عوام کے وہی سسکتے شب و روز

Pakistan and IMF programs

از: ڈاکٹر ابراہیم مغل

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاملات طے پانے کے بعد جو اتحادی حکومت کو اطمینان حاصل ہوا ہے، اس سیقارئین کرم آ پ سب وا قف ہیں۔ بلا شبہ وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی کوششیں بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے ہونے کے بعد پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ مکمل طور پر ٹل گیا ہے تاہم آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے جو منی بجٹ پیش کیا گیا ہے،

اس کی وجہ سے عوام پر خاصا مالی بوجھ پڑنا شروع ہو گیا ہے۔ اب حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں جو اضا فہ کیا ہے،اس کی وجہ سے نقل وحمل کے اخراجات میں اضافہ ہو گا۔ بہرحال حکومت کا مہنگائی کی صورتحال پر فکر مند ہونا فطری امر ہے۔ ادھر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی،

ٹیکسز، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس کے اثرات بھی عوام کی جیب پر ہی پڑیں گے اور مہنگائی کا گراف بلند ہوتا جائے گا۔ مہنگائی کی شدت نے عام آدمی خصوصاً درمیانے طبقے کی مالی مشکلات کو بڑھا دیا ہے، مڈل کلاس طبقے کے لیے تو سفید پوشی قائم رکھنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

170ارب روپے کے نئے ٹیکسز عائد کیے جاچکے ہیں، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے، اس وقت بھی درمیانی تنخواہ دار کی آدھی سے زیادہ کمائی یوٹیلیٹی بلزکی ادائیگی میں نکل جاتی ہے، بچوں کی فیسیں اور کچن کا بجٹ بنانا اس کے لیے تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔

اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں جو اضافہ ہونا چاہیے تھا اس سے کہیں زیادہ اضافہ مینوفیکچررز، تھوک کے کاروباری اور آڑھتیوں نے کر دیا ہے جب کہ حکومتی مشینری مہنگائی کو کنٹرول نہیں کر پا رہی ہے بلکہ سرکاری مشینری اپنا کام کرتے ہوئے نظر بھی نہیں آتی۔ شہروں میں تجاوزات کی بھرمار ہے، ٹریفک بے ہنگم ہے اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بلاجواز بڑھ رہی ہیں لیکن سرکاری مشینری صرف تنخواہیں لینے کا کام کر رہی ہے۔ بلاشبہ مہنگائی میں کمی ہو سکتی ہے لیکن اس کے لیے منڈی کے میکنزم کو کنٹرول کرنا ہو گا۔ سرکاری مشینری کے احتساب کا بھی میکنزم بنانا اور اسے متحرک کرنا ہو گا۔

ایسا کرنے سے اشیائے ضروریہ کی رسد و طلب میں توازن ہو گا اور ان کے نرخوں میں بھی استحکام نظر آئے گا۔ یہی نہیں بلکہ بازاروں میں تجاوزات بھی ختم ہوں گی کیونکہ محکمہ تہہ بازاری کا عملہ بھی احتساب کی زد میں آنے کے خوف سے اپنا کام مستعدی سے کرے گا جس کے نتیجے میں تجاوزات کا خودبخود خاتمہ ہو جائے گا۔ پاکستان میں قوانین موجود ہیں، البتہ ان قوانین میں ایسی تبدیلیوں کی ضرورت ہے جن کے ذریعے سرکاری افسروں اور اہلکاروں کی جواب دہی ممکن ہو سکے۔

اب صورت حال یہ ہے کہ سرکاری محکموں کے افسروں کے پاس اختیارات موجود ہیں لیکن ان کے احتساب قوانین اول تو موجود ہی نہیں ہیں، اگر کہیں ہیں بھی تو اسی محکمے کے افسروں کے پاس کیس فیصلے کے لیے چلا جاتا ہے۔ پروڈکشن پراسس میں کاسٹ کو Manage نہ کرنا بھی اشیا کی قیمتوں میں گرانی کا سبب بن سکتا ہے، کیونکہ اگراس پر قابو نہ پایا جائے تو اخراجات بڑھ جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں قیمتوں میں اضافہ بزنس مین کی مجبوری بن جاتا ہے۔

قرضوں سے مالی ضروریات پوری کرنا بھی قیمتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ مثال کے طور پر اگر بینک سے سود پر قرضہ لیا جائے اور اس کی مدد سے پھر کاروبار کیا جائے تو کاروبار میں فائدہ ہو یا نقصان، سود کی مد میں پیسہ بہرحال واپس کرنا ہے اور یہ اضافی بوجھ گاہک کی جیب برداشت کرتی ہے۔

اس کے علاوہ نامناسب نفع (Abnormal Profit) بھی مہنگائی کی شرح میں اضافے کا ایک اہم سبب ہے۔ حکومت عالمی منڈی میں تیل اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ان اشیاء کی قیمت میں اضافہ کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات میں ایسا ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ بھی آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے کیا گیا۔ ایسا بھی نہیں کہ صرف پاکستان میں مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ دنیا بھر میں مہنگائی ہورہی ہے لیکن ایک خاص نظم و ضبط کے تحت، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جب بھی اشیاء ضروریات کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں تو وہ اُس کا متبادل بھی لوگوں کو فراہم کرتے ہیں لیکن پاکستان میں اس پہلو پر کبھی غور نہیں کیا گیا۔

آج بھی پاکستان کے قومی خزانے پر غیرترقیاتی اخراجات کا بوجھ زیادہ ہے۔ سرکاری افسروں اور ملازموں کی تنخواہوں، مراعات اور پنشن کا بوجھ غیرمعمولی حد تک بڑھ رہا ہے۔اس کے مقابلے میں انفراسٹرکچر کی تعمیر، تعلیم و صحت کے شعبوں میں بہت کم سرمایہ لگایاجاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سرکاری شعبے میں نئے اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز قائم نہیں کیے جا رہے۔ سرکاری شعبے میں نئے اسپتال، نئے میڈیکل کالجز اور میڈیکل یونیورسٹیز، ریسرچ سینٹرز قائم نہیں کیے جا رہے۔

اس کے مقابلے میں واپڈا، الیکٹرک سپلائی کمپنیز (ڈسکوز)، ریلوے، ایل ڈی اے اور دیگر محکموں میں بے تحاشا بھرتیاں کی گئی ہیں اوران کی تنخواہوں کا بوجھ قومی خزانے پر ہے۔وطنِ عزیز میں خوراک کا بحران سال بھر رہتا ہے، منصوبہ بندی کے ساتھ اشیاء کا بحران پیدا کیا جاتا ہے۔

کبھی آٹا، کبھی چینی، کبھی ادویات اور کبھی کوکنگ آئل وغیرہ کی قلت پیدا ہو جاتی ہے جس سے نمٹنے میں حکومت کی ناکامی سے یہ مسئلہ اور بھی سنگین ہو جاتا ہے۔ منڈی کی سطح پرناقص سرکاری اقدامات کے باعث اور آڑھتیوں کی ملی بھگت کے نتیجے میں سبزیوں اورپھلوں کی مہنگائی کا بحران پیدا ہوتا ہے۔ منڈی کے محرکات آزاد ہیں اور حکومت ان محرکات پر اقدامات کے ذریعے قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوتی۔ ان حالات میں قیمتوں کوکیونکر اعتدال میں رکھنا ممکن ہوگا۔

مہنگائی کے ان داخلی عوامل کے علاوہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں کے اثرات کے باعث مہنگائی کی پندرہ روزہ اور ماہوار لہر کا ایک تسلسل جاری ہے۔حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے توانائی پر عائد ٹیکسوں میں اضافہ کرتی رہتی ہے۔ حکومت ٹیکس اور برآمدات سے ریکارڈ آمدنی کے دعوے تو کرتی ہے مگر عوام پر بوجھ ڈالنے کے سوا کوئی اور بہتری نظر نہیں آتی۔

پاکستان اب ایک دوراہے پر کھڑا ہے ملک کی معیشت کو بچانے کے لیے ایک راستہ اختیار کرنا پڑے گا اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ سرد جنگ کے دور کی خارجہ، داخلہ اور معاشی پالیسی اب نہیں چل سکتی سرد جنگ کے ثمرات سمیٹ کر بغیر محنت کیے امیر ہونے والا طبقہ پاکستان کو آگے لے کر چلنے کا وژن نہیں رکھتا اور نہ ہی وہ معاشی تبدیلی لانے کے قابل ہے لہٰذا اس امیر طبقے کی معیشت سیاست اور انتظامیہ پر چلی آ رہی طاقت کو ختم کرنا ہو گا۔ سرد جنگ کی وجہ سے امیر ہونے والا با اثر گروہ ریاست کو رجعت پسندی کے تحت چلانا چاہتا ہے جو اب ممکن نہیں۔ موجودہ تکلیف دہ صورتحال میں پاکستان کے عوام معاشی استحکام کا خواہاں ہیں۔

حکمران طبقے کو اس بات کی سچائی تسلیم کرنی پڑے گی کہ دنیا میں ہرچیز کی کوئی نہ کوئی قیمت ہوتی ہے، ماضی میں امریکا اور یورپی طاقتیں اور عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کی کھلے دل سے مدد کرتے رہے ہیں، پاکستان میں اس امداد یا مدد کی قیمت افغان جنگ میں شریک ہو کر ادا کر دی ہے۔

اب امریکا اور اس کے اتحادی ترقی یافتہ ممالک کا افغانستان میں انٹرسٹ ختم ہو چکا ہے۔ اس لیے آج کے عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کو زمینی حقائق کے مطابق ہی قرض دیں گے۔ ان سے زیادہ کی توقع کرنا حکمرانوں کی بے وقوفی ہو گی۔ کچھ حاصل کرنے کے لیے اس کی ویلیو کے مطابق قیمت تو ادا کرنا پڑتی ہے۔

آئی ایم ایف جو شرائط عائد کررہا ہے، اس کا مقصد اپنے ڈونرز کے مالی مفادات کا تحفظ کرنا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اپنے رکن ممالک کی مالی مشکلات میں مدد بھی کرنا ہے۔پاکستان کے ساتھ آئی ایم ایف کا بھی یہی فارمولہ ہے۔وہ پاکستان کی مدد کے لیے تیار ہے لیکن وصولی بھی یقینی بنانا چاہتا ہے۔ یہی آج کی سب سے بڑی زمینی حقیقت ہے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کو زمینی حقائق کے مطابق ہی اپنی خارجہ، داخلہ اور معاشی پالیسی تیار کرنی ہو گی۔

ڈاکٹر ابراہیم مغل

Dr.-Ibraheem-Mughal

Comments are closed.