نجی کمپنی کے معاہدہ خلاف ورزی کا بوجھ عوام پر، بجلی کے نرخوں میں 21 کروڑ روپے سے زائد کا اضافہ
ریگولیٹری کمزوریوں اور معاہداتی غفلت نے مہنگی بجلی کا نیا دروازہ کھول دیا
اسلام آباد
شمشاد مانگٹ
پاکستان میں بجلی کے صارفین کو 21 کروڑ 50 لاکھ روپے سے زائد کا اضافی مالی بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے جس کی بنیادی وجہ نجی کمپنی کی جانب سے کوئلہ فراہمی کے معاہدے کی خلاف ورزی اور ریگولیٹری اداروں کی جانب سے اس خلاف ورزی پر کمزور ردِعمل ہے۔
یہ واقعہ پنجاب میں ایک بڑے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر سے جڑا ہوا ہے جہاں کوئلہ فراہم کرنے والی ایک نجی کمپنی نے طویل المدتی معاہدے کے باوجود سپلائی بند کر دی۔
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی نیپرا اور سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی سی پی پی اے جی نے اس خلاف ورزی کا براہ راست مالی اثر بجلی صارفین پر ڈالنے کی اجازت دے دی جس سے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں نرخوں میں اضافہ ہوا۔
یہ معاہدہ دسمبر 2024 میں ایک مسابقتی عمل کے ذریعے دیا گیا تھا جس کے تحت سپلائر نے اے پی آئی فور انڈیکس پر 2.51 ڈالر فی ٹن کی رعایت دینے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم چند ماہ بعد ہی سپلائر نے سپلائی روک کر فورس میجر کا جواز پیش کیا جس میں جنوبی افریقہ کے رچرڈز بے کوئلہ ٹرمینل پر رش اور پاک بھارت کشیدگی کو بطور وجہ بیان کیا گیا۔ توانائی ماہرین کے مطابق یہ جواز کمزور اور غیر تسلی بخش ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ نہ صرف دیگر سپلائرز اس دوران کوئلہ فراہم کرتے رہے بلکہ اسی کمپنی نے دیگر نجی شعبوں کو کوئلہ سپلائی جاری رکھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ فورس میجر نہیں بلکہ کمپنی کی جانب سے زیادہ رعایت پر عمل نہ کرنا تھا۔
معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد بجلی گھر کو مجبوری میں دوسرے سپلائر سے کوئلہ خریدنا پڑا جس کی قیمت تقریباً 1.86 ڈالر فی ٹن زیادہ تھی۔ سی پی پی اے جی نے اس اضافی لاگت کو بجلی نرخوں میں شامل کرنے کی سفارش کی جسے نیپرا نے منظور کر لیا اور یوں عوام پر تقریباً 21 کروڑ 50 لاکھ روپے کا اضافی بوجھ آن پڑا۔
نیپرا کو اس معاملے پر 22 ستمبر کو باضابطہ سوالات بھیجے گئے تاہم ادارے نے تاحال کوئی تحریری وضاحت فراہم نہیں کی۔ ذرائع کے مطابق نہ تو سپلائر کے خلاف جرمانہ کیا گیا نہ بلیک لسٹنگ کی کوئی تجویز دی گئی اور نہ ہی معاہدے پر نظرِ ثانی کا کوئی عمل شروع ہوا۔ توانائی کے شعبے سے وابستہ ماہرین نے اس رویے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسی مثالیں نجی کمپنیوں کو بے خوف کرتی ہیں اور صارفین کو بلاوجہ مہنگی بجلی برداشت کرنا پڑتی ہے۔ عام طور پر مہنگی بجلی کے پیچھے کیپیسٹی پیمنٹس کرنسی کی قدر میں کمی اور درآمدی ایندھن کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے مگر یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ معاہداتی عمل درآمد میں نرمی اور ریگولیٹری خامی بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی ایک غیر اعلانیہ مگر سنگین وجہ بن چکی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سپلائر کی یہ خلاف ورزی تسلیم کر کے بوجھ صارفین پر ڈالا جاتا رہا تو مستقبل میں دوسرے سپلائرز بھی اسی راستے پر چل سکتے ہیں۔ حکومت اور نیپرا کو فوری طور پر واقعے کی شفاف انکوائری کرنی چاہیے اور متعلقہ کمپنی کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔
معاہداتی شقوں میں جرمانے اور بلیک لسٹنگ جیسے اقدامات کو مؤثر بنایا جائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔
Comments are closed.