بربادی کی اسکرین

تحریر: لیاقت علی

 Ch Liaqat Ali Mangatایک وقت تھا جب جوانی کا مفہوم طاقت، علم، اور غیرت سے وابستہ تھا۔ جب لڑکے مسجدوں کے صفوں میں ہوتے تھے، کتابوں کی خوشبو میں جیتے تھے، اور گھروں کے بڑے اپنی نسلوں پر فخر کرتے تھے۔ آج انہی نوجوانوں کے ہاتھ میں وہ موبائل ہے، جو نہ صرف اُن کی آنکھیں اندھی کر چکا ہے بلکہ دل بھی سیاہ کر چکا ہے۔ سوشل میڈیا وہ زہر ہے جو شہد کے برتن میں ڈال کر پوری قوم کو پلا دیا گیا ہے، اور سب اس زہر میں نشہ ڈھونڈ رہے ہیں۔

یہ جو انسٹاگرام پر نیم عریاں تصویریں، ٹک ٹاک پر فحش حرکات، اور یوٹیوب پر جھوٹے ولایتی ولاؤگ ہیں، یہ سب نئی نسل کے دماغ میں گند بھرتے جا رہے ہیں۔ اب ماں باپ بچوں کو درسِ قرآن نہیں دیتے، بچے خود فون ہاتھ میں لیے ہوئے “موٹیویشنل اسپیکر” سے سیکھ رہے ہیں کہ زندگی صرف پیسہ، گاڑی، جسم، شہرت اور ’لائف اسٹائل‘ ہے۔ اور یہ سب فالوورز سے ملتا ہے، کردار سے نہیں۔

ٹویٹر پر ایک جھوٹی ویڈیو وائرل ہو جائے تو سچ دب جاتا ہے۔ فیس بک پر ایک ادھ ننگی تصویر ہزاروں لائکس لے لیتی ہے اور کسی طالب علم کی محنت بھری پوسٹ زیرو پر رہتی ہے۔ یہ معاشرہ ایک ایسی ڈھلوان پر ہے جہاں ہر کوئی پھسل رہا ہے، اور جو نہیں پھسل رہا، اُسے دیوانہ سمجھا جا رہا ہے۔

نوجوان اب کتاب نہیں پڑھتے، فتنے پڑھتے ہیں۔ کوئی فتنہ “جینڈر فریڈم” کے نام پر دین کا مذاق اڑا رہا ہے، تو کوئی “اوپن مائنڈڈنیس” کے بہانے حیا کا جنازہ نکال رہا ہے۔ جن بچوں کے ہاتھ میں تسبیح ہونی چاہیے تھی، اُن کے ہاتھ میں فون ہے، اور وہ گانے کی بیٹ پر ناچنے والوں کو فالو کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا نے صرف وقت نہیں مارا، نسل کی جڑیں کاٹ دی ہیں۔ اب ماں باپ کی بات بچے نہیں مانتے، انفلوئنسر کی مانتے ہیں۔ دین کی بات پر قہقہہ لگتا ہے، مگر فحاشی پر تالیاں بجتی ہیں۔ نوجوان راتوں کو چپکے چپکے فون کی اسکرین پر “لائکس” گن رہے ہوتے ہیں اور فجر کی اذان بھی اُن کے کانوں تک نہیں پہنچتی۔

اب جس لڑکی نے حیا چھوڑ دی، وہ ماڈل بن گئی۔ جس لڑکے نے زبان میں زہر بھرا، وہ یوٹیوبر بن گیا۔ جس نے والدین کی عزت کو پاؤں تلے روندا، وہ موٹیویشنل اسپیکر بن گیا۔ اور جو سچ بولے، حق کی بات کرے، وہ ‘منفی سوچ’ کہلاتا ہے۔

اور یہ سب کچھ صرف ایک آلہ کر رہا ہے — موبائل فون — جو اب شیطانی آلہ بن چکا ہے۔ اس میں وہ فتنے ہیں جو ایک پوری قوم کو جھوٹی دنیا میں قید کر رہے ہیں۔ اب تمہاری اولاد تمہارے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھاتی، وہ انسٹاگرام پر ’ڈنر پوسٹ‘ ڈال رہی ہوتی ہے۔ اب دو نوجوان دوستوں کی دوستی کی بنیاد خلوص نہیں، اسٹوری ویو ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس نسل کو بچانے کے لیے کون اٹھے گا؟ کیا ہم یوں ہی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر دیکھتے رہیں گے؟ کیا کسی مولوی، کسی استاد، کسی ماں، کسی باپ میں یہ ہمت نہیں کہ وہ اس آگ کے سامنے دیوار بن جائے؟

یاد رکھو، دشمن نے ہمیں توپ سے، ٹینک سے، یا بم سے شکست نہیں دی۔ اُس نے ہمیں صرف ایک فون دیا، اور ہم نے خود اپنے گھروں میں، اپنے بچوں کے ہاتھوں میں، وہ بارود رکھ دیا۔ اب بھی وقت ہے — اگر نہ جاگے، تو اگلی نسل صرف گانا گائے گی، ناچے گی، اور پھر تاریخ میں ایک اور “ختم شدہ قوم” کہلائے گی۔

اور وہ دن دور نہیں، جب ہماری مائیں بھی اپنی بیٹیوں کو یہ کہیں گی کہ اگر تمہاری پوسٹ پر 500 لائکس نہیں آئے تو تم ناکام ہو۔ جب باپ اپنے بیٹے سے فخر سے کہے گا: “بیٹا، کل تمہارے ویڈیو پر 10 ہزار ویوز آئے تھے، اب سیاست میں بھی آ جاؤ۔”

یہ المیہ نہیں، ہلاکت ہے۔ سوشل میڈیا پر اگر آپ کا خدا فالوورز ہے، تو آپ کی نسلوں کا مستقبل جہنم ہے۔ اور اگر اب بھی نہ جاگے، تو کفن پہنے بغیر قبروں میں دفن ہو چکے ہو۔

Comments are closed.