وزارت توانائی، لونڈوں، لپاڈوں کے حوالے، نتائج عوام بھگتیں

محاسبہ
ناصر جمال

وقت سے پوچھ رہا ہے کوئی
زخم ! کیا واقعی بھر جاتے ہیں

ججز کے لئے، 36 کروڑ کے بلاسودی قرضے جاری کرنے اور عوام کی کمر پر مزید بجلی مہنگی کرنے کا حکم جاری ہوا ہے۔ ایک بات طے ہوچکی ہے۔ یہ ملک، سیاستدانوں، جرنیلوں، بیورو کریٹس، ججز اور سرمایہ داروں کے لئے، بنا ہے۔ یہاں عوام کے لئے، صرف عذاب اور سزا ہے۔
پرویز مشرف آئے، کہا کہ عوام، ساڑھے تین سال صبر کرے۔ آج اس بات کو بھی 24 سال گزر چکے ہیں۔ جو آتا ہے۔ قوم سے قربانی طلب کرتاہے۔ 1947ء میں ڈالر دو روپے کا تھا۔ بھٹو گئے تو ڈالر پانچ روپے، ضیاء الحق 8 روپے تھا۔ پھر جمہوریت نے ڈالر کے درجات بلند کرنا شروع کئے۔بے نظیر 15 روپے، نواز شریف 25 روپے،پھر بے نظیر اسے 35 ، جبکہ نواز شریف 60 روپے پر چھوڑ گئے۔ پرویز مشرف نے اسے 60 روپے پر رکھا۔ پر آصف زرداری 90 نواز شریف 120 عمران خان 180 اور صرف 16 مہینے میں شہباز شریف، زرداری، مولانا فضل الرحمٰن جیسے تجربہ کار اسے، 290 سے اوپر لے گئے۔ اب کاکڑ، سرکار میں ڈالر 335 روپے چھو کر نیچے آرہا ہے۔
اسٹاک ایکسچینج والی واردات ہے۔ وہاں عقیل کریم ڈھیڈی، عارف حبیب، خادم علی شاہ، زبیر موتی والا سمیت ایک دو اور بروکرز ہیں۔ جن کے اشارے پر، اسٹاک مارکیٹ ناچتی، روتی اور گاتی ہے۔
فاریکس میں بھی، وہی واردات ہے۔ جب اشارہ ہوتا ہے۔ ڈالر اوپر جاتا ہے۔ جب ابرو کے اشارہ ہوتا ہے۔ ڈالر نیچے چھلانگ لگا دیتا ہے۔ پھر کہا جاتا ہے۔ یہ سب کریڈیٹ آرمی چیف کو جاتا ہے۔ چاچو پالش تو، بارہ کہو، پُل کا کریڈٹ بھی حافظ صاحب کو دینا نہیں بھولے۔
کسی دانشور نے صحیح کہا تھا کہ ’’خوشامد‘‘ جتنی بھی کی جائے۔ کم ہوتی ہے۔ یہ بندے کو بھاتی ہی بہت ہے۔
ڈالر کو 340 کی سیر کروانے کے بعد، اُس کی واپسی کسی لطیفے سے کم نہیں ہے۔ ڈائریکٹرز جب ملک بوستان کو اسکریشن پر اسکرپٹ پڑھنے کو کہتے ہیں تو باقاعدہ پریشانی شروع ہوجاتی ہے۔ ڈار صاحب کے حکم پر انھوں نے ٹی۔ وی پر آکر کہا کہ ڈالر کا اصل مقام 180 ہے۔ ایسی ہی بڑھکیں ڈار صاحب نے خود بھی بہت ماریں۔
جبکہ باخبر لوگ کہتے ہیں۔ ڈالر کو 272 پر لاکر، کمزور دل والوں سے ڈالر نکلوائے گئے۔ وہ پھر اچھے ریٹ پر بیچ دیئے گئے۔ابھی بھی دو ہی وارداتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک اوپر والی واردات، دوسری یہ کہ پہلے ڈالر کو خود ہی اوپر لے جائو۔ پھر نیچے لے آئو۔ لوگ واہ، واہ کے نعرےلگائیں۔ بعض اوقات تو اسکرپٹ دیکھ کر ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ اب تو لیگی صحافی اور ٹرولرز کے ساتھ، ساتھ لیگی لیڈر بھی ’’حافظ صاحب‘‘ کے جیسے گُن گا رہے ہیں۔اُس کے بعد تو، کوئی مزاحیہ ویڈیو دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں رہی۔
بہت سے ایشوز پر بہت کچھ لکھنے کو ہے۔ وہ پھرکسی اور وقت کے لئے، اٹھا رکھتے ہیں۔ چلیں فی الحال، توانائی سیکٹر پر بات کرلیتے ہیں۔ بجلی، گیس، تیل و گیس کے پیداواری شعبے، ایل۔ این۔ جی اورایل۔ پی۔ جی پر بات کرتےہیں۔

قارئین

یقین کیجئے !!! پاور اور پٹرولیم سیکٹر، میں پاکستان کی تاریخ کی سب سے نالائق ٹیم بیٹھی ہے۔ ماسوائے، ایک دو، دانوں کو چھوڑ کر، سب خلیفے بیٹھے ہیں۔ یہ اصل مرض کی بجائے، مریض کی علامات کا علاج کررہے ہیں۔
21 ویں صدی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں، لوگوں سے ہر چیز چھپا کر ڈنگ ٹپائو، پالیسی کے تحت کام ہورہا ہے۔ یہ سب کچھ 1988ء سے ہورہا ہے۔
کہتے ہیں۔ ہماری پیداواری صلاحیت تیس ہزار سے بہت زیادہ ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ ہائیڈل، نیوکلیئر، سولر، ونڈ اور تھرمل کی فی یونٹ پیداواری لاگت بتائی جائے۔ جبکہ تھرمل، میں گیس پر چلنے والے پلانٹس کی الگ،الگ، فرنس، ڈیزل اور کوئلے پر چلنے والے پلانٹس کی بھی ہر پلانٹ کی فی یونٹ پیداواری لاگت بتائی جائے۔
ان کی ٹرانسمیشن کی کاسٹ اور ڈسٹری بیوشن کاسٹ الگ سے بتائی جائے۔ اُس کے بعد، نیپرا کا بینچ مارک، اوگرا کے بینچ کی طرح بین الاقوامی معیار پر کیوں نہیں ہے۔ لائن لاسز اور چوری کو الگ، الگ کیوں نہیں کیا جاتا۔ تھرمل کے ہر پلانٹ کا ہیٹنگ آڈٹ کون نہیں ہونے دیتا۔ یہ کوششیں بیس سال سے ہورہی ہیں۔ ’’مافیا‘‘ اتنا طاقتور ہے کہ وہ نہیں ہونے دیتا۔ جیسے، رینجرز کے پانی، ریتی، بجری، ماہی گیری کے مافیا پر، کراچی اور ساحلی پٹی میں کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ جیسے بلوچستان میں ایف۔ سی کے حوالے سے، ڈیزل اور دوسری سمگلنگ کے الزامات سب زباد زد عام ہے۔ ہے کسی میں ہمت ان کی نشاندہی کرے اور ہاتھ ڈالے۔ جیسے اپٹما، زیرو ریٹڈ انڈسٹری مافیا، اپنے لوگوں کی تنخواہیں جو کھربوں میں ہے۔ قومی خزانے سے وصول کرتا ہے۔
آج نومولود، وزیرتوانائی کہہ رہے تھے کہ سردیوں میں بجلی کی کھپت کم ہوتی ہے۔ بجلی سستی ہوجائے گی۔ بل کم آئے گا۔
حضور!!! کسی سے پوچھ ہی لیتے، سسٹم میں سے سردیوں میں، ونڈ، سولر، ہائیڈل جب نکلتی ہے تو اس پر تھرمل کی پیداوار بڑھانا پڑتی ہے۔ قوم کو اس کا بریک۔اپ۔ دیں۔ گیس، ڈیزل، فرنس اور کول پرکتنی بجلی بناناپڑتی ہے۔ بتائیں۔ امپورٹیڈ ایل۔ این۔ جی اور مقامی قدرتی گیس پر فی یونٹ کیا کاسٹ آتی ہے۔ اس پر کتنی بجلی بنتی ہے۔ 747 کوٹ ادو کی ٹربائنز جل جانے کے بعد، 747 میگاواٹ تو ویسے ہی سسٹم میں نہیں ہے۔ قوم کو بتائیں۔ ڈیزل اور فرنس پر فی یونٹ کیا کاسٹ آتی ہے۔ قوم کو یہ بھی تو بتائیں کہ ماضی، سیف، سفائر، ہالمور، اورینٹ، روش اور کیپکو میں کیا، کیا، گُل کھلائے گئے۔ کیسے گیس کی بجائے، انھیں متبادل فیول ڈیزل پر چلایا گیا۔ کس پلانٹ نے گیس، صنعتوں کو دینے کی سمری، ای۔ سی۔ سی سے منظور کروا کر، پلانٹ بند کروایا اور پھر سوا، دو ارب کا کپیسٹی پے منٹ کا بل، وزارت کو بھجوایا اور ایک وفاقی وزیر خاندانی کاروبار کے لئے مبینہ طور پر گیس بھی لے اڑے۔ آج فیصل واڈا ، عظیم مبلغ بنا بیٹھا ہے۔ مہمنڈ ڈیم کنٹریکٹ میں، کیا، کیا گُل کھلائے گئے۔ ان کے لچھنوں میں اُن کے پارٹنر، وزیر کو کیسے کنٹریکٹ سے نوازا گیا۔ آپ کس احتساب کی بات کررہے۔ حضور، لاٹھی، اپنی چارپائی کے نیچے بھی تو چلائیں۔
ہمارا وفاقی وزیر توانائی اور اس کے دونوں فنکار سیکرٹری، قوم کو کیوں نہیں تیل اور گیس کی تلاش اور پیداواری شعبے کی تباہی، 2009 میں ایل۔ این۔ جی کے بے۔بی۔کے تصور کے بعد شروع ہوگئی تھی۔ ڈاکٹر عاصم حسین، (ن) لیگ اور تحریک انصاف سے حمام میں ننگی کھڑی ہے۔
اقبال زیڈ۔ احمد کے حوالے سے، ہے کسی کی ہمت کچھ لکھے۔ جے۔ جے۔ وی۔ ایل ، ایل۔ این۔ جی ٹرمینل ٹو میں کیا ہوا۔ اقیال زیڈ احمد نے لندن کی بین الاقوامی ثالثی عدالت میں کیا کھویا، کیا پایا ہے۔ کوئی ہے، جو اس پر بھی فیکٹ پیپر۔ طلب کرے۔ جنرل علی قلی خان، انقلابی بنے ہوئے ہیں۔ کوئی عمر ایوب ار اُن سے پوچھ سکتا ہے۔ 2018-19 کی سردیوں میں، قوم کی ہڈیوں سے ایل۔ این۔ جی اور اس کے پیداواری بجلی کے پلانٹس ہونے کے باوجود فرنس پر بجلی پیدا کرکے چالیس ارب سے زائد نکالے گئے۔ عرفان علی سیکرٹری سے کوئی پوچھ سکتا ہے۔ ان لوگوں نے ڈیزل اور فرنس پر کیوں بجلی بنوائی۔ اور قوم کو یہ کہتے رہے کہ فرنس ایل این جی سے سستا ہوتا ہے
کون تھا جس نے ایل۔ این۔ جی ٹرمینل ٹو ، کو حکومت کو ٹیک اوور نہیں کرنے دیا۔ اینگرو ایل۔ این۔ جی۔ ٹرمینل کا انٹرنل، ریٹ آف ریٹرن تو چیک کروائیں۔ 50 فیصد سے اوپر ہے۔
پاکستان سے تیل، گیس کی پیدواری شعبے کو جان بوجھ کر تباہ و برباد کرکے ایل۔ این۔ جی کی امپورٹ کا جواز پیدا کیا گیا۔ قطر سے ڈیل، میں کسی بھی عظیم رہنما نے کچھ نہیں لیا۔ سب گڑ بڑ عوام نے کی ہے۔
سینکڑوں چلتے ہوئے، تیل گیس کے کنوئیں بند کر دیئے گئے۔ ورک اوور کا کام کروانے ہی نہیں دیا گیا۔ کئی ویل دس دس سال سے کیپ پر پڑے ہیں۔ ایک منٹ میں جاری ہونے والے ویل کمنسمنٹ نوٹس، نو، نو، ماہ جاری نہیں ہونے دیئے گئے۔ کون ہے جس نے تیل، گیس، بجلی کی کمپنیوں میں سالہا ، سال ، مستقل ایم۔ ڈی نہیں لگنے دیئے۔ اور پھر جو لائے، وہ تباہ کن تھے۔ نگران ایم۔ ڈی کیسے بلیک میل ہوتے۔ آج بھی ملک کی سب سے بڑی کمپنی او۔ جی۔ ڈی۔ سی ایل۔ کا کتنے سال سے مستقل ایم۔ ڈی کیوں نہیں ہے۔ انرجی سیکٹر کمپنیوں اور ڈسکوز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز اٹھا کر دیکھ لیں۔ آپ سر پیٹ لیں گے۔
اس میں شمشاد اختر کا سب سے تباہ کن کردار ہے۔ ہے کوئی جو جا کر سپہ سالار کو بتائے کہ ان کی اور ان کے بہنوئی خالد رحمٰن کی کیا کارکردگی ہے۔ محترمہ یو۔ ایف۔ جی کی مد میں پانچ سو ارب سے زائد کا نقصان صرف سوئی سدرن میں کروا چکی ہیں۔ سو ارب تو صرف گذشتہ مالی سال کا ہے۔
تمام بورڈز پروفیشنل نہیں، سیاسی ہیں۔ جہاں سیاستدانوں اور سیٹھوں کے مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے۔
بجلی اور گیس چوری کے یہ بھی بہت بڑے اڈے ہیں۔ ان کے دبائو پر افسران، پرکشش پوسٹنگ لیتے ہیں۔ جو، ان کی بات نہیں مانتے۔ انھیں ، ڈی۔ ایم۔ ڈی ہونے کے باوجود، سالہا سال مقررہ مراعات تک نہیں ملتیں۔وہ ایسے ہی ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ تباہی، ایسے ہی تو نہیں ہے۔ آپ طاقتور لوگوں کو بجلی، گیس اور سبسڈی بند کروا کر دکھا دیں۔ اپٹما جو کپڑا بناتی ہے۔ اس کا 85 فیصد کپڑا تو ایکسپورٹ ہوتا ہی نہیں۔ پہلے، سبسڈی لیتی تھی۔ اب پچاس فیصد مقامی گیس اور پچاس فیصد ایل۔ این۔ جی گن پوائنٹ پر لیتے ہیں۔ پوچھیں تو کہتے ہیں وارہ نہیں کھاتا۔ فاطمہ فرٹیلائزر ایل۔ این۔ جی۔ پر منافع کما سکتی ہے تو فوجی فرٹیلائزر اور دوسرے فرٹیلائزرز انتہائی ارزاں نرخوں پر گیس لینے کے باوجود کیوں خسارے میں ہیں۔ سب سیٹ ہونے مل کر انھوں نے ایسے ہی عمران خان کو بے وقوف بنایا۔ جی، بھر کے مراعات لیں۔ قومی خزانے کو صرف پانچ ارب کا فائدہ ہوا تھا۔ وزارت خزانہ کا فنانشل ایڈوائزر چلا اٹھا۔ رزاق دائود صاحب، آپ کس چیز کی سبسڈی مانگ رہے ہیں۔ جنوری، فروری 2022 کے میٹنگ منٹس نکلوائیں۔
گیس کا 27 سو ارب سرکلر ڈیٹ اس لئے بنا کہ آپ ایل۔ این۔ جی ، سردیوں میں ڈومیسٹک سیکٹر میں ڈالتے ہیں۔ اس کے ٹیرف کی ماضی میں اپرول کیوں نہیں لی گئی۔ آپ تمام (ایل۔ این۔ جی + مؒقامی قدرتی گیس) ملا کر۔ ایک ریٹ کیوں نہیں نکالتے۔ کہتے ہیں صوبے نہیں مانتے۔ جہاں اپنا مفاد ہو۔ وہاں ایک منٹ میں قانون بناتے ہیں۔ 18 ویں ترمیم نے سب کچھ تباہ کردیا ہے۔رضا ربانی اور آصف زرداری اس کے سب سے بڑے مجرم ہیں۔ثنا اللہ زہری نے قلم کار کو کہا ہمیں تو پتا نہیں تھا کہ ہم نے اپنے ہاتھ پاؤں خود کاٹ لیے ہیں۔
مقامی تیل اور گیس کی تلاش کے شعبے، کو ابھی بھی برباد کیا جارہا ہے۔ آپ کو ’’توانائی‘‘ سیکٹر میں، خوفناک آپریشن کلین۔ اپ کرنا ہوگا۔ یہاں سے، سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگوں کو گھر بھجوانا ہوگا۔ اوپر سے نیچے تک صفائی کرنا ہوگی۔ کینسر، کمپنیوں کی ٹاپ مینیجمنٹ، سےلیکر نیچے فٹرز اور لائن مینز تک پھیلا ہوا ہے۔ کلرک تو مان نہیں ہیں۔ ایس جی ایم۔ جی ایم۔ ایس ای۔ایکس این اور ایس ڈی او کا تو پوچھیں ہی مت۔ دونوں وزارتوں میں سے 95 فیصد لوگوں کو فارغ کرنا پڑے گا۔ یہاں ایک مکمل شرعات کرنا پڑے گی۔
بہت کچھ آئوٹ آف باکس کرنا پڑے گا۔ نئی پالیسیاں، اسٹیٹ گارنٹی کے ساتھ لانا ہونگی۔ ہم بھی قدرتی گیس کو ایل۔ این۔ جی بنا کر بیچ سکتے ہیں۔ آپ ایکسپلوریشن ہونے تو دیں۔ اس کے لیے مراعات دینا پڑیں گی۔ اور وہ صورتحال بنانا پڑے گی جس میں سب کی جیت ہو۔ مستعد پاور پلانٹس، سمیت گرین انرجی، رن آف ریورز ٹربائن، ہر ڈسکو کو الگ ٹریٹ کرنا ہوگا۔ کمبائن یونٹ پرائس اور کمبائن ایل۔ پی۔ ایس کو خیر آباد کہنا ہوگا۔ چوری، کمپنیوں کے لوگوں، بورڈز اور دوسرے مقامات پر بیٹھے لوگوں کی وجہ سے بھی ہورہی ہے۔
آپ ہی بتائیں۔ کیا چوری روکنا صارف کا کام ہے۔ جو افسر روکنے پر سنجیدہ کام کرے، اُسے نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ آپ ڈسکوز احتیاط کے ساتھ پرائیویٹائز کریں۔ اگر ڈسکوز، سیاسیوں اور سیٹھوں کے فرنٹ مینوں کو اونے پونے داموں دینی ہیں تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔ کے الیکٹرک کا لائسنس قطعاً رینویو نہیں ہونا چاہئے۔ حبکو سے نیا معاہدہ گناہ کبیرہ ہے۔وہ اگر ایک اور معاہدہ چاہتی ہے تو پچھلے معاہدے سے ابھی دستبردار ہو۔اسی طرح دوسرے ائی پی پیز کے ساتھ بھی سلوک کرنا پڑے گا۔2027 سے لے کر 2030 تک یہ معاہدے ختم ہونے جا رہے ہیں۔ائی پی پیز کو بھی نئی معاہدوں کی ضرورت ہے۔اگر حکومت کی نیت صاف ہو تو انہیں بیٹھنا ہی پڑے گا۔ حیدر آباد، سکھر، کوئٹہ ، پشاور، ٹرائیبل ایریاز ، میپکو اور سوئی سدرن میں بطور خاص ننگی تلوار چلانا پڑے گی۔ باقی چاروں ڈسکوز اور ایس۔ این۔ جی۔پی۔ ایل میں ہنٹر سے کام چل سکتا ہے۔
بہت سی غیر ضروری کمپنیاں ختم یا مرج کرنا پڑیں گی۔ پٹرولیم ڈائریکٹوریٹ کا بڑا آپریشن ناگزیر ہے۔ وگرنہ ہمیشہ کی طرح بچہ پیٹ میں مرے گا۔ ریفائنریز پر ہنٹر اور تلوار دونوں چلائیں۔ بائیکو کو سنجیدگی سے دیکھیں۔اس سے کھربوں روپے کی ریکوری کرے وگرنہ پی ٹی سی ایل کے 800 ملین ڈالر کی طرح اپ کے حصے میں کچھ نہیں ائے گا۔ جعلی پٹرولیم کمپنیوں ، انھیں بنا کر بیچنے والوں پر بھی تو ہاتھ ڈالیں۔ سُسر اور داماد جی چوراہے میں ننگے ہو جائیں گے۔ اور ہاں جنرل صاحب، کراچی۔ ڈی۔ ایچ۔اے کو جین پلانٹ دیکھیں۔ ہالینڈ کی کمپنی، بہت سستے میں پلانٹ مرمت کرنے اور اسے چلادینے میں ماہر ہے۔ 220 میگاواٹ اور آدھے شہر کراچی کو صاف پانی، ایک سال میں مل سکتا ہے۔ کون رکاوٹ ہے۔ وقت ملے تو کسی سے وچھ لیں۔۔۔۔
ڈی۔ ایچ۔ اے۔ کو کے۔الیکٹرک طرح نیا لائسنس دلوادیں۔ کراچی والے سکون میں آجائیں گے۔ بتانے کو بہت کچھ ہے۔ آپ کرنے والے تو بنیں۔

کرنے کو بہت کچھ تھا، مگر طے یہی پایا
ہم اہل ’’محبت‘‘ ہیں، ’’محبت‘‘ ہی کریں گے

Comments are closed.