
اِسلام دین فطرت اورہر انسان کیلئے کامیاب ضابطہ حیات ہے۔اِسلام نے جہاں مردوزن کے حقوق متعین کئے وہاں ان کی حدود بھی مقرر کردی ہیں،مقررہ حدود سے تجاوزکرنا محض سرکشی نہیں بلکہ ایک طرح سے خودکشی ہے۔اِسلام نے جس طرح معاشرت اورمعیشت کی سطح پر خواتین کوان کاجائز حق اورمقام دیا وہ دوسراکوئی دین نہیں دے سکتا۔قرآن مجید کی مقدس آیات سے انسانوں کوزندگی میں پیش آنیوالے مختلف واقعات، معاملات، مو ضوعات اورتنازعات بارے سیرحاصل رہنمائی ملتی ہے۔اِسلام کہتا ہے نکاح کے سلسلہ میں بیٹیوں سے ان کی پسندناپسند ضرورپوچھی جائے لہٰذاء ماں باپ ضرور پوچھیں لیکن خودتحقیق بھی کریں کیونکہ جہاں زیادہ تر انسانوں کے چار چار چہرے اوران پر نقاب بھی ہوں وہاں بھولی بھالی بیٹیاں غلطیاں کرسکتی ہیں لیکن کوئی زمانہ شناس باپ اپنی بیٹی کو جان بوجھ کرکسی کنویں میں نہیں دھکیلتا۔اگرنیک نیتی کے باوجود ماں باپ سے اپنے داماد کے انتخاب میں غلطی ہوجائے تووہ اس کی تلافی کرسکتے ہیں لیکن اگر بیٹی سے اپناشوہرمنتخب کرنے میں حماقت ہوجائے تواسے تنہا اس کاخمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔راقم کے نزدیک جوبیٹی چند ماہ کے نام نہاد پیار کیلئے ماں باپ کی اٹھارہ بیس برس کی تربیت، والہانہ محبت اورشفقت فراموش کردے وہ زندگی بھر کیلئے عفت اورعافیت سے محروم ہوجاتی ہے،اسلام کے نزدیک پسند کابیاہ پسندیدہ ہے لیکن جو محض اپنی پسنداورناپسند کی خاطر ماں باپ کی عزت رونددیں ان بیٹوں اوربیٹیوں کی زندگی بھر کوئی عزت نہیں کرتا۔یقینااس نکاح میں فلاح ہے جس میں دوافراد نہیں بلکہ دوخاندان شریک ہوں۔
 
			 
				
Comments are closed.