اٹک کا باسی گورنر پنجاب بن گیا!

Shahid Ewan

شاہد اعوان، بلاتامل

Shahid Ewan

سابق گورنر مغربی پاکستان امیر محمد خان کے ملٹری سیکرٹری جنرل (ر) جہانداد خان رقمطراز ہیں ”نواب صاحب طویل القامت، قوی الجثہ تھے ان کی گھنی مونچھیں نمایاں تھیں ان کی شخصیت بڑی بارعب تھی ان کی گفتگو میں بہت نرمی تھی وہ حددرجہ کے مہمان نواز تھے انتہائی مہذب اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے وہ خوش گفتار بھی تھے وہ شہری اور دیہی ہر قسم کے ماحول میں خود کو آسانی سے ڈھا ل لیتے تھے مہذب اور نرم خو ہونے کے باوجود ان کی شہرت یہ تھی کہ وہ انتہائی تند مزاج سخت گیر بھی واقع ہوئے تھے وہ اپنے سیاسی مخالفین کو کیفر کردار تک پہنچانے میں دریغ نہیں کیا کرتے تھے۔ انہوں نے یکم جون1960ء کو گورنر مغربی پاکستان کا عہدہ سنبھالا تھا یہ عہدہ صدر مملکت کے بعد سب سے اہم اور بڑا تھا وہ بلاشرکت غیرے چھ سال اس عہدے پر براجمان رہے، انہوں نے زمیندار ہونے کی وجہ سے زرعی شعبے پر سب سے زیادہ توجہ دی زرعی پیداوار کی قیمتوں کے نظام، زرعی تحقیق، سیم و تھورکے خاتمے کے منصوبوں کو فعال بنایا، فصلوں کے تحفظ پر خصوصی توجہ دی، زرعی اصلاحات کی تشکیل کی۔ انہوں نے چھ سال تک سرکار سے کوئی تنخواہ وصول نہیں کی اور نہ کوئی مالی فائدہ اٹھایا حتیٰ کہ گورنر ہاؤس کے تمام اخراجات مہمانوں کی توضع اپنی جیب سے ادا کرتے۔ وہ ڈویژن اور ضلعی افسران سے براہ راست رابطے میں رہتے تھے وہ افسران کی تقرری کرنے کے بعد کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور ایس پی عہدے کے افسران کو بذات خود ہدایات دیتے تھے۔ اضلاع کے دوروں میں وہ پہلے وہاں کے حالات کے بارے میں معلومات حاصل کر تے اور حسب ضرورت انہیں ہدایات اور مشورے دیتے افسران کو یہ علم ہوتا کہ اچھی کارکردگی پر انہیں انعام ملے گا جبکہ خراب کارکردگی پر سزا بھی ملے گی گورنر نے انہیں کام کرنے کی پوری آزادی دے رکھی تھی اور اپنے ماتحتوں کو ہر طرح کے دباؤ سے بچا کر رکھتے تھے۔ ان کے دور میں یہ مشہور تھا کہ ایوبی دور میں وہ سب سے زیادہ باخبر شخصیت تھے خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار آگاہ تھے کہ رپورٹوں میں غلط بیانی سے کام لیا تو گورنر صاحب ان سے بازپرس کریں گے“۔ جنرل جہانداد کہتے ہیں کہ میں نے ان سے براہ راست سوال کیا کہ آپ کی معلومات کے ذرائع کیا ہیں؟ تو جواب ملا کہ میرا حافظہ ایسا ہے جو میں دیکھتا ہوں سنتا ہوں اس کا نقش میرے ذہن پر ثبت ہو جاتا ہے۔ اس طرح جتنے افسران ان کے ساتھ کام کر چکے تھے انہیں سب یاد تھے وہ ان سے مسلسل رابطے میں رہتے تھے وہ گورنر ہوتے ہوئے بھی اپنے ضلع میں پٹواری، تحصیلدار، ڈپٹی کمشنر، پولیس افسران کو غلہ، پھل، دودھ و دیگر اشیاء بطور تحفہ بھیجا کرتے تھے۔ وہ افسران سے معلومات اپنے ذاتی گھر کے پتے پر منگوایا کرتے تھے ایسے خطوط ملک کے کونے کونے سے انہیں موصول ہوتے رہتے تھے اپنی ڈاک وہ خود کھولتے، پڑھتے اور احکامات بھی جاری کرتے تھے، ان کے سکول کالج کے ہم جماعت بھی ان کو ملاقاتوں اور خطوط کے ذریعے معلومات فراہم کرتے تھے ان کے دوستوں کا وسیع حلقہ تھا۔ جنرل جہانداد مزید لکھتے ہیں ”نواب صاحب نے جو انتظامی طریقہ وضع کیا تھا اس پر تنقید اندر اور باہر دونوں اطراف سے ہوا کرتی تھی انتظامیہ کے بے شمار افسران، سیاستدان اور دانشور ان کی پالیسیوں کے مخالف تھے وفاق میں موجود انتظامی افسران کو وہ قطعاٌ پسند نہ کرتے تھے۔ انہیں نسب، خاندانی پس منظر اور ذات برادری کی اہمیت پر پختہ یقین تھا ایک روز پاکستان ملٹری اکیڈمی کے لئے کیڈٹس کے انتخاب پر بات ہورہی تھی تو گورنر نے کہا کہ آپ کو فوج کے لئے اچھی قیادت کبھی نصیب نہیں ہو گی جب تک آپ مستقبل کے قائدین کے خاندانی پس منظر کو ترجیح نہیں دیتے، گھوڑا کتا خریدتے وقت بھی ہم اس کا شجرہ ضرور دیکھتے ہیں لیکن آپ فوج کے لئے قائدین منتخب کرتے وقت یہ تمام باتیں پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ وہ عموماٌ ریل میں سفر کیا کرتے اس سے وہ تمام علاقوں کی تعمیر و ترقی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا کرتے تھے۔“
یہ طویل تمہید باندھنے کی نوبت یوں پیش آئی کہ ضلع اٹک کی تحصیل فتح جنگ کے چھوٹے سے گاؤں ڈھرنال سے تعلق رکھنے والی نوجوان سیاسی شخصیت سردار سلیم حیدر کا قرعہ فال بطور گورنر پنجاب سامنے آیا ہے۔ سردار سلیم حیدر پہلی بار ضلع کونسل کے ممبر بنے اور اس کے بعد 2008ء میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور کامیاب قرار پائے اور پہلی ہی بار انہیں وفاقی وزارت بھی مل گئی۔ وہ قسمت کے دھنی ہیں والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کے ناطے انہیں بچپن میں بہت پیار ملا اور ابتدائی تعلیم تلہ گنگ کے بورڈنگ سکول سے حاصل کی اس طرح ان کا تلہ گنگ سے ایک خاص لگاؤ آج بھی برقرار ہے ان کی ایک پھوپھی صاحبہ بھی ٹمن میں بیاہی ہوئی ہیں اس لئے وہ تلہ گنگ کے ہر گاؤں سے خوب واقفیت رکھتے ہیں۔ وہ سابقہ نگران حکومت میں مشیر بھی رہے، پاکستان پیپلزپارٹی سے ان کا تعلق زیادہ پرانا نہیں ہے لیکن صدر مملکت آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو سے ذاتی مراسم قائم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ وہ خوش قسمت سیاستدان یوں ہیں کہ انتخابات کے بعد پارٹی کی جانب سے گورنر شپ کے لئے جو نام سامنے آ رہے تھے ان میں سردار سلیم حیدر کا نام دور دور تک تھا ویسے بھی ماضی قریب میں یہ عہدہ سنٹرل یا جنوبی پنجاب کے حصے میں آتا رہا ہے، نواب آف کالاباغ امیر محمد خان کے بعد ایئر مارشل(ر) نور خان چند ماہ کے لئے گورنر مقرر ہوئے تھے لیکن وہ جلد ہی اس عہدے سے سکبدوش ہو گئے تھے۔ یوں ایئر مارشل صاحب کے بعد سردار سلیم حیدر دوسری سیاسی شخصیت ہیں جو ضلع اٹک سے گورنر نامزد ہوئے ہیں۔ سردار سلیم حیدر کا وصف یہ ہے کہ جب وہ وفاقی وزیر تھے اس وقت بھی پارٹی کارکنوں سے ہٹ کر دیگر جماعتوں کے کارکنوں کے کام بھی بے دھڑک کیا کرتے تھے۔ بطور منسٹر ان کے دفتر میں فقیر کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے برملا کہا تھا کہ میلے کچیلے کپڑوں اور ٹوٹی ہوئی جوتیوں والے لوگ مجھے اچھے لگتے ہیں۔۔۔ یقیناٌ اللہ کو ان کی یہی ادا پسند آ گئی کہ انہیں ملک کے سب سے بڑے صوبے کا گورنر بنا دیا جو اہلیان اٹک کے لئے بھی بڑے فخر و اعزاز کی بات ہے، ایک طرف علاقہ کے عوام کی نیک خواہشات ان کے ساتھ ہیں دوسری طرف ان کی مرحومہ والدہ کی دعائیں بھی ان کا سب سے بڑا سہارا ہیں۔ سردار سلیم حیدر تیتر اور بٹیر کے شکاری بھی ہیں، ایک بار ہم پی پی پی ضلع اٹک کے صدر سردار اشعر حیات کے ہمراہ شکار کے لئے ان کے گاؤں ڈھرنال گئے تھے الصبح سے دن 12بجے تک شکار کھیلتے کھیلتے خوب بھوک لگ چکی تھی کہ سردار صاحب کی والدہ مرحومہ نے اپنے ہاتھوں کے بنے دیسی گھی کے پراٹھے، حلوہ، لسی اوردیگر کھانوں سے پر خلوص ناشتہ کرایا جس کی لذت ہمیں آج بھی نہیں بھولی۔ دونوں ماں بیٹے کو ایک دوسرے سے بے پناہ پیار تھا اور یہ اسی ماں کی دعاؤں کا صدقہ ہی ہے کہ آج ڈھرنال جیسے چھوٹے سے گاؤں کا باسی 14کروڑ عوام کے صوبے کا گورنر بن چکا ہے حالانکہ ماضی میں اس عہدے کے لئے اٹک کی بھاری بھرکم شخصیات کے نام سامنے آتے رہے۔ اٹک والے اس نامزدگی پر بہت خوش ہیں کہ ہمارا ضلع بھی گورنرشپ کی لسٹ میں شامل ہو گیا ہے جبکہ حسن ابدال میں ڈاکٹر سکندر حیات کا خانوادہ اختر حیات خان، ڈاکٹر وسیم حیات، اشعر حیات خان اور ذوالفقار حیات ضلع میں ان کے دست و بازو ہیں جنہوں نے ہمیشہ سردار سلیم حیدر کا ساتھ دیا ہے اور موصوف بھی حسن ابدال میں ڈاکٹر سکندر حیات ہاؤس کو اپنا دوسرا گھر قرار دیتے ہیں۔ آج مجھے اپنے محترم بزرگ دوست صوبیدار فوردل خان مرحوم آف ڈھرنال بڑی شدت سے یاد آ رہے ہیں کہ ان کا لگایا ہوا پودا گورنر پنجاب کے منصب پر براجمان ہو رہا ہے یقینا آج ان کی روح سردار سلیم حیدر کو اس عہدے پر دیکھ کر شاداں و فرحاں ہو گی۔ اہلیانِ علاقہ توقع رکھتے ہیں کہ گورنر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ سب سے پہلے فتح جنگ تا ڈھلیاں روڈ کی ازسرنو تعمیر کے احکامات دیں گے اور ماضی کی طرح علاقائی محرومیوں کے خاتمے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔ چلتے چلتے گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر کو ایک تجویز بھی دیتے جائیں کہ وہ گورنری کے بھاری منصب اورمصروفیات کے پیش نظر پارٹی کے پرعزم و نوجوان سیاسی راہنما ذوالفقار حیات خان کو اپنا معاون و مشیرمقرر کریں تاکہ اٹک کی عوام ان سے بھرپور استفادہ کر سکے۔

Comments are closed.