پاک افغان مذاکرات ناکام ، دہشتگردوں کیخلاف بھرپور کارروائی جاری رہے گی ، عطا اللہ تارڑ

پاک افغان مذاکرات ناکام ، دہشتگردوں کیخلاف بھرپور کارروائی جاری رہے گی ، عطا اللہ تارڑ

اسلام آباد

شمشاد  مانگٹ

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ استنبول میں اسلام آباد اور کابل کے درمیان حالیہ مذاکرات کسی عملی حل تک نہیں پہنچ سکے، پاکستان اپنے شہریوں کو دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات جاری رکھے گا۔

پاک افغان سرحد پر روزوں سے جاری جھڑپوں اور اسلام آباد کی جانب سے افغانستان میں گل بہادر گروپ کے ٹھکانوں پر حملوں کے بعد دونوں ممالک دوحہ میں مذاکرات کے لیے اکٹھے ہوئے تھے جس کے نتیجے میں عارضی جنگ بندی عمل میں آئی اور دیرپا امن و استحکام کے لیے استنبول میں دوبارہ ملاقات کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ گزشتہ ہفتے دونوں فریقین کے درمیان ترکی کے دارالحکومت میں مذاکرات کے دوسرے دور کا آغاز ہوا تھا۔

وزیر اطلاعات نے بدھ کی صبح سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ پاکستان نے بھارتی حمایت یافتہ فتنہ الخوارج اور بھارتی پیروکار فتنہ الہندوستان کی جانب سے ’مسلسل سرحد پار دہشت گردی‘ کے حوالے سے افغان طالبان سے بارہا رابطہ کیا۔

فتنہ الخوارج وہ اصطلاح ہے جسے ریاست کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کے لیے استعمال کرتی ہے، جب کہ بلوچستان میں فعال گروپوں کو فتنہِ الہندوستان قرار دے کر بھارت کے مبینہ کردار کو پاکستان میں دہشت گردی اور عدم استحکام میں اجاگر کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغان طالبان کے حکمرانوں سے کئی بار کہا گیا ہے کہ وہ دوحہ معاہدے میں پاکستان اور بین الاقوامی کمیونٹی کے لیے کیے گئے اپنے تحریری وعدے پورے کریں، تاہم افغان طالبان کی حکومت کے ساتھ پاکستان کی کاوشیں رائیگاں ثابت ہوئیں، کیوں کہ انہوں نے بدستور پاکستان مخالف دہشت گردوں کی حمایت جاری رکھی۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان کا حکومتی طرزِ عمل افغان عوام کے تئیں کوئی ذمہ داری نہیں رکھتا اور وہ جنگی معیشت سے پلتے ہیں، اس لیے وہ افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے عوام کی امن و خوشحالی کے لیے خواہش، وکالت اور قربانیاں دی ہیں، اسی جذبے کے تحت پاکستان نے افغان طالبان کے ساتھ بے شمار مذاکرات کیے مگر بدقسمتی سے وہ ہمیشہ پاکستان کے نقصانات سے لاپرواہ رہے، 4 سال میں اتنے بڑے جانی و مالی نقصانات کے بعد پاکستان کی برداشت ختم ہو چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ امن کو موقع دینے کی کوشش میں اور قطر و ترکی کی درخواست پر پاکستان نے پہلے دوحہ اور پھر استنبول میں افغان طالبان کے ساتھ ایک نقطہ کی ایجنڈا پر بات چیت کی، یعنی افغان طالبان سے یہ درخواست کہ وہ افغان سر زمین کو دہشت گرد تنظیموں کے لیے ’ٹریننگ و لاجسٹکس بیس اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے جَمپ آف پوائنٹ‘ کے طور پر استعمال ہونے سے روکیں۔

انہوں نے اس مذاکرات کی سہولت فراہم کرنے پر قطر اور ترکی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ انہوں نے کابل کو قائل کرنے کی جو کوششیں کیں کہ وہ ’پاکستان کے خلاف دہشت گرد غلاموں کے استعمال سے باز رہیں‘ مگر پڑوسی ملک بارہا اس بنیادی مسئلے سے منحرف ہوتا رہا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ گزشتہ 4 روز مذاکرات میں افغان طالبان کے وفد نے پاکستان کے معقول و جائز مطالبے (قابلِ اعتبار اور فیصلہ کن کارروائی) سے کئی بار اتفاق کیا، پاکستان کی طرف سے کافی اور ناقابلِ تردید شواہد فراہم کیے گئے جو افغان طالبان اور میزبانوں نے تسلیم کیے، مگر افسوسناک طور پر افغان فریق نے کوئی یقین دہانی نہیں کروائی۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغان فریق بنیادی مسئلے سے ہٹتا رہا اور گفتگو کے آغاز کی اصل وجہ سے رخ موڑتا رہا، کسی ذمہ داری کو قبول کرنے کے بجائے افغان طالبان نے الزام تراشی، توجہ ہٹانے اور بہانے بازی کا سہارا لیا، لہٰذا مذاکرات کسی قابلِ عمل حل تک پہنچنے میں ناکام رہے۔

وزیر اطلاعات نے ایک بار پھر قطر، ترکی اور دیگر دوست ممالک کا شکریہ ادا کیا، جنہوں نے دہشت گردی کے مسئلے کا پرامن حل تلاش کرنے کی کوششیں کیں تاکہ دونوں ممالک اور خطے کی سلامتی و خوشحالی ممکن ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ اپنے عوام کی حفاظت پاکستان کے لیے ہر چیز سے مقدم ہے، ہم اپنے عوام کو دہشت گردی کے عفریت سے بچانے کے لیے تمام ضروری اقدامات جاری رکھیں گے اور عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت دہشت گردوں، ان کے ٹھکانوں، سہولت کاروں اور حامیوں کو ختم کرنے کے لیے درکار تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔

تازہ ترین ناکامی کے باوجود ترک اور قطری حکام نے اس عمل کو زندہ رکھنے کے لیے شدت سے کام کیا اور دونوں فریقین کو خبردار کیا کہ مذاکرات کا ناکام ہونا سرحدی کشیدگی کے نئے دور کو جنم دے سکتا ہے۔

پاکستانی حکام نے اپنی طویل المدتی پوزیشن دہرائی کہ افغان سر زمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے استعمال سے محفوظ رہنے کی قابل توثیق ضمانتوں کے بغیر کوئی معاہدہ قابلِ قبول نہیں ہوگا۔

ایک سینئر سیکیورٹی ذرائع نے کہا کہ ہماری پوزیشن مستقل یہی رہی ہے کہ ٹھوس ضمانتوں کے بغیر کوئی معاہدہ ناممکن ہے۔

Comments are closed.