دو دشمن آپس کی مخالفت میں اس حد تک پہنچے ہوئے تھے کہ چیتے کی طرح ایک دوسرے پر حملہ کرنے کی سوچتے تھے۔ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہ تھے، ایک دوسرے کی نظروں سے بچنے کیلئے انہیں آسمان کے نیچے جگہ نہ ملتی۔ ان میں سے ایک کو موت نے آدبوچا اور زندگی کا پیمانہ چھلک گیا۔ اس کی موت سے دوسرے کو بہت خوشی ہوئی۔ کافی عرصے بعد وہ دشمن کی قبر کے پاس سے گزرا تو اُس نے دیکھا کہ جس متکبر کے مکان پر سونے کی پالش کی ہوئی تھی، آج اُس کی قبر مٹی سے لپی ہوئی تھی۔ غصے میں آکر اس نے مرے ہوئے دشمن کی قبر کا تختہ اکھاڑ دیا۔ دیکھا تو تاج پہننے والا سر ایک گڑھے میں پڑا ہوا تھا۔اس کی خوبصورت آنکھوں میں مٹی بھری ہوئی تھی، وہ قبر کی جیل میں قید ہوچکا تھا اور اُس کے جسم کو کیڑے مکوڑے کھارہے تھے، اس کا موٹا تازہ جسم پہلی رات کے چاند کی طرح دبلا ہوچکا تھا اور اس کا سر و قد تنکے کی طرح باریک ہوگیا تھا، اس کے پنجے اور ہتھیلی کے جوڑ بالکل علیحدہ ہو چکے تھے۔ دشمن کی یہ حالت ِ زار دیکھ کر اُس کا د ِ ل بھر آیا اور اُس کے رونے سے قبر کی مٹی تر ہو گئی۔وہ اپنے کرتوتوں سے شرمند ہ ہوگیا اور تلافی کے لئے اُس نے حکم دیا کہ اس قبر پر لکھ دیا جائے کہ کوئی بھی شخص کسی دشمن کی موت پر خوش نہ ہو کیونکہ وہ خود بھی زیادہ دن موت کے ہاتھوں بچ نہیں سکے گا۔ ہمارا جسم بھی کسی دن ایسا ہوجائے گا کہ اسے دیکھ کر دشمنوں کو بھی موت یاد آجائے (مجموعہ حکایات)۔
پاکستان اور ہندوستان کے حالات، دونوں کے قیام سے لیکر آج تک کبھی نہیں بدلے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے لئے دونوں اطرا ف سے وار جاری و ساری ہیں۔غیر مسلم روایات تو اذل سے یہی رہی ہیں کہ اینٹ کے بدلے پتھر کا وار کیاجائے مگرمسلم حقائق اینٹ کے بدلے اینٹ سے بدلہ لینے تک ہی محدود ہیں۔ درگزر کر دینا یامعاف کردینا اعلیٰ معیار کے اعمال ہیں لیکن ممکن نظر نہیں آتا کہ کسی اعلیٰ معیار کو ہم دونوں ممالک (پاکستان، انڈیا) اور ہماری عوام اپنانے کا کوئی ارادہ بھی رکھتی ہوں۔ چیخ و پکار، گالی گلوچ اور بے تکی بحث سے ماحول کو خوفناک بنارکھا ہے۔ بدتمیزیوں کے تمام دَر کھول کر غیر منطقی باتوں میں عام لوگوں کو اُلجھا رکھا ہے۔ ہر طرف جنگ چھڑ جانے کی فضا قائم کرکے، ایک دوسرے کا تمسخر اُڑایا جارہا ہے۔ کوئی حد نہیں غیر سنجیدگی کی،کیا بڑا اور کیا چھوٹا، ایٹم بم چلانے کی صدائیں لگارہا ہے۔ ایٹم بم نا ہوا جیسے شادی پہ چلانے والا شرلی بم ہوگیا۔یہ سب کی سب باتیں اور تمام مباحثے تکبرانہ سوچوں کی عکاسی ہیں۔ حالانکہ ہم لوگ (پاکستانی) ہندوؤں کی موجودہ جنونی کیفیت کو جواز بنا کر اپنے متعلق بہتر صورت بھی دکھا سکتے ہیں لیکن عجیب تماشہ بھرپا ہے کہ ہر برائی کا جواب برائی سے ہی دیاجارہا ہے۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ہندو سوچ شرک اور حسد سے لبریز ہے لیکن ثبوت موجود ہیں کہ ہندوستانی مسلمان اور پاکستانی مسلمانوں کے علاوہ دیگر دنیا کے تمام مسلمانوں سے ہندوستان کے دیرینہ خوشگوار تعلقات ہیں، جن میں سعودی عرب اور یو اے ای جیسے ممالک سرفہرست ہیں۔ ہندوستانیوں کو مسئلہ صرف اور صرف پاکستانیوں سے اور ہندوستان کے اندر بسنے والے مسلمانوں سے ہی ہے۔ ان تمام ہندوؤں کی عقل پر پردہ پڑا ہوا ہے کہ ہم دونوں ممالک ایک ہی دن میں گوروں کے تسلط سے آزاد ہوئے ہیں۔ اس آزادی کی تاریخ کو بھلا کر ہندو کئی سوسال پرانی کہانی چھیڑ کے بیٹھ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے نہ خود امن میں ہے اور نہ ہی ہمیں آرام سے بیٹھنے دیتا ہے۔ اس سوچ کا علاج ہم جدید ہتھیاروں کے حصول کی صورت میں کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ مشرکوں کو کوئی دوسری زبان اذل سے سمجھ نہیں آئی۔ آئندہ بھی ہمیں دنیاوی خداؤں کے پجاریوں کو قابو میں رکھنے کے لئے ایمان کے ساتھ جدید ہتھیاروں کا ذخیرہ کرنا ہوگا۔
جدید دور میں میڈیا، خصوصاً الیکٹرانک میڈیا کے مختلف ذرائع اہمیت اختیار کرچکے ہیں۔ بہت کچھ ٹھیک ہونے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ خراب اور اشتعال انگیزی کا سبب بن چکا ہے۔ جس طرح انڈین الیکٹرانک میڈیا پر تکبرانہ سوچوں کو بڑھا وا دیاجارہا ہے اور ایسے منظر کشی ہورہی ہے جیسے ہاتھی (انڈین خود کو ہاتھی جیسا پیش کررہے ہیں) کا مقابلہ کسی چیونٹی (پاکستا ن کو چیونٹی بتایاجارہا ہے) سے ہونے جارہا ہے۔ اسقدر تکبر آج تک کسی میں نہیں دیکھا جتنا ہندوؤں میں پھیلا ہوا ہے۔ انہی کی تاریخ گواہ ہے کہ بڑی بڑی سلطنتیں قائم ہوئیں ہمارے خطے میں لیکن طاقت پر گھمنڈ کرنے والے آج قصہ پارینہ بن کررہ گئے۔ جنگی جنون کا شکار ذہن یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ حق و باطل کی جنگ واجب الادا ہے اور ہوکے رہنی ہے لیکن اُس آخری معرکہ کے لیے وقت اور مخصوص لوگ ظاہر ہوں گے عنقریب جو باطل کو مٹا کے سکون کی سانس لیں گے۔ تمسخرانہ سوچوں میں گر ِے ہوئے موجودہ لوگ، اتنی عظیم جنگ لڑنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
Comments are closed.