معصوم بچی کے ایک ہاتھ سے اپاہج ہونے پر ایک انکوائری ٹیم تشکیل

وزیر اعلی پنجاب سید محسن رضا نقوی کی ہدایت پر ڈپٹی کمشنر بہاولنگر نے معصوم بچی کے ایک ہاتھ سے اپاہج ہونے معاملہ پر ایک انکوائری ٹیم تشکیل دی گئی ہے جس میں ٹی او آرز پڑھے تو حیران اور پریشان ہوگیا ہے ٹی او آرز میں پہلی یہ بات لکھی ہے کہ دیکھا جائے کہ ڈسٹرکٹ ہسپتال میں اس معصوم بچی کے ہاتھ کا آپریشن کیوں نہیں کیا گیا جسکی وجہ سے اس معصوم بچی کو ایک نجی ہسپتال میں آپریشن کے لئےلے جایا گیا اور جہاں پھر مبینہ غفلت کا واقعہ پیش آیا اور بتایا جاتا ہے کہ معصوم ڈاکٹر اور عملہ کی غفلت کی وجہ سے بچی کو ہمیشہ ہمیشہ کے اپنے ایک ہاتھ سے محروم ہونا پڑا اور وہ ایک ہاتھ سے اپاہج ہوگئی۔ٹی او آرز کی اس بات پر مجھ میں یہ تحریر لکھنے کی ہمت ہوئی اور کچھ سوالات سامنے لانے کی جسارت کررہا ہوں ۔۔اب انکوائری میں ان عوامل کی تحقیقات کون مائی کا لال کرسکتا ہے کہ ڈسٹرکٹ ہسپتال میں کتنے شعبوں کے کتنے سرجن تعنیات ہیں اور وہ کتنے کتنے ماہانہ آپریشن ڈسٹرکٹ ہسپتال میں کرتے ہیں اور پھر ساتھ میں لگے ہاتھ ان ڈاکٹروں کے پروائیٹ ہسپتالوں کا ریکارڈ بھی چیک کرلیا جائے کہ اپنے ان پروائیٹ ہسپتالوں میں یہ ہی ڈاکٹرز کتنے کتنے آپریشن کرتے ہیں۔کوئی ہمیں یہ ڈیٹا فراہم کرسکتا ہے کہ سرجن ڈاکٹرز نے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں جہاں یہ تعنیات ہیں جہاں یہ اپنے پروائیٹ ہسپتالوں کی مارکیٹنگ کرتے ہیں اس ڈسٹرکٹ ہسپتال میں ایک ہفتہ میں ایک مہینہ میں اور 6 ماہ میں کتنے آپریشن کرتے ہیں تو اپ کے اور میرے ہوش ہی آڑ جائیں گے کیونکہ یہ ڈاکٹرز اپنے پروائیٹ ہسپتال میں جتنے آپریشن ایک ہفتے میں کرتے ہیں اتنے تو یہ 6 ماہ میں بھی ڈسٹرکٹ ہسپتال میں نہیں کرتے تو یہ پکی بات ہے اس کا جواب اس انکوائری میں مل ہی نہیں سکتا کہ معصوم حورین کے ہاتھ کا آپریشن ڈی ایچ کیو ہسپتال میں کیوں نہیں ہوسکا۔۔ابھی کل ہی جون کا مہینہ گزرا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ تاریخ کے سب سے بڑے بجٹ پر اہلکاروں ٹھکیداروں اور افسران نے مل کر خوب خوب ہاتھ صاف کئے ہیں اور ہسپتال میں میڈیسن بجٹ خرچ کرنے کے 24 گھنٹوں بعد بھی کسی ایک غریب مریض کو بھی میڈیسن نہیں ملتی ۔حورین کے واقعہ پر سب سے پہلے ہسپتال کی ڈی ڈی او پاورز رکھنے والے سی ای او ھیلتھ کو سزا دی جائے جس نے اعلی افسران کے سامنے ڈرامہ کررکھا ہے کہ وہ اس ضلع میں نوکری نہیں کرنا چاہتے اور اسی بات کو بہانہ بناکر اپنے دفتر کا ہی نہیں بلکہ ڈی ایچ کیو کے بجٹ پر بھی خوب ہاتھ صاف کئے موصوف آگے پیچھے کہتے ہیں کہ وہ اراکین اسمبلی کی بات نہیں مانتے اور صورتحال یہ ہے کہ اراکین اسمبلی کو دفتر سے باہر تک چھوڑنے آتے ہیں اور ان کی رہائش گاہوں کے باہر دروازے کھلنے سے پہلے انتظار کرتے ہیں۔۔صرف جون میں کتنے بھاری کمیشن کے عوض مخصوص فرموں کے ہی بلوں کی ادائیگی کیونکر ہوئی ایسی ایسی فرمیں جون میں سامنے آئی ہیں کہ بندہ بے ہوش ہوجائے نام سنکر۔ افسران کے ڈراموں کے بعد اہلکاروں نے بھی ڈرامے شروع کردئیے ہیں اور جون میں من پسند فرموں کو نوازنے کے بعد عہدوں سے تبدیل کرنے کا بہانہ بنالیا بھئی بہت ہی اعلی بہاولنگر کی قسمت میں کیسے کیسے ڈرامہ باز افسران اور اہلکار لکھے ہیں پھر ایم ایس کو سزا دی جائے جائے کہ کیوں ڈی ایچ کیو میں اس معصوم بچی کا آپریشن نہیں ممکن ہوسکا اسکے بعد اس ڈاکٹر کو بھی فارغ کیا جائے جو ڈی ایچ کیو میں تو تعنیات ہے لیکن آپریشن پروائیٹ ہسپتال میں کیا ہے ۔کیا سزائیں ممکن ہیں میرا خیال ہے ان افسران کا کچھ نہیں ہوسکتا ۔پروائیٹ ہسپتال مافیا ڈی ایچ کیو میں معمولی اہلکاروں کو مریضوں کو آپریشن کے لئے پروائیٹ ہسپتالوں میں لانے اور بھیجنے کا 3 سے 5 ہزار تک دیتے ہیں حورین بیچاری تو ان مافیاز کی بھینٹ چڑھ گئی ہے لیکن کیا اور بچیوں اور لوگوں کو حورین بننے سے روکا جاسکتا ہے اس کی روک تھام اور جواب کون دے سکتا ہے

Comments are closed.