قیمتوں کی ڈی ریگولیشن پالیسی ،ادویات 32 فیصد مہنگی

قیمتوں کی ڈی ریگولیشن پالیسی کے نتیجے میں ادویات 32 فیصد مہنگی ہوگئیں

اسلام آباد

شمشاد مانگٹ

حکومت کی جانب سے ادویات کی قیمتوں کی ڈی ریگولیشن پالیسی نافذ کیے جانے کے بعد ملک بھر میں متعدد عام استعمال کی ادویات کی قیمتوں میں اوسطاً 32 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جس سے عام شہریوں کے علاج معالجے کے اخراجات میں نمایاں اضافہ ہو گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق پالیسی کے تحت متعدد نان لائف سیونگ (غیر زندگی بچانے والی) ادویات کو ریگولیٹڈ لسٹ سے نکال دیا گیا، جس کے بعد فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو مارکیٹ کے مطابق قیمتیں طے کرنے کی آزادی مل گئی۔

اس فیصلے کے بعد بلڈ پریشر، شوگر، انفیکشن، وٹامن سپلیمنٹس اور عام دردکش ادویات کی قیمتوں میں 20 سے 45 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا ہے، جبکہ کچھ درآمدی برانڈز کی قیمتیں اس سے بھی زیادہ بڑھی ہیں۔

فارما انڈسٹری کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ قیمتوں میں اضافہ ڈالر کے ریٹ، درآمدی خام مال، اور پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے ناگزیر تھا۔ ان کے مطابق حکومت کی پالیسی نے صنعت کو استحکام دیا ہے اور ادویات کی دستیابی بہتر ہوگی۔

تاہم صارفین اور ماہرین صحت نے اس اقدام کو عام آدمی کے لیے ایک بڑا بوجھ قرار دیا ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (PMA) کے مطابق ادویات کی قیمتوں کو مکمل طور پر مارکیٹ پر چھوڑ دینا ایک خطرناک قدم ہے جو غریب طبقے کو صحت کی سہولیات سے مزید دور کر دے گا۔

ادھر وزارتِ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ پالیسی کا مقصد مارکیٹ میں دوائیوں کی قلت روکنا اور غیرقانونی اسمگلنگ کو کم کرنا ہے۔ حکام کے مطابق لائف سیونگ اور ضروری ادویات کی قیمتوں پر اب بھی ڈریپ (DRAP) کی نگرانی برقرار رہے گی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے غریب طبقے کے لیے ہیلتھ انشورنس کوریج یا ادویات پر سبسڈی نہ دی تو یہ پالیسی عوامی غم و غصے کا باعث بن سکتی ہے۔

Comments are closed.