فنڈز خرد برد یا سیکیورٹی؟ CTD کا مستقبل داؤ پر
خیبر پختونخواہ پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (CTD) کی کارکردگی پچھلے دو سالوں میں شدید متاثر ہوئی ہے، اور ماہرین کے مطابق اس کا بڑا سبب موجودہ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی، شوکت عباس، کی ناقص حکمت عملی اور صوبے کی سیکیورٹی صورتحال کی غیرموزوں فہم ہے۔ شوکت عباس، جو پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں، کو خیبرپختونخواہ میں اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا حالانکہ وہ کبھی بھی کسی ضلع کے پولیس آفیسر (ڈی پی او) کے طور پر خدمات انجام نہیں دے سکے۔ سی ٹی ڈی کے ایک ایس کے مطابق شوکت عباس نے بطور ریجنل پولیس آفیسر (آر پی او) ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنی تعیناتی کے دوران بھی کوئی نمایاں کارنامہ انجام نہیں دیا، لیکن حیران کن طور پر انہیں خیبر پختونخواہ کے حساس شعبے CTD کی سربراہی سونپی گئی۔ ان کے دورِ قیادت میں CTD خیبر پختونخواہ، جو پہلے محدود وسائل کے باوجود دہشت گردی کے خلاف کامیاب کارروائیاں کرتا رہا، شدید مسائل کا شکار ہوا ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ایڈیشنل آئی جی CTD خیبر پختونخواہ اور وزیرِ اعلیٰ کے بھائی، فیصل امین گنڈاپور، کے درمیان گٹھ جوڑ نے ادارے کی کارکردگی کو مزید نقصان پہنچایا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، ان دونوں شخصیات کی توجہ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے فنڈز میں خرد برد اور بدعنوانی پر مرکوز رہی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخواہ نے CTD کے لیئے اربوں روپے کے فنڈز مختص کیے تھے تاکہ ادارے کو دہشت گردی کے خلاف مؤثر انداز میں مضبوط بنایا جا سکے۔ تاہم، ذرائع کا کہنا ہے کہ ان فنڈز کا بڑا حصہ بدعنوانی کی نذر ہو چکا ہے، جس کے باعث ادارہ اپنے بنیادی فرائض انجام دینے میں ناکام ہو رہا ہے۔ حکومت اور پولیس کے اعلیٰ حلقوں میں شوکت عباس اور فیصل امین گنڈاپور کے کردار پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ کیا خیبر پختونخواہ کی عوام اور ادارے اس نقصان دہ قیادت سے آزاد ہو سکیں گے؟ یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے۔
Comments are closed.