انووک/ ثناء آغا خان
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے موجودہ معاشی حالات نے ہر طبقے کو براہ راست متاثر کرنا شروع کر دیا ہے، اور یہ تمام طبقات ان حالات کا ذمہ دار ملک کے موجودہ سیاسی بحران کو ٹھہراتے ہیں۔ حالات بتاتے ہیں کہ سب اپنی اپنی انا کے غلام بنے ہوئے ہیں اور کسی کو درپیش مختلف چیلنجز یا عوام کے بنیادی مسائل سے کوئی غرض نہیں۔ ضدوں، اناؤں اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے رویوں نے ماضی میں سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کو کچھ نہیں دیا نہ ہی اس سے اب انہیں کچھ ملے گا لہٰذا ملک، قوم، اداروں اور سیاستدانوں کی بہتری اسی میں ہے کہ افہام و تفہیم کو فروغ دیں اور ملک میں جو پچھلے چند برسوں سیسیاسی ڈیڈ لاک کی کیفیت جاری ہے اس کا کوئی پائیدار حل تلاش کریں۔موجودہ حالات دیکھتے ہوئے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے پاس ملک اور معیشت بچانے کیلئے الیکشن واحد آپشن بچا ہے۔
ملک کو پیچیدہ مسائل سے نکالناہے تواس کاواحد حل انتخابات کاانعقاد ہے، ’حکومت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے۔ صرف اسی صورت میں قوم کو ریلیف ملے گا، آئی ایم ایف کے شکنجے سے نجات ملے گی اور پاکستان پر اس کے دوست ممالک کا اعتماد بحال ہوگا۔ جب ملک کے حالات قابو میں ائیں گے تو اس کے نتیجہ میں یقیناً انتشار کی فضا ختم ہوگی۔ ملک میں اس قدر افراتفری اور انارکی ہے کہ ہر نقصان کا الزام ایک دوسرے پر ڈال دیا جاتا ہے۔کوئی مخالفین کو فساد کی جڑ قرار دیتا ہے تو کوئی سمجھتا ہے کہ یہ سب اسٹیبلشمنٹ کا کیا دھرا ہے اور کہیں عدلیہ کی جانب بھی اشاروں کنایوں میں بات کی جا رہی ہے۔ عوام اور ملکی مسائل کے حل کی طرف کسی کی نظر نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا سیاستدان بھی یہ مانتے ہیں کہ اس افراتفری کے ذمہ دار وہ خود ہیں؟ یا اسٹیبلشمنٹ خود کو اس کا محرک ٹھہراتی ہے؟ بظاہر ملکی معاشی صورتحال کی ذمہ داری لینے کو کوئی بھی تیار نہیں۔
پاکستان نے اپنے قیام سے آج تک جتنے مسائل کا سامنا کیا ہے اگر ان کی گنتی کرنے بیٹھ جائیں تو ایک طویل فہرست بن جائے گی۔ جتنے بھی مسائل کا سامنا کیا گیا ہے یا اب بھی کرنا پڑ رہا ہے ان سے عملی طور پر نبردآزما ہونے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے مسائل کو دیکھتے رہتے ہیں اور جب وہ مسائل بڑھ جاتے ہیں تب ہم ان کا حل تلاش کرتے ہیں۔ دہشت گردی، بجلی، تعلیم، صحت ان بنیادی مسائل کے حل کیلئے مؤثر حکمتِ عملی وقت پر وضع نہیں کی گئی جس کے نتائج ہم آج بھگت رہے ہیں اور یہی نہیں آج اس وقت بھی بہت سے مسائل سر اٹھا رہے ہیں جن کے مستقبل میں ہم پر بہت گہرے اثرات ہو سکتے ہیں البتہ ان میں سے جس کا حل فوری طور پر ضروری ہے وہ پانی کا مسئلہ ہے۔ان دنوں بارش اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سب سے زیادہ غور طلب اور فوری حل طلب ہیں۔
ملک کے مختلف صوبوں میں شدید بارشیں بھی ہوئی ہیں جبکہ ملک بھر میں مناسب صفائی نہ ہونے کی وجہ سے بارشوں کے بعد بدبو اور تعفن پھیلنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جس سے کئی لوگوں کیلئے صحت کے مسائل پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ قربانی کے جانوروں کی باقیات ابھی پوری طرح سے ٹھکانے نہیں لگائی گئی تھیں کہ بارشوں نے اپنا زور پکڑ لیا یہ بہت اہم مسئلہ ہے جو آگے چل کر مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ عوام اب تھک چکی ہے وہ فورا سے پہلے ایک ایسا قائد اور نجات دہندہ چاہتی ہیں جو ان کے مسائل کا ادراک اور انہیں کا سدباب کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہو۔نہ کہ ماضی کے حکمرانوں کی طرح حکومتی کشمکش کا شکار ہو کر کبھی کسی کا منہ دیکھے اور کبھی کسی اتحادی کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہوئے عام آدمی کے مفاد پر سمجھوتہ کرے۔ آج کی حکومت پچھلی حکومت پر گند اچھالتی اور پچھلی حکومت انے والی حکومت سے ڈرا رہی ہے۔ اس قسم کی بلیم گیم ختم کی جائے اور عوام کے ریلیف اور فائدے کیلئے سنجیدگی کے ساتھ سوچ بچار کی جائے کیونکہ حکومت عوام کو سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے وجود میں آئی ہے۔ سیاستدانوں کو اپنے نجی مفاد کا پہرہ دینے جبکہ کسی معاملے میں جواب طلب کرنے پر مخالفین کا میڈیا ٹرائل کرنے کیلئے اقتدار کی باگ ڈور نہیں تھمائی جاتی۔
Comments are closed.