جامعہ ہری پور میں ایک یادگار دن

Shahid Ewan

شاہد اعوان، بلاتامل

Shahid Ewan

ہری پور یونیورسٹی کے رئیس اعظم پروفیسر ڈاکٹر شفیق الرحمٰن اسم بامسمیٰ واقع ہوئے ہیں ان کی مشفق طبیعت کی حدت ہر ملنے والے پر یوں عیاں ہوتی ہے جیسے صرف وہی اس کا حقدار ہو اور یہ وصف سوائے اللہ کی توفیق کے ممکن ہی نہیں۔ ہمارے بہت ہی پیارے دوست پشتو کے ممتاز شاعر اور خٹک قوم کی قد آور شخصیت جاوید اقبال افگار نے موصوف کا غائبانہ تعارف تو کافی پہلے سے کرا رکھا تھا اور اب باقاعدہ ملاقات کا شرف بھی برادر جاوید افگار ہی نے بخشا جب گزشتہ دنوں جامعہ ہری پور میں ان کی اولین نثری تصنیف کی پروقار تقریبِ رونمائی انعقاد پذیر ہوئی۔ جاوید اقبال افگار کی مرتب شدہ ”آئینہ دارِ محبت“ کے زیرعنوان کتاب برصغیر پاک و ہند کے نامور شاعر قتیل شفائی مرحوم کے مکتوبات و نایاب تصاویر پر مشتمل ہے جو مصنف کی شبانہ روز محنت اور ذاتی دلچسپی کی بدولت پایہ تکمیل کو پہنچی جبکہ ڈاکٹر شفیق الرحمٰن نے ناصرف کتاب کی اشاعت و ترویج کا فریضہ بااحسن نبھایا بلکہ یونیورسٹی میں قتیل شفائی انٹرنیشنل لٹریری سوسائٹی، گوشہ قتیل شفائی اور قتیل شفائی میوزیم کی بنیاد رکھ کر تاریخی کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ ہماری ادبی دنیا کے بے تاج بادشاہ قتیل شفائی کی انمول یادوں کو یکجا کرنا اور فرزندِ ہری پور کے شایانِ شان یادگار بنانے کا فریضہ ہزارہ کے معتبر دانشوروں نے انجام دینا تھا لیکن قدرت نے کوہستان جنڈ سے تعلق رکھنے والے صاحبِ علم و دانش اور بارہ ہزار طلباوطالبات کی پررونق درسگاہ ہری پور یونیورسٹی کے سربراہ کو اس عظیم کام کے لئے چنا جنہوں نے بااحسن انداز میں اس عظیم فریضہ کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور سب کو ورطہئ حیرت میں ڈال دیا۔ چھ فٹ سے نکلتا قد آور شخص یونیورسٹی کے مہمان خانے میں میرے روبرو تھا۔ بقول شاعر:
تو مخاطب بھی ہے قریب بھی ہے
تجھ کو دیکھوں کہ تجھ سے بات کروں
پہلی ہی ملاقات میں موصوف کی کئی خوبیاں کھلیں ان کا بانکپن اور شائستہ پن مقابل کو اپنا گرویدہ بنانے کے لئے کافی ہے اگر کسی ایک بنیادی خوبی کی نشاندہی کرنی ہو جو ان کی ذات کی کلید ٹھہرے اور جس کا عکس موصوف کی شخصیت کے باقی تمام پہلوؤں میں ڈھونڈا جا سکے تو وہ خوبی ان کی انسان دوستی ہے۔۔۔ ہر طرح کے تعصب و تنگ نظری سے بالاتر ہو کر انسان ہونے کے ناطے انسان سے محبت ہے، محبت جو تمام انسانی کمزوریوں اور علتوں پر قابو پا لیتی ہے اور طبائع کے ہر مرض کا علاج ہے۔ محبت ہی وہ بنیادی جذبہ ہے جس سے شفیق الرحمٰن کی شخصیت کے باقی تمام احساسات و محرکات پھوٹتے ہیں اور اسی سے ان کی شخصیت کا ہر پہلو ہر انداز دل پذیر نظر آتا ہے۔ انسانوں سے محبت کرنے والا ہر شخص اپنی فطرت میں مجلسی ہوتا ہے وہ ہمیشہ لوگوں سے ملنے جلنے اور ان کے ساتھ مل بیٹھنے کا آرزومند ہوتا ہے اس طرح کے شخص میں گفتگو کرنے کا فن جبلی طور پر موجود ہوتا ہے۔ فی زمانہ یہ خوبی ناپید ہوتی جا رہی ہے اب دفتر تو کجا ایک گھر میں رہنے والے تمام افراد گفتگو کرنے کے بجائے اپنے اپنے کمروں میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں اور برا ہو اس موبائل کا جس نے سب رشتے ناطے ختم کر کے رکھ دئیے ہیں، انسان اپنے ہم جنسوں سے بات کرنے کا سلیقہ بھولتا جا رہا ہے۔
برصغیر پاک و ہند کے لیجنڈ رومانوی شاعر قتیل شفائی جن کا آبائی تعلق ہری پور (صوبہ خیبرپختونخواہ) سے ہے ان کی زندگی کا زیادہ حصہ پنجاب کے دل لاہور میں گزرا اور وہیں مدفون ہوئے۔ نہ جانے پشتو زبان کے ممتاز شاعر جاوید اقبال افگار کے ذہن میں یہ اچھوتا خیال کب اور کیسے آیا کہ قتیل شفائی پر کتاب مرتب کی جائے۔ جونہی اس کی خیال کی بھنک ڈاکٹر شفیق الرحمٰن تک پہنچی تو گویا وہ پہلے ہی سے اس تخیل کو ذہن میں سجائے بیٹھے تھے بس پھر کیا تھا ہری پور یونیورسٹی میں قتیل شفائی انٹرنیشنل لٹریری سوسائٹی اور الغزالی سنٹرل لائبریری کے زیر انتظام اس کام کا بیڑہ جناب افگار کے سپرد ہوا جو دن رات ایک کر کے اس نیک کام کی تکمیل کے سلسلہ میں انچارج لائبریری محمد کاشف کے ہمراہ قتیل شفائی کے بیٹے نوید قتیل سے ملنے لاہور بھی گئے بالآخر یہ معرکہ سر ہوا۔ برادر جاوید اقبال نے بندہ فقیر کو ماہ ستمبر2024ء کو حکم دیا کہ کتاب پر مقالہ لکھوں، حکم کی تعمیل ہوئی اور یوں قتیل شفائی پر مرتب شدہ اس تاریخی کتاب کا حصہ بن گیا۔ 11فروری 2024ء کو فقیر ”آئینہ دارِ محبت“ کی تقریب رونمائی میں شرکت کے لئے عزیزم قیصر دلاور جدون اور ماہر تعلیم ڈاکٹر حامد محمود کے ہمراہ ہری پور یونیورسٹی پہنچا تو گیٹ پر مامور سیکورٹی اہلکاروں نے مہمانوں کی لسٹ میں ہمارے نام کی انٹری چیک کی پھر سیکورٹی سٹاف اور طالبات نے ہماری گیسٹ ہاؤس تک پہنچنے میں رہنمائی کی جہاں ہمارا استقبال سربراہ الغزالی لائبریری محمد کاشف نے کیا اور پھر یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات دکھائے۔ یونیورسٹی کے وسیع و عریض لانز میں طلباو طالبات گروپس میں چہل قدمی کرتے نظر آرہے تھے۔ بتایا گیا یونیورسٹی کا وجود 2012ء میں عمل میں آیا اس سے قبل اس قطعہ زمین پر ایک فیکٹری تھی وہاں فلک کو چھوتے قطار اندر قطار بڑے بڑے چیڑ کے درخت دیکھ کر اس کے نگہبان کے ذوقِ نظر کو داد دینا پڑتی ہے۔ یونیورسٹی وائس چانسلر ڈاکٹر شفیق الرحمٰن نے چند سالوں میں طالبات کے لئے جدید طرز کے ہاسٹل او دیگر شعبہ جات تعمیر کرا کر تشنگانِ علم کے لئے سہولتیں فراہم کی ہیں اور اس درسگاہ کی بین الاقوامی طرز پر ناصرف تعمیر و ترقی کی راہیں ہموار کیں بلکہ دورو نزدیک سے ہزاروں طلباوطالبات کو داخلہ لینے پر مجبور کر دیا۔ ہمارا گیسٹ ہاؤس میں پر تکلف چائے سے سواگت کیا گیا، اس کے بعد قتیل شفائی کے ذاتی دوست ممتاز شاعر و ریٹائرڈ بیوروکریٹ جناب مرتضیٰ برلاس خاص طور پر صدرِ تقریب کی حیثیت سے کتاب کی رونمائی اور یونیورسٹی لائبریری میں قتیل شفائی کارنر کا افتتاح کرنے تشریف لائے۔ میزبان ڈاکٹر شفیق الرحمٰن مہمانوں کا فرداٌ فرداٌ مل کر استقبال کر رہے تھے، مہمان خصوصی وائس چانسلر گندھارا یونیورسٹی اعجاز حسن خٹک بھی تشریف لا چکے تھے۔ استقبالی ہال میں کتاب کی رونمائی ہوئی، مندوبین کو کتاب کا تحفہ پیش کیا گیا۔ صاحبِ کتاب جاوید اقبال افگار نے قتیل شفائی پر کتاب رقم کر کے ہزارہ والوں پر بے پناہ احسان کیا ہے جو صدیوں یاد رکھا جائے گا جبکہ ڈاکٹر شفیق الرحمٰن نے ہزارہ کی تاریخ میں ایسا اچھوتا کارنامہ انجام دیا ہے جو اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ قتیل شفائی مرحوم کے صاحبزادے نوید قتیل اور ان کی اہلیہ ارم نوید خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے۔ ہا ل میں دانشور، ماہر تعلیم، سماجی شخصیات اور طالبات کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ اظہار خیال کرنے والوں میں رحمان ساحل بنوی، پروفیسر ذکاء الرشید، صدیق منظر، ثاقب اعوان شامل تھے۔ آخر میں جاوید اقبال افگار کو جامعہ ہری پور کا اردو ترانہ لکھنے پر سندِ تحسین عطا کی گئی۔ یونیورسٹی میں گزرا یہ دن ہمارے لئے یادگار تھا اس روز آسمان پر بادلوں اور سورج کی آنکھ مچولی نے ماحول کو مزید خوبصورت بنا دیا تھا۔

Comments are closed.