طلاق اوراطلاق

KAONAIN ... MUHAMMAD Nasir Iqbal Khan

اِسلام دین فطرت اورہر انسان کیلئے کامیاب ضابطہ حیات ہے۔اِسلام نے جہاں مردوزن کے حقوق متعین کئے وہاں ان کی حدود بھی مقرر کردی ہیں،مقررہ حدود سے تجاوزکرنا محض سرکشی نہیں بلکہ ایک طرح سے خودکشی ہے۔اِسلام نے جس طرح معاشرت اورمعیشت کی سطح پر خواتین کوان کاجائز حق اورمقام دیا وہ دوسراکوئی دین نہیں دے سکتا۔قرآن مجید کی مقدس آیات سے انسانوں کوزندگی میں پیش آنیوالے مختلف واقعات، معاملات، مو ضوعات اورتنازعات بارے سیرحاصل رہنمائی ملتی ہے۔اِسلام کہتا ہے نکاح کے سلسلہ میں بیٹیوں سے ان کی پسندناپسند ضرورپوچھی جائے لہٰذاء ماں باپ ضرور پوچھیں لیکن خودتحقیق بھی کریں کیونکہ جہاں زیادہ تر انسانوں کے چار چار چہرے اوران پر نقاب بھی ہوں وہاں بھولی بھالی بیٹیاں غلطیاں کرسکتی ہیں لیکن کوئی زمانہ شناس باپ اپنی بیٹی کو جان بوجھ کرکسی کنویں میں نہیں دھکیلتا۔اگرنیک نیتی کے باوجود ماں باپ سے اپنے داماد کے انتخاب میں غلطی ہوجائے تووہ اس کی تلافی کرسکتے ہیں لیکن اگر بیٹی سے اپناشوہرمنتخب کرنے میں حماقت ہوجائے تواسے تنہا اس کاخمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔راقم کے نزدیک جوبیٹی چند ماہ کے نام نہاد پیار کیلئے ماں باپ کی اٹھارہ بیس برس کی تربیت، والہانہ محبت اورشفقت فراموش کردے وہ زندگی بھر کیلئے عفت اورعافیت سے محروم ہوجاتی ہے،اسلام کے نزدیک پسند کابیاہ پسندیدہ ہے لیکن جو محض اپنی پسنداورناپسند کی خاطر ماں باپ کی عزت رونددیں ان بیٹوں اوربیٹیوں کی زندگی بھر کوئی عزت نہیں کرتا۔یقینااس نکاح میں فلاح ہے جس میں دوافراد نہیں بلکہ دوخاندان شریک ہوں۔

اللہ تعالیٰ نے نکاح کوپسندجبکہ طلاق کو ناپسندفرمایالیکن ناپسندیدگی کے باوجودجہاں شوہرکواس کے استعمال کاحق دیا وہاں بیوی کوبھی ناگزیرصورت میں خلع حاصل کرنے کااختیاردیا ہے۔یادرکھیں تربوزچھری پرگرے یاچھری تربوز پر، جس طرح دونوں صورتوں میں تربوز نے کٹنا ہوتا ہے اس طرح ہمارے ناخواندہ اورپسماندہ معاشرے میں شوہراپنی بیوی کے ہاتھوں میں طلاق کاپروانہ تھمادے یا کسی باوفا اورباصفاعورت کو باامرمجبوری خلع کابوجھ اٹھانا پڑجائے تو ہردوصورت اس کیلئے باقی زندگی مزید دشوار اور کٹھن ہو جاتی ہے۔یادرکھیں جس کسی نے ناجائز طورپر محض اپنی” انا”کا پرچم اونچاکرنے کیلئے طلاق دی وہ یقینا”فنا”ہو گا۔جوعورت طلاق یاخلع کی صورت میں ایک آگ کے دریا سے باہرنکلتی ہے توآگ کے مزید کئی سمندر اس کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں لہٰذاء اپنے اجلے دامن پر طلاق کا داغ سجائے بیٹیوں کیلئے نیا گھر آباد کرنا ہرگز آسان نہیں ہوتا۔ہماری عدم برداشت اورانانیت نے خاندانوں کے خاندان اجاڑ دیے ہیں، معمولی وجوہات کی بنیاد پربیویوں کوطلاق دینا اللہ تعالیٰ کے غضب کودعوت دینا ہے۔” طلاق “کے ساتھ بیویوں کے گلے میں رسوائی اور بدنامی کا”طوق” ڈالنا کہاں کی انسانیت اوراخلاقیات ہے،شوہرناگزیر صورت میں اپنی بیوی کو”طلاق” دیتے وقت بھی خودپر ضابطہ اخلاق کا”اطلاق “ضرورکریں،جوخاتون عزت کے ساتھ آپ کی زندگی میں آئی تھی اوراس نے کئی برسوں تک آپ کی عزت کاپہرہ دیا اسے حق مہر سمیت دوسرے حقوق اور عزت کے ساتھ رخصت کریں۔ نکاح کے وقت شوہر کی رضامندی اور مرضی ومنشاء  کے بغیرحق مہر مقرر نہیں ہوسکتا لہٰذاء اداکرتے وقت بدمزگی پیداکرنا شوہروں کے شایان شان نہیں۔یادرکھیں کوئی عزت دار مرد بوجوہ طلاق دیتے وقت اوربعدمیں بھی اپنی سابقہ بیوی کی عزت تارتارنہیں کرتالیکن جس شوہرکااپنا دامن عزت اورحمیت سے خالی ہووہ بیوی کورسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔اگراپنے شوہر کے تشدد،گالی گلوچ اورجارحانہ رویوں سے بیزار کوئی عزت دار عورت صلح کادروازہ بند اور خلع کا راستہ کرے تواسے بھی حق مہر ضروردیں کیونکہ آپ نے اپنی بیوی کوایک بارجوتحفہ دے دیا اب وہ ہمیشہ کیلئے اس کاہے خواہ وہ آپ کے نکاح میں رہے، آپ اسے طلاق دے دیں یاوہ خودباامرمجبوری خلع کااختیار استعمال کرے۔عزت داراوروضع دار لوگ دیاہوا تحفہ واپس نہیں لیا کرتے۔ یادرکھیں جس کے پاس دین اسلام بارے مستندتعلیمات اورمعلومات نہ ہوں وہ ہرگزاسلامی موضوعات پراظہار خیال نہ کیا کرے۔
مسلمانوں کو فرض عبادات اورجہاد کے سوا بعض احکامات بارے اجتماعی اجتہاد کر نے کی اجازت ہے۔لاہورہائیکورٹ نے پچھلے دنوں ایک ججمنٹ میں خلع حاصل کرنیوالی خواتین کو بھی حق مہر کی مستحق قرار دیا ہے۔عدالت عالیہ کے جسٹس نے اسلامی تعلیمات،اخلاقیات،اپنی معلومات اور اپنے مشاہدات کی بنیاد پر قرار دیاہے کہ ” محض خلع حاصل کرنے کی بنیاد پر خاتون کو حق مہر کی رقم سے محروم نہیں کیا جا سکتا”۔ ججمنٹ کی روسے حق مہر کو عورتوں کیلئے ایک معاشی سکیورٹی تصور کیا جاتا ہے، اگر خاوند کا رویہ خاتون کو خلع کاحق استعمال پر مجبور کردے تو وہ اپنے حق مہر سے دستبردار نہیں ہوسکتی۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس راحیل کامران شیخ نے ایک شہری آصف محمود کی درخواست پر فیصلہ سنا تے اورخواتین کی محرومیوں کامداواکرتے ہوئے ان کے زخموں پرمرہم رکھ دیاہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے نزدیک طلاق دینا شوہر کا حق ہوتا ہے لیکن طلاق دینے کی صورت میں شوہر کے پاس حق مہرسمیت دوسرے تحائف کی واپسی کا تقاضا کرنے کا استحقاق نہیں رہتا۔ ججمنٹ میں قراردیاگیا کہ جوشوہراپنی بیوی کو طلاق د ے سورۃ النساء کی مقدس آیات ا سے اپنی اہلیہ کودیاہرایک تحفہ واپس مانگنے سے روکتی ہیں۔ ججمنٹ کی روسے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے تحت خاوند کی طرف سے تشددسمیت ناقابل برداشت منفی رویوں کی بنیاد پر باامرمجبوری لی گئی خلع کے بعد عدالت حق مہر کی رقم واپس نہ کرنے کا حکم صادر کر سکتی ہے۔ دوسری طرف 23اپریل 2025ء کو عدالت عظمیٰ کے ڈویژن بینچ نے اپنی حالیہ ججمنٹ میں قرادیاہے کہ دلہن کودیاگیا جہیز اورمختلف تحائف غیرمشروط طورپراس کے قبضہ میں رہیں گے اوروہ ان کی وصولی کیلئے مقدمہ دائرکرسکتی ہے،اسے ان اشیاء پربلا شرکت غیرے مالکانہ حقوق حاصل رہیں گے اوراس کے شوہرسمیت دوسرے عزیزواقارب ان پر اپنا دعویٰ نہیں کرسکتے۔بیٹیوں کو جہیز دینے کی لت ہمارے معاشرے میں سرا یت کر چکی ہے لہٰذاء ریاست جہیز کلچر کیخلاف راست اقدام کرے۔
  ہماری ایک محلے دار بیوہ خاتون کے چار بیٹوں میں سے بڑے نے اپنی ماں کی زندگی میں انہیں قیمتی زیورات کاتحفہ دیا۔ چندبرس بعد ماں فوت ہوگئی اور ان کی وراثت تقسیم کرنے کا وقت آیا تو اُس بیٹے نے ان زیورات کی واپسی کاتقاضاکیا جواس نے ماں کو بطورتحفہ د یے تھے۔دوسرے بھائیوں نے عالم دین سے رجوع کیا توانہوں نے حدیث نبوی کی روسے تحفہ دینے کی فضلیت یوں بیان فرمائی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحبہٰ وبارک وسلم کا ارشاد ہے، ”تحائف کا تبادلہ کرواس سے باہمی محبت پیدا اورقلوب کی کدورت د ور ہوگی“۔اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم کو ہدیہ دیا جاتا توآپ اسے قبول اور جواب میں بھی ہدیہ عطاء فرما تے تھے۔جس شخص کو ہدیہ دیا جائے وہ اسے قبول اور اپنے قبضہ میں کرلے تو اس کے بعد ہدیہ دینے والے کیلئے اس کی واپسی کاتقاضاکرنا جائز نہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ سرورکونین سیّدناحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ واصحبہٰ وبارک وسلم نے ارشاد فرمایا:”کسی شخص کیلئے جائز نہیں ہے کہ کسی کو کچھ عطیہ یا ہبہ کرے، پھر اسے واپس لے.”اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحبہٰ وبارک وسلم نے مذکورہ مثال تفصیل سے بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”جو عطیہ کرکے واپس لے، اس شخص کی مثل اس کتے کی سی ہے جو کوئی چیز کھاتا ہے، یہاں تک کہ جب اس کا پیٹ خوب بھر جاتا ہے تو قے کردیتا ہے پھر دوبارہ اسے چاٹتا ہے“۔
دوسری طرف کوئی اپنے ماں باپ کو تحفہ دے اس کی واپسی کی شناعت بہت زیادہ ہے کہ اس میں مقدس رشتے کی پامالی اور توہین بھی ہے،خواہ اس تحفہ کی واپسی ان کی زندگی میں ہو یا ان کی وفات کے بعد، دونوں صورتوں میں حکم یکساں ہے۔یادرکھیں دین اسلام پراستقامت برقراررکھنا بیحد آسان ہے لیکن ہم اپنی اپنی اناؤں کیلئے خطاؤں کابوجھ اٹھاتے،اپنے آپ کوالجھا تے جبکہ اپنی اوراپنوں کی زندگی دشوارکرتے چلے جاتے ہیں۔ ہم اپنی اناؤں کیلئے دوسروں کی وفاؤں، صفات،  زندگی اورعزت نفس کو روندنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔دورجاہلیت کی کچھ باقیات آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں،مٹھی بھر مرد حضرات کاعورت کوحقیریا کمتر اورخودکوبرتر سمجھناانتہائی بدتر رویہ ہے۔عورتوں کے شرعی اوربنیادی حقوق غصب،ان پرتشدد،ان کااستحصال کرنا “مردانگی” نہیں بلکہ بدترین “دیوانگی” تصور کی جائے گی۔معاشرے کاسنجیدہ اوردانا طبقہ” مَردوں ” یا”مُردوں ” کی طرف سے صنف نازک عورتوں پر ہاتھ اٹھانے کوبہادری نہیں بلکہ بدترین بزدلی سمجھتا ہے۔جس مرداورعورت نے زندگی کے کچھ سال ایک ساتھ گزارے ہوں وہ جدائی کے بعد بھی ایک دوسرے کی زندگی میں آسانیاں پیداکرسکتے ہیں۔

Comments are closed.