آئی جی کی وردی میں سی ٹی او

KAONAIN ... MUHAMMAD Nasir Iqbal Khan

ہماری قومی سیاست میں چاردہائیوں سے سرگرم قومی چوروں نے بھی بار بار اقتدار تک رسائی کیلئے پولیس کلچر کی تبدیلی کاچورن بیچا لیکن یہ شعبدہ بازچور اقتدارمیں آنے کے بعد مزید چوری اورسینہ زوری کیلئے محکمہ پولیس کویرغمال اوراپنا ہتھیار بناتے جبکہ اپنے وردی پوش وفادارو ں کواپنی چمڑی اور دمڑی بچانے کیلئے استعمال کرتے رہے ہیں۔

حکمران طبقہ اورپچاسی فیصدپی ایس پی طبقہ پولیس کلچر کو تبدیل کرنا نہیں چاہتا،پنجاب کے مقابلے میں خیبرپختونخوا پولیس نے ناصر خان درانی،محمدطاہر،اخترحیات خان سے زیرک کمانڈرز اور طاہرایوب سے کہنہ مشق آفیسرز کی قیادت میں کی جانیوالی اصلاحات، جدت سے بھرپور اقدامات اورخدمات کے بل پر عوام کااعتماد حاصل کر لیا ہے،کیونکہ وہاں پنجاب پولیس کی طرز پر چادروچاردیواری کاتقدس پامال نہیں کیاجاتا۔ پنجاب میں زیادہ تر وردی پوش آفیسر اپنی فطرت میں فرعون کے بھی باپ ہیں۔

کے پی پولیس کی وردی نہیں لیکن اجتماعی سوچ ضرور بدلی ہے اور وہاں تھانہ کلچر بھی خاطرخواہ تک بدل گیا ہے۔پنجاب پولیس شہیدوں کی وارث ہے لیکن اس کے باوجود سماجی سطح پراس کاکوئی والی وارث نہیں بلکہ عوام کی بڑی تعداد انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

راقم کو پچھلے دنوں ایبٹ آباد میں چندروزقیام کرنے کااتفاق ہوا،میں نے اس دوران وہاں بہت باریک بینی سے شہریوں اورپولیس کے درمیان رویوں کومانیٹر کیا،اس دوران مجھے مقامی شہریوں اورسیاحوں کے مزاج میں پولیس سے نفرت محسوس نہیں ہوئی۔میں نے ایبٹ آباد کے پروفیشنل ڈی پی او عمر طفیل کو آفس کے اندراورباہراپنے فرض منصبی کی بجاآوری کرتے ہوئے دیکھاہے، شہریوں کی شکایات سنتے اور سائلین کوانصاف کی فراہمی کیلئے احکامات صادر کرتے وقت ان کارویہ بہت آبرومندانہ اورپیشہ ورانہ تھا۔

عمر طفیل کے خصوصی احکامات اوراقدامات کی روشنی میں ان کے ٹیم ممبرز اپنے پاس آنیوالے سائلین کی عزت نفس مجروح نہیں ہونے دیتے۔ ملک کے مختلف شہروں سے شہری سیروسیاحت کیلئے ا یبٹ آباد جاتے اوروہاں قیام وطعام بھی کرتے ہیں۔ اس دوران پولیس اہلکاروں اور ٹریفک وارڈنز کے ساتھ بھی ان کاواسطہ پڑتا ہے، جس طرح ایبٹ آباد پولیس کے فرض شناس اہلکار اپنے انتھک ڈی پی او عمر طفیل کی قیادت میں شہریوں کی خدمت اورحفاظت کیلئے کوشاں ہیں، اس طرح لاہور پولیس عوام کو سروسز فراہم کیوں نہیں کرسکتی۔

ان دنوں لاہور کے شہری آدم بیزارپولیس آفیسرز کے رحم وکرم پر ہیں، وزیراعلیٰ پنجاب کے مقرب سی سی پی او لاہور کوتھانہ کلچر سے زیادہ اپنے ماتحت ڈی آئی جی تبدیل کرنے میں دلچسپی ہے۔لاہور کے مستعدڈی آئی جی آپریشنزافضال احمدکوثر اور فرض شناس ڈی آئی جی انوسٹی گیشن کامران عادل دونوں اپنے اپنے منصب سے انصاف کررہے تھے لہٰذاء انہیں ہٹانا متعصبانہ اورآمرانہ اقدام تھا۔لاہور کے سابق سی سی پی اواورایڈیشنل آئی جی غلام محمودڈوگر ریٹائرڈ ہوئے توان کے اعزازمیں کسی تقریب کااہتمام نہ کرنا بھی بدترین تعصب کے زمرے میں آتا ہے۔

جوشہرت پسندآئی جی پنجاب اپنے تھانیداروں کاماتھا چومتااور سی پی او میں ریٹائرڈ ہونیوالے ڈی ایس پی حضرات کے اعزازمیں تقریبات کاانعقادکرتاہو اس کا پنجاب پولیس کے ایڈیشنل آئی جی غلام محمودڈوگر کی ریٹائرمنٹ پر ان کی عزت افزائی کیلئے تقریب منعقد نہ کرنا یقینا دوہرا معیار ہے۔ایک طرف آئی جی کے پی پولیس اخترحیات خان اورڈی آئی جی طاہرایوب نے اعتدال اوراستقلال کے ساتھ اپنے محکمے میں سنجیدہ اصلاحات کرتے ہوئے اپنے ٹیم ممبرز واہلکاروں کامورال بلند جبکہ شہریوں کااپنی فورس پراعتماد بحال کر دیا ہے جبکہ دوسری طرف آئی جی پنجا ب ڈاکٹر عثمان انور کاہرکام شہرت سے شروع اورشہرت پرختم ہوتا ہے، لگتا ہے موصوف شعبدہ باز سیاستدانوں سے کافی متاثر ہیں۔ڈاکٹر عثمان انور کو جنون کی حدتک شہرت کا شو ق ہے، پنجاب میں پہلی بار ماتحت آفیسرز کوسوشل میڈیا پرڈاکٹر عثمان انور کی باوردی تصاویر”ڈی پی” پر لگانے کا باضابطہ حکم دیاگیا۔پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک بدزبان کانسٹیبل اورایک نادان یوٹیوبر کی ویڈیووائرل ہوئی تواس کی وضاحت کیلئے بھی آئی جی پنجاب خودمیدان میں کودپڑے،حالانکہ یہ کسی ایس پی سطح کے آفیسر کاکام تھا۔

راقم نے اپنی متعدد تحریروں میں پولیس اصلاحات کیلئے سنجیدہ تجاویز دی ہیں اوران پرکام بھی ہوا ہے اورمیں جہاں خامیاں دیکھوں توتنقیدبھی ضرورکرتا ہوں۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کویہ منصب ان کی قابلیت نہیں کسی بااثر کی مداخلت پردیاگیا ہے،یہ کسی زمانے میں سی ٹی اولاہور ہوا کرتے تھے اور پھر وہاں سے انہیں ہٹادیاگیا اوربعدازاں ان کی بحیثیت ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور تقرری ہوگئی اور اس کے بعد ان کا کبھی نام منظر عام پر نہیں آیا۔ انہیں آج تک ڈی پی او یا آر پی او تعینات نہیں کیاگیا تھا، کسی منتخب حکومت نے موصوف کوآئی جی پی کے اہل بھی نہیں سمجھا۔پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت ختم ہونے کے بعدیہ اچانک وارد ہوئے۔

عثمان انور کے دورمیں پنجاب پولیس کے اندر سیاسی مداخلت کی انتہاہو گئی۔جس طرح حالیہ چندماہ سے پنجاب پولیس کو ایک سیاسی جماعت کیخلاف مبینہ طورپر سیاسی انتظام کیلئے استعمال کیا جارہاہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی، خواتین سیاسی کارکنان کو بھی معافی نہیں ملی۔

پنجاب پولیس کی رسوائی اورپسپائی کمانڈر کی کمزوری،مصلحت پسندی اورنااہلی کانتیجہ ہے۔محض حق نمک اداکرنے کیلئے پنجاب پولیس کو سیاست میں جھونک دیا گیا۔پنجاب میں پولیس آفیسرز اوراہلکاروں کیPromotion آئی جی پنجاب کی Self Projection کا نتیجہ ہے۔آئی جی پنجاب کواخبارات میں ” چھپنا “اورنان ایشوز کے پیچھے “چُھپنا” خوب آتا ہے۔

مجھے لگتا ہے” آئی جی” کے یونیفارم میں ایک” سی ٹی او” کام کررہا ہے۔آئی جی پنجاب اپنے دوسرے تمام اہم کام چھوڑ کر ہیلمٹ پر ضرورت سے زیادہ زوردے ر ہے ہیں کیونکہ اس” زور” کے نتیجہ میں “زر “اکٹھا ہوتا ہے۔آئی جی پی کی ڈائریکشن پر پنجاب بھر میں سی ٹی او حضرات سمیت ٹریفک وارڈن محفوظ ڈرائیونگ یقینی بنانے کیلئے اپناپیشہ ورانہ کرداراداکرنے کی بجائے شہریوں کی جیب پرہاتھ صاف کررہے ہیں۔

ان کامقصدحادثات روکنا نہیں بلکہ محض ہیلمٹ پرپابندی کی آڑ میں شہریوں سے رقوم ہتھیانا ہے۔ ہیلمٹ مہم کے نام پر روزانہ ہزاروں موٹر سائیکل سواروں سے اکٹھی ہونیوالی رقوم کی بندر بانٹ کی جاتی ہے۔پچھلے دنوں آئی جی پنجاب نے گجرانوالہ کے سابق سی ٹی اوکومحض مقررہ ہدف کے مطابق چالان کرنے میں ناکامی پر سیٹ سے ہٹادیاتھا۔ ہمارا ملک ایک قوم اورسنجیدہ سیاسی قیادت دونوں سے محروم ہے،پاکستان میں عام آدمی کوحقوق حاصل نہیں کیونکہ وہ ایک ہجوم کی مانند ہیں۔وہ بیچارے اپنے حقوق کی پامالی کیخلاف اجتماعی مزاحمت نہیں کر تے لیکن انفرادی طورپر اپنی بھڑاس ضرور نکال سکتے ہیں۔

آئی جی پنجاب کی ہیلمٹ مہم شعبدہ بازی کے سوا کچھ نہیں۔ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں اگرپنجاب پولیس کوشہریوں کی زندگی عزیز ہے تو ان کی تحویل میں مبینہ تشدد سے شہری کیوں مرتے ہیں۔اگرپنجاب پولیس کو شہریوں کی زندگی عزیز ہے توپھر سانحہ ماڈل ٹاؤن اورسانحہ ساہیوال میں شہیدہونیوالے شہریوں کے قاتل کون ہیں۔جوآئی جی پنجاب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی بدنصیب بیٹیوں کی جنسی درندوں سے حفاظت کرنے میں ناکام رہا،جوآئی جی طلبہ وطالبات کومنشیات کے زہرسے بچانے میں ناکام رہا،جوآئی جی قحبہ خانوں اورشراب خانوں کاباب بندکرنے میں ناکام رہا، جس پنجاب میں روزانہ قوم کی بیٹیوں کاجنسی استحصال ہوتا ہے وہاں آئی جی کا ہیلمٹ پرزور محض ایک ڈھونگ اوردھونس ہے۔

کیا ہماری شاہراہوں اورگلیوں میں منشیات کے عادی نوجوانوں کی زندگی بچانا اورمنشیات کی تیاری اورتجارت کاراستہ روکنا آئی جی پنجاب کا فرض منصبی نہیں۔کیامنشیات کے عادی قوم کے بیٹوں کویقینی موت سے بچانا ہے پنجاب پولیس کا کام نہیں۔ اگر ہماری ریاست اور پولیس فورس کو شہریوں کی زندگی سے پیارہوتا تو سیگریٹ کی ڈبیہ پر تمباکو نوشی کے نقصانات کااشتہار لگانے کی بجائے شہریوں کومختلف مہلک امراض سے بچانے کیلئے اس لعنت کاسدباب کیاجاتا۔

ہمارے ملک میں سیگریٹ نوشی اورشراب نوشی سے کئی قیمتی جانوں کاضیاع ہوتا ہے لیکن شعبدہ باز آئی جی ہیلمٹ کے پیچھے چھپ رہے ہیں۔
ہمارے ہاں عوامی مقامات پر سیگریٹ نوشی ممنوع ہے لیکن ہماری عدالتوں،سرکاری عمارتوں،عوامی مقامات اور عوامی ٹرانسپورٹ سمیت تھانوں میں بھی سیگریٹ نوش دھڑلے سے اس قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہیں،آئی جی پنجاب وضاحت کریں اب تک عوامی مقامات پرسیگریٹ نوشی کی حوصلہ شکنی کیلئے درج ہونیوالے مقدمات کی تعداد کیا ہے۔ کیاپنجاب پولیس کے کمانڈربتاناپسندکریں گے ان کی قیادت میں ڈکیتی، رہزنی،چوری،آبروریزی،اغواء اور قتل کی واردا توں کاگراف دن بدن بلندکیوں ہورہا ہے،کیا وہ ہیلمٹ کی پابندی کے بل پر پنجاب میں ہونیوالی مجرمانہ سرگرمیاں روک دیں گے۔

حادثات سے بچاؤ کیلئے ہیلمٹ کی پابندی کافی نہیں،کیا مختلف شاہراہوں پر موت کے کنویں بندہوگئے ہیں۔ کیاہماری شاہراہوں پررات کے وقت روشنی کاانتظام کرلیا گیاہے،کیا ماضی کے سی ٹی اواورموجودہ آئی جی پنجاب نے شہریوں کو ٹریفک قوانین کی پاسداری کیلئے آمادہ کرلیا ہے۔حادثات سے بچاؤ کاتعلق ہیلمٹ کی پابندی نہیں بلکہ دوران ڈرائیونگ قوانین کی پابندی سے ہے۔ ٹریفک پولیس کا کام ٹریفک قوانین کی پاسداری یقینی بنانااور شہریوں کو ایجوکیٹ کرنا ہوتا ہے تاکہ لوگ قوانین کی خلاف ورزی نہ کریں لیکن ٹریفک پولیس کوچالان پولیس بنادیاگیا ہے۔

آئی جی پنجاب اوران کے ٹیم ممبرز اپنابنیادی کام کر تے ہوئے مجرمانہ سرگرمیوں کاسدباب کریں،میں آئی جی سے پوچھتاہوں کیا ہیلمٹ موٹرسائیکل سواروں کی شہ رگ کو قاتل ڈور سے بچاسکتا ہے۔ موت برحق ہے، حادثات ریل گاڑی،ہوائی اورسمندری جہازوں میں بھی ہوتے ہیں۔

کاروں اوربسوں میں ہونیوالے حادثات کے نتیجہ میں بھی اموات ہوتی ہیں۔اپنے اپنے کاروباری مراکز میں بیٹھے ٹریڈرز بھی دوران ڈکیتی مزاحمت پرمارے جاتے ہیں،ان کی زندگیاں بچانا بھی پولیس کا کام ہے کیاانہیں بھی ہیلمٹ پہننا ہوگا۔ ہیلمٹ مہم کی آڑ میں پنجاب پولیس کو بہت متحرک ظاہر کرنا فراڈ کے سوا کچھ نہیں۔ اس وقت لوگ مہنگائی سے نجات کی دوہائی دے رہے ہیں، مہنگا اورناقص ہیلمٹ ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔

غیر معیاری اورمہنگے ہیلمٹ کی فروخت کیخلاف بھی پولیس نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ سکیورٹی فورسز کا کام شہریوں کیلئے آسانیاں پیدا کرناہوتا ہے نہ کہ ان کی زندگی کومزید دشوار بنانا۔ آئی جی پنجاب اب سی ٹی او نہیں رہے لہٰذاء وہ اپنی “رِٹ” کیلئے ہیلمٹ کی” رَٹ “چھوڑدیں۔پنجاب میں تھانہ کلچر کی تبدیلی اورپولیس پرعوام کے اعتماد کی بحالی کیلئے کمانڈر تبدیل کرناہوگا۔

Comments are closed.