پٹوار سیکرٹریٹ

پٹوار سیکرٹریٹ
شاہد اعوان، بلاتامل

Shahid Ewan

21ویں صدی میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے کہ ہمارے ایسے دو صدیاں دیکھنے والے انگشت بدنداں ہیں کہ ابھی ہم نے اور کیا کیا ”مناظر“ دیکھنے ہیں۔ موجودہ دور میں جو چیز دل دکھاتی ہے وہ سوشل میڈیا کے ذریعے جس قدر جھوٹ کا بول بالا کیا جا رہا ہے الامان الحفیظ! اس کا انجام کیا ہو گا؟؟ حق سچ بات کوئی سننے اور ماننے کو تیار ہی نہیں ہے خصوصاٌ نوجوان نسل محض دولت کمانے اور خود کو سوشل میڈیا کی چکا چوند میں ”نمایاں“ کرنے اور معروف بننے کے چکر میں ہر حد پار کرنے کی تگ ودو میں مصروف عمل ہیں۔ خیر یہ بات تو ضمناٌ آگئی ہمارا موضوعِ سخن کچھ اور ہے جو حقیقت پر مبنی ہے جسے ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں ایک عجوبہ کے طور پر دیکھا جا ئے گا۔ ”پٹواری” کو برصغیر میں متعارف کرانے والا انگریز تھا پٹوار سسٹم صرف پاکستان اور ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ انگلستان میں بھی رائج ہے۔ زمینوں کا حساب کتاب پٹواری کے مرہون منت ہے پٹواری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 60ء کی دہائی میں گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خان جن سے بیوروکریسی تو کیا سیاستدان بھی خوفزدہ رہتے تھے مگر وہ بھی اپنی ماں کے بعد پٹواری سے ڈرتے تھے وہ یوں کہ نواب صاحب اپنے حلقہ کے پٹواری کی رہائش، اس کے گھریلو اخراجات و آمدورفت کا انتظام خود کیا کرتے اور اس کا حکم ان کی والدہ صاحبہ نے انہیں دے رکھا تھا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان جاگیردار تو نہ تھے لیکن نواب صاحب کی نقالی میں انہوں نے بھی اچھی خاصی زمینیں خرید لی تھیں ان کی والدہ صاحبہ بھی پٹواری کو بڑی اہمیت دیا کرتیں۔ دورِ حاضر میں پٹواری کا وہ ماضی والا رعب و دبدبہ تو نہیں رہا مگر اس کی اہمیت اور ضرورت بہرحال اپنی جگہ موجود ہے۔ گو کہ میاں صاحبان کے سابقہ دور میں پنجاب میں پٹواری کو ”نتھ“ ڈالنے کے لئے ’اراضی ریکارڈ سنٹر‘ کے نام سے کمپیوٹر سسٹم متعارف کرایا گیا لیکن کئی سال گزرنے کے باوجود یہ ادارہ آج بھی پٹواری کے مرہون منت ہے جونہی معاملہ بگڑتا ہے تو اس کی نوک پلک درست کرنے پٹواری کا ”بستہ“ ہی کام دکھاتا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ پٹواری اور ڈاکٹر کی لکھائی ماہر ترین انسان بھی نہیں پڑھ سکتا۔ ایک محاورہ زبان زدِ عام ہے ”لکھے موسیٰ پڑھے خدا“ جو غلط العام ہے جبکہ درست محاورہ یوں ہے ”لکھے موسا پڑھے خود آ“ یعنی لکھنے والے نے اتنا باریک لکھا ہے (مُو کا مطلب بال ہے) کہ اس کو پڑھنے کے لئے لکھنے والے کو خود ہی آنا پڑے گا۔
ہمیں جو بات اپنے بڑوں سے بچپن ہی میں سننے کو ملتی تھی کہ اگر تم کاشتکار ہو یا زمیندار تو پٹواری سے کبھی بگاڑنی نہیں۔ میاں صاحبان چونکہ صنعتکار ہیں زمیندار نہیں انہوں نے پٹواریوں سے ”بگاڑ” کر اچھا فیصلہ نہیں کیا۔ فقیر کا پٹواریوں کے ساتھ ہمیشہ احترام کا رشتہ رہا ہے بڑے بڑے نامی گرامی پٹواریوں سے دوستی بھی ہے انہی میں ایک نام چوہدری نذر گوندل کا ہے جو اب تحصیلدار ہو چکے ہیں موصوف زمینوں کی ”ایچی بیچی“ ایسے جانتے ہیں جیسے دائی۔۔۔ اللہ ان کو مزید ترقی دے، ایک اچھے انسان ہیں اور اپنے محکمہ میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں انہیں گزشتہ سال محکمہ نے راولپنڈی ڈویژن میں نئے بھرتی ہونے والے نوجوان نائب تحصیلداروں کی تربیت کا فریضہ بھی سونپا اب ان کے شاگرد ہر تحصیل میں پائے جائیں گے جن میں مردوخواتین دونوں شامل ہیں اور یقینا اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اب اصل مدعے کی طرف آتے ہیں جو اس تحریر کی اصل روح بھی ہے کہ بیوروکریسی میں نوجوان اسسٹنٹ کمشنر صاحبان کی اکثریت عوام الناس کو سہولتیں فراہم کرنے میں نت نئے اور کارآمد تجربے کرتی رہتی ہیں اس میں ہماری تحصیل حسن ابدال کے سرگرم اسسٹنٹ کمشنر محمد عارف قریشی جو نوجوان تو ہیں ہی ”عارف“ بھی ہیں۔۔۔۔ باہوؒ صاحب کی زبان میں ’عارف دی گل عارف جانے‘ کے مصداق ان کے پاؤں کے نیچے ٹائر لگے ہوئے ہیں جو انہیں ایک جگہ ٹھہرنے نہیں دیتے اللہ ہمارے بھائی کو نظر بد سے بچائے۔ خوش قسمت ہیں ڈپٹی کمشنر اٹک راؤ عاطف رضا جن کو موصوف جیسے محنتی اور اچھی شہرت کے حامل نوجوان آفیسر میسر ہیں۔ اے سی عارف قریشی نے پنجاب کی ایک چھوٹی سی تحصیل حسن ابدال میں ایک انوکھا کام یہ کیا کہ شہر کا مصروف ترین کاروباری قطعہ زمین جو اللہ جانے قبضہ مافیا سے کیسے بچ گیا ورنہ تو یار لوگ قبرستانوں پر محل بنا کر بیٹھے ہیں۔ اس بندہ خدا نے وہاں ’پٹوار سیکرٹریٹ‘ کھڑا کر دیا اس کی بیسمنٹ اور فرسٹ فلور پر چھت ڈال دیا گیا ہے اور تیسری چھت پر کام تیزی سے جاری ہے اور اہم بات یہ کہ اس پراجیکٹ پر حکومت کی ایک پائی بھی استعمال نہ ہوئی ہے۔ یہ کام صرف عوام الناس کی سہولت کے لئے کیا گیا تاکہ لوگوں کو اپنے اپنے حلقہ پٹواری ایک ہی چھت تلے دستیاب ہوں اور یوں پٹواری صاحبان کو بھی باعزت دفاتر الاٹ کر دئیے جائیں گے اس سے ناصرف پٹواریوں کی آئے روز نجی عمارتوں کے کرایوں سے جان چھوٹ جائے گی اور سب سے بڑھ کر عوام کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے سے جان چھوٹ جائے گی۔ یہ تجربہ میرے لئے انوکھا اور اچھوتا ہے، اللہ کرے دوسرے اضلاع اور تحصیلوں میں بھی پٹواریوں اور عوام کے لئے ایسے کام کرنے والے میسر آجائیں۔ اگر یہی کام حکومت کرتی تو اس پر اربوں روپے ”درکار“ ہوتے اور پھر بھی منصوبہ ادھورا رہ جاتا۔ ہم ان سطور کے ذریعے اس اقدام پر جناب عارف قریشی کو مبارکباد پیش کرتیہیں وہ یقینا قابل ستائش اور مبارکباد کے مستحق ہیں ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکومت کی جانب سے بھی ان کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی کرتے ہوئے تعریفی سرٹیفکیٹ دینے چاہئیں۔

Comments are closed.