تحریر : راجہ نورالہی عاطف
انسان اللہ پاک کی تخلیق کا سب سے اعلیٰ اور اچھُوتا شاہکار ہے۔انسانی زندگی کا بغور مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آج کے سائنسی دور نے انسان کی زندگی میں پائے جانے والے ہزار ہا پیشوں اور علوم وفنون کی ترقی کے نت نئے دروازے کھول دئیے ہیں۔انسانی ہاتھ میں موجود تمام ہُنر ہائے زندگی اس بات کی قوی دلیل ہیں کہ اللہ پاک ہی خالقِ برحق ہے جس نے انسان کو کائناتِ ارض و سماء کے تمام علوم و فنون سے آشنائی عطا فرما ئی ہے۔1980ء میں ’’ہوورڈ گارڈنز‘‘ نے کثیر جہتی ذہانت(Multiple Intelligence) کا نظریہ پیش کیا اور بتا یا کہ انسان میں نوطرح کی مختلف ذہانتیں پائی جاتی ہیں۔گویا کہ ٹیلنٹ ایک مخفی خزانہ ہے جسے اپنے اندر تلاش کرنے کے لیے سخت محنت درکار ہوتی ہے۔ملکِ پاکستان کو اللہ پاک نے ہر طرح کی نعمتوں اور ٹیلنٹ سے نواز رکھا ہے۔اس کے ہر شہر اور علاقہ میں کوئی نہ کوئی خاص وصف پایا جاتا ہے۔
ضلع خوشاب کوعلوم و فنون اور ادبی خدمات کے لحاظ سے ہمیشہ سے ہی ممتاز مقام حاصل رہا ہے۔اسی علاقہ سے حضرت واصف علی واصفؒ جیسی عظیم المرتبت اور بے مثل روحانی ہستی نے جنم لیا اور اسی علاقہ نے ادب کواحمد ندیم قاسمی اور خوشونت سنگھ جیسی ادبی شخصیات بھی دی ہیں۔گذشتہ ایک دہائی سے اسی علاقہ کے ایک اور نوجوان کا نام ادبی حلقوں میں زبانِ زدِ عام ہے۔اللہ پاک نے اس نوجوان کوکئی خدادادصلاحیتوں سے نوا ز رکھا ہے۔اس نوجوان نے ادبی میدان میں اردو اور پنجابی افسانہ و افسانچہ نگاری میں کمال کر دکھایا ہے ۔یہ نوجوان حافظ محمد نعیم یاد ہے جو اپنے ادبی وفنی کارناموں کی وجہ سے اپنے علاقہ کی خاص پہچان بن چکا ہے۔نعیم یاد ؔ نے جب زمانہ ٔ طالب علمی کے دوران ادبی دنیا میں قدم رکھا تو اخبارات میں کالمز کے ذریعے لکھنے کاآغاز کیا۔ابھی انٹرمیڈیت سال اول میں ہی تھے کہ ان کی اردو نثری مضامین پر مشتمل پہلی کتاب منظرِ عام پر آئی۔نعیم یاد نے ادبی سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہوئے اپنے علاقہ سے بچوں کے لیے ایک ادبی مجلہ’’مدنظر‘‘کے نام سے بھی شائع کیا۔اپنی مدد آپ کے تحت شائع ہونے والا یہ میگزین تین سال متواتر شائع ہوتا رہا۔نعیم یاد نے ادب کی صنف افسانے اور افسانچے پہ کام کیا اور اب تک اردو،پنجابی اور انگریزی تینوں زبانوں میں اس کی چودہ کتب منظر عام پر آچکی ہیں جن میں آؤپیارکے دیپ جلائیں،اک خواب جو ٹوٹ گیا،پتھر روتے ہیں،بے نا م مسافتیں،چند اُداس کاغذ،پورے چاند کی رات،نیناں دے سفنے،کنڈیاں کی واڑ، گونگے اکھّر اور The Fragrance of Wordsشامل ہیں۔
نعیم یادؔ بنیادی طور پر ایک نہات مخلص، ایماندار، روشن خیال ، محب وطن، محبتیں بانٹنے والا نوجوان ہے ۔اس نوجوان نے اندرن و بیرون ملک ادبی حلقوں کو اُس وقت ورطۂ حیرت میں ڈال دیا جب ’’نُورالقلم‘‘کے نام سے اُن کا قرآنی خطاطی پر مشتمل پہلا والیم منظرِ عام پر آیا۔نور القلم خطاطی کے تین سو زائد دووالیم پر مشتمل نعیم یاد کی وہ کاوش ہے جس کو دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔ان کی خطاطی منفرد ، بے مثال اور نمایاں اوصاف سے سرشار ہے ، ان کے خط میں بے پناہ دلکشی اور جاذبیت جھلکتی ہے ، اصول و ضوابط کی رعایت بھی ہوتی ہے اور خوبصورتی بھی اس سے مترشح ہوتی ہے ، خط رقعہ ، دیوان جلی ،ثلث ، کوفی اور دیگر خطوط کے ساتھ اُردُو خط پر بھی یکساں عبور رکھتے ہیں اور اپنی خطاطی کے ذریعہ حسن وجمال کا جلوہ بکھیر کر رکھ دیتے ہیں ، قرآنی طرز کی خطاطی بھی وہ انتہائی خوبصورت اور صاف ستھرے طریقے پر کرلیتے ہیں ، قرآن کی جو آیتیں انہوں نے کتابت کی ہیں وہ لائق دید اور قابل تعریف ہے ، ذرہ برابر کسی طرح کی کوئی تفریق نظر نہیں آتی ہے ۔
نعیم یادؔ نے خطاطی کے شعبہ میں تیزی سے قدم بڑھاتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے 75دن کے قلیل عرصہ میں ’’خطِ ثلث‘‘ میں اپنا پہلا قرآنِ مجیدتحریر کر کے قرآنی خطاطی کے شعبے میں ایک ریکارڈ قائم کر دیا اور یہی نہیں بلکہ خطاطی کے اس عشق کے تسلسل میں ’’خطِ دیوانی(عثمانی) ‘‘ میں 50دن کے نہایت قلیل عرصہ میں ایک اور قرآنِ پاک تحریرکر کے ورلڈ ریکار ڈ بنا دیا ۔ خطِ دیوانی (عثمانی) اسلامی خطاطی کا ایک خط ہے جو پندرھویں صدی عیسوی میں سلطنتِ عثمانیہ کے عہد میں وجود میں آیا۔دفتر دیوانی (چیف سیکرٹریٹ) میں سلطان المعظم کے فرامین اسی خط میں لکھے جاتے تھے اسی لیے اس کو ’’خطِ دیوانی‘‘ کہتے ہیں۔خطِ دیوانی ابراہیم حنیف نے ایجاد کیا جو سلطان محمد فاتح کے زمانے میں دفترِ دیوان کا صدر ’’منشی ‘‘ تھا۔
نعیم یادؔ نے خطِ دیوانی (عثمانی) میں عربی الفاظ کو اعراب اور نقطوں سے سجا کر ایک نہایت منفرد کام سر انجام دیا اور پھر اپنے روحانی جذبے سے کام لیتے ہوئے قرآن کریم کے مزید تین نسخہ خطِ نسخ، نستعلیق اور رقعہ میں قلیل مدت میں لکھ کر ورلڈ ریکارڈ قائم کر دیا۔ورلڈ ریکارڈ اس لحاظ سے کہ قرآنی خطاطی میں اس نوجوان کا کوئی استاد نہیں ۔اس کے پاس یہ ہنر صرف اور صرف اللہ پاک اور سرکارِ دوعالمؐ کی عنایت ِ خاص سے ہے! اس طرح اِن عربی خطوط میں 75اور 50دنوں کے قلیل ترین عرصہ میں آج تک قرآنِ پاک ہاتھ سے تحریر کرنے کا ریکارڈ موجود نہیں ہے!
نعیم یادؔ کی قرآنی خطاطی میں عربی کتابت کے تمام اصول تحقیق، تحدیق، تحویق، تخریق، تعریق، تشقیق، تنمیق،توفیق،تدفیق اور تفریق اپنی پوری رعنائی کے ساتھ جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔
کیا اتنا عظیم کارنامہ سر انجام دینے والا انسان کوئی عام انسان ہے؟ ہرگز نہیں! بلکہ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ ایسا انسان پہلے اللہ پاک اور سرکارِ دوعالمؐ کی نگاہ فیض سے نوازا جاتا ہے اور پھر اُس سے اس طرح کا عظیم الشان کام لیا جاتا ہے۔ دُنیا میں مصوّروں اور آرٹسٹوں کی کمی نہیں مگر قرآنِ پاک کو قلیل ترین عرصہ میں بغیر کسی استاد سے سیکھے اپنے ہاتھوں سے تحریر کرنا کسی روحانی معجزے سے کم نہیں۔ ارباب بست وکشاد پر لازم ہے کہ ایسے قابل اور محنتی نوجوان کے ہاتھوں کا لکھا ہوا ایک نسخہ مسجدِ نبوی شریف کی لائبریری میں بھی رکھوائے تاکہ وطنِ عزیز پاکستان کی احسن انداز میں نمائندگی ہو سکے ۔ اس نوجوان کا کام بھی اس بات کا مستحق ہے کہ اسے اس جگہ پر لے جا کر رکھا جائے جس سرزمین کی بدولت اللہ پاک نے اس نوجوان کو ایسا بے مثل کام کرنے کی سعادت بخشی ہے۔ اس طرح کے نوجوان ہی صدارتی ایوارڈ کے مستحق ہوتے ہیں ۔ ضلعی ہیڈکوارٹر پر اگر قرآنی خطاطی سکھانے کا ایک مرکز قائم کردیاجاءے تو ہمارا یہ اسلامی و روحانی ورثہ آنے والی نسلوں کو منتقل کرنے میں مزید مدد مل سکے گی۔ ہمیں اور ہمارے وطنِ عزیز پاکستان کو اپنے ایسے باکمال ، با کردار ، باعمل اور ہُنر مند نوجوانوں پر فخر ہے۔ یہ ہمارے ملک و قوم کا ایک عظیم سرمایہ ہیں۔ ہمیں انکی دل سے قدر کرنی چاہیے اور انکو انکا وہ مقام دینا چاہیے جس کے یہ حقیقی معنوں میں مستحق ہیں۔
Comments are closed.