اسلام آباد(وقائع نگار)سپریم کورٹ آف پاکستان میں فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف کیس میں وفاقی حکومت نے تحریری جواب جمع کروا دیا۔سپریم کورٹ آف پاکستان میں فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف کیس میں وفاقی حکومت کی جانب سے ایک بار پھر فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی گئی ہے۔31 صفحات پر مشتمل جواب اٹارنی جنرل کی جانب سے جمع کروایا گیا ہے ، وفاقی حکومت کی جانب سے فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستیں ناقابلِ سماعت قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔وفاقی حکومت نے جمع کرائے گئے جواب میں کہا ہے کہ درخواست گزار ہائی کورٹس سے رجوع کر سکتے ہیں، آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ آئینِ پاکستان میں پہلے سے موجود ہیں۔وفاقی حکومت نے موقف میں کہا کہ ان دونوں ایکٹس کو آج تک چیلنج نہیں کیا گیا، آرمی اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کیے گئے اقدامات قانون کے مطابق درست ہیں ، سپریم کورٹ براہِ راست اس کیس کو نہ سنے۔وفاقی حکومت کی جانب سے جواب میں استدعا کی گئی ہے کہ فوجی عدالتوں کے خلاف کیس فل کورٹ کو سننا چاہیے ، اگر سپریم کورٹ نے درخواستیں خارج کردیں تو متاثرہ فریقین کا ہائیکورٹ میں حق متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔وفاقی حکومت نے تحریری جواب میں وضاحت بھی کی کہ 9 مئی کے واقعات میں گرفتار کن افراد کیخلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل چلے گا۔حکومت نے بتایا کہ 9مئی کے واقعات میں ملوث گرفتار تمام افراد کیخلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں چلایا جائے گا، بلکہ صرف ان افراد کیخلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل چلے گا جو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت آتے ہیں، جنھوں نے تنصیبات میں توڑ پھوڑ کی تھی۔عدالتِ عظمی میں جمع کرائے گئے جواب میں وفاقی حکومت نے کہا کہ پنجاب الیکشن کیس میں کیس کی سماعت کرنے والے جسٹس یحیی آفریدی بھی فل کورٹ بنانے کی رائے دے چکے ہیں۔
Comments are closed.