی ہوتی تھی میں نوے کے دنوں کو یاد کرتا رہا
یہاں بڑے بڑے مہمان آئے۔نامی گرامی لوگ۔بڑے ڈرائینگ روم پر بچھائے گئے گدوں پر پاکستان کے نامور شاعر ادیب سیاست دان۔کچھ بچے جن میں حمزہ شہباز خرم دستگیر کچھ بڑے شہر کی نامور ہستیاں یہاں اے سی کے ساتھ ایک فیکس مشین ہوتی تھی جسے لوگوں نے مشین گن کا نام دے رکھا تھا۔
کورڈ کے دنوں میں عمران خان کو روتا دیکھا تو سچ پوچھیں میں بھی رو دیا
یہ کالم انہی دنو لکھا تھا
تزیین اختر نے کیا خوب یاد کرا دیا گجر شاعر ساحر لدھیانوی کے اشعار ۔
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا
ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں
ان کو کیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا
کس لیے جیتے ہیں ہم کس کے لیے جیتے ہیں
بارہا ایسے سوالات پہ رونا آیا
کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست
سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا۔ ساحر لدھیانوی
بے جی کو ان کرونا کے دنوں میں پتہ نہیں کیوں یاد کرتا ہوں۔ایک عالیشان گھر کے خوبصورت کمرے میں موت سے ڈرا ہوا افتخار ماں کو یاد کر رہا ہے۔کہتے ہیں اوکھے ویلے ماں ہی یاد آتی ہے۔آج جب وزیر اعظم روئے تو سچ پوچھئے میں بھی رویا ہوں میں تو اس ماں کو یاد کر کے رویا ہوں جو زندہ ہوتی تو کہتی پتر او جانے اٹھ اندھیری قبر کی تیاری کر۔دوسرے کمرے میں ایک اور ماں روتے روتے اپنے جدہ کے بچوں کو یاد کر رہی ہے۔ شائد اس میری ماں کے حصے میں بچا کھچا تھا وہ اپنے نصیب کو لے کر جون 2002 میں گجرانوالہ کے بڑے قبرستان میں دفن ہو گئیں سلام اس شہر گجرانوالا کو جس نے ہزارہ سے آءے ہوءے لوگوں کو کھلے دل سے قبول کیا اور اتنا پیار دیا کہ والد صاحب نے کہا مجھے ادھر اسی شہر میں دفن کرنا جہاں خالی ہاتھ آیا تھا اور اب بھرے ہاتھوں جا رہا ہوں ۔ آج جب کوئی یہ کہتا ہے کہ پنڈی میں پشتون کیوں آباد ہیں تو مجھے اپنے باپ کی ہجرت یاد آ جاتی ہے اپنی ماں جی مسافرت کو ذہن میں رکھتا ہوں جنازہ زعیم ملت مولانا رحمت اللہ نوری نے پڑھایا دعا مولاناعبدالرحمن مکی صاحب نے کرائی اس سہ پہر کو رم جھم بھی ہوئی جون کے آخری ہفتے میں قیامت کی گرمی میں جنت سے بارش کی بوندیں بے جی کو لینے آئیں۔اور وہ ہمیں روتا دھوتا چھوڑ گئیں۔دنیا کی ہر ماں اپنے بچوں کے لئے قربانیاں دیتی ہے یقینا میری ماں سے زیادہ دینی والی مائیں بھی موجود ہیں لیکن مجھے تو اس ماں کا ذکر کرنا ہے جس نے مجھے جنم دیا۔ہم انہیں بے جی کہتے تھے پورے محلے کی بے جی تھیں۔باغبانپورے کے رہائیشی جانتے ہیں کہ بے جی سب کی ماں تھیں۔جون 2002 کی دوپہر کو بڑے قبرستان میں محو استراحت ہونے والی ماں کی دعائیں اب بھی پیچھا کرتی ہیں۔اللہ سب کی ماؤں کو محفوظ رکھے اور وہ کسی بے رحم دکٹیٹر کے اقدامات کی نظر نہ ہو جائے۔ چاءے خانہ میں مجھے جنرل عاصم باجوہ مل گءے ہاتھ ملایا تو بڑا نرم ہاتھ تھا میں نے کہا جنرل صاحب فوج اچھی لگتی ہے لیکن کبھی کبھی مجھے اس کے چند کاموں ہر غصہ بھی آتا ہے کیا جواب دیا جاٹ کے بیٹے نے کہنے لگے فوج ہر بار اچھے کام بھی تو نہیں کرتی ۔میں نے دو نرم ملاءیم ہاتھوں والے انسان دیکھے ہیں ایک جنرل عاصم دوسرے حافظ سعید اور دونوں ہی مجھے اچھے لگتے ہیں ۔ اور اب ان کو ،،برگر،، کے حوالے سے جانتا ہوں
بچا کھچا کھانے والی مائیں ہی دلوں میں زندہ رہتی ہیں۔۔انسان جتنا بھی بڑا ہو جائے ماں کے لئے چھوٹا ہی رہتا ہے اور انسان میں یہ بھی ایک بڑی خوبی ہے کہ وہ ساری زندگی ماں کی تلاش میں رہتا ہے
بے جی کبھی جنت سے آ کر ملو ناں


یہ بھی پڑھ لیں: وزیراعظم محمد شہباز شریف نے گوادر میں چائنہ ایکسپو سینٹر کا افتتاح کر دیا


میری بے جی

 باعث افتخار: انجینئر افتخار چودھری

ملک سے باہر سعودی عرب سے میرے ایک دوست وقار صاحب بیت عرصہ رہے ہیں کچھ عرصہ پہلے انہوں نے ایک پوسٹ لگائی۔۔پوسٹ میں چند دوستوں کی بیٹھک کا ذکر تھا سب دوست ایک دوسرے کو بتا رہے تھے کہ میری ماں کو کھانے میں کیا پسند تھاہر کوئی کچھ نہ کچھ بتا رہا تھا لیکن ایک دوست نے آسمان کی طرف دیکھ کر گھورنا شروع کیا۔وہ بتا نہیں سکا سوچتا رہا کہ اس کی ماں کو کیا پسند تھا وہ اپنے خیالات کو جمع نہ کر سکا۔اس نے کہا دوستو!بہت سوچا بہت کچھ ذہن میں آیا زور دیا بس اتنا یاد ہے میری ماں کو،، بچا کھچا ،پسند تھا۔جو بھی بچ جاتا میری ماں اسے کھا لیتی تھیں
میں اس وقت سے سوچ رہا ہوں کہ اس محفل میں بیٹھا شخص میں تھا۔میں نے اپنی ماں کے ساتھ زندگی کے 47 سال گزارے ہوش کے 40 سمجھ لیں میں نے بے جی کو اہتمام سے کسی میز پر بیٹھے کھانا نہیں کھاتے دیکھا البتہ جب ماں جدہ آئیں تو ہم نے ریجیں نکالیں۔پانچ بھائیوں اور ایک بہن کے ساتھ ہم چھ بچے تھے ہر ایک کی اپنی فرمائش ہوا کرتی ماں محدود وسائل سے سب کو پورا کرنے کی کوشش کرتیں میری عادت تھی رات کے آخری پہر اٹھ جاتا ٹھنڈی چائے یا ٹھنڈے دودھ میں گڑ ملا کر روٹی کے ساتھ کھاتا۔ایک بار قلعہ دیدار سنگھ کسی شادی پر گئے۔بے جی نے میزبان خاتون سے کہا جو چائے مجھے دینی ہے وہ الگ کسی برتن میں ڈال دیں میرا بیٹا رات کو اٹھ کر مانگتا ہے میں اسے دوں گی۔میرے بچپن کی یادوں میں یہ ایک یاد ان دنوں کی ہے جب میں تقریبا ۵ سال کا تھا۔
مائیں تو ساری دنیا کی انمول ہوتی ہیں میری ماں بھی ان جیسی ماؤں کی طرح تھیں لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ ماں اپنی ہی بہترین ہوتی ہے ۔آج جب وقار بھائی زندگی کی ایک مشکل لڑائی میں مصروف ہیں آگیں دعا کریں وہ ٹھیک ہو جاءیں اللہ نے انہیں ٹھیک کر دیا ہے انہوں نے ذکر چھیڑا تو ماں یاد آ گئی۔ہمارے گھر میں جب کوئی خاص مہمان آتا تو آلو گوشت شوربے والا بنتا سبزی والے چاول توے کی روٹیاں۔گلابی رنگ کا کسٹرڈ بنایا جاتا جس میں کیلے ڈالے جاتے۔مہمانوں کے جانے کے بعد ماں ہمیں سیڑھیوں کے نیچے بنے چولہے کے پاس بٹھا کر کھانا کھلاتیں۔بعد میں خود ٹھنڈی روٹی کے ساتھ شوربے سے کھا کر اللہ کا شکر ادا کرتیں۔70سال کی عمر میں جدہ میں ایک مصری ڈاکٹر کے پاس لے گیا اس نے جب بے جی کا بلڈ پریشر چیک کیا تو کہا ما شاء اللہ بہت اچھا ہے۔ماں جی اس عمر میں دبلی پتلی تھیں پوتوں کے ساتھ مل کر خوب رونقیں لگاتیں۔بڑا بھاری سا گدا بغل میں دبا کر ایک کمرے میں لے جاتیں پوتے پوتی خوش ہو جاتے بے جی کی Raybone کی میری لگا کر تصویریں بناتے ۔ڈاکٹر دوست تھا کہنے لگا اپنی ماں سے پوچھیں کیا کھاتی ہیں بے جی نے بتایا زندگی میں کبھی ایک روٹی سے زیادہ نہیں کھائی اور پنکھے کے نیچے نہیں سوئی۔ایک بار گھر میں ہی گم ہو گئیں ہم عزیزیہ اسکول کے ساتھ والی گلی میں رہتے تھے پاکستانی دوست اس گلی کو چودھری والی گلی کہتے تھے۔بڑا تلاش کیا تو جائے نماز کے اوپر سوئی ہوئی پائی گئی اور وہ بھی بڑے ڈائنینگ ٹیبل کے نیچے۔ آج دلدار جو بیٹی کا باپ ہے اس نے ڈھونڈا کہ بے جی میرا چھوٹا کمبل ۔
اپنی بیگم سے ایک روز پوچھا کہ تم ہی بتاؤ کہ بے جی کو کھانے میں کیا پسند تھا تو اس نے بتایا کہ رمضان میں گھر کے بنے ہوئے دہی بھلے شوق سے کھاتی تھیں۔یقین کیجئے یہ اس نے بتایا تو مجھے پتہ چلا۔ایران میں چھوٹے بھائی کے پاس رہیں واپسی پر آ کر ایرانی لوگوں کے طرز حیات پر باتیں کرتیں ان کی یہ بات سن سن کر ہنسی چھوٹ گئی جب جبین نے بتایا کہ تہران چھت ہر چڑھ کر بادلوں سے باتیں کر رہی تھیں میریا حامد توں کدھر ہے؟, ۔چھوٹی بھاوج نے کہا بے جی یہ ایران یے حامد کینیڈہ میں ہے٫ حامد نواسہ تھا وہ اسے یاد کرتی تھیں
جدہ میں جب دفتر سے واپس آتا تو انہیں مکان کی بالکونی میں منتظر پاتا۔وقار صاحب مائیں تو سب ہی کی اچھی ہوتی ہیں میری بھی ان میں سے ہی ایک تھیں۔آج آپ نے ماؤں کی پسند کا کھانا پوچھا تو میرا جواب بھی آپ کی بھیجی ہوئی پوسٹ والے دوست کا تھا کہ میری ماں بچا ہوا کھانا پسند کرتی تھیں۔
دوست احباب انہیں ملنے آتے دعائیں لیتے تھے۔ماں جی اللہ والی تھیں اپنے گھر کی چھت پر تبلیغی جماعت کے اجتماع کروایا کرتی تھیں۔مولانا عبداللہ درخواستی بھی ہمارے گھر تشریف لا چکے ہیں۔ایک بار میرا ایک غریب دوست جسے تنگی ٗ حالات نے اس قدر مجبور کیا کہ وہ گھر چھوڑ کر چلا گیا اس کے پانچ بچوں اور بیوی کو گھر لے آئیں۔بہوئیں دیکھتی رہیں اور بے جی نے کہا یہ میرے بیٹے کا وہ دوست ہے جس نے اس کی گرفتاری کے موقع پر پولیس سے ہاتھا پائی کی تھی اور بیٹے کو اکیلے نہیں جانے دیا تھا۔فاروق میرے بچپن کا دوست تھا تحریک ختم نبوت میں مجھے اندیشہ ء نقص امن کے تحت باغبانپورہ چوک گجرانوالا سے گرفتار کیا گیا تو اس نے مجھے گرفتار کرنے پر مزاحمت کی۔مدرسہ اشرف العلوم کے پاس مجھے 1974 میں تحریک ختم نبوت میں حصہ لینے کی پاداش میں گرفتار کیا
گیا تھا۔وہ بچے پندرہ دن تک گھر رہے،ماں جی اس دنیا سے 2002 میں گئیں۔ان کا جہاں سے جانا اللہ کی رضا تھی۔لیکن اس میں جنرل مشرف دور کی سفاکیوں کا بڑا ہاتھ ہے۔مجھے جدہ میں چند دوستوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا جس میں قاری شکیل مرحوم ارشد خان مرحوم مسعود پوری مرزا آفتاب ڈاکٹر قسیم،عظمت نیازی،شہباز بٹ وغیرہ شامل تھے۔ان میں اکثر میاں نواز شریف کے قریبی تھے۔جنرل اسد درانی ان دنوں سفیر پاکستان تھے۔یہ وہ جنرل ریٹارڈ مرد آہن ہیں جنہوں نے اصغر خان کیس میں نام کمایا ہے مہران بینک سکینڈل میں رخ سیاہ کیا۔ٹھگز آف پاکستان سیریز میں اس قسم کے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے اس قوم کا بیڑہ غرق کیا۔ان مہاکلاکاروں میں جہاں سیاست دانوں کی لمبی لسٹ ہے اس میں کچھ لوگ پاکستان کے ایک معتبر ادارے سے ریٹائر ہو کر ملک عزیز کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے میں بھی لگے رہےمیاں نواز شریف گرچہ ایک معاہدے کے تحت وہاں تھے جس میں یہ شق شامل تھی کہ وہ سیاست نہیں کریں گے مگر مسلم لیگی دوستوں کی سیاست جاری تھی میں پاکستان کے ایک نامور اخبار کا نمائیندہ تھا جس سے حکومت وقت کو اس لئے تکلیف تھی کہ میں جدہ سے میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کی کوریج کرتا تھا۔بادشاہ کو یہ تکلیف تھی کہ نواز شریف کی کوریج کیوں ہوتی ہے معاف کرنا یہ وقت تھا جب عمران خان کو جنرل مشرف پسند تھے اور مجھے سخت نا پسند ۔مسلم لیگیے پکڑے گئے اور مجھے بھی ایک روز اوڈی کے سروس سنٹر سے اٹھا لیا گیا یہ 19 مارچ 2002 کی دوپہر تھی ساماکو کا دفتر آج کل جہاں ریلوے اسٹیشن ہے وہاں تھا اس سڑک کو شارع علی المرتضے کہتے تھے ایک کونے پر بالبیدکمپنی تھی اور دوسرے پر الناغی ۔ میری 71 دن کی جیل نے بے جی کوتوڑ کے رکھ دیا تھا۔ماں جی کو جب 29 مئی 2002 کو ملا تو وہ بہت کمزور تھیں ساتویں روز برین ہیمرج ہوا قومے میں چلی گئیں ۔ لوگوں نے جمہوریت کے لئے بہت قربانیاں دیں میرے حصے میں ماں آئی جو میری گرفتاری کی نظر ہو گئیں ۔پمز کے بستر پر بے جی کی حالت دیکھتا تو دل کرتا گردنیں اڑا دوں جس دن ان کی ڈیڈ باڈی میرے سامنے آئی دل کیا کہ بم باندوں اور پھٹ جاؤ ں مگر بے جی کا ایک تکیہ کلام تھا،، او جانے،،۔اس او جانے میں کتنے صبر کی تلقین تھی اس کا پتہ مجھے بعد کی زندگی میں ملا۔میری زندگی میں بعد میں بڑی خوشیاں آئیں اسی شہر جدہ جہاں سے جیل میں بند ہو کر گیا تھا عزتیں سمیٹیں پر ماں نہ تھی۔
2019 میں جدہ گیا تھا وہی گلیاں راستے پرانے گھر وہیں تھے لوگوں کے مکان تھے لیکن ہم کرائے دار ہو کر بھی مالک مکان تھے ماں جس جس گھر میں رہی ان کے دروازوں پر جا کر کھڑا ہوا جن گھروں میں گئی خاموش کھڑا دیکھتا رہا ایک شخص نے پوچھا کہ صاحب کیا ڈھونڈتے ہو میں نے کہا ماں ڈونڈتا ہوں۔وہ مجھے گھر کے اندر لے گیا ہر کمرے میں دیکھا جھانکا دیواریں کچن سب کچھ وہی تھا لیکن ماں نہ تھی نہ وہ رونقیں۔بڑی دل چسپ یادیں تھیں اس گلی کو لوگ انجینئر افتخار والی گلی کہتے تھے لوگ کون پاکستانی کہتے ۔گھر کی بالکونی کے پاس پارکنگ جہاں میری گاڑی کھڑی ہوتی تھی میں نوے کے دنوں کو یاد کرتا رہا
یہاں بڑے بڑے مہمان آئے۔نامی گرامی لوگ۔بڑے ڈرائینگ روم پر بچھائے گئے گدوں پر پاکستان کے نامور شاعر ادیب سیاست دان۔کچھ بچے جن میں حمزہ شہباز خرم دستگیر کچھ بڑے شہر کی نامور ہستیاں یہاں اے سی کے ساتھ ایک فیکس مشین ہوتی تھی جسے لوگوں نے مشین گن کا نام دے رکھا تھا۔
کورڈ کے دنوں میں عمران خان کو روتا دیکھا تو سچ پوچھیں میں بھی رو دیا
یہ کالم انہی دنو لکھا تھا
تزیین اختر نے کیا خوب یاد کرا دیا گجر شاعر ساحر لدھیانوی کے اشعار ۔
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا
ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں
ان کو کیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا
کس لیے جیتے ہیں ہم کس کے لیے جیتے ہیں
بارہا ایسے سوالات پہ رونا آیا
کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست
سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا۔ ساحر لدھیانوی
بے جی کو ان کرونا کے دنوں میں پتہ نہیں کیوں یاد کرتا ہوں۔ایک عالیشان گھر کے خوبصورت کمرے میں موت سے ڈرا ہوا افتخار ماں کو یاد کر رہا ہے۔کہتے ہیں اوکھے ویلے ماں ہی یاد آتی ہے۔آج جب وزیر اعظم روئے تو سچ پوچھئے میں بھی رویا ہوں میں تو اس ماں کو یاد کر کے رویا ہوں جو زندہ ہوتی تو کہتی پتر او جانے اٹھ اندھیری قبر کی تیاری کر۔دوسرے کمرے میں ایک اور ماں روتے روتے اپنے جدہ کے بچوں کو یاد کر رہی ہے۔ شائد اس میری ماں کے حصے میں بچا کھچا تھا وہ اپنے نصیب کو لے کر جون 2002 میں گجرانوالہ کے بڑے قبرستان میں دفن ہو گئیں سلام اس شہر گجرانوالا کو جس نے ہزارہ سے آءے ہوءے لوگوں کو کھلے دل سے قبول کیا اور اتنا پیار دیا کہ والد صاحب نے کہا مجھے ادھر اسی شہر میں دفن کرنا جہاں خالی ہاتھ آیا تھا اور اب بھرے ہاتھوں جا رہا ہوں ۔ آج جب کوئی یہ کہتا ہے کہ پنڈی میں پشتون کیوں آباد ہیں تو مجھے اپنے باپ کی ہجرت یاد آ جاتی ہے اپنی ماں جی مسافرت کو ذہن میں رکھتا ہوں جنازہ زعیم ملت مولانا رحمت اللہ نوری نے پڑھایا دعا مولاناعبدالرحمن مکی صاحب نے کرائی اس سہ پہر کو رم جھم بھی ہوئی جون کے آخری ہفتے میں قیامت کی گرمی میں جنت سے بارش کی بوندیں بے جی کو لینے آئیں۔اور وہ ہمیں روتا دھوتا چھوڑ گئیں۔دنیا کی ہر ماں اپنے بچوں کے لئے قربانیاں دیتی ہے یقینا میری ماں سے زیادہ دینی والی مائیں بھی موجود ہیں لیکن مجھے تو اس ماں کا ذکر کرنا ہے جس نے مجھے جنم دیا۔ہم انہیں بے جی کہتے تھے پورے محلے کی بے جی تھیں۔باغبانپورے کے رہائیشی جانتے ہیں کہ بے جی سب کی ماں تھیں۔جون 2002 کی دوپہر کو بڑے قبرستان میں محو استراحت ہونے والی ماں کی دعائیں اب بھی پیچھا کرتی ہیں۔اللہ سب کی ماؤں کو محفوظ رکھے اور وہ کسی بے رحم دکٹیٹر کے اقدامات کی نظر نہ ہو جائے۔ چاءے خانہ میں مجھے جنرل عاصم باجوہ مل گءے ہاتھ ملایا تو بڑا نرم ہاتھ تھا میں نے کہا جنرل صاحب فوج اچھی لگتی ہے لیکن کبھی کبھی مجھے اس کے چند کاموں ہر غصہ بھی آتا ہے کیا جواب دیا جاٹ کے بیٹے نے کہنے لگے فوج ہر بار اچھے کام بھی تو نہیں کرتی ۔میں نے دو نرم ملاءیم ہاتھوں والے انسان دیکھے ہیں ایک جنرل عاصم دوسرے حافظ سعید اور دونوں ہی مجھے اچھے لگتے ہیں ۔ اور اب ان کو ،،برگر،، کے حوالے سے جانتا ہوں
بچا کھچا کھانے والی مائیں ہی دلوں میں زندہ رہتی ہیں۔۔انسان جتنا بھی بڑا ہو جائے ماں کے لئے چھوٹا ہی رہتا ہے اور انسان میں یہ بھی ایک بڑی خوبی ہے کہ وہ ساری زندگی ماں کی تلاش میں رہتا ہے
بے جی کبھی جنت سے آ کر ملو ناں

ملک سے باہر سعودی عرب سے میرے ایک دوست وقار صاحب بیت عرصہ رہے ہیں کچھ عرصہ پہلے انہوں نے ایک پوسٹ لگائی۔۔پوسٹ میں چند دوستوں کی بیٹھک کا ذکر تھا سب دوست ایک دوسرے کو بتا رہے تھے کہ میری ماں کو کھانے میں کیا پسند تھاہر کوئی کچھ نہ کچھ بتا رہا تھا لیکن ایک دوست نے آسمان کی طرف دیکھ کر گھورنا شروع کیا۔وہ بتا نہیں سکا سوچتا رہا کہ اس کی ماں کو کیا پسند تھا وہ اپنے خیالات کو جمع نہ کر سکا۔اس نے کہا دوستو!بہت سوچا بہت کچھ ذہن میں آیا زور دیا بس اتنا یاد ہے میری ماں کو،، بچا کھچا ،پسند تھا۔جو بھی بچ جاتا میری ماں اسے کھا لیتی تھیں
میں اس وقت سے سوچ رہا ہوں کہ اس محفل میں بیٹھا شخص میں تھا۔میں نے اپنی ماں کے ساتھ زندگی کے 47 سال گزارے ہوش کے 40 سمجھ لیں میں نے بے جی کو اہتمام سے کسی میز پر بیٹھے کھانا نہیں کھاتے دیکھا البتہ جب ماں جدہ آئیں تو ہم نے ریجیں نکالیں۔پانچ بھائیوں اور ایک بہن کے ساتھ ہم چھ بچے تھے ہر ایک کی اپنی فرمائش ہوا کرتی ماں محدود وسائل سے سب کو پورا کرنے کی کوشش کرتیں میری عادت تھی رات کے آخری پہر اٹھ جاتا ٹھنڈی چائے یا ٹھنڈے دودھ میں گڑ ملا کر روٹی کے ساتھ کھاتا۔ایک بار قلعہ دیدار سنگھ کسی شادی پر گئے۔بے جی نے میزبان خاتون سے کہا جو چائے مجھے دینی ہے وہ الگ کسی برتن میں ڈال دیں میرا بیٹا رات کو اٹھ کر مانگتا ہے میں اسے دوں گی۔میرے بچپن کی یادوں میں یہ ایک یاد ان دنوں کی ہے جب میں تقریبا ۵ سال کا تھا۔
مائیں تو ساری دنیا کی انمول ہوتی ہیں میری ماں بھی ان جیسی ماؤں کی طرح تھیں لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ ماں اپنی ہی بہترین ہوتی ہے ۔آج جب وقار بھائی زندگی کی ایک مشکل لڑائی میں مصروف ہیں آگیں دعا کریں وہ ٹھیک ہو جاءیں اللہ نے انہیں ٹھیک کر دیا ہے انہوں نے ذکر چھیڑا تو ماں یاد آ گئی۔ہمارے گھر میں جب کوئی خاص مہمان آتا تو آلو گوشت شوربے والا بنتا سبزی والے چاول توے کی روٹیاں۔گلابی رنگ کا کسٹرڈ بنایا جاتا جس میں کیلے ڈالے جاتے۔مہمانوں کے جانے کے بعد ماں ہمیں سیڑھیوں کے نیچے بنے چولہے کے پاس بٹھا کر کھانا کھلاتیں۔بعد میں خود ٹھنڈی روٹی کے ساتھ شوربے سے کھا کر اللہ کا شکر ادا کرتیں۔70سال کی عمر میں جدہ میں ایک مصری ڈاکٹر کے پاس لے گیا اس نے جب بے جی کا بلڈ پریشر چیک کیا تو کہا ما شاء اللہ بہت اچھا ہے۔ماں جی اس عمر میں دبلی پتلی تھیں پوتوں کے ساتھ مل کر خوب رونقیں لگاتیں۔بڑا بھاری سا گدا بغل میں دبا کر ایک کمرے میں لے جاتیں پوتے پوتی خوش ہو جاتے بے جی کی Raybone کی میری لگا کر تصویریں بناتے ۔ڈاکٹر دوست تھا کہنے لگا اپنی ماں سے پوچھیں کیا کھاتی ہیں بے جی نے بتایا زندگی میں کبھی ایک روٹی سے زیادہ نہیں کھائی اور پنکھے کے نیچے نہیں سوئی۔ایک بار گھر میں ہی گم ہو گئیں ہم عزیزیہ اسکول کے ساتھ والی گلی میں رہتے تھے پاکستانی دوست اس گلی کو چودھری والی گلی کہتے تھے۔بڑا تلاش کیا تو جائے نماز کے اوپر سوئی ہوئی پائی گئی اور وہ بھی بڑے ڈائنینگ ٹیبل کے نیچے۔ آج دلدار جو بیٹی کا باپ ہے اس نے ڈھونڈا کہ بے جی میرا چھوٹا کمبل ۔
اپنی بیگم سے ایک روز پوچھا کہ تم ہی بتاؤ کہ بے جی کو کھانے میں کیا پسند تھا تو اس نے بتایا کہ رمضان میں گھر کے بنے ہوئے دہی بھلے شوق سے کھاتی تھیں۔یقین کیجئے یہ اس نے بتایا تو مجھے پتہ چلا۔ایران میں چھوٹے بھائی کے پاس رہیں واپسی پر آ کر ایرانی لوگوں کے طرز حیات پر باتیں کرتیں ان کی یہ بات سن سن کر ہنسی چھوٹ گئی جب جبین نے بتایا کہ تہران چھت ہر چڑھ کر بادلوں سے باتیں کر رہی تھیں میریا حامد توں کدھر ہے؟, ۔چھوٹی بھاوج نے کہا بے جی یہ ایران یے حامد کینیڈہ میں ہے٫ حامد نواسہ تھا وہ اسے یاد کرتی تھیں
جدہ میں جب دفتر سے واپس آتا تو انہیں مکان کی بالکونی میں منتظر پاتا۔وقار صاحب مائیں تو سب ہی کی اچھی ہوتی ہیں میری بھی ان میں سے ہی ایک تھیں۔آج آپ نے ماؤں کی پسند کا کھانا پوچھا تو میرا جواب بھی آپ کی بھیجی ہوئی پوسٹ والے دوست کا تھا کہ میری ماں بچا ہوا کھانا پسند کرتی تھیں۔
دوست احباب انہیں ملنے آتے دعائیں لیتے تھے۔ماں جی اللہ والی تھیں اپنے گھر کی چھت پر تبلیغی جماعت کے اجتماع کروایا کرتی تھیں۔مولانا عبداللہ درخواستی بھی ہمارے گھر تشریف لا چکے ہیں۔ایک بار میرا ایک غریب دوست جسے تنگی ٗ حالات نے اس قدر مجبور کیا کہ وہ گھر چھوڑ کر چلا گیا اس کے پانچ بچوں اور بیوی کو گھر لے آئیں۔بہوئیں دیکھتی رہیں اور بے جی نے کہا یہ میرے بیٹے کا وہ دوست ہے جس نے اس کی گرفتاری کے موقع پر پولیس سے ہاتھا پائی کی تھی اور بیٹے کو اکیلے نہیں جانے دیا تھا۔فاروق میرے بچپن کا دوست تھا تحریک ختم نبوت میں مجھے اندیشہ ء نقص امن کے تحت باغبانپورہ چوک گجرانوالا سے گرفتار کیا گیا تو اس نے مجھے گرفتار کرنے پر مزاحمت کی۔مدرسہ اشرف العلوم کے پاس مجھے 1974 میں تحریک ختم نبوت میں حصہ لینے کی پاداش میں گرفتار کیا
گیا تھا۔وہ بچے پندرہ دن تک گھر رہے،ماں جی اس دنیا سے 2002 میں گئیں۔ان کا جہاں سے جانا اللہ کی رضا تھی۔لیکن اس میں جنرل مشرف دور کی سفاکیوں کا بڑا ہاتھ ہے۔مجھے جدہ میں چند دوستوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا جس میں قاری شکیل مرحوم ارشد خان مرحوم مسعود پوری مرزا آفتاب ڈاکٹر قسیم،عظمت نیازی،شہباز بٹ وغیرہ شامل تھے۔ان میں اکثر میاں نواز شریف کے قریبی تھے۔جنرل اسد درانی ان دنوں سفیر پاکستان تھے۔یہ وہ جنرل ریٹارڈ مرد آہن ہیں جنہوں نے اصغر خان کیس میں نام کمایا ہے مہران بینک سکینڈل میں رخ سیاہ کیا۔ٹھگز آف پاکستان سیریز میں اس قسم کے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے اس قوم کا بیڑہ غرق کیا۔ان مہاکلاکاروں میں جہاں سیاست دانوں کی لمبی لسٹ ہے اس میں کچھ لوگ پاکستان کے ایک معتبر ادارے سے ریٹائر ہو کر ملک عزیز کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے میں بھی لگے رہےمیاں نواز شریف گرچہ ایک معاہدے کے تحت وہاں تھے جس میں یہ شق شامل تھی کہ وہ سیاست نہیں کریں گے مگر مسلم لیگی دوستوں کی سیاست جاری تھی میں پاکستان کے ایک نامور اخبار کا نمائیندہ تھا جس سے حکومت وقت کو اس لئے تکلیف تھی کہ میں جدہ سے میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کی کوریج کرتا تھا۔بادشاہ کو یہ تکلیف تھی کہ نواز شریف کی کوریج کیوں ہوتی ہے معاف کرنا یہ وقت تھا جب عمران خان کو جنرل مشرف پسند تھے اور مجھے سخت نا پسند ۔مسلم لیگیے پکڑے گئے اور مجھے بھی ایک روز اوڈی کے سروس سنٹر سے اٹھا لیا گیا یہ 19 مارچ 2002 کی دوپہر تھی ساماکو کا دفتر آج کل جہاں ریلوے اسٹیشن ہے وہاں تھا اس سڑک کو شارع علی المرتضے کہتے تھے ایک کونے پر بالبیدکمپنی تھی اور دوسرے پر الناغی ۔ میری 71 دن کی جیل نے بے جی کوتوڑ کے رکھ دیا تھا۔ماں جی کو جب 29 مئی 2002 کو ملا تو وہ بہت کمزور تھیں ساتویں روز برین ہیمرج ہوا قومے میں چلی گئیں ۔ لوگوں نے جمہوریت کے لئے بہت قربانیاں دیں میرے حصے میں ماں آئی جو میری گرفتاری کی نظر ہو گئیں ۔پمز کے بستر پر بے جی کی حالت دیکھتا تو دل کرتا گردنیں اڑا دوں جس دن ان کی ڈیڈ باڈی میرے سامنے آئی دل کیا کہ بم باندوں اور پھٹ جاؤ ں مگر بے جی کا ایک تکیہ کلام تھا،، او جانے،،۔اس او جانے میں کتنے صبر کی تلقین تھی اس کا پتہ مجھے بعد کی زندگی میں ملا۔میری زندگی میں بعد میں بڑی خوشیاں آئیں اسی شہر جدہ جہاں سے جیل میں بند ہو کر گیا تھا عزتیں سمیٹیں پر ماں نہ تھی۔
2019 میں جدہ گیا تھا وہی گلیاں راستے پرانے گھر وہیں تھے لوگوں کے مکان تھے لیکن ہم کرائے دار ہو کر بھی مالک مکان تھے ماں جس جس گھر میں رہی ان کے دروازوں پر جا کر کھڑا ہوا جن گھروں میں گئی خاموش کھڑا دیکھتا رہا ایک شخص نے پوچھا کہ صاحب کیا ڈھونڈتے ہو میں نے کہا ماں ڈونڈتا ہوں۔وہ مجھے گھر کے اندر لے گیا ہر کمرے میں دیکھا جھانکا دیواریں کچن سب کچھ وہی تھا لیکن ماں نہ تھی نہ وہ رونقیں۔بڑی دل چسپ یادیں تھیں اس گلی کو لوگ انجینئر افتخار والی گلی کہتے تھے لوگ کون پاکستانی کہتے ۔گھر کی بالکونی کے پاس پارکنگ جہاں میری گاڑی کھڑی ہوتی تھی میں نوے کے دنوں کو یاد کرتا رہا
یہاں بڑے بڑے مہمان آئے۔نامی گرامی لوگ۔بڑے ڈرائینگ روم پر بچھائے گئے گدوں پر پاکستان کے نامور شاعر ادیب سیاست دان۔کچھ بچے جن میں حمزہ شہباز خرم دستگیر کچھ بڑے شہر کی نامور ہستیاں یہاں اے سی کے ساتھ ایک فیکس مشین ہوتی تھی جسے لوگوں نے مشین گن کا نام دے رکھا تھا۔
کورڈ کے دنوں میں عمران خان کو روتا دیکھا تو سچ پوچھیں میں بھی رو دیا
یہ کالم انہی دنو لکھا تھا
تزیین اختر نے کیا خوب یاد کرا دیا گجر شاعر ساحر لدھیانوی کے اشعار ۔
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا
ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں
ان کو کیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا
کس لیے جیتے ہیں ہم کس کے لیے جیتے ہیں
بارہا ایسے سوالات پہ رونا آیا
کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست
سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا۔ ساحر لدھیانوی
بے جی کو ان کرونا کے دنوں میں پتہ نہیں کیوں یاد کرتا ہوں۔ایک عالیشان گھر کے خوبصورت کمرے میں موت سے ڈرا ہوا افتخار ماں کو یاد کر رہا ہے۔کہتے ہیں اوکھے ویلے ماں ہی یاد آتی ہے۔آج جب وزیر اعظم روئے تو سچ پوچھئے میں بھی رویا ہوں میں تو اس ماں کو یاد کر کے رویا ہوں جو زندہ ہوتی تو کہتی پتر او جانے اٹھ اندھیری قبر کی تیاری کر۔دوسرے کمرے میں ایک اور ماں روتے روتے اپنے جدہ کے بچوں کو یاد کر رہی ہے۔ شائد اس میری ماں کے حصے میں بچا کھچا تھا وہ اپنے نصیب کو لے کر جون 2002 میں گجرانوالہ کے بڑے قبرستان میں دفن ہو گئیں سلام اس شہر گجرانوالا کو جس نے ہزارہ سے آءے ہوءے لوگوں کو کھلے دل سے قبول کیا اور اتنا پیار دیا کہ والد صاحب نے کہا مجھے ادھر اسی شہر میں دفن کرنا جہاں خالی ہاتھ آیا تھا اور اب بھرے ہاتھوں جا رہا ہوں ۔ آج جب کوئی یہ کہتا ہے کہ پنڈی میں پشتون کیوں آباد ہیں تو مجھے اپنے باپ کی ہجرت یاد آ جاتی ہے اپنی ماں جی مسافرت کو ذہن میں رکھتا ہوں جنازہ زعیم ملت مولانا رحمت اللہ نوری نے پڑھایا دعا مولاناعبدالرحمن مکی صاحب نے کرائی اس سہ پہر کو رم جھم بھی ہوئی جون کے آخری ہفتے میں قیامت کی گرمی میں جنت سے بارش کی بوندیں بے جی کو لینے آئیں۔اور وہ ہمیں روتا دھوتا چھوڑ گئیں۔دنیا کی ہر ماں اپنے بچوں کے لئے قربانیاں دیتی ہے یقینا میری ماں سے زیادہ دینی والی مائیں بھی موجود ہیں لیکن مجھے تو اس ماں کا ذکر کرنا ہے جس نے مجھے جنم دیا۔ہم انہیں بے جی کہتے تھے پورے محلے کی بے جی تھیں۔باغبانپورے کے رہائیشی جانتے ہیں کہ بے جی سب کی ماں تھیں۔جون 2002 کی دوپہر کو بڑے قبرستان میں محو استراحت ہونے والی ماں کی دعائیں اب بھی پیچھا کرتی ہیں۔اللہ سب کی ماؤں کو محفوظ رکھے اور وہ کسی بے رحم دکٹیٹر کے اقدامات کی نظر نہ ہو جائے۔ چاءے خانہ میں مجھے جنرل عاصم باجوہ مل گءے ہاتھ ملایا تو بڑا نرم ہاتھ تھا میں نے کہا جنرل صاحب فوج اچھی لگتی ہے لیکن کبھی کبھی مجھے اس کے چند کاموں ہر غصہ بھی آتا ہے کیا جواب دیا جاٹ کے بیٹے نے کہنے لگے فوج ہر بار اچھے کام بھی تو نہیں کرتی ۔میں نے دو نرم ملاءیم ہاتھوں والے انسان دیکھے ہیں ایک جنرل عاصم دوسرے حافظ سعید اور دونوں ہی مجھے اچھے لگتے ہیں ۔ اور اب ان کو ،،برگر،، کے حوالے سے جانتا ہوں
بچا کھچا کھانے والی مائیں ہی دلوں میں زندہ رہتی ہیں۔۔انسان جتنا بھی بڑا ہو جائے ماں کے لئے چھوٹا ہی رہتا ہے اور انسان میں یہ بھی ایک بڑی خوبی ہے کہ وہ ساری زندگی ماں کی تلاش میں رہتا ہے
بے جی کبھی جنت سے آ کر ملو ناں

Comments are closed.