بہت سے لوگوں کو پتہ نہیں ہم مشرف دور میں جنرل اسد درانی کی مہربانیوں کا شکار رہے ہیں

فواد گیا سواد گیا۔

  باعث افتخار۔  

انجنیئر افتخار چودھری 

بہت سے لوگوں کو پتہ نہیں ہم مشرف دور میں جنرل اسد درانی کی مہربانیوں کا شکار رہے ہیں اور بڑی جانفشانی سے 71 دن کی جیل کاٹی ہے 

ستم ظریفی دیکھیئے مرے تھے جن کے لئے وہی اب ،،۔مہربان،، ہیں 2002 کے دن 19 مارچ سے کے کر 29 مئی تک کسی کو یاد نہ ہوں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو یاد ہیں یاد رکھیں اس وقت عمران خان مشرف کے ساتھی تھے ریفرینڈم کے دنوں میں میں جدہ جیل میں تھا اور یار لوگ جدہ سے بھاگ نکلے تھے  جس دن میں پکڑا گیا جہاز فل بٹہ فل پاکستان پہنچے 

پتہ نہیں دل ہے کی مانتا نہیں لدھر گھرانے کے روح رواں چوہدری فواد حسین عمران خان کا ساتھ چھوڑ گئے اشتیاق عباسی نے ان کی رخصتی کے موقع پر مجھے چھیڑا اور کہا فواد گیا سواد گیا وہ شروع دن ہی سے نواز شریفیئے ہیں دیہات کے ایڈیٹر ہیں پیارے بھائی ہیں آج سات دن ہو گئے ہیں کہ اس موضوع پر لکھنا چاہتا ہوں 

سوچتا ہوں کیا لکھوں مجھے وفا کے اس پیکر سے اس قدر لگائو تھا کہ میں سمجھتا تھا کہ سب چھوڑ جائیں گے یہ نہیں چھوڑے گا اس گھرانے سے میرا تعلق تقریبا پینتیس سال سے ہے۔ سیدھی شہباز حسین میرے دوستوں میں سے ہیں جو فواد حسین کے ماموں ہیں جدہ میں ایک عرصہ گزارا ہے ان کے ساتھ بیت اچھے ایام گزے یہی تعلق جاندار تھا  بہادری فواد سے پہلی بار لدھڑ میں ملاقات ہوئی بعد میں جب چوہدری شہباز حسین اور فواد حسین پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تو بنی گالہ میں اس شمولیت جلسہ میں میں بھی موجود تھے چوہدری شہباز حسین اور ہم حلقہ ء یاران وطن کے دوستوں کا خاصہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی عزت بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے  اس جلسے میں چوہدری صاحب نے عزت افزائی کہ افتخار آپ کا ایک ایسا مجاہد ہے جس نے ہمیشہ پی ٹی آئی میں شمولیت کی دعوت دی اسی محفل میں عمران خان نے کہا افتخار میرا ڈائہارٹ ورکر ہے جس کے لیے میں چوہدری  شہباز صاحب کا شکر گزار ہوں اور اپنے قائد کا بھی جنہوں نے ہمیشہ شفقت کی ۔

پھر سنگتوں کا سفر جاری رہا اس میں نوید افتخار کا آنا مزید دوستی کو بڑھاوا دے کیا 

چوہدری فواد کا لبرل ہونا اور میرا کہہ لیں رجعت پسند ہونے کی باوجود چلتا رہا جب وہ پی ٹی آئی میں نہیں تھے تو ممتاز قادری کی شہادت کا سانحہ ہو گیا 

پی ٹی آئی میں ہر قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں جس کا اظہار میں نے سی ای سی میں بھی کیا تھا ۔پتہ نہیں لوگ لیڈروں کو خدا کیوں مان لیتے ہیں میں نے ممتاز قادری کی شہادت پر پارٹی میں طوفان مچایا بعض میں نعیم الحق نے کہا ان کی شہادت پر جو جانا چاہتا ہے جائے فواد چوہدری جیسا کے میں نے کہا ہے پارٹی میں نہیں تھے ان کی فیس بک پر اس سلمان تاثیر کی موت کے واقعے کو ممتاز قادری کا احسن اقدام قرار دیا جہاں ریاست اپنا کردار نہ ادا کرے وہاں فرد آگے بڑھتے ہیں ۔ممتاز قادری غازی علم دین کی طرح ایک شہید تھا اس میں۔ اہے عمران خان ہو یا فؤادی چودہری قبر اپنی میں جانا ہے میں نے ان دنوں نوائے وقت میں کالم لکھے اور فواد جو بھی جواب دیا بعد میں پی ٹی آئی میں آئے تو چوہدری شہباز کو کہا کہ فواد کی آمد اچھی ہے مگر مجھے لگتا ہے ان کا آزاد خیال ہونا ٹھیک نہیں ہو گا 

اور یہ بھی آپ نے دیکھ لیا پی ٹی آئی نے ہر مذہبی جماعت سے لڑائی کی ۔خاص طور پر لبیک کے ساتھ  جھگڑا میں نے اس کی پر زور مزمت کی اور خادم رضوی صاحب کے فیض آباد دھرنے کی حمایت کی 

ممتاز قادری کے جنازے میں بھرپور شرکت کی پارٹی کے اہم لوگ شریک جنازہ ہوئے اس طرح فیض آباد دھرنے میں میں خود تو نہیں گیا البتہ بیٹے کو بھیجا 

پارٹی کے چند لوگوں نے کہا کہ یہ پارٹی پالیسی نہیں جس کے جواب میں کہا میری مذہبی  پالیسی یہ ہے لہذہ بکواس بند کریں 

آپ اندازہ لگائیں میں کن لوگوں کی مخالفت برداشت کرتا رہا ایک طرف شیریں مزاری فواد چوہدری مذہب بیزار دوسری جانب علی محمد خان شیر یار آفریدی اعجاز چوہدری ۔اس میں سلمان گانے والا بھی شامل 

ریاست مدینہ کا نعرہ اور ہم

ایک عمران خان ہی تھا جو آزاد خیال لوگوں کے ہوتے ہوئے اپنی سوچ کو لئے آگے بڑھتا رہا 

گرچہ بت ہیں جماعت کے آستینوں میں والا معاملہ ہے 

مگر اس سیاسی دنیا میں فواد چوہدری کا غائب ہونا نا قابل سمجھ ہے 

کیا ان ہر تشدد زیادہ تھا محمود الرشید اور اعجاز چوہدری سے یا وہ جماعت اسلامی کی بھٹی سے نکلے ہوئے تھے 

ویسے اس کی جملے بازی اور باتوں کا جواب نہیں 

اور اس سواد کو ترستے ہیں جو فواد کی باتوں میں تھا 

جلد ملیں گیں کہ کم از کم ہمیں تو بتائیں کہ دیوانوں ہر کیا گزری 

اتنی تیزیاں اور اتنی جلد بازیاں 

بچے تو ہمارے بھی چھوٹے چھوٹے تھے

ظلم نہ کیجئے  باعث افتخار  انجنیئر افتخار چودھری

جون کے مہینے میں پنڈی کا۔موسم ہنزہ کی یاد دکا رہا ہے ظاہر  ہے ہنزہ کسی اور ٹھنڈے شہر کو شرما رہا ہو گا 

اللہ کاکرم دیکھئے تو آسمان سے باد برس رہے ہیں لیکن پاکستان کے سیاسی آسمان پر قہر آلودگی کا شکا ہے بہت عرصہ ہوا یہ تباہیاں اور بربادیاں پاکستان نے نہیں دیکھی تھیں البتہ پاکستان میں ضیاء الحق کے دور میں کچھ اسی طرح کا دور گزرا تھا تھا ہم ان دنوں گجرانوالہ رہتے تھے میں سالانہ چھٹی پر سعودی عرب سے آیا ہوا تھا ذوالفقار علی بھٹو کو انہی دنوں پھانسی دی گئی تھی 

4 اپریل 1979 کا وہ قیامت خیز دن تھا جب ذولفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا 

آج کل جہاں میکڈونلڈز ہیں اوپر کچہری کے سامنے انہیں پھانسی دے دی گئی تھی اور علی اصبح انہیں لاڑکانے کی آبائی قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا لوگ اسے عدالتی قتل کہتے ہیں اور کچھ مکافات عمل کا شکار بھی 

عامت الناس  اسے عدالتی قتل اور کچھ لوگ ان لوگوں کے قاتل کو پھانسی پانے کا دن کہتے ہیں جو احمد رضا قصوری کے والد اور ان کے دور میں ہوئے سیاسی قتلوں کو ذولفقار علی بھٹو کے سر قرار دیتے ہیں ۔اس کا فیصلہ اللہ رب العزت کریں گے اور ہم بعد از مرگ پتہ چلے گا ۔یوں ہم اسے رب کے اوپر چھوڑتے ہیں 

میں ان دنوں ہی کی بات کرنا چاہتا ہوں ۔جاوید ہاشمی ہمارے زمانے کے اسٹوڈنٹ لیڈر تھے 

اللہ ان کی لمبی زندگی کرے 

یہ تاریخ کے واحد سچے سیاست دان ہیں جو ہر وقت سچ بولتے ہیں یوں تو شیخ رشید بھی اس وقت کے لیڈر ہیں اور میرے جیسے ستر کی دہائی کے لوگ زندہ ہیں ۔ہو سکتا ہو کہ سب ہی سچے ہیں ہوں مگر جاوید ہاشمی کو میں ایک معتبر اور مصدق سمجھتا ہوں انہیں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے چالیس رکنی مجلس عاملہ میں سے اڑتیس لوگ ان کا ساتھ چھوڑ چکے تھے پتہ نہیں وہ کون سے دو لوگ رہ گئے تھے لیکن یہ کہنا کہ پیپلز پارٹی نے جیلیں کاٹیں کوڑے کھائے ۔لہڈر تو بھاگ کھڑے ہوئے البتہ کارکن اسی طرح مار کھا رہے ہیں جس طرح تحریک انصاف کے بڑے بڑے بھاگ کھڑے ہوئے اور کارکنوں کو جیلیں نصیب ہوئیں۔

میرا ارباب حکومت سے درخواست ہے کہ ان بھاگنے والوں کو جیلوں میں رکھیں انہیں ان کے گناہ کی سزا دیں 

ان سے پوچھیں کہ آپ نے عمران خان کے دور میں جو لوٹ مار کی اب آپ ان کے معاون کیوں بن رہے ہیں ؟ہم تو شروع دن سے کہتے آئے ہیں کہ ہماری اور آپ کی صفوں میں جو چور ہیں انہیں پکڑیں ۔ویسے پنجابی میں کہتے ہیں کہ منجھاں ،منجھاں دیا پہناں ہوندیاں نیں ۔

کند ہم جنس باہم پرواز کبوتر با کبوتر باز با باز 

مزہ تو تب تھا کہ غریب کارکنوں کو رہا کیا جاتا اور مکان کے جگہ چوروں اور اچکوں کو لٹکایا جاتا ۔ہمیں تو بتایا جاتا رہا کہ یہ عمار کیانی ہے اس نے دوائیوں کی قیمتیں بڑھائی تھی اور اربوں روپیہ بنایا تھا ۔سوچا حکومت بدلنے کے ساتھ ہی یہ نیب کے ہتھے چڑھیں گے  مگر اگلے دن ان کے بیان لئے کہ میں نو مئی کے واقعات کی مذمت کرتا ہوں میرا تعلق فوجی خاندان سے ہے میں پی ٹی آئی چھوڑ رہا ہوں 

بس یہی ایک بیان سب سے لیا گیا اور ان کی جان بخشی کر دی گئی ۔ںے شمار آئے اور نو مئی کے واقعات کی مذمت کی اور اڑنچھو ہو گئے ۔کاش بقول آپ کے ان سے اربوں روپے نکلوائے جاتے اور عوام کی فلاح بہبود پر لگائے جاتے ۔ویسے حیرانگی یہ ہے کہ یہ سب ،،صاف و شفاف،، نکلے اور علی محمد خان جیسے لوگ گنہگار نکلے ۔ایسا شخص جو شروع سے ہی پی ٹی آئی کے عقابوں کے نظر میں رہا جس نے فوج کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولا ۔میرے پاس ثبوت ہیں کہ وہ آخری دم تک اس موقف کی خلاف تھا کہ فوج کے خلاف بولا جائے ۔آج دیکھ رہا ہوں  وہ روز ایک عدالت سے نکلتا ہے اور نکل کر دوسری گاڑی میں شرافت سے بیٹھ جاتا ہے نہ وہ وکٹری کا نشان بناتا ہے 

میرا سوال یہ ہے کہ چوروں لٹیروں اور فوج کے خلاف بولنے والے آپ کے دوست بن گئے اور جو دوست تھے وہ دشمن ۔اس سوال کا جواب مجھے دیجئے 

میں نے اس کا جواب انڈین ٹیلیویژن پر دینا ہے فوج کے دشمنوں کو دینا ہے میجر گروآریہ کو دنیا ہے جنرل بخشی کا منہ بند کرنا ہے ۔ 

سنا ہے شہر یار آفریدی کا بازو مفلوج ہو گیا ہے اور عمران ریاض کسی دوسری ملک میں ایکسپورٹ کر دیے گئے ہیں 

دیکھئے 

اس وقت papa Jhones 

میں بیٹھا پرویز الٰہی کو گھسیٹتے ہوئے گرفتار ہوتے ریکھا رہا ہوں اور یہ خبر بھی مجھے ملی ہے کہ عمران خان کی مذاکراتی ٹیم جس میں پرویز خٹک اسد قیصر شامل ہیں انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا اور وہ اب تھوڑی دیر میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں ۔

خدا دیکھ رہا ہے

19 مارچ سے 29 مئی تک  

باعث افتخار انجنیئر افتخار چودھری 

آج کے دن میں اکہتر دن کی جیل کاٹ کر  لاہور ایئر پورٹ پر اترا

 بات پرانی ہے کوئی زیادہ پرانی بھی نہیں کوئی اکیس سال پرانی ۔ہمیں جدہ میں ترحیل بند کیا گیا تھا 23 مارچ والے دن برادر حامد صدیقی کے بیٹے بھی ہمارے ساتھ بند تھے صبح سویرے اٹھے ناشتے کے بعد ہم سارے سیاسی قیدی گہ شپ لگاتے تھے وسیم صدیقی نے کہا چوہدری صاحب دل تو کرتا ہے کہ بھارت کا یوم آزادی منائیں 

یہ سن کر میرے ہوش اڑ گئے 

میں نے فورا جواں دیا کہ کوئی کرایہ دار اگر مکان پر قبضہ کر لے تو گھر کے شیشے نہیں توڑے جاتے ۔ان دنوں ملک مارشل لاء کی زد میں تھا مجھے اس ترحیل جیل آئے کوئی چار روز ہوئے تھے ۔ترحیل اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں ملک سے باہر جانے والوں کو بند کیا جاتا ہے 

یہ باقاعدہ طور پر جیل تو نہیں ہوتی البتہ لوگوں کو بیرکوں میں رکھا جاتا ہے 

یہ جد ہ میں محمود سعید مارکیٹ کے سامنے جہاں کبھی جدہ ایئر پورٹ ہوتا تھا یہ بیرک کسی وقت سعودیہ ایئر لائن کے ہینگر ہوتے تھے 

یہی کوئی بار پانچ سو مختلف بیرکوں میں رکھے جاتے تھے 

انسانی حقوق کا خیال رکھا جاتا تھا بہترین قسم کے عربی کھانے پیش کیے جاتے تھے بیرکوں کا گرمی کے موسم میں میں اے سی کی ٹھنڈک اتنی ہوتی ہر کوئی کمبل لے کر سوتا تھا 

ہمارے ساتھ جو لوگ تھے ان میں اکثر مسلم لیگ نون کے تھے کچھ ایسے بھی تھے جن کا تعلق مسلم لیگ ق سے تھا اور جو جنرل مجید کے قریب تھے کچھ ایسے بھی تھے جو اعجاز الحق اور شیخ رشید کے قریبی ساتھی تھے 

ہم سب ہی ،،جماع نواز شریف،، کے جرم میں اندر تھے میرے کبھی بھی مسلم لیگ ن سے تعلق نہ تھا البتہ جب ایک بار سوپر مینوں نے پوچھا کہ آپ کا نواز شریف کے ساتھ کیا تعلق ہے تو میں نے جواب دیا کہ پہلے تو نہیں تھا اب ہے جو کرنا ہے کر لو ۔سعودی عرب میں کون سی پارٹی شغل میلہ لگانے کے لیے لوگ چھوٹے موٹے فنکشن کر لیا کرتے تھے ۔

ہوا یوں کہ عظمت نیازی جن کا تعلق مسلم لیگ ق سے تھا وہ کسی وجہ سے دھر لیے گئے انہوں نے ایک دن مجھے فون کیا کہ آپ دو اخبارات کے نمائندے ہیں آپ بھی ہمارے لئے آواز نہیں اٹھاتے 

پھر انہی دنوں اسکول کی مینیجنگ کمیٹی کے انتحابات ہو رہے تھے لوگوں نے مجھے کمیونٹی می طرف سے ہیڈ بنایا گیا ۔پاکستانی سفیر جنرل اس درانی تھے اور ان کا نائب کرنل طارق تھا اوپر سےمارشل لاء کا دور تھا انہی کی چلتی تھی قونصل جنرل بے چارے دپک کے رہتے تھے ۔سب کچھ فوجیوں یا سابق فوجیوں کے ہاتھ میں تھا 

اسکول کی ایک کمیونٹی میٹینگ قونصل خانے میں تھی جس کی صدارت سفیر پاکستان کر رہے تھے ۔ساتھ میں جماعت اسلامی کے مرحوم دوست مسعود جاوید بٹھائے گئے 

میں نے اعتراض اٹھایا کہ سر ہم نے جس کے خلاف یہ اجلاس منعقد کیا ہے آپ نے انہیں اپنے پہلو میں بٹھایا ہوا ہے انہیں نیچے ہمارے ساتھ بڑھائیں 

جس کا موصوف نے برا منایا 

اور مجھے بیٹھنے کے لیا حکم دیا گیا ۔میں نے احتجاج کرتے ہوئے تقریب کا بائیکاٹ کیا یہی وجہ تھی کہ موصوف کی طبع نازک پر گراں گزرا اور مجھے بھی ،،جماع نواز شریف،،، میں ڈال دیا گیا واقع کے دو۔ آر روز۔ عد مجھے میرے کمپنی سے سعودی اتھارٹی نے اٹھا کیا اور یوں میں ترحیل میں آگیا 

بیت سوں کا خیال ہے کہ آپ کو سعدی عرب سے کیوں گرفتار کیا گیا ۔۔بس اتنا جان کیجئے جنرل مشرف پاکستان کے کل فی کل تھے بلکہ اس خطے میں امریکہ کے نمائندہ خاص تھے اور ان کا سعودی حکومت پر رعب داب تھا 

نایین الیون میں سعودی عرب پر بھی نزلہ ھرا جس میں شاہ عبداللہ نے مشرف کی مدد سے جان خلاصی کرائی 

اسی وجہ سے کرنل طارق سعودی اینٹیلجنس سے مل کر پاکستانیوں پر قہر بن کر ٹوٹے 

یہ فرق ہوتا ہے سیاسی اور فوجی حکمرانوں میں ۔ویسے تو موجودہ حکومت نے بھی فوجیوں کی حکومت کو کی ھے چھوڑ دیا ہے 

مزے کی بات ہے میں نے جنرل اسد درانی کے اس فعل کو پوری فوج کا قصور نہیں فرار نہیں دیا اور ہمیشہ فوج کا ساتھ دیا 

مشرف کے بعد جب پیپلز پارٹی اور ن کی حکومت رہی میں نے سر توڑ کوشش کی کہ فوج کو بدنام کرنے والوں کا ساتھ نہیں دیا 

اس وقت آپ کو پتہ چل گیا ہو گا کہ میں کیسے ن لیگ میں چلا گیا ۔اور ایک اہم واقعہ بھی ان دنوں ہوا میری چچا اور بیگم کے والد صاحب اس دنیا سے رخصت ہو گئے اس اندوہناک خبر نے ہمیں ہلا کے رکھ دیا لیکن بیگم کے حوصلے کی داد دیتا ہوں قونصل جنرل کی بیگم پیغام کے آئیں اگر نوید کی امی پاکستان جانے چاہیں تو ہم حاظر ہیں جس ہر میری بیگم نے جواب دیا میں اپنے خاوند جو چھوڑ کر نہیں جا سکتیں ۔یہ بات رہتی دنیا تک یاد رہے گی 

میں در اصل بتانا چاہتا ہوں کی یوم پاکستان پر ہم پر کیا بیتی اس سے پہلے والے یوم پاکستان کو ہم نے نے اپنی گھر کی چھت پر منایا میں نے ایک Audi کسٹمر سے کہہ کر جو پاکستانی تھے اور ان کی الیکٹریشن کی دکان تھی سے کہہ کر اپنی بلڈنگ کی چھت پر چراغاں کیا 

لوگ میری رہائش گاہ کو پاکستان بلڈنگ کہا کرتے تھے 

اسی بلڈنگ کو چراغاں کر کے میں نے ایک انفرادیت پیدا کی ۔نہ اس سے پہلے اور نہ ہی اس کے بعد جدہ کیا پوری مڈل ایسٹ میں یہ اعزاز مجھے ہی حاصل رہا جو پردیس میں یہ کام کر گیا ۔اسی بلڈنگ کی چھت پر بچے ٹیبلو پیش کرتے تقریریں کرتے صدارتی ایوارڈ یافتہ نور جرال نے بھی نعت سنائی رو ء ف طاہر مرحوم نے بھی تقریر کی مشہور صحافی خالد منہاس بھی ان میں شامل تھے 

آج کے بچے پاکستان کو لیڈ کر رہے ہیں ان میں پاکستان تحریک انصاف اور دیگر پارٹیوں میں اپنے کارنامے دکھا رہے ہیں 

آج ہم ناشتے کی ٹیبل پر وسیم صدیقی کی بات کو یاد کرتے ہیں وسیم بیرون ملک سے ایم بی اے کی ڈگری کر کے آیا تھا وہ مشہور نقاد عرش صدیقی کا بھتیجا تھا ہم سب سے زیادہ اچھے مشاہرے پر بن لادن کمپنی میں کام کرتا تھا باقی دوست معمولی ملازمت کرتے تھے 

لیکن اپنی اپنی جگہ اہم تھے البتہ عظمت نیازی کا کاروبار اچھا تھا بعد میں ہمارے ساتھ مسعود پوری بھی ان ملے ایک دو روز کے لئے ارشد خان بھی رونق بخشنے آ گئے مرحوم سعودی عرب مسلم لیگ کے صدر تھے ان کے بیٹے نے انہیں چھڑوا لیا بڑی چیز تھے شریفیہ خاندان سے بہت گہرا تعلق تھا 

میں ان دنوں کی یاد کرتا ہوں تو ان کا تقابل آج سے کرتا ہوں ملک پاکستان میں لوگ سیاسی قیدی ہو رہے ہیں ان کی لسٹیں بھی عام کو چکی ہیں ان کے ساتھ تشدد کیا جا تا ہے اور جب پنجاب پولیس تشدد کرتی تو چوہا بھی ہاتھی بن کر کھیت سے نکل پڑتا ہے 

انگیرز دور کے جنرل ڈائیر کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ۔بادر اور چار دیواری کے تقدس کو مجروح کیا جاتا ہے اس میں سینیٹر رکن اسمبلی بوڑھے جوان سب ایک ہی بھائو بیچے جاتے ہیں 

 اور تو اور چھوڑیں اس ملک میں شہباز گل کے ساتھ جو سلوک ہوا آپ کو علم ہے 

اس قدرتشدد کے صرف موت نہیں 

 اسی دوران ارشد شریف کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھی دنیا جانتی ہے ۔ملک سے بھگایا گیا اور اور ابو ظہبی سے کینیا تک موت کو اس کے پیچھے لگایا گیا 

ظل شاہ کل پی کی بات ہے ۔اوع افسوس یہ ہے کہ فتنہ گر کہتے ہیں کہ روڈ ایکسیڈینٹ میں مارا گیا 

اعظم سواتی پچھہتر سالہ شخص کے ساتھ ہائی برڈ حکومت نے جو کچھ کیا وہ بیان کے قابل نہیں وہ آج بھی ان دنوں کو نہیں بھولتے ۔اس کے بر عکس سعودی عرب میں جو میں نے 71 دن گزارے ان کی تعریف نہ کروں تو اچھا نہیں ہو گا اللہ سعودی عرب کے شاہوں کو درازی عمر سے نوازے ۔اپ اگر کام کریں اور بس کام ان کے نظام کو نہ چھیڑیں تو آپ کو کچھ نہیں ہو گا اور ہاں اگر پنگے لئے تو پھر خیر نہیں ۔

نوجوان کیپٹن محمد زہرانی کی جتنی تعریف کروں کم ہے اس نے میرے فنگر پرنٹ نہیں ہونے دیے اگر فنگر پرنٹ ہو جاتے تو دوبارہ نہیں جا سکتا تھا 

 مجھے ہر طرح کی سہولت دی مستنصر حسین تارڑ کے نوجوان بیٹے نے میرا بہت خیال رکھا غالبا ان کا نام سلجوق تھا 

قونصل جنرل نواز چوہدری نے فلیگ والی گاڑی سمیت جیل کا وزٹ کیا 

غرض جدہ کی وہ جیل ان پاکستانی ظالموں کی جیل سے بہت بہتر تھے 

ہمارے کھانا باہر سے آتا تھا 

مسعود پوری کو تو میں ایک عرصے جانتا تھا ہماری فیملی تعلقات تھے لیکن جیل میں رہ کر ان کی ذاتی خصوصیات سے واقف ہوا 

ہر دل عزیز اور مہربان حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے بھائی نہ صرف پاکستانیوں کے کام آتے بلکہ اپنے موبائل سے مصریوں صومالیوں اور دیگر ملکوں کے لوگوں کو انہیں فون کی سہولت دیتے ۔لاہور کے میاں منیر نے چوہدری فاروق جاوید کے کہنے پر جنرل مشرف کو شکائت لگائی کہ پاکستانی مارے گئے 

مسعود پوری کا فون ہر ایک کے لیے کھلا رہتا ۔وہ اپنے اکائونٹ سے اپنے ہوٹل سے کھانا منگواتے ۔

میں نہیں سمجھتا کہ ان جیسا سچا پیار کرنے والا بھائی کوئی اور ہو گا ۔

یہاں میں ان لوگوں کا بھی ذکر کرنا چاہوں گا کہ جو میرے گرفتار ہوتے ہی پاکستان اور دوسرے ملکوں کو فرار ہو گئے خود احس رشید لندن چلے گئے تھے میں ان کا نام لے کر انہیں رسوا نہیں کرنا چاہتا لیکن وہ بھی یاد رہیں گے 

میرے گھر اور میری بلڈنگ میں لوگ آتے نہیں تھے کہ کہیں پکڑے نہ جائیں ۔میرے بچے پریشان رہے ۔

چوہدری اکرم کو کبھی نہیں بلا سکتا جس نے جنرل اسد درانی کو کہااپ نے چار نامور پاکستانی بند کرا دیے ہیں جس ہر ان کا کہنا تھا یہ چار ہیں چار سو بھی ہوں تو بند کرایوں گا 

وہ شہ سے زیادہ شہ کی وفاداری کر رہے تھے 

ان سے بہت لوگوں نے بات کی وہ جو الریاض میں ان کے ساتھ رہے 

قونصلیٹ کے چند لوگ میری جاسوسی کرتے تھے ان کا کام تھا کہ وہ اپنی بیگمات کے ذریعے معلومات حاصل کرتے ان کی خواہش تھی کہ پوچھا جائے یہ کب جا رہے ہیں تا کہ باقیماندہ لوگ رہا ہو سکیں ۔جنرل۔مشرف نے تو ہمیں رہا کرنے کا آرڈر دے دیا تھا یہ جنرل اسد درانی اور کرنل طارق تھے جو میرے جانے کے منتظر تھے اور وہی ہوا جو یہ چاہتے تھے 

مجھے مسعود پوری نے کہا تھا کہ آپ چند دن ٹھہر جائیں ہمیں آرڈر آنے والا ہے  آپ رک جائو اور ایی پورٹ سے واپس آ جائیں مگر میری صد تھی اب جانا ہی جانا ہے آخری بار کیپٹن صفر سے ہوئی اور وہ بھی الوداعی ملاقات تھی 

ادھر میاں نواز شریف شہباز شریف کلثوم نواز نے بھی برابر رابطہ رکھا ۔میاں صاحب نے تو میرے ساتھ مسعود پوری کے فون ہر بات بھی کی حوصلہ دیا اور کہا کہ میں کوشش کر رہا ہوں ۔اپ کی دلیری کو سلام 

اعجاز الحق تو آئے روز فون کر کے بے جی کو بتایا کرتے کہ افتخار ٹھیک ہے 

ماں بڑا حوصلہ دیتی رہیں مگر جہاں واپس آ کر پتہ چلا کہ ان کا حوصلہ فون کی حد تک تھا اور وہ دن بھر روتی تھیں اور رات کو مصلی ہر دعا کیا کرتی تھیں 

ان ظالموں کو کوئی دعا بد دعا کام نہیں کرتی تھیں اور میرے پاکستان آنے کے بعد چند روز ہی ذندہ رہیں 

آج جب جنرل اسد درانی بات کرتے ہیں تو دل مسوس جاتا ہے ماں جی کہا کرتی تھی ،،او جانے،، میں بھی صبر کر لیتا ہوں

آج 23 مارچ ہے اور وہ بھی تھے آج میں گھر سے باہر کسی نامعلوم جگہ سے کالم لکھ رہا ہوں کہ ہارٹ آپریشن کے بعد میری صحت اچھی نہیں اگر صحت اچھی ہوتی تو کیا میں اسلام آباد میں عمران خان کا استقبال نہ کرتا اور میرے ہاتھ مائیک نہ ہوتا میں جو ایک شعلہ بیان ھونے کہ باوجود گونگے کی طرح 502 میں دبک کے نہ بیٹھا رہتا 

جیلیں سونے کی بنی ہوں تو جیل ہی ہوتے ہیں مگر جدہ سعودی عرب کی جیل کے تقابل ان ظالموں کی جیل سے کرتا ہوں تو دلی افسوس ہوتا ہے 

آپ شاہی نظام کو برا کہتے ہو اگر میں صرف صبح کا ناشتہ ہی لکھ دوں تو آپ حیران ہوں مکھن،جام اور روٹی اور دوپہر میں گوشت والے چاول اور رات کو اسی طرح ویسے ہم باہر سے کھانا منگواتے تھے یہ ان کی طرف سے تھا  اور یہاں تو انسان کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا 

سنا ہے عمران ریاض خان اب اس دنیا میں نہیں رہے اللہ نہ کرے اور یہ بھی سنا ہے کہ شہر یار آفریدی کے بازو مفلوج ہو گیا ہے 

پتہ نہیں ظالم کس منہ سے اللہ کے سامنے جائیں گے 

دعا کریں کہ پاکستان بچ جائے آمین

پی ٹی آئی کے دشمن 

باعث افتخار انجنیئر افتخار چودھری 

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عادل راجہ اور مہدی اور اس قماش کے لوگ پی ٹی آئی کے دوست ہیں ؟بعض اوقات لڑائی جھگڑوں میں اس قسم کے لوگ بڑا نقصان کرا دیتے ہیں اپنے دائیں بائیں نظر دوڑائیں ،،اگ لایا مت،، انہیں ہی کہتے ہیں خود بیرون ملک بیٹھ کر گوگل سے پیسہ بٹورتے ہیں اور لیڈران کے کچے کانوں میں آگ بھرتے رہتے ہیں 

عدنان خان کے دائیں بائیں بھی اسی قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔کوئی سمجھ دار بزرگ نہیں آپ نے دیکھا ہو گا کہ خان صاحب نے اس قسم کے لوگوں کو بھی مشیر رکھا ہوا ہے 

اچھا مشیر اور دوست وہ ہے جو دوست کو اچھے کام کا مشورہ دے  زندگی میں بہت سے جذباتی فیصلے کرتے کرتے میں اپنی دوست ملک محی الدین کی وجہ سے بچا ہوں کاش اس کا ساتھ بچا ہوں کاش اس کا ساتھ پاکستان میں بھی ہوتا 

خان صاحب یہ جو بھی حالات ہیں اس میں ہمارا قصور بھی ہے  اور ان دوستوں کا بھی جو آپ کی ہر بات ہر آمین کہتے ہیں میں جب بھی اپنے ساتھ بیٹھا آپ کو مشورے دیے اور آپ برہم بھی ہو جاتے یہی وجہ ہے کہ پورے ساڑھے تین سال کے اندر صرف ترجمانوں کی میٹینگ میں ایک بار شریک ہوا اور وہ بھی کسی مہربان کی وجہ سے اور وہاں بھی ہاتھ اٹھاتا ہی رہ گیا شہباز گل نے کہا آپ کیوں ہاتھ اٹھا رہے تھے میں نے کہا میں کہنا چاہتا عثمان بزدار کو ہٹائیں گل بولا چوہدری صاحب بات وہ کرتے ہیں جو لیڈر کو اچھے کھیل ۔آج وہی کچھ ہوا کہ لیڈر کی بات کو ٹوکنے والے پی ٹی آئی میں دور دور تک نظر نہیں آتے اور لیڈر کو مشکل میں دھکیلنے والے  دور بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں 

لیکن ہم ہی ہیں جو مشکل وقت کے ساتھ قائد کے ساتھ کھڑے ہیں ۔فوج کے ساتھ ٹکرائو کا مشورہ دینے والے ،،بیوقوف دوستوں،، کو سلام ۔افسوس صد افسوس کے اچھی خاصی کامیابیوں کے حصول کے بعد ہم نے راکھ چھاننے کو پسند کیا 

سوچتا ہوں میں اتنا بڑا شخص نہیں نہ ہی میں عمران خان جیسے بڑا سیاست دان ہوں 

پھر سوچتا ہوں وہ اکیلا رہ جائے گا میرے جیسے کئی صرف یہ جان کر عمران خان کا ساتھ دے رہے ہیں کہ وہ اکیلا ہے اور ہجوم میں بھی اکیلا ۔یہ زمان پارک اب تحریر سکوائر کیوں بن گیا ہے 

مجھے ڈر ہے کہ وہ مرسی نہ بنا دیا جائے 

  آپ کو پتہ ہے وہ اپنے دکھ چھپا رہا ہے احمد سلطان صاحب کبھی آپ عمران خان کو روتے دیکھا ہے جی میں نے دیکھا ہے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ کسی پتھر دل کا بنا ہوا ہے نہیں وہ عام آدمی کی طرح سوچتا ہے 

 چند سال پہلے پنجاب یونیورسٹی میں عمران خان گئے ان کے اس دورے کی روداد تو آپ کو پتہ ہو گی

 البتہ ایک تصویر دیکھی اس کے گریبان میں ایک طالب علم نے ہاتھ کچھ ایسے رکھا ہوا کہ جیسے وہ اس کے سانس کو ختم کرنا چاہتا ہو ۔ اس ایک تصویر نے آئی ایس ایف بنا دی 

تصویر دیکھی تو سات نمبر گلی کے میرے دوست جو ایئر پورٹ سوسایٹی آفس میں کام کرتے تھے وہ شہر یار کے گھر سے نیچے کی طرف آ رہے تھے نیازی صاحب کا ایک ہی ڈریس تھا بوسکی کی قمیض اور سفید شلوار 

میرے پاس سے گزرے تو میں نے خبریں اخبار میں چھپی تصویر انہیں دکھائی اور کہا بھائی دیکھو عمران خان کے ساتھ کیا ہوا ہے ؟ وہ بولے،، چوہدری صاحب چنگا ہویا اے،، یہ بندہ میرا رشتے دار ہے اسے خاندان کے لوگوں نے ہزار بار سمجھایا کہ تم شہزادوں جیسے زندگی گزار رہے تھے بلکہ کئی شہزادے وہ تمنا کرتے تھے کہ وہ عمران جیسی شہرت پائیں اس نے نہ اپنے باپ کی سنی نہ رشتے داروں کی اور آج یہ واقعہ ہو گیا۔

 نیازی کو میں نے بیٹھک میں بٹھا لیا اور اس سے سننے لگا ۔

میں سعودی عرب سے 2002 میں جبری طور پر نکالا گیا تھا یہاں اسلام آباد میں موٹروں کی ایک کمپنی میں کام کرتا تھا ۔نیازی صاحب بولے جا رہا تھا اور میرے دل کے اندر طوفان اٹھ رہا تھا میں اس وقت پی ٹی آئی میں شمولیت کر چکا تھا اور مجھے عمران خان نے ڈپٹی سیکرٹری نامزد کیا تھا وہ کہے جا رہا تھا کہ عمران خان کیسی شاہانہ زندگی گزار رہا تھا جمائمہ کی قصے شہزادی ڈائنا کی باتیں دنیا کے ایک بڑے بزنس مین کا داماد بن جانا، کچھ میں جانتا تھا کچھ نیازی نے بتایا ۔میں میری سوچ اور طرف جا رہی تھی 

رشتے دار کہہ رہا تھا کہ اس کو سیاست جیسے ،،گندے،، کام میں نہیں آنا چاہئے تھا آرام سے مزے کرتا شہرت اور دولت تو اس نے کما ہی لے تھی۔ اب لونڈوں کے ہاتھوں زلیل ہوریا ہے خود تو زلیل ہوا ہماری قبیلے کو بھی بدنام کر دیا ۔ 

پھر اس کے ایک اور ساتھی احسن رشید جنہوں نے مجھے پی ٹی آئی میں شامل کرایا وہ بھی یاد آئے جس کا ذکر بعد میں کسی اور کالم میں کروں گا 

نیازی صاحب اور نمبر سے رخصت ہوئے تو میں نے سوچ لیا کہ نیازی عمران کو افتخار گجر کا ساتھ مل جائے تو کیا بات ہے ۔

میں نے زندگی بھر مظلوم کی خدمت کی ہے جدہ جیل بھی بھگتی وہ بھی ایک اور نیازی کے کہنے پر اشتعال میں آکر سفیر پاکستان کو للکارا تھا اس نیازی کا نام عظمت ہے اور آج کل رحیم یار خان میں رہتا ہے اس نے جیل سے مجھے فون ہے کہا کہ آپ اخباری نمائندے ہو ہماری مدد کرو ہمیں مشرف کے ٹوڈی نے بند کر رکھا ہے 

میں نے اس نیازی کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں میں بھی چند دنوں میں اس کے پاس جیل میں پہنچ گیا ۔

عمران خان نے کتنے دکھ جھیلے یہ ایک لمبی داستان ہیں تحریک انصاف ، افسوس ہے اس جدوجہد کو کتابی شکل میں نہیں لا سکی یوں تو ہمارے پاس پڑھے لکھے لوگوں کی کمی نہیں لیکن اس جانب توجہ نہیں دی ۔ اور یہ کمی محسوس کی جائے گی ۔اعجاز رفیع بٹ شعبہ تعلیم و تربیت کے انچارج بنے ہیں انکے جذبے بھی ان کی قامت کی طرح ہیں انشاللہ امید ہے کہ وہ کریں گے 

یہ سیاست در اصل ہے کیا اگر یہ ،،گند،، ہے تو پھر اچھے لوگوں نے اسے کیوں اپنایا ۔یہ الہی سنت ہے یہ اس لیے کہ اللہ کے بندوں کے کام آنا ہی سیاست ہے یہ الگ بات ہے کہ یہ سیاست غلط بندوں کے ہاتھ لگ گئی ۔آپ نے کبھی سوچا کہ چند لوگ ہماری دائیں بائیں ہوتے ہیں اور وہ ایک الگ دنیا کی باسی دکھائی دیتے ہیں فلاحی کام اور اور معاشرے کو خوبصورت بنانا ان کا مطمع نظر ہوتا ہے 

اور وہ چند لوگ معاشرے کو بدل دیتے ہیں اسٹینلے والپرٹ نے کہا تھا کہ بعض لوگ تاریخ کو بدل دیتے ہیں اور جناح ایسے شخص ہیں جنہوں جغرافیہ بدلنے کے ساتھ تاریخ بھی بدل دی ۔قائد نے کھوٹے سکوں کے ساتھ پاکستان بنا ڈالا 

بڑے لوگوں کی زندگی میں بڑے موڑ آتے ہیں وہ اپنی زندگی کو اللہ کی دی ہوئی امانت سمجھتے ہیں آپ مولانا مودودی کو دیکھ لیں انہوں نے اپنی زندگی میں کتنے لوگوں کو متاثر کیا ۔ایک وقت میں انکی مخالفت میں کتنے لوگ اکٹھے ہوئے ۔اور بہت سی مثالیں ہیں 

لیکن عمران خان کی جدوجہد تو ہم نے اپنے سامنے دیکھی ہے ۔ایک اینکر نے پی ٹی آئی کے اوائل دنوں میں مجھ سے پوچھا عمران خان کو فلاحی کام ہی کرنے چاہئے تھے یہ سیاست میں ا کر انہوں نے کیا کمایا 

میرا جواب تھا آپ کی مرضی ہے کہ وہ واشنگ پاؤڈر کی ،،مشہوری،، میں آتا اور کہتا پھرتا یہ لے لو،اچھا گند صاف کرے گا ا

اللہ نے اس سے بڑے کام لینے ہیں لوگ پوچھتے ہیں کہ عمران خان نے کون سے ایسا تیر مارا ہے اور اس نے اپنے ساڑھے تین سالہ کیا کیا کوئی میگا پراجیکٹ ؟میں یہاں تحریک انصاف کے وہ کام نہیں گنوانا چاہتا جو اس نے کیے ہیں اور جسے دنیا کے بہترین پروگرام گردانا گیا آپ آٹے تقسیم کرنے گئے تو 58 جانیں گنوا دیں 

ان سب باتوں کو چھوڑ دیں آپ لوگوں کے میگا پراجیکٹ کیا تھے جس سے مال پانی بنتا وہ ہیں آپ کے میگا پراجیکٹ ہمراہ میگا سے بہت بڑا پراجیکٹ اپنے نبی کی حرمت کا عالم سے اعتراف کرانا ہے ۔

یوں تو کرونا کے دو سال ہمارے دور میں آئے ہم نے پاکستان میں بند صنعتوں کو چلایا آپ دیکھ لیں اب کیا حال ہے ٹیکسٹائل کی صنعت تباہ ہو گئی کئی ہزار لوگ بے کار پھر رہے ہیں مہنگائی کا جن بوتل سے باہر نہیں لوگوں کے گلے تک پہنچ گیا ہے ۔ہمیں اس بات ہے بھی گلہ نہیں کہ اب مہنگائی کے خلاف میڈیا بھی نہیں بولتا ۔اس دور میں تاریخ میں ایسی مہنگائی نہیں ہوئی لیکن اس میڈیا نے چپ سادھ رکھی ہے 

سیاست کو خدا را گند نہ سمجھیں چند گندے لوگوں کی وجہ سے اس کام کو برا سمجھا گیا یہ کوئی ہمہ وقتی کام نہیں آپ اپنے روز مرہ کے کام کرتے ہوئے بھی سیاست کر سکتے ہیں ہاں اسے زریعے معاش بنانا غلط ہے 

ضروری نہیں ہر سیاست دان زرداری اور نواز شریف یا فضل الرحمن ہیں اور میں یہ بھی کہتا ہوں کہ سارے لوگ تحریک انصاف کے ہی اچھے نہیں ان میں بھی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی دور میں غلط کام کئیے ہوں گے زرداری اور نواز شریف ہونا ایک کیفیت کا نام ہے جو کسی ہر بھی طاری ہو سکتی ہے یہ بیماری کا نام ہے ۔یہی وجہ ہے میں کہتا ہوں کہ تحریک انصاف کو اکثر ،ٹکٹ بدلنے کی ضرورت ہے ۔میں نے ایک پوسٹ لگائی کہ اگر عمران خان نواز شریف کو بھی ٹکٹ دیں تو ہمیں منظور ہے ۔

اکٹر لوگوں نے اسے سراہا لیکن میرے اچھے دوست حاجی عمران نے لکھا کیوں جی ہمیں یہ شعور عمران خان نے ہی دیا ہے کہ اچھے امیدواروں کا انتحاب کیا جائے حاجی عمران جیسے لوگ کسی بھی پارٹی کی شان ہوتے ہیں میں راشد حفیظ سے کہوں گا ان کا گلہ دور کریں ۔اصل بات یہ ہے کہ عمران خان کہ کہنے پر لوگ چلیں گے ان کے ٹکٹ کو بھی عزت دی جائے گی لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ان لوگوں کو منظر سے ہٹا دیا جائے جن پر کوئی کرپشن کا الزام ہو ۔

ایم کیو ایم کی ایک بات مجھے اچھی لگی کہ اس نے الیکٹیبل نہیں بننے دیے آج اللہ کے فضل سے پی ٹی آئی تیسرے انتحابات میں جا رہی ہے کچھ لوگ 2013 کے انتحابات میں سامنے آئے جن کے معاشی حالات ٹھیک نہ تھے ان کے ان کےوارے نیارے ہیں پارٹی کو چاہئے اب انہیں ،،مکمل ارام،، کرنے کا موقع دے اور ان لوگوں کو آگے لائے جو پارٹی کے ہر مشکل وقت میں فرنٹ لائیں ہر رہے ۔میری ان باتوں سے دوست ناراض ہوتے ہیں 

بھلے سے ناراض ہوں کچھ لوگوں کا خیال ہے ہمارے بہت سے لوگ کرپشن اور لوٹ مار میں بدنام زمانہ پارٹیوں کو بھی پیچھے چھوڑ چکے ہیں 

عمران خان ان ٹکٹ نہ دیں اور پھر وہ لوگ آگے لائیں جو صاف ستھرے ہوں ۔

ہم جب برے کو برا کہیں تو یہ نہ سوچیں کہ یہ ہماری برادری کا ہے یہ ہمارا رشتے دار ہے مزہ تو تب ہے کہ ہم سوچیں کہ ایماند دار ہے شکیل گجر میرا ایک دوست ہے اس نے جب میری پوسٹ ہڑھی تو کہا کہ چوہدری صاحب میں آپ کو جانتا ہوں لیکن خدا را یہ کام نہ کریں اچھا بندہ کوئی بھی ہو اسے آگے لائیں 

بات اصل میں یہ ہے کہ اچھے برے کی پرکھ میں میرا عمران خان مارا جائے گا اس طرح تو پارٹی ہار جائے گی تو عمران خان خان تو گیا ۔ ہمارے منتحب شدہ لوگوں نے کارکنوں کو اس قدر تنگ کر رکھا ہے کہ لوگ نکو نکو ہو چکے ہیں ایسے میں افتخار چودھری کیا کرے ۔

اس کا حل یہ ہے کہ لوگ پارٹی سے وابستہ رہیں اور ہر برے شخص کو احساس دلاتے رہیں کہ تم برے ہوئے اور ہم ووٹ عمران خان کو دے رہے ہیں تمہیں نہیں 

یہ بات بھی سچ ہے کہ ووٹ ہے ہی عمران خان کا 

سیاست ایک جہد مسلسل ہے ایک اچھے لیڈر کے ارد گرد اچھے لوگ ہی رہ جائیں گے

میری بے جی    باعث افتخار     انجینئر افتخار چودھری   

  ملک سے باہر سعودی عرب سے میرے ایک  دوست وقار صاحب بیت عرصہ رہے ہیں  کچھ عرصہ پہلے انہوں نے ایک پوسٹ لگائی۔۔پوسٹ میں چند دوستوں کی بیٹھک کا ذکر تھا سب دوست ایک دوسرے کو بتا رہے تھے کہ میری ماں کو کھانے میں کیا پسند تھاہر کوئی کچھ نہ کچھ بتا رہا تھا لیکن ایک دوست نے آسمان کی طرف دیکھ کر گھورنا شروع کیا۔وہ بتا نہیں سکا سوچتا رہا کہ اس کی ماں کو کیا پسند تھا وہ اپنے خیالات کو جمع نہ کر سکا۔اس نے کہا دوستو!بہت سوچا بہت کچھ ذہن میں آیا زور دیا بس اتنا یاد ہے میری ماں کو،، بچا کھچا ،پسند تھا۔جو بھی بچ جاتا میری ماں اسے کھا لیتی تھیں 

میں اس وقت سے سوچ رہا ہوں کہ اس محفل میں بیٹھا شخص میں تھا۔میں نے اپنی ماں کے ساتھ زندگی کے 47 سال گزارے ہوش کے 40 سمجھ لیں میں نے بے جی کو اہتمام سے کسی میز پر بیٹھے کھانا نہیں کھاتے دیکھا البتہ جب ماں جدہ آئیں تو ہم نے ریجیں نکالیں۔پانچ بھائیوں اور ایک بہن کے ساتھ ہم چھ بچے تھے ہر ایک کی اپنی فرمائش ہوا کرتی ماں محدود وسائل سے سب کو پورا کرنے کی کوشش کرتیں میری عادت تھی رات کے آخری پہر اٹھ جاتا ٹھنڈی چائے یا ٹھنڈے دودھ میں گڑ ملا کر روٹی کے ساتھ کھاتا۔ایک بار قلعہ دیدار سنگھ کسی شادی پر گئے۔بے جی نے میزبان خاتون سے کہا جو چائے مجھے دینی ہے وہ الگ کسی برتن میں ڈال دیں میرا بیٹا رات کو اٹھ کر مانگتا ہے میں اسے دوں گی۔میرے بچپن کی یادوں میں یہ ایک یاد ان دنوں کی ہے جب میں تقریبا ۵ سال کا  تھا۔

مائیں تو ساری دنیا کی انمول ہوتی ہیں میری ماں بھی ان جیسی ماؤں کی طرح تھیں لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ ماں اپنی ہی بہترین ہوتی ہے ۔آج جب وقار بھائی زندگی کی ایک مشکل لڑائی میں مصروف ہیں آگیں دعا کریں وہ ٹھیک ہو جاءیں اللہ نے انہیں ٹھیک کر دیا ہے   انہوں نے ذکر چھیڑا تو ماں یاد آ گئی۔ہمارے گھر میں جب کوئی خاص مہمان آتا تو آلو گوشت شوربے والا بنتا سبزی والے چاول توے کی روٹیاں۔گلابی رنگ کا کسٹرڈ بنایا جاتا جس میں کیلے ڈالے جاتے۔مہمانوں کے جانے کے بعد ماں ہمیں سیڑھیوں کے نیچے بنے چولہے کے پاس بٹھا کر کھانا کھلاتیں۔بعد میں  خود ٹھنڈی روٹی کے ساتھ شوربے سے کھا کر اللہ کا شکر ادا کرتیں۔70سال کی عمر میں جدہ میں ایک مصری ڈاکٹر کے پاس لے گیا اس نے جب بے جی کا بلڈ پریشر چیک کیا تو کہا ما شاء اللہ بہت اچھا ہے۔ماں جی اس عمر میں دبلی پتلی تھیں پوتوں کے ساتھ مل کر خوب رونقیں لگاتیں۔بڑا بھاری سا گدا بغل میں دبا کر ایک کمرے میں لے جاتیں پوتے پوتی خوش ہو جاتے بے جی کی Raybone کی میری لگا کر تصویریں بناتے  ۔ڈاکٹر دوست تھا کہنے لگا اپنی ماں سے پوچھیں کیا کھاتی ہیں بے جی نے بتایا زندگی میں کبھی ایک روٹی سے زیادہ نہیں کھائی اور پنکھے کے نیچے نہیں سوئی۔ایک بار گھر میں ہی گم ہو گئیں ہم عزیزیہ اسکول کے ساتھ والی گلی میں رہتے تھے پاکستانی دوست اس گلی کو چودھری والی گلی کہتے تھے۔بڑا تلاش کیا تو جائے نماز کے اوپر سوئی ہوئی پائی گئی اور وہ بھی بڑے ڈائنینگ ٹیبل کے نیچے۔ آج دلدار جو بیٹی کا باپ ہے اس نے ڈھونڈا کہ بے جی میرا چھوٹا کمبل ۔

اپنی بیگم سے ایک روز پوچھا کہ تم ہی بتاؤ کہ بے جی کو کھانے میں کیا پسند تھا تو اس نے بتایا کہ رمضان میں گھر کے بنے ہوئے دہی بھلے شوق سے کھاتی تھیں۔یقین کیجئے یہ اس نے بتایا تو مجھے پتہ چلا۔ایران میں چھوٹے بھائی کے پاس رہیں واپسی پر آ کر ایرانی لوگوں کے طرز حیات پر باتیں کرتیں ان کی یہ بات سن سن کر ہنسی چھوٹ گئی جب جبین نے بتایا کہ تہران چھت ہر چڑھ کر بادلوں سے باتیں کر رہی تھیں میریا حامد توں کدھر ہے؟, ۔چھوٹی بھاوج نے کہا بے جی یہ ایران یے حامد کینیڈہ میں ہے٫ حامد نواسہ تھا وہ اسے یاد کرتی تھیں 

جدہ میں جب دفتر سے واپس آتا تو انہیں مکان کی بالکونی میں منتظر پاتا۔وقار صاحب مائیں تو سب ہی کی اچھی ہوتی ہیں میری بھی ان میں سے ہی ایک تھیں۔آج آپ نے ماؤں کی پسند کا کھانا پوچھا تو میرا جواب بھی آپ کی بھیجی ہوئی پوسٹ والے دوست کا تھا کہ میری ماں بچا ہوا کھانا پسند کرتی تھیں۔

دوست احباب انہیں ملنے آتے دعائیں لیتے تھے۔ماں جی اللہ والی تھیں اپنے گھر کی چھت پر تبلیغی جماعت کے اجتماع کروایا کرتی تھیں۔مولانا عبداللہ درخواستی بھی ہمارے گھر تشریف لا چکے ہیں۔ایک بار میرا ایک غریب دوست جسے تنگی ٗ حالات نے اس قدر مجبور کیا کہ وہ گھر چھوڑ کر چلا گیا اس کے پانچ بچوں اور بیوی کو گھر لے آئیں۔بہوئیں دیکھتی رہیں اور بے جی نے کہا یہ میرے بیٹے کا وہ دوست ہے جس نے اس کی گرفتاری کے موقع پر پولیس سے ہاتھا پائی کی تھی اور بیٹے کو اکیلے نہیں جانے دیا تھا۔فاروق میرے بچپن کا دوست تھا تحریک ختم نبوت میں مجھے اندیشہ ء نقص امن کے تحت باغبانپورہ چوک گجرانوالا  سے گرفتار کیا گیا تو اس نے مجھے گرفتار کرنے پر مزاحمت کی۔مدرسہ اشرف العلوم  کے پاس مجھے 1974 میں تحریک ختم نبوت میں حصہ لینے کی پاداش میں گرفتار کیا

 گیا تھا۔وہ بچے پندرہ دن تک گھر رہے،ماں جی اس دنیا سے 2002 میں گئیں۔ان کا جہاں سے جانا اللہ کی رضا تھی۔لیکن اس میں جنرل مشرف دور کی سفاکیوں کا بڑا ہاتھ ہے۔مجھے جدہ میں چند دوستوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا جس میں قاری شکیل مرحوم ارشد خان مرحوم مسعود پوری مرزا آفتاب ڈاکٹر قسیم،عظمت نیازی،شہباز بٹ  وغیرہ شامل تھے۔ان میں اکثر میاں نواز شریف کے قریبی تھے۔جنرل اسد درانی ان دنوں سفیر پاکستان تھے۔یہ وہ جنرل ریٹارڈ مرد آہن ہیں جنہوں نے اصغر خان کیس میں نام کمایا ہے مہران بینک سکینڈل میں رخ سیاہ کیا۔ٹھگز آف پاکستان سیریز میں اس قسم کے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے اس قوم کا بیڑہ غرق کیا۔ان مہاکلاکاروں میں جہاں سیاست دانوں کی لمبی لسٹ ہے  اس میں کچھ لوگ پاکستان کے ایک معتبر ادارے سے ریٹائر ہو کر ملک عزیز کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے میں بھی لگے رہےمیاں نواز شریف گرچہ ایک معاہدے کے تحت وہاں تھے جس میں یہ شق شامل تھی کہ وہ سیاست نہیں کریں گے مگر مسلم لیگی دوستوں کی سیاست جاری تھی میں پاکستان کے ایک نامور اخبار کا نمائیندہ تھا جس سے حکومت وقت کو اس لئے تکلیف تھی کہ میں جدہ سے میاں نواز شریف اور ان  کے ساتھیوں کی کوریج کرتا تھا۔بادشاہ کو یہ تکلیف تھی کہ نواز شریف کی کوریج کیوں ہوتی ہے معاف کرنا یہ وقت تھا جب عمران خان کو جنرل مشرف پسند تھے اور مجھے سخت نا پسند ۔مسلم لیگیے پکڑے گئے اور مجھے بھی ایک روز اوڈی کے سروس سنٹر سے اٹھا لیا گیا یہ 19 مارچ 2002 کی دوپہر تھی  ساماکو کا دفتر آج کل جہاں ریلوے اسٹیشن ہے وہاں تھا  اس سڑک کو شارع علی المرتضے کہتے تھے ایک کونے پر بالبیدکمپنی تھی اور دوسرے پر الناغی  ۔ میری 71 دن کی جیل نے بے جی کوتوڑ کے رکھ دیا تھا۔ماں جی کو جب 29 مئی 2002 کو ملا تو وہ بہت کمزور تھیں ساتویں روز برین ہیمرج ہوا قومے میں چلی گئیں  ۔ لوگوں نے جمہوریت کے لئے بہت قربانیاں دیں میرے حصے میں ماں آئی جو میری گرفتاری کی نظر ہو گئیں ۔پمز کے بستر پر بے جی کی حالت دیکھتا تو دل کرتا گردنیں اڑا دوں جس دن ان کی ڈیڈ باڈی  میرے سامنے آئی دل کیا کہ بم باندوں اور پھٹ جاؤ ں مگر بے جی کا ایک تکیہ کلام تھا،، او جانے،،۔اس او جانے میں کتنے صبر کی تلقین تھی اس کا پتہ مجھے بعد کی زندگی میں ملا۔میری زندگی میں بعد میں بڑی خوشیاں آئیں اسی شہر جدہ جہاں سے جیل میں بند ہو کر گیا تھا عزتیں سمیٹیں پر ماں نہ تھی۔

2019 میں جدہ گیا تھا وہی گلیاں راستے پرانے گھر وہیں تھے لوگوں کے مکان تھے لیکن ہم کرائے دار ہو کر بھی مالک مکان تھے ماں جس جس گھر میں رہی ان کے دروازوں پر جا کر کھڑا ہوا جن گھروں میں گئی خاموش کھڑا دیکھتا رہا ایک شخص نے پوچھا کہ صاحب کیا ڈھونڈتے ہو میں نے کہا ماں ڈونڈتا ہوں۔وہ مجھے گھر کے اندر لے گیا ہر کمرے میں دیکھا جھانکا دیواریں کچن سب کچھ وہی تھا لیکن  ماں نہ تھی  نہ وہ رونقیں۔بڑی دل چسپ یادیں تھیں اس گلی کو لوگ انجینئر افتخار والی گلی کہتے تھے لوگ کون پاکستانی کہتے ۔گھر کی بالکونی کے پاس پارکنگ جہاں میری گاڑی کھڑی ہوتی تھی میں نوے کے دنوں کو یاد کرتا رہا 

 یہاں بڑے بڑے مہمان آئے۔نامی گرامی لوگ۔بڑے ڈرائینگ روم پر بچھائے گئے گدوں پر پاکستان کے نامور شاعر ادیب سیاست دان۔کچھ بچے جن میں حمزہ شہباز خرم دستگیر  کچھ بڑے شہر کی نامور ہستیاں یہاں اے سی کے ساتھ ایک فیکس مشین ہوتی تھی جسے لوگوں نے مشین گن کا نام دے رکھا تھا۔

کورڈ کے دنوں میں  عمران خان کو روتا دیکھا تو سچ پوچھیں میں بھی رو دیا

یہ کالم انہی دنو لکھا تھا 

 تزیین اختر نے کیا خوب یاد کرا دیا گجر شاعر ساحر لدھیانوی کے اشعار ۔

کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا

بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا 

ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں

 ان کو کیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا 

کس لیے جیتے ہیں ہم کس کے لیے جیتے ہیں 

بارہا ایسے سوالات پہ رونا آیا 

کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست 

سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا۔                               ساحر لدھیانوی

بے جی کو ان کرونا کے دنوں میں پتہ نہیں کیوں یاد کرتا ہوں۔ایک عالیشان گھر کے خوبصورت کمرے میں موت سے ڈرا ہوا افتخار ماں کو یاد کر رہا ہے۔کہتے ہیں اوکھے ویلے ماں ہی یاد آتی ہے۔آج جب وزیر اعظم روئے تو سچ پوچھئے میں بھی رویا ہوں میں تو اس ماں کو یاد کر کے رویا ہوں جو زندہ ہوتی تو کہتی پتر او جانے اٹھ اندھیری قبر کی تیاری کر۔دوسرے کمرے میں ایک اور ماں روتے روتے اپنے جدہ کے بچوں کو یاد کر رہی ہے۔ شائد اس میری ماں کے حصے میں بچا کھچا تھا وہ اپنے  نصیب کو لے کر جون 2002 میں گجرانوالہ کے بڑے  قبرستان میں دفن ہو گئیں سلام اس شہر گجرانوالا کو جس نے ہزارہ سے آءے ہوءے لوگوں کو کھلے دل سے قبول کیا اور اتنا پیار دیا کہ والد صاحب نے کہا مجھے ادھر اسی شہر میں دفن کرنا جہاں خالی ہاتھ آیا تھا اور اب بھرے ہاتھوں جا رہا ہوں ۔ آج جب کوئی یہ کہتا ہے کہ پنڈی میں پشتون کیوں آباد ہیں تو مجھے اپنے باپ کی ہجرت یاد آ جاتی ہے اپنی ماں جی مسافرت کو ذہن میں رکھتا ہوں جنازہ زعیم ملت مولانا رحمت اللہ نوری نے پڑھایا دعا  مولاناعبدالرحمن مکی صاحب نے کرائی اس سہ پہر کو رم جھم بھی ہوئی جون کے آخری ہفتے میں قیامت کی گرمی میں جنت سے بارش کی بوندیں بے جی کو لینے آئیں۔اور وہ ہمیں روتا دھوتا چھوڑ گئیں۔دنیا کی ہر ماں اپنے بچوں کے لئے قربانیاں دیتی ہے یقینا میری ماں سے زیادہ دینی والی مائیں بھی موجود ہیں لیکن مجھے تو اس ماں کا ذکر کرنا ہے جس نے مجھے جنم دیا۔ہم انہیں بے جی کہتے تھے پورے محلے کی بے جی تھیں۔باغبانپورے کے  رہائیشی جانتے ہیں کہ بے جی سب کی ماں تھیں۔جون 2002 کی دوپہر کو بڑے قبرستان میں محو استراحت ہونے والی ماں کی دعائیں اب بھی پیچھا کرتی ہیں۔اللہ سب کی ماؤں کو محفوظ رکھے  اور وہ کسی بے رحم دکٹیٹر کے اقدامات کی نظر نہ ہو جائے۔ چاءے خانہ میں مجھے جنرل عاصم باجوہ مل گءے ہاتھ ملایا تو بڑا نرم ہاتھ تھا میں نے کہا جنرل صاحب فوج اچھی لگتی ہے لیکن کبھی کبھی مجھے اس کے چند کاموں ہر غصہ بھی آتا ہے کیا جواب دیا جاٹ کے بیٹے نے کہنے لگے فوج ہر بار اچھے کام بھی تو نہیں کرتی ۔میں نے دو نرم ملاءیم ہاتھوں والے انسان  دیکھے ہیں ایک جنرل عاصم دوسرے حافظ سعید اور دونوں ہی مجھے اچھے لگتے ہیں ۔ اور اب ان کو ،،برگر،، کے حوالے سے جانتا ہوں 

بچا کھچا کھانے والی مائیں  ہی دلوں میں زندہ رہتی ہیں۔۔انسان جتنا بھی بڑا ہو جائے ماں کے لئے چھوٹا ہی رہتا ہے  اور انسان میں یہ بھی ایک بڑی خوبی ہے کہ وہ ساری زندگی ماں کی تلاش میں رہتا ہے

بے جی کبھی جنت سے آ کر  ملو ناں 

کھلا ضرور باعث افتخار انجنیئر افتخار چودھری 

ابھی جام عمر بھرا نہ تھا 

کف دست ساقی چھلک پڑا

رہیں دل کی دل میں ہی حسرتیں

کہ نشان قضا نے مٹا دیا 

شاعر اس میں شعر میں سردار تنویر الیاس کے بارے میں کہتا ہے کہ سردار الیاس کے بیٹے نے اپنی تئیں بہت کوشش کی اور بڑے جان جوکھوں کے بعد آزاد کشمیر کی وزارت عظمی حاصل کی تھی کہ ،اوپر ،،سے ایک ایک جان لیوا حملے کے بعد وہ دھڑام سے نیچے آگرے اور ان کے وزارت اعلی ایک سال بھی گزار نہ پائی ۔کہتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم کی بد دعا کھا گئی 

یہاں شاعر کا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اوپر کوئی وہ اوپر والا نہیں جس کے دم قدم سے نظام ہستی چل رہا ہے یہ اسلام آباد ہے جس کی وجہ سے وہ منظر عام سے ہٹ گئے آج کل اسلام آباد سے زیادہ پنڈی کی چلتی ہے 

اب پتہ چلا ہے کہ سردار تنویر الیاس کو آزاد کشمیر کی عدلیہ نے بھی نا اہل قرار دیا ہے سری نگر کی منڈی راولپنڈی

ویسے سیانے کہتے ہیں کہ آزاد کشمیر کی عدالتوں کے فیصلے بڑے محترم فیصلے ہوتے تھے پتہ نہیں انہیں لاہور ہائی کورٹ کس نے بنا دیا 

سردار تنویر کے بارے میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ وہ جب سونے کا ٹائم ہوتا ہے وہ جاگتے ہیں اور جب جاگنےکا وقت ہوتا ہے وہ سوتے ہیں ۔یعنی لوگ کہنا چاہتا ہے کہ وہ جنرل یحیی خان کی طرح جیتے تھے اور انہی کی طرح عیش و عشرت کی زندگی گزارتے تھے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ مغل تھے اور مغلوں کی طرح ہندوستان گنوانے کی طرح آنکھوں نے آزاد کشمیر کو ہاتھوں سے جانا دئے ۔۔مغل سے مغل اعظم بننا آسان نہیں ۔ویسے سچ پوچھیں

  اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے 

پی ٹی آئی کے لوگ بھی بچھوؤں کی وہ قطار ہے جن سے پوچھا گیا کہ آپ کا لیڈر کون ہے اس نے کہا ہاتھ لگا کے دیکھ لے ۔سلطانی جمہور بھی ہے سپیکر صاحب کے تمکنت اور نیازی صاحب کا مل کے بچھڑ جانے کا دکھ

کارکن اپنی جگہ ناراض ۔لگتا ہے کہ سردار صاحب نے ایک کلہاڑا اپنے آپ کو زخمی کرنے کے لیے رکھا ہوا تھا 

ساتھی دوست سب ناراض کر لیے 

لوگ ان کے گھر تک بھی پہنچ گئے اور باپ بیٹے کی لڑائی بھی کرا دی 

میری تنویر الیاس سے ایک عرصے سے سلام دعا ہے 

میرے دوست چوہدری شہباز حسین کے حوالے سے انہی کی ڈور وزارت میں تعارف ہوا تھا اس کے بعد متعدد بار ان سے ملاقات ہوئی آخری بار ان کے عزیز کی نا گہانی موت کے وقت ان کی رہائش گاہ واقع اسلام آباد میں ہوئی ملاقات عبد الودد قریشی نے کرائی تھی 

میرے کالم بھی ان کی نظر سے گزرتے رہے جن کا وہ تذکرہ بھی کیا کرتے تھے 

البتہ سردار الیاس بھی انہی دنوں سعودی عرب گئے تھے جب ہم نے بھی خوابوں کی گھٹری اٹھائی تھی وہ منطقہ شرقیہ میں اترے اور ہم حجاز میں 

اس دوران جب دمام جانا ہوا تو ان سے ملاقاتیں بھی رہیں 

میں صرف ایک دو سوال کر کے اپنی بات کو ختم کرنا چاہوں گا کہ مجھے یہ بتائیں جس بندے کو اپنے باپ کے تعلق اور دوستوں کے دوستوں کا خیال رکھنے کی ایک انتہائی اچھی عادت ہو اسے لالہ موسیٰ کا جھوٹا چوہدری کہہ رہا ہے کہ مدہوش زندگی گزارتے ہیں 

یحی خان پاکستان کے وہ واحد حکمران ہیں جنہوں نے اسلام آباد بنوایا اور شنید ہے ان کا کوئی پلاٹ نہیں یہ بھی سنا ہے کہ 65 کی جنگ میں کھیم کرن کے محاذ پر انہوں نے شجاعت کے اعلی کارنامے انجام دیے ہیں ۔فوج کو بدنام کرنا مقصد تھا شاید اسی لیے انہیں جنرل رانی کے ساتھ اور حسینائوں کے ساتھ منسلک کر کے ایک اچھے آفیسر بدنام کیا گیا ۔شامی صاحب کہتے ہیں پاکستان کے توڑنے میں 1/3 ان کا ہے مگر یاروں نے سو فی صد ان کے نام کر دی گئی ۔بھٹو جو فوج سے بیر تھا 

اسی طرح سردار تنویر الیاس کو گندہ کرنے کی مہم میں بہت سے لوگوں کا ہاتھ ہے ۔

میرے پاس ایک دو گواہیاں ایسی بھی ہیں جن کو بڑے قریب سے جانتا ہوں ان میں سے ایک ان کے ساتھ کام کرنے والے صاحب ہیں جو ان کے قریب رہے ہیں ایک اور رشتے دار بھی ہیں ان میں سے کسی نے ایسی گواہی نہیں دی جو اب بیان کی جا رہی ہے 

بات صرف یہ نہیں کہ وہ اقتدار سے رخصت ہو گئے 

اصل مسلہ یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کے ایک ایسے شخص کے ساتھ کھڑے ہونے کا ثبوت دیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اسلام آباد کے مرضی کے بغیر بھی زندہ رہ سکتے ہیں اور پنڈی کو بھی نظر انداز کر کے عمران خان کا ساتھ دیا یہ سب بڑا جرم کیا ہے انہوں نے 

یہ کوئی چھوٹی بات تھی کہ انہوں عرصہ 32 سال بعد آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کا کامیاب انعقاد کرایا اور وہاں پی ٹی آئی کی حکومتیں قائم کیں ۔ان کے راستے کی رکاوٹیں اتنی کھڑی کیں وہ تلملا اٹھیں ۔میں حیران ہوں کہ ایک منثحب حکومت کے عوام کے جانں سے چنے گئے سردار تنویر الیاس کس مصیبت میں پھنسے رہے ۔

کیا تنویر الیاس جیسا کم و بیش ایک سو کمپنیوں کا چیف اس قدر غیر زمہ دار ہو سکتا ۔ان کے کاروبار دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں کہا وہ سو کر اور شام کو جاگ کر ان کو چلا سکتے تھے یہ ان کی ذات کو بدنام کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے 

آج سینٹورس کو بند کرنے کے واقع کو بھی سامنے رکھیں ایک بلڈنگ جس کا ایک حصہ جلا گیا ہو اسے پوری طور پر سیل کرنا کہاں کا انصاف تھا 

آساوری قصے کے پیچھے سردار تنویر الیاس کا پی ٹی آئی کے چیئر مین عمران خان کا ساتھ دینا ہے 

یہ عمران خان کو کمزور کرنا ہے 

کہا جاتا ہے گلگت بلتستان کے ساتھ بھی یہی ہونے والا ہے ۔ازاد کشمیر کے جس سربراہ نے اسلام آباد کو اپنی حیثیت جتلانے کی کوشش کی ہے اس کی خیر نہیں 

اب فیصلہ ا چکا ہے اس ہر بحث کی جا سکتی ہے مجھے میرے ایک دوست نے بتایا کہ ججوں میں ایک جج نے سیاسی جج بن کر فیصلہ کیا ہے اس سے پہلے بھی جسٹس قیوم یہ کام کر چکے ہیں انہوں نے بھی فرمائشی فیصلے کئے تھے 

بے نظیر نے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کو نواز حکومت کی بحالی کے فیصلے کو ،،چمک،،قرار دیا تھا 

 اس۔ اے جی گواہی تو میں بھی دوں گا جدہ کے لاہور ہوٹل واقع بنی مالک میں جسٹس صاحب سٹول پر کھڑے ہو کر اعلان کر رہے تھے اور اعلان بھی مسلم لیگیوں کے جلسے میں کر رہے تھے کہ ،،میں وہ فیصلہ کروں گا جس سے آپ خوش ہو جائیں گے ،،

مرنے والے نر گئے مگر ان کے فیصلے زندہ رہ گئے کہ ہمارے ہاں جی عدالتں ہر وقت صیح فیصلے نہیں کرتی پیپلز پارٹی کے دوست بے ذوالفقار علی بھٹو کو سیاسی قتل کہتی ہیں کہ کلاں اگر تنویز الیاس اور پی ٹی آئی آزاد کشمیر کے لوگ اس فیصلے کو بھی سیاسی فیصلہ قرار دیں تو آپ کیا کہیں گیں 

پاکستان بھر کے ماہر قانون حیران ہے ایک ایسی بات ہر نا اہل قرار دینا جو کسی بھی نجی محفل اور جلسے میں کی گئی ہو اس ہر ان کو ناہل قرار دیا جا سکتا ہے حال ہی میں ایک جلسے میں ہمارے ہزارہ کے ایک سیاسی لیڈر نے چیف جسٹس کے بارے میں نازیبا الفاظ کیےاس پر تو ججوں کو غصہ نہیں آیا 

کوہالہ کے اس پار کے جج بڑے غصیلے یں اور مری سائڈ کے ستو پی کے سوئےبڑے ہیں انہیں خیال نہیں آیا 

ویسے بھی لوگ دیکھ رہے ہیں کہ کہنے والا کون ہے اگر پیا من بھا گیا تو ٹھیک ورنہ تباہ کر دیں گے 

اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کی جمہوریت جیسے کی ولی خان نے کہا تھا کہ کسی جنرل نے کہا پاکستان کے سیاست دانوں کو جمہوریت کی اے بی سی کا نہیں پتا تو انہیں جواب دیا گیا آگے جی ایچ کیو آ جاتا ہے مانا ہے سردار تنویر الیاس پیسے کے زور پر آئے تھے پتہ نہیں وہ پیسہ صرف سال کے کیے تھا یا تین چار سال

آزاد کشمیر کی جمہوریت کی فائل کو پہیے لگانے والے بہت ہیں 

لوگ کہہ رہے تھے کہ اکثریت گجروں کی ہے گجر ہی بنے گا دنیا میں جتنی بے اتفاقی قوم میری ہے کوئی اور کیا ہو گی ایک بار تو لطیف اکبر شیروانی بھی لے آئے تھے مگر سعودی عرب میں رہنے والے ایک ٹھیکے دار نے ان کی تار کاٹ دی 

سردار تنویر الیاس کے لئے 

یہ پھول اپنی لطافت کے داد پا نہ سکا 

کھلا ضرور مگر کھل کے مسکرا نہ سکا

*مبارک حمزہ یوسف۔ باعث افتخار   انجنیئر افتخار چودھری 

حمزہ یوسف اسکاٹ لینڈ کے پہلے مسلمان وزیراعظم مقرر*

*حمزہ یوسف کے والد کا تعلق خانیوال کی تحصیل میاں چنوں سے ہے*

*1960 میں حمزہ یوسف کے والد پاکستان سے سکاٹ لینڈ منتقل ہوئے تھے*

۔۔۔۔۔۔۔

اسی طرح برطانیہ کے وزیراعظم کا تعلق بھی بر صغیر سے ہے  اور لندن کے مئر بھی مسلمان رہے ہیں 

۔۔۔۔۔ اب سنئے 

اگر 1960  میں یوسف صاحب خانیوال سے سکاٹ لینڈ نہ جاتے تو ان کی حالات یہ ہوتے یہ خانیوال کے بڑے بڑے جاگیراروں جیسے جہانگیر ترین پیر اقبال اور ہراجوں کے ملازم ہوتے ۔اور حمزہ یوسف کا حال بھی میرے ڈرائیور افضل جیسا ہوتا 

افضل بہت اچھا ڈرائیور تھا وہ ترقی کرتے کرتے چیف ڈرائیور ہو جاتا میں اسے کبھی ترقی کے موقع نہ دیتا میں اسی بات پر خوش ہوتا اور اس کی تعریف کرتا رہتا تا کہ ساری عمر وہ میری نوکری کرتا رہتا  

حمزہ کے والد نے سفر کیا اور وہ ان لوگوں میں چلے گئے جو ٹیلنٹ  کی قدر کرتے ہیں  اور حقدار کو حق دیتے ہیں 

اللہ نے اسے وہ دھرتی دکھا دی یاد رہے  وہ ان لوگوں کی دھرتی جہاں سے ہم نے آزادی حاصل کی  اور انہیں ہم ظالم اور جابر کہتے تھے ۔میں خدا کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں سعودی عرب میں بیت سے چانس ملے مگر میں نے اپنے اور بچوں کے لیے پاکستان ہی چنا ۔

ایک بار میں یوکرائن فٹ بال میچ دیکھنے کے لئے گیا وہاں مجھے سائڈ ہر کھڑا کر دیا کہ میں پاکستانی ہوں کچھ دیر بعد پتہ چلا مجھے پاکستانی ہونے کی وجہ سے روکا گیا ہے میں ایک افسر کو بتایا کہ تمہارا یوکرائن بیت خوبصورت ہے مگر میرے ہنزہ کے مقابل میں کچھ نہیں پیچھے ہٹ یا داخلہ دے یا میں واپس جاتا ہوں ۔اج میں پاکستان کے بچوں اور بچوں کو بھی یہی کہوں گے پاکستان سے بھاگیں اب یہ ملک ہمارا نہیں ہے ۔اب سنا ہے اظہر مشوانی کو ایف آئی اے کے حوالے کیا گیا ہے ۔قوم پوچھ رہی ہے امیہ ایک ہفتہ کہا رہا ہے ؟

آج یہ نوجوان بلکل گجر خان کے راشد اور پنڈی ملک فیصل سے مختلف نہیں ہے جنہیں اسلام آباد پولیس نے مار مار کر نڈھال کر دیا تھا راشد تو تشدد سے بچا مگر ملک فیصل کو بہت مار ہڑھی ان بے چاروں کی کیا مثال دوں یہاں شاعر احمد فراز کے بیٹے کو پیٹا گیا اور امجد علی خان جو کبھی کبھی اس پاکستان کے بڑی کرسی پر بیٹھا کرتا تھا  وہ سول کپڑوں میں ملوث لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا عمران خان کا پرسنل فوٹو گرافر بھی انہی ظالموں کے ہاتھ بڑھ گیا 

اظہر مشوانی کا کوئی پتہ نہیں وہ کدھر ہے ڈر لگتا ہے اسے مردہ کہنے کو اللہ اپنی ماں سے اسے ملوا دیں

 اگر حمزہ یوسف بیت ترقی کرتا تو اسے آج اسلام آباد پولیس سے ایسی کٹ پڑنی تھی کہ خانیوال تو کیا پورے پنجاب کی دھرتی ہل جاتی  مبارک ہو حمزہ یوسف ۔

میں اس سے کہوں گا کہ کبھی پاکستان کی طرف منہ کر کے یہ سوچے بھی ناں کہ وہ اس دھرتی سے گیا تھا 

جس ملک نے آپ کو عزت دی وہیں کو مزید عزت دینا 

آج پتہ چلتا ہے کہ جمہوریت کیا چیز ہوتی ہے ویسے ہی نہیں۔ عمران خان کہتا کہ جہاں جمہوریت ہوتی وہیں رولز آف لاء کی حکومت بنتی ہے 

آپ نے کبھی جنازہ یوسف پاکستان کی جمہوریت دیکھی ہے کہ جہان کا وزیر داخلہ کہتا ہے کہ یہ ہماری اور عمران خان کی زندگی کا معاملہ ہے اگر ہم پیچھے ہٹ گئے تو مار دیے جائیں گے 

ہمارا قائد عمران خان دنیا کے چند لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں قصے مشہور ہیں کہ دنیا کے امیر بندے کا داماد  تھا جس نے اس کی دولت کو اہمیت نہیں دی جس پر گھڑی چرانے کا الزام بھی ہم ہی نے لگایا اس امیر زادی پر ٹائیلیں چوری کرنے کا مقدمہ قائم کیا گیا  شکر ہے وہ اپنے وطن چلی گئی۔ہم لوگ نئی نسل کو کہتے تھے کہ آپ کو ایسا ملک دیں گے کہ میں لوگ نوکریاں کرنے آئیں گے اور آج نوبت یہ ہے کہ میں خود کہتا ہوں ،،پاکستان سے زندہ بھاگ،، آج نئی نسل ہم سے پوچھتی ہے کہ آپ نے ہمیں کون سا پاکستان دیا ہے 

حمزہ یوسف آپ کے والد نے 1960 میں پاکستان کو الوداع کہا تھا بلکہ صیح کیا ایوب خان کا مارشل لاء جسے ہم اچھا کہتے ہیں وقت نے ثابت کیا کہ مارشل لاء کتنے بھی اچھے ہوں جمہوریت کے سامنے کچھ نہیں ہوتے آج جمہوریت ہی کا ثمر ہے کہ آپ کو سکاٹ لینڈ کا وزیر اعظم بنایا گیا ہے اگر ہمارے ملک میں ہوتے تو آپ کو کوئی جانتا بھی نہیں ۔

رانا ثناءاللہ صاحب 

یہ کہاں کی جمہوریت ہے اس طرز حکومت میں ایسا نہیں ہوتا لوگ ہارتے جیتتے رہتے ہیں اس بار تم اور اگلی  بار وہ ۔ائیں اپ کو بتاتے ہیں کہ جمہوریت کیا ہوتی ہے 

جی جہاں ایک مزدور کا مہاجر کا بچہ وزیر اعظم بن جاتا ہے 

مگر کیا کیا جائے رانا ثناءاللہ نے اسے زندگی موت  کا مسلہ بنا لیا ہے  اور اس جمہوریت کو گھر کی لونڈی بنا لیا ہے 

حمزہ یوسف آپ کو یہ جیت مبارک

کشمیریوں کی ماں   باعث افتخار۔  انجنیئر افتخار چودھری 

   کتنا بڑا دکھ برداشت  کر کے  ماں دنیا سے چل گئی 

گھر کے صحن میں نامور بیٹےکی قبر کو دیکھ کر وہ کتنی دیر زندہ دی سکتے تھی  

واہ مائے تیرے دکھ کو دنیا کیا سمجھے گی 

دنیا میں بہت سے لوگ جنم لیتے ہیں اور زندگی جی کر چلے جاتے ہیں بعض لوگوں پیسہ کمانے کو ترجیح دیتے ہیں بچے پالتے ہیں انہی میں گم ہو جاتے ہیں اچھی بات ہے مائیں صدقے واری جاتی ہیں اور اپنے پہلو میں لے کر سو جاتی ہیں  

لیکن جن مائوں نے دنیا کو لیڈر دینے ہوتے ہیں ان کے پالنے کے انداز مختلف ہوتے ہیں عبدالستار ایدھی کی ماں اسے جیب خرچ دیتی تھیں اور اس میں سے آدھا غریبوں میں بانٹ دینے کا درس دیتی تھیں 

کچھ مائیں ایسی بھی ہوتی ہیں جنہوں نے انسان ہوتے ہوئے بھی شیر جنم دیئے ماں کی تعریف کرتے ہوئے میری نظر میں مطلوب انقلابی کی ماں بھی آتی ہے اور مجھے اپنی ماں پر بھی فخر ہے  اور ہر اس بچے کو بھی فخر ہونا چاہئے جو اللہ کے بندوں کے کام آتے ہیں 

کشمیر کی مائوں  نے مطلوب جیسے بہت سے بچے پیدا کئے کہتے ہیں صاحبزاہ اسحق ظفر نے مرنے سے پہلے اشفاق ظفر جو کہا دیکھو اشفاق میرے دونوں ہاتھ ہاتھ صاف ہیں بعد میں انہی کے قرضے بیٹا ادا کرتا رہا 

پتہ نہیں لوگ سیاست دانوں کو برا کیوں کہتے ہیں 

سیاست الہی سنت ہے لوگوں کے کام آنا ہی سیاست ہے 

زندگی ایک سفر کا نام ہے چاہے پیدل یا دنیاوی سواری پر ہو جہاز پر ہو اس سفر کو بچے طے کرنے اپنی ماں سے جدا ہو جاتے ہیں 

مجھے مطلوب  انقلابی کے بارے میں بہت  سی باتیں کرنا ہے میں نے ان کے ساتھ سفر بھی کئے حنیف کھٹانہ بھی ساتھ تھے ۔کسی بھی شخص کے بارے میں کوئی بندہ بھی کوئی بھی رائے رکھے اس میں اس کے خاندان ماں باپ کا دخل ضرور ہوتا ہے ۔اس ماں نے بھی  بہت سی ستائشیں  سمیٹی ہیں 

مطلوب انقلابی کو تقریر کرتے ہوئے اپنے موقف پر ڈٹ جاتے ہوئے یہ منہ سے نکلا ہو گا ،،واہ مائو نیا بچیا،،

اور بعض اوقات یہ بھی سنا ہو گا کہ ،،واہ شیر نیا پترا،،

مائیں بہت اچھی ہوتی ہیں اور ان میں سے سب سے پیاری ماں اپنی ہوتی ہے  ان کے لیے کیا لکھوں 

روف طاہر مرحوم  میرے بہت اچھے دوست تھے  کہا کرتے تھے ماں اپنی ہی اچھی ہوتی چاہے اس کے چہرے پر ہزار جھریاں ہوں کسی خوبصورت اور گوری چٹی کو دیکھ کر یہ اعزاز اس کو نہیں بخشا جا سکتا ہے 

آج مطلوب صاحب کی والدہ اس جہاں سے گزر گئی ہیں انہوں نے بھی ہزار بار سوچا ہو گا کہ میں کیوں نہیں مر گئی جوان بچے کی موت اور وہ بھی ناگہانی موت کیسے دن بتائے ہوں گے 

میرے پیارے دوست  کی قبر بھی گھر کے صحن میں ہیں 

میری ماں جی کے بارے میں جو تحریریں لکھیں وہ میری زندگی کی بہترین تحریریں ہیں 

کیوں نہ ہو میری ماں نے بھی مجھے شیر کی طرح پالا ہے  یقینا میرے تذکرے ہوں گے مگر ان کے لئے ابھی وقت باقی ہے 

ماں جی آپ مطلوب کی ماں ہی نہیں تھیں انقلابی کے ہر چاہنے والے کی ماں تھیں ضمیر بجاڑ کی ماں تھیں عبدالرحمن بھٹو کی ماں تھیں طارق بجاڑ اور ہزاروں ایسے چاہنے والوں کی ماں تھیں 

مجھے آج تک وہ لمحہ نہیں بھولا جب دو ہاتھ لمبے کر کے آپ اپنے بیٹے کے لیے بین کر رہی تھیں 

پتہ نہیں یہ حوصلہ آپ نے کہا سے پایا 

کہ اپنے گھر کے صحن میں ان کی قبر بنا لی 

1977 میں جب گجرانوالہ اسٹیشن سے میں کراچی ویزہ لگوانے کے لئے گیا تو ماں سے بچھڑنے کا دکھ تھا اور میری آنکھوں میں آنسو آ گئے 

ماں نے گلے لگایا اور کہا ،،پتر جوان اور گھوڑے کا کوئی دیس نہیں ہوتا ،، علی خالد منہاس کو اٹلی جاتے وقت بتایا بیٹا جوان اور گھوڑے کا کوئی دیس نہیں ہوتا البتہ یہ نصیحت بھی کوئی اٹالین  گھوڑی نہ واپسی پر لے آنا ۔ 

بلکل سیاست کی خار دار وادی میں قدم رکھنا ہی نیک اور با اصول لوگوں کے لیے یہ شہادت گاہ الفت میں قدم رکھنا ہے ۔کوئی بیٹا کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا اور میں لکھ کے دیتا ہوں اور حلفا قرآنا  لکھے دیتے ہوں جب تک اس کے ساتھ ماں باپ  کی دعا نہ ہو 

یہ رکشے والے پاگل نہیں ہے کہ پاکستان بھر میں سب سے زیادہ یہی لکھا جاتا ہے یہ سب کچھ میری ماں کی دعا کی وجہ ہے عامر محبوب میرے دوست ہیں ایک بڑے اخبار کے ایڈیٹر ہیں جب تک ان کی ماں زندہ رہی وہ اپنے اخبار کے ہر چھوٹی بڑی تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے بلاتے تھے ظفر اقبال بیگ بھی یہی کچھ کرتے تھے اللہ خوش رکھے دوران آپریشن میرا بیٹا نوید مجھے باتھ روم میں میرے کپڑے بدل رہا تھا کہ روزی افطار ہو رہا تھا میں نے کہاتعزہ کھول لو اور اس نے جواب دیا کھل جائے گا 

ماں باپ اس عمر میں بچے ہوتے ہیں انہیں بچوں کی طرح ہی بر تاؤ کا مستحق سمجھا جائے  

ہم نے بھی ماں کی دعاءوں سے بہت کچھ پایا میں نے مطلوب انقلابی کے ماں کے وفات پر یہ کالم لکھ کر اپنی عامر محبوب ان کی اور دنیا کی ہر اس ماں کو خراج عقیدت پیش کیا ہے جو اس دنیا میں نہیں ہیں 

میں بیٹی کا باپ ہوں آپ ہ بیٹی کو بھی یہی کچھ سمجھایا ہے کہ جنت ماں کے قدموں میں ہے اور یہ بھی جان لو جنت ساس کے قدموں میں بھی ہے کیونکہ وہ بھی ماں ہے 

میں جب ہسپتال کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا معروف انجم چیچی نے بتایا کہ مطلوب انقلابی صاحب کو اگر کچھ ہو گیا تو ہماری پوری قوم کا نقصان ہو گا  سچی بات یہ ہے ایک طرف قوم کا نقصان اور دوسری طرف ام مطلوب کا نقصان دیکھا جائے ماں کا دکھ زیادہ ہو گا 

کسی نے کہا تھا کہ دنیا کا سب سے بوجھ جوان بیٹے کو کندھا دینے کا بوجھ ہے اللہ کسی کو نہ دکھائے 

اور ماں کی تو بات ہی نہ کریں 

ولید انقلابی کو دادی جان کے انتقال پر ملال پر اپنے  غم کا اظہار کرتا ہوں ۔دادیوں کی جان پوتوں میں ہوتی ہے کہ میں نے دادا بن جانے کی بعد دیکھا ہے 

اللہ شیر کی ماں کا دوسرا جہاں اچھا کرے 

کشمیریوں کی،، ماں مر گئی،،

Comments are closed.