اللہ کے گھروں پر ہاتھ نہ ڈالو

تحریر: چوہدری لیاقت علی

Liaqat Mangatپاکستان کے آئین اور اسلامی تشخص میں مسجد کی اہمیت ایک بنیادی ستون کی مانند ہے۔ یہ صرف ایک عمارت نہیں، بلکہ ایمان، عبادت اور اجتماعی وحدت کا مرکز ہے۔ مسلمان جب بھی مسجد میں داخل ہوتا ہے تو اسے اللہ کی قربت کا احساس ہوتا ہے، دل میں سکون اترتا ہے اور روح کو قرار ملتا ہے۔ لیکن افسوس کہ حالیہ دنوں میں اسلام آباد میں مساجد کو مسمار کرنے کا سلسلہ نہ صرف مذہبی حلقوں کو ہلا دینے والا ہے بلکہ ہر اس شخص کو پریشان کر رہا ہے جس کے دل میں اسلام اور اس کے شعائر کی حرمت کا احترام موجود ہے۔

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک ایسے ملک میں، جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا، وہاں عبادت گاہوں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ اگر کسی مسجد کی تعمیر میں قانونی سقم تھا تو بھی اسے گرانے کے بجائے اصلاح کا راستہ اختیار کیا جا سکتا تھا۔ مسجد کو گرانا صرف اینٹ اور پتھر توڑنا نہیں بلکہ یہ لاکھوں مسلمانوں کے دلوں کو چیرنے کے مترادف ہے۔ اس عمل سے نہ صرف عوام میں غم و غصہ بڑھتا ہے بلکہ ریاست اور شہریوں کے درمیان اعتماد کی فضا بھی مجروح ہوتی ہے۔

ہماری تاریخ گواہ ہے کہ مسجد کا تحفظ ہمیشہ سے مسلمانوں کے ایمان کا حصہ رہا ہے۔ رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں مسجد نبوی کی تعمیر اور اس کی توسیع محض ضرورت کے تحت ہوئی، اور ہر دور میں حکمرانوں نے مسجد کی حرمت کو قائم رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تہذیب میں مسجد کو ایک مرکزیت حاصل رہی، جہاں سے نہ صرف دینی تعلیم دی جاتی بلکہ معاشرتی مسائل پر بھی رہنمائی کی جاتی۔ آج اگر حکومت اسی مرکزیت کو توڑنے پر تلی ہوئی ہے تو یہ قدم معاشرتی انتشار کو جنم دے گا، جس کے نتائج کا اندازہ شاید ابھی ممکن نہ ہو۔

یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ ایک مسجد کی تعمیر عوامی چندے، محنت اور قربانیوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ لوگ اپنے خون پسینے کی کمائی سے اس کے لیے چندہ دیتے ہیں، مزدور اپنی مزدوری کم کر کے اس کارِ خیر میں حصہ ڈالتے ہیں، اور بزرگ اپنی دعاؤں سے اس کے قیام میں برکت ڈالتے ہیں۔ ایسے میں کسی سرکاری مشینری کا آ کر ایک دن میں اسے ملبے کا ڈھیر بنا دینا ایک ایسی بے حسی ہے جو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔

اگر حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ کچھ مساجد غیر قانونی زمین پر بنی ہیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تعمیر کے وقت متعلقہ ادارے کہاں تھے؟ کیوں اجازت دی گئی؟ کیوں برسوں تک خاموشی اختیار کی گئی؟ اور جب مسجد ایک روحانی و سماجی مرکز بن گئی تو اچانک اسے گرانے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟ یہ رویہ انصاف کے تقاضوں کے بالکل منافی ہے اور یہ تاثر دیتا ہے کہ جیسے کسی خاص ایجنڈے کے تحت مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے اس معاملے کو ٹھنڈے دل و دماغ سے حل کریں۔ اگر واقعی کسی مسجد کی تعمیر میں قانونی مسئلہ ہے تو علماء کرام، کمیونٹی رہنماؤں اور مقامی آبادی کے ساتھ بیٹھ کر متفقہ حل نکالا جائے۔ ایسا حل جس میں نہ قانون کی خلاف ورزی ہو اور نہ عوام کے مذہبی جذبات مجروح ہوں۔ اسلام ہمیں صلح، مشاورت اور نرمی کا درس دیتا ہے، اور یہی طریقہ ایک اسلامی ریاست کے شایانِ شان ہے۔

آخر میں یہ کہنا لازم ہے کہ مسجد صرف عبادت کی جگہ نہیں بلکہ یہ ایک ایسی علامت ہے جو مسلمانوں کو ان کی اصل سے جوڑتی ہے۔ اسے گرانا صرف ایک عمارت کا خاتمہ نہیں بلکہ ایک نظریے اور عقیدے پر حملہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات سے اجتناب کرے جو ملک میں بے چینی اور انتشار پیدا کریں، اور عوام کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے ہر ممکن کوشش کرے کہ مساجد کی حرمت برقرار رہے۔ بصورت دیگر یہ زخم نہ صرف گہرا ہوگا بلکہ برسوں تک مندمل نہیں ہو سکے گا۔

Comments are closed.