چند سال پہلے سعودیہ میں نرسز کی ویکنسیاں آئیں تو راولپنڈی کے ایک پروموٹر نے 350 نرسوں کو سعودی عربیہ کے ویزے دلائے اور ان کو تمام مکمل کاغذات کے ساتھ سعودی عربیہ میں مختلف ہسپتالوں پر جاب پہ رکھوا دیا تمام نرسز اپنا مطلوبہ کام اچھے سے کر رہی تھی کہ ان میں سے ایک نرس کے ڈاکومنٹس پر سعودی گورنمنٹ کو شک ہوا
خفیہ طریقے سے جب اس کے کاغذات چیک کروائے گئے تو وہ ٹیمپرڈ نکلے یعنی ان میں کچھ تبدیلی کی گئی تھی جس کے بعد گورنمنٹ نے اس بیج میں آنے والی 350 نرسوں کے کاغذات چیک کروائے تو پتہ چلا کہ ان میں سے 92 نرسوں کے کاغذات تبدیل شدہ ہیں یا نقلی ہے جس کے بعد ان تمام نرسز کو کام سے روک دیا گیا اور اب ان کو پاکستان واپس بھیج دیا گیا ہے
اس سارے کام کا سرغنہ راولپنڈی کا پروموٹر ہے جس کا لائسنس پاکستان کی مطلوبہ وزارت نے منسوخ کر دیا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک ایجنسی کا لائسنس منسوخ کرنے سے کچھ فرق پڑے گا؟
جواب ہے نہیں کیونکہ ہمارے لوگ اتنے فنکار ہیں کہ آج اس کا لائسنس کینسل ہوا اگلے مہینے وہ نیا لائسنس لے کر دوبارہ یہی کام کر رہا ہوگا
تو اس کا حل کیا ہے؟
دیکھیں جب دو کن ملکوں کے درمیان تعلقات ہوتے ہیں تو اگر کوئی فرد یا کوئی پرائیویٹ ادارہ اس پر اثر انداز ہو اور دونوں ملکوں کے تعلقات کو خراب کرے تو گورنمنٹ کو اس کے خلاف انتہائی سخت ایکشن لینا چاہیے کیونکہ اس سے دونوں ملکوں کے باہمی معاملات پر فرق پڑتا ہے اور پاکستان جیسے ملک کے 27 لاکھ لوگ سعودیہ میں کام کرتے ہیں
ہم شاید لفظوں میں نہیں بتا سکتے کہ اس سے ہمارے دل و دماغ پہ کیا گزرے گی۔
پچھلے دو مہینے سے ایسی بری خبریں تواتر سے آ رہی ہیں اس سے پہلے ایک بہت بڑی خبر یہ تھی کہ آرامکو میں کسی پاکستانی نے جعلی کاغذات داخل کروائے جو کہ پکڑے گئے اور اس کی وجہ سے سعودی آرامکو جو کہ دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے اس کے اندر پاکستانیوں کا جانا ممنوع ہو چکا ہے
میری کمپنی کے ڈرائیوروں کا ایک بڑا حصہ پاکستانیوں پر مشتمل ہے اور وہ لوگ اب آرامکو کی سعودیہ میں موجود کسی بھی سائٹ کے اوپر انٹر نہیں ہو سکتے جس کی وجہ سے تمام کمپنیز اب پاکستانی ڈرائیوروں کو انڈین اور دوسرے نیشنلٹی کے ڈرائیوروں سے تبدیل کرنے کا سوچ رہے ہیں
ویسے تو ہم نام نہاد اور مینڈیٹ چور حکومت کو نہیں مانتے لیکن فرض کریں کہ حکومت پاکستان اس ایشو پر ایکشن لینے کا ارادہ کر لیتی ہے تو اسے سب سے پہلے اس ایجنسی کے لوگوں کو پکڑ کر تاحیات جیل میں ڈالنا چاہیے اور آئیندہ کے لیے قانون بنانے چاہیے کہ دوبارہ کوئی بھی اوورسیز پاکستانیوں کے ڈاکومنٹس کی ٹیمپرنگ نہ کر سکے
تحریر: میاں بلال عسکری
Comments are closed.