انسان دوستوں کے نام

Shahid Ewan

بلاتامل، شاہد اعوان

قرطاس پر حروف منتقل کرتے وقت اس عظیم پاکستانی اورانسان دوست شخصیت کی ساتویں برسی ہے جسے دنیا ”ایدھی“ کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔

ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

یقینا ایسے لوگ کہیں صدیوں میں پیداہوتے ہیں۔ اسی قبیل کے ہمارے ایک بزرگ دوست محمود الحق علوی مرحوم نے اپنی دولت کا بیشتر حصہ خدمتِ خلق کے لئے وقف کیا وہ ساری زندگی اپنے مخصوص درویشانہ انداز میں خاموشی کے ساتھ بلا امتیاز رنگ و نسل بھلائی کے نت نئے کاموں میں متحرک اور سرگرم رہے تمام عمر ’نیکی کر دریا میں ڈال‘کے فارمولے کو اپنائے رکھا بلاشبہ وہ اقبالؔ کے اس شعر کی عملی تصویر تھے:

شراب روح پرور ہے محبت نوعِ انسان کی
سکھایا اس نے مجھ کو مستِ بے جام و سبُو رہنا

محمود الحق علوی مرحوم مغفور سے میرا تعلق فقط ایک دہائی پر محیط تھا مجھے ان کی صحبت بہت کم وقت کے لئے میسر آئی انہوں نے پہلی ہی ملاقات میں فقیر پر سب سے پہلی پابندی بلکہ ”قلم بندی“ یہ لگائی کہ میری زندگی میں میرے فلاحی کاموں کی تشہیر ہرگز مت کرنا۔۔۔ مجھے بادل نخواستہ اس وعدے کی پاسداری ان کی وفات تک نبھانا پڑی کئی بار سوچا کہ وعدہ توڑ ڈالوں مگر ہر بار ان کا معصوم چہرہ میرے سامنے گھوم جاتا اور میں صبر کے گھونٹ بھر نے پر مجبور ہو جاتا۔ علوی مرحوم کی زندگی کا نچوڑ مختار صدیقیؔ کے اس شعر میں پنہاں ہے:

نکتہ وروں نے ہم کو سجھایا، خاص بنو اور عام رہو
محفل محفل صحبت رکھو، دنیا میں گمنام رہو!

بات چھڑگئی تو دور نکل جائے گی ایسے ہزاروں میں سے چند واقعات سنا کر ”مشکل راہ“ کا چناؤ کرنے والے نوآموز خدمت گار وں کو ایک سبق ضرور ملے گا کہ یہ راہ پھولوں کی سیج ہرگز نہیں اس سفر میں صرف کانٹے ہیں اور بس۔۔۔ تقریباٌ دس پندرہ سال قبل راولپنڈی اسلام آباد میں پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے والوں کو یا د ہو گا کہ جب وہ26نمبر چونگی پر اترتے تھے تو انہیں ”علی ٹرسٹ“ کی فری ٹرانسپورٹ نظر آتی تھی جو بغیر کرایہ کے مسافروں کو 26نمبر سے اسلام آباد پاک سیکرٹریٹ تک لے جانے کا فریضہ سرانجام دیا کرتی تھی جس کے مالک محمود الحق علوی تھے ان بسوں میں سفر کرنے والے کسی مسافر سے کبھی یہ نہیں پوچھا جاتا تھا کہ آپ کون ہیں کس مذہب یا مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اور آمدن کے ذرائع کیا ہیں۔۔۔ ’علوی ٹرسٹ‘ کی بسوں کے ڈرائیور اور کنڈیکٹر خاموشی سے مسافروں کو اٹھاتے اور منزل تک پہنچا کر واپس آجاتے۔ ان بسوں کے کبھی کبھار دیر سے آنے پر اس میں مفت سفر کرنے والے طرح طرح کے تبصرے کیا کرتے کوئی کہتا ”اگر وقت پر نہیں پہنچا سکتے تو ان گاڑیوں کی ضرورت کیا تھی“۔ کوئی الزام لگاتا ”ضرور اس کے سیاسی مقاصد ہوں گے“۔ کوئی فرمان جاری کرتا ”اگر گاڑی چلانا ہی تھی تو مری تک چلا دیتے“وغیرہ وغیرہ۔۔۔ یعنی جتنے منہ اتنی باتیں! یہ سب کچھ گاڑیوں کا عملہ علوی صاحب کے گوش گزار کرتا تو علوی صاحب ماتھے پر شکن لانے کے بجائے انہیں منہ پر انگلی رکھ کر چپ کرا دیتے۔ محمود الحق علوی نے بلیو ایریا میں ایک بڑی مسجد تعمیر کرائی جو آج بھی موجود ہے جب مسجد مکمل ہو گئی تو مسجد کے امام صاحب نے فتویٰ جاری فرمایا کہ چونکہ علوی صاحب شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا وہ مسجد میں نماز ادا نہیں کر سکتے۔۔۔۔ قربان جاؤں علوی مرحوم کی شرافت و عاجزی پر انہوں نے واقعی اس دن کے بعد اپنی زیر تعمیر مسجد میں نماز ادا نہ کی۔ یہ وصف ان میں شاید میاں محمد بخش ؒ کے اس شعر سے اخذ کیا تھا جس میں عارف کھڑی شریف نے بیروں کا ذکر کیا ہے کہ بیری میٹھے پھل بھی دیتی ہے مگر پتھر بھی کھاتی ہے۔ اپنی موت سے چند روز قبل جب ان کے لئے بات کرنا انتہائی مشکل تھا فقیر ان کی عیادت کے لئے ان کی رہائش گاہ علوی ہاؤس پہنچا تو مجھے پاس بٹھا کر میرے کان میں سرگوشی کی کہ آج ہی ایک ارب روپیہ اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ’علی ٹرسٹ‘ کو عطیہ کر دیا ہے جسے اب میری اولاد بھی استعمال نہیں کر سکے گی۔ ایسے بے شمار واقعات جو میرے سینے میں دفن ہیں عبدالستار ایدھی ہوں یا محمود الحق علوی جیسی بے لوث انسان دوست شخصیات، جن کی ”امانتیں“ کبھی کبھی ان سطور کے ذریعے قارئین کی نذر کرتا رہتا ہوں۔ شبنم شکیل ؔ اپنے اشعار میں اضطرانی کیفیت کا اظہار یوں کر تی ہیں:

اک دوجے پر کڑوے کسیلے لفظوں کی بوچھاڑ
ہر دو جانب سے طعنوں کے دو دھاری تلوار
تذلیل و توہین کے جملے دن میں سو سو بار
ایسے ایسے زخم کہ جن پر ہر مرہم بے کار
طنز و تشنیع و الزام کی بھرمار
پہلے سے مجروح انا پر اور گہرے وار

ان گہرے واروں کی پرواہ کیے بغیر اس کٹھن راہ کی ”مسافرت“ پرنکلنے والوں کو سب سے پہلے اپنی ”انا“ کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ بات لمبی ہوتی جا رہی ہے اور مجھے اپنے آبائی ضلع تلہ گنگ کے ایک غیر معروف گاؤں اور اپنی جنم بھومی ’کھوئیاں‘ کے ان عظیم سپوتوں کا تذکرہ کرنا ہے جو ایدھی اور علوی کے پیروکار بن کر فلاح کے راستے پر پانچ سال قبل ایسے نکلے کہ اب وہ ضلع و راولپنڈی ڈویژن سے نکل کر پنجاب بھر میں اپنی پہچان بنا چکے ہیں ان کی ہر ہر ادا ہر کام جداگانہ اور حیران کر دینے والا ہے عید قربان پر ان کی ایک نئی دریافت اور نیا کارنامہ ایسا ہے جو 75سال سے ایک خواب کی مانند نظر آتا تھا کہ 70سال تک یہ گاؤں گمنامی کی وادیوں میں گھرا رہا جب پانچ سال قبل اس گاؤں کے ہونہاروں کی ایک جماعت نے خوابِ غفلت سے انگڑائی لی تو پہلے پہل گاؤں والوں نے ان کا مذاق اڑایا اور اسے دیوانے کی بڑ سمجھا۔ مالی طور پر اس غیر سیاسی تنظیم کی مالی معاونت دیارِ غیر میں مقیم اسی گاؤں کے ایک عظیم خانوادے جس کی سربراہی ڈاکٹر شہباز خان ملک معروف ماہر تعلیم کر رہے ہیں،کی خواتین نے کی جن میں ہماری بہن محترمہ نسیم ملک نمایاں ہیں۔ اسی تنظیم کے ایک فعال رکن جاوید اقبال ’سہارا‘ تھے جنہوں نے بڑھ چڑھ کر تنظیمی معاملات میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا پھر گاؤں کے دیگر نوجوان بھی اس تنظیم کا حصہ بنتے چلے گئے، چار سال قبل بعض وجوہات کی بناء پر تنظیم دو حصوں میں بٹ گئی لیکن دونوں گروپ اپنے کاز اور نیک مقاصد سے پیچھے نہیں ہٹے اور عملی طور پر اپنے تئیں گاؤں کی تعمیر وترقی اور لوگوں کی فلاح و بہبود میں مصروفِ عمل رہے جنہیں دیکھ کرضلع بھر میں سماجی تنظیمیں وجود میں آنے لگیں۔ چونکہ گاؤں میں اس سے قبل صحت کی کوئی خاطر خواہ سہولت میسر نہ تھی اس کمی کو پورا کرنے کے لئے میرے عزیز اور تنظیم کے انتہائی فعال اور متحرک نوجوان جاوید اقبال سہارا اور مختار احمد ملک کی قیادت میں وہ کام کر دکھایا جس پر پورا گاؤں ہی نہیں سارا ضلع عش عش کر اٹھا حال ہی میں انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک ایمبولینس خرید کر گاؤں کے لوگوں کے لئے وقف کر دی ہے جو دکھی انسانیت کی خدمت و فلاح کے کام آئے گی۔ تنظیم کے دوستوں کی جانب سے دعوت کے باوجود ایمبولینس کی افتتاحی تقریب میں شریک تو نہ ہو سکا تاہم ممتاز عالم دین برادرم علامہ صابر ایوب نقشبندی کی دلربا گفتگو اور جاوید اقبال سہارا کا جوشیلا بیان دیکھ اور سن کر بہت خوشی ہوئی۔ دعاہے میرے گاؤں کی دونوں سرگرم تنظیمیں کسی ذاتی لالچ و مفاد کے بغیر اسی طرح علاقہ کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتی رہیں۔ ان سطور کے ذریعے ڈاکٹر شہباز ملک کے خاندان کے ہر فرد سے دست بستہ التجا ہے کہ ان کا گھرانہ پورے گاؤں کے لئے سانجھا ہے وہ دونوں تنظیموں کو برابر فنڈز جاری کریں اور دونوں تنظیموں کی مشترکہ سرپرستی کریں میرا یقین واثق ہے کہ دونوں تنظیموں کے نوجوان انتہائی ایماندار اور دیانتدار ہیں وہ آپ کے فنڈز کو ضائع نہ ہونے دیں گے۔ چند اشعار میرے گاؤں کے ان بے لوث نوجوانوں کے نام:

پہلے تو اپنا گم شدہ لشکر تلاش کر
ہر رہزنوں کی تیغِ ستم گر تلاش کر
اس کے بغیر خود تیری پہچان کھو گئی
کل جس میں رہ رہا تھا وہی گھر تلاش کر

Comments are closed.