مثالی بندھن کے انمول اصول

Shahid Ewan

مثالی بندھن کے انمول اصول

شاہد اعوان، بلاتامل

حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں نوجوان نسل میں شادی کے بعد فوری طلاق کا رحجان خطر ناک حدوں کو چھو رہا ہے عدالتوں میں خلع کے کیسز کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نوجوان جوڑے شادی جیسے مبارک بندھن میں منسلک ہونے کے بعد سب سے ناپسندیدہ و قابلِ نفرت عمل طلاق اور خلع کی جانب کیونکر راغب ہو رہے ہیں۔ مزید افسوسناک امر یہ ہے کہ اس المیہ نے خاندانوں کو آپس میں بری طرح تقسیم کر دیا ہے۔ گھر داری کو قائم رکھنے کے لئے مرد سے زیادہ خاتونِ خانہ کا عمل دخل ہوتا ہے۔ پرانے وقتوں میں ایسے واقعات کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے اب ایسا کیوں ہے؟ ذیل میں ایک ذمہ دار خاتون خانہ کی کتھا (انٹرویو) حاضرِ خدمت ہے جس نے اپنے شوہر کے ساتھ پچاس سال کا عرصہ پرسکون طریقے سے ہنسی خوشی گزارا جو اس خطرناک ”کھیل“ کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔
خاتون سے پوچھا گیا کہ اس کی پچاس سالہ پرسکون خانگی زندگی کا راز کیا ہے؟ کیا وہ کھانا بنانے میں بہت ماہر تھیں؟ یا پھر ان کی خوبصورتی اس کا سبب ہے؟ یا ڈھیر سارے سارے بچوں کا ہونا اس کی وجہ ہے یا پھر کوئی اور بات ہے؟
بوڑھی خاتون نے جواب دیا: پرسکون شادی شدہ زندگی کا دار و مدار اللہ کی توفیق کے بعد عورت کے ہاتھ میں ہے، عورت چاہے تو اپنے گھر کو جنت بنا سکتی ہے اور وہ چاہے تو اس کے برعکس یعنی جہنم بھی بنا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں مال کا نام مت لیجیے، بہت ساری مالدار عورتیں جن کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے شوہر ان سے بھاگا بھاگا رہتا ہے۔ خوشحال شادی شدہ زندگی کا سبب اولاد بھی نہیں ہے بہت ساری عورتیں ہیں جن کے دسیوں بچے ہیں پھر بھی وہ شوہر کی محبت سے محروم ہیں بلکہ طلاق تک کی نوبت آجاتی ہے۔ بہت ساری خواتین کھانا پکانے میں ماہر ہوتی ہیں دن دن بھر کھانا بناتی رہتی ہیں لیکن پھر بھی انہیں شوہر کی بدسلوکی کی شکایت رہتی ہے۔
انٹرویو لینے والی خاتون صحافی کو بہت حیرت ہوئی، اس نے پوچھا: پھر آخر اس خوشحال زندگی کا راز کیا ہے؟
بوڑھی خاتون نے جواب دیا: جب میرا شوہر انتہائی غصے میں ہوتا ہے تو میں خاموشی کا سہارا لے لیتی ہوں لیکن اس خاموشی میں بھی احترام شامل ہوتا ہے میں افسوس کے ساتھ سر جھکا لیتی ہوں، ایسے مواقع پر بعض خواتین خاموش تو ہوجاتی ہیں لیکن اس میں تمسخر کا عنصر شامل ہوتا ہے اس سے بچنا چاہیے، سمجھدار آدمی اسے فوراً بھانپ لیتا ہے۔
نامہ نگار خاتون نے پوچھا: ایسے موقع پر آپ کمرے سے نکل کیوں نہیں جاتیں؟
بوڑھی خاتون نے جواب دیا: نہیں، ایسا کرنے سے شوہر کو یہ لگے گا کہ آپ اس سے بھاگ رہی ہیں اسے سننا بھی نہیں چاہتی ہیں، ایسے موقع پر خاموش رہنا چاہیے اور جب تک وہ پرسکون نہ ہوجائے اس کی کسی بات کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے، جب شوہر کسی حد تک پرسکون ہوجاتا ہے تو میں کہتی ہوں: پوری ہو گئی آپ کی بات؟ پھر میں کمرے سے چلی جاتی ہوں کیونکہ شوہر بول بول کر تھک چکا ہوتا ہے اور چیخنے چلانے کے بعد اب اسے تھوڑے آرام کی ضرورت ہوتی ہے میں کمرے سے نکل جاتی ہوں اور اپنے معمول کے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہوں۔
خاتون صحافی نے پوچھا: اس کے بعد آپ کیا کرتی ہیں؟ کیا آپ بول چال بند کرنے کا اسلوب اپناتی ہیں؟ ایک آدھ ہفتہ بات چیت نہیں کرتی ہیں؟
بوڑھی خاتون نے جواب دیا: نہیں! اس بری عادت سے ہمیشہ بچنا چاہیے، یہ دودھاری ہتھیار ہے، جب آپ ایک ہفتے تک شوہر سے بات چیت نہیں کریں گی ایسے وقت میں جب کہ اسے آپ کے ساتھ مصالحت کی ضرورت ہے تو وہ اس کیفیت کا عادی ہو جائے گا اور پھر یہ چیز بڑھتے بڑھتے خطرناک قسم کی نفرت کی شکل اختیار کر لے گی۔
صحافی نے پوچھا: پھر آپ کیا کرتی ہیں؟
بوڑھی خاتون بولیں: میں دو تین گھنٹے بعد شوہر کے پاس ایک گلاس جوس یا ایک کپ کافی لے کر جاتی ہوں اور محبت بھرے انداز میں کہتی ہوں: پی لیجیے! حقیقت میں شوہر کو اسی کی ضرورت ہوتی ہے، پھر میں اس سے نارمل انداز میں بات کرنے لگتی ہوں۔ وہ پوچھتا ہے: کیا میں اس سے ناراض ہوں؟ میں کہتی ہوں: نہیں۔ اس کے بعد اس کا رویہ ٹھیک ہونا شروع ہو جاتا ہے اور خوبصورت قسم کی باتیں کرنے لگتا ہے۔ مگر میں نے کبھی اپنے شوہر کو جھکانے کی کوشش نہیں کی ہمیشہ اسے سربلند ہی رکھا۔
انٹرویو لینے والی خاتون نے پوچھا: اور آپ اس کی یہ باتیں مان لیتی ہیں؟
بوڑھی خاتون بولیں: بالکل، میں کوئی اناڑی تھوڑی ہوں، مجھے اپنے آپ پر پورا بھروسہ ہوتا ہے۔ کیا آپ چاہتی ہیں کہ میرا شوہر جب غصے میں ہو تو میں اس کی ہر بات کا یقین کرلوں اور جب وہ پرسکون ہو تو تو اس کی کوئی بات نہ مانوں؟
خاتون صحافی نے پوچھا: اور آپ کی عزت نفس (عزت نفس)؟
بوڑھی خاتون بولیں: پہلی بات تو یہ کہ میری عزتِ نفس اسی وقت ہے جب میرا شوہر مجھ سے راضی ہو اور ہماری شادی شدہ زندگی پرسکون ہو، دوسری بات یہ کہ شوہر بیوی کے درمیان عزتِ نفس نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔۔۔جب مرد و عورت ایک دوسرے کے لباس ہیں تو پھر الگ سی عزتِ نفس کیسی؟؟؟
اس انٹرویو کے بعد میرے انتہائی قریبی عزیز اور خوش قسمت جوڑے کی کہانی سنئے: ملک محمد بشیر پاک نیوی میں ملازمت کے بعد اب ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں ان کی شریک حیات میری خالہ زاد بہن ہیں جن کی دنیاوی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے، جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں مگر ان کو نبھانے کے لئے خواتین کا عمل دخل نسبتاٌ زیادہ ہوتا ہے۔ برادرم ملک بشیر نے دورانِ سروس اہل خانہ کو گاؤں سے تلہ گنگ لا کر بسایا اللہ نے اس جوڑے کو تین بیٹوں عاصم بشیر، عاقل بشیر اور عاطف بشیر جبکہ دو صاحبزادیوں سے نوازا بچوں کی تعلیم و تربیت ماں نے بخوبی نبھائی۔ بعد ازاں ملک محمد بشیر کو سعودی عرب میں شپ کی ملازمت مل گئی اِدھر گھر میں اہل خانہ کی دیکھ بھال کے لئے ان کے والد صاحب گاؤں سے تلہ گنگ شفٹ ہو گئے اور یوں زندگی کا سفر آگے بڑھتا چلا گیا۔ آج دونوں میاں بیوی کے درمیان ذہنی ہم آہنگی بے مثال ہے ہمارے خاندان میں اس گھرانے کی مثالیں دی جاتی ہیں ملک بشیر اور ان کی بیگم کے درمیان 50سالہ ازدواجی زندگی میں توتکار کی نوبت کبھی نہیں آئی باہمی رشتے میں توازن کے ساتھ ساتھ دونوں نے ایک دوسرے کے والدین و بہن بھائیوں کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی یہی وجہ ہے کہ آج دونوں ایک دوسرے کے اشارے سمجھ کر بہترین خوشحال ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس خوش قسمت جوڑے کو ناصرف اپنے خاندان بلکہ دیگر لوگوں کے لئے ایک اعلیٰ مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ دعا ہے میرے دونوں بہن بھائی صحت و سلامتی والی زندگی گزاریں اور نوجوان بچے بچیوں کے لئے مثال بنے رہیں۔

Comments are closed.