تحریر: لیاقت علی
کبھی لاہور کے “شاہنور” اور “باری” اسٹوڈیوز میں فلموں کے سیٹ آباد تھے، روشنیوں کی چمک، کیمرے کی چکا چوند، اور گنڈاسے کی چھنکار سنائی دیتی تھی۔ باہر ہجوم کھڑا ہوتا، اندر ولن کی دھلائی چل رہی ہوتی، اور اسکرین پر ایک ہیرو عوامی زبان میں سچ بول رہا ہوتا۔ یہ وہ دور تھا جب پنجابی سینما صرف فلم نہیں بناتا تھا، تحریک چلاتا تھا۔ مگر پھر… سب کچھ بدل گیا۔
پنجابی سینما کا زوال ایک کہانی نہیں، ایک المیہ ہے۔ یہ زوال صرف فلموں کا نہیں، یہ ثقافت، شناخت، اور مزاحمت کی موت ہے۔ وہ سینما جو کبھی عام آدمی کی زبان بولتا تھا، وہ زبان جو دہقان، مزدور، کسان، اور کمزور کی آواز تھی — وہ آہستہ آہستہ دبتی چلی گئی۔
سلطان راہی، مصطفی قریشی، انجمن، عالیہ، اقبال حسن، نغمہ — یہ صرف نام نہیں تھے، یہ پنجابی سینما کے وہ ستون تھے جنہوں نے اس صنعت کو عوام سے جوڑا۔ مولا جٹ، وحشی جٹ، چن وریام، شریف بادشاہ — یہ صرف فلمیں نہیں، یہ عوامی مزاحمت کی تصویریں تھیں۔ ان فلموں میں جو خون تھا، وہ مصنوعی نہیں تھا۔ وہ اس غصے کا خون تھا جو غریب کے سینے میں اُبلتا ہے جب اسے بار بار انصاف سے محروم کیا جاتا ہے۔
پھر نائنٹیز آئے۔ ایک طرف سلطان راہی کی شہادت، اور دوسری طرف بھارتی چینلز کا حملہ۔ کراچی کی گلیوں میں ہندی فلموں کی کیسٹیں بکنے لگیں، لاہور کے سینما بند ہونے لگے، اور عوام کا دھیان جگمگاتی بولی وڈ کی طرف چلا گیا۔
پنجابی سینما کو نئی نسل نے جاہلوں کا کلچر کہنا شروع کر دیا۔ گنڈاسہ کلچر کو طنز بنایا گیا، حالانکہ وہی گنڈاسہ ظلم کے خلاف مزاحمت کی علامت تھا۔
پھر بدترین دور آیا جب سستی، فحش، اور بیہودہ فلموں نے پنجابی فلم انڈسٹری کا جنازہ نکال دیا۔ اچھے رائٹرز چھوڑ گئے، فنکار مایوس ہو کر ٹی وی پر چلے گئے، اور جو بچ گئے، وہ دھند میں کھو گئے۔ لاہور کے سینما گھروں میں یا تو تالے لگ گئے، یا ویرانی چھا گئی۔
دراصل، پنجابی سینما کا زوال فنکاروں سے زیادہ معاشرے کی سوچ کا زوال تھا۔
ہم نے جو اپنی مٹی کی زبان تھی، اُسے شرمندگی بنا دیا۔ جو اپنی ثقافت تھی، اُسے “گنوار” کہہ دیا۔ ہم نے ان فلموں کا مذاق اُڑایا جو ہماری روح سے نکلی تھیں، اور اُن فلموں کو اپنایا جن میں ہمارا کوئی عکس نہیں تھا۔
آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ پنجابی سینما دوبارہ زندہ ہو — تو ہمیں دوبارہ وہی سچ بولنا ہوگا، وہی زبان اپنانی ہوگی، وہی مٹی کو چومنا ہوگا جسے ہم نے چھوڑ دیا۔
“دی لیجنڈ آف مولا جٹ” جیسی فلموں نے ثابت کیا ہے کہ اگر آپ اخلاص، معیار، اور جڑوں سے جڑا جذبہ لے کر آئیں، تو پنجابی سینما نہ صرف واپس آ سکتا ہے، بلکہ پوری دنیا کو ہلا سکتا ہے۔
لیکن یاد رکھو — صرف ایک فلم کافی نہیں۔ ایک انقلاب ایک کردار سے نہیں، سوچ کی تبدیلی سے آتا ہے۔ سلطان راہی دوبارہ پیدا ہو سکتا ہے، اگر ہم اُس جیسا حوصلہ دوبارہ پالیں۔
پنجابی سینما کا زوال ہمارے فیصلوں کا نتیجہ تھا، اور اس کا احیاء بھی ہمارے فیصلوں سے ہی ممکن ہے۔
آؤ اس زوال کو مات دیں۔ پھر سے گنڈاسہ اُٹھائیں — مگر اس بار کیمرے کے پیچھے، قلم کی نوک پر، اور سچائی کی زبان میں۔
کیونکہ پنجابی سینما صرف تفریح نہیں تھا، وہ مزاحمت کا گیت تھا۔ اور گیت کبھی مرتے نہیں — صرف دب جاتے ہیں۔
Comments are closed.