حیران کن نتائج

ہروقت کی تنقید سے بھی دل اُچاٹ ہوچکا ہے اور ہمدردانہ احساسات تنقیدی رحجانات پر غالب آئے ہوئے ہیں۔ ملک کی سیاسی، سماجی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے اور اس صورتحال کے اثرات بالآخر معاشیات پر پڑرہے ہیں۔ یہ حالات اچانک خراب نہیں ہوئے بلکہ گزشتہ آٹھ سے دس سال ہمیں اس نہج پر لے آئے ہیں۔ آخری آٹھ سے دس سالوں سے پہلے بھی صورتحال مناسب نہیں رہی اور ہمیں جنگوں کے علاوہ دہشت گردی کا بھی سامنا رہا لیکن عالمی امداد(زبردستی کی) کے نام پر ہمیں خریدا جاتا رہا اور ہم بکاؤ مال کی طرح اپنی قیمت لگاتے ہی چلے گئے۔نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے خود پر انحصار کرنا ہی چھوڑ دیا۔ بہت سی روزمرہ کی اشیاء استعمال میں ہم خود کفیل تھے (خوردونوش اور کپڑا جوتا، ہماری خود کی پیداوار تھیں) پھر بیرونی قرضوں کی لت سے ہماری کفالت غیروں کے ہاتھ میں چلی گئی۔ اب آخری چند سالوں سے غیروں کی کفالت نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا اور د َر بدر بھیک مانگنے پر مجبور حکومت الفاظ بھی محرومانہ استعمال کرنے لگی ہے۔ تمام وزراء کے بیانات اُن کی مایوسی کو کھلم کھلا ظاہر کررہے ہیں۔ جس قسم کی حکومت ترتیب دی گئی آخری تین چار سالوں سے، اُس سے بھی ناصرف عوام بلکہ خود سیاستدان بھی مایوس ہیں کیونکہ کسی کے پاس بھی مکمل اختیارات نہیں کہ وہ کوئی مضبوط حکمت ِ عملی تیار کرسکے جس سے ملک کے اندر استحکام پیدا ہوسکے، معیشت کی مضبوطی کیلئے کچھ کام ہوسکے، عام عوام کے حالات میں معاشی و معاشرتی بدلاؤ آسکے اور سب سے بڑھ کر ملک ِ پاکستان کی اصل تصویر دنیا کے سامنے پیش کی جاسکے۔


یہ پڑھیں: قبرستان میں ”اَن کھلا گلاب“


معاملہ زیادہ مشکل نہیں، مشکل صرف ایک فیصلہ کرنا ہے کہ ایمانداری سے ملکی معاملات کو چلایا جائے۔ مال و دولت کے انبار جس جس نے لگانے تھے، خوب لگا لئے اور تمام تر ذرائع استعمال کرنے کے باوجود کوئی کسی پر الزام ثابت نہیں کرسکا(Which is very funny)۔ اب سب نے مال بھی بنالیا اور سیاست بھی کرلی، اب کچھ اللہ کے بندوں کیلئے بھی ہوجائے۔ علامہ اقبال ؒ نے کہا تھا کہ
”خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا“۔
حاکم جب تک اپنی عوام سے مخلص نہیں ہوگا، کبھی بھی لمبی سیاست نہیں کرپائے گا اور اگر کسی نہ کسی طرح زبردستی اقتدار سے چپکا رہے گا تو انجام جاننے کیلئے تاریخ (پرانی، نئی) کے اوراق پڑھ سکتا ہے کہ سوائے رسوائی و ہزیمت کے کسی کو کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔سیانے کہتے ہیں کہ “A boss has the title, a leader has the people” لہذا کچھ باطنی حکمت ِ عملی پر خصوصی غوروفکر کرتے ہوئے ہمارے حکمران اب حقیقی تبدیلی کا نعرہ بلند کریں اور اپنے ساتھ ساتھ عام لوگوں کی زندگی کا معیار بھی بلند کریں تاکہ پاکستان کے لوگ بھی دنیا میں وہ مقام حاصل کریں جو ان کا خاصہ ہے۔


یہ پڑھیں: صدرِ مملکت آصف علی زرداری


تحریر بالا کے مطابق مقصد تنقید و طنز نہیں بلکہ صحیح راستے کا تعین کرنے کی طرف توجہ دلانا ہے۔ الحمد ُ للہ قدرتی وسائل کی کمی نہیں پاکستان میں، سرسبز کھیت کھلیان بھی عطا ہوئے اور دیگر بہت سے خزانے ہمارے حالات بدلنے کیلئے پہاڑوں، دریاؤں اور سمندر میں موجود ہیں۔ صرف سمت کا تعین اور تعین کے بعد انتھک محنت کی ضرورت ہے جس کے بعد عزت و بلندی ہی ہمارا مقدر ٹھہرے گی۔ بظاہر یہ باتیں دیوتائی کہانیوں جیسی ہیں لیکن یقین کرنا ہوگا کہ دیر صرف فیصلہ کرنے میں ہورہی ہے باقی سب بنابنایا ہمارے سامنے ہے۔ جس میں سر ِ فہرست وہ فیکٹریاں اور کارخانے ہیں جو عرصہ دراز سے بند پڑے ہیں۔ جس دن انڈسٹری کو چلانے کی حکمت ِ عملی پر عمل درآمد شروع ہوگیا، ٹھیک اسی دن پاکستان اور پاکستانیوں کے حالات یکسر تبدیل ہوجائیں گے۔ عام آدمی کے روزگار کا انتظام ہوجائے گا اور برآمدات بڑھنے سے معیشت کا پہیہ بھی دوڑنے لگے گا جس سے سب سے زیادہ فائدہ ہمیں بیرونی قرضوں سے نجات کی صورت میں ملے گا۔ یقین جانیئے یہ ایک ناقابل ِ عمل کہانی لگتی ہے لیکن صرف انڈسٹری کو چلانے کی Policyپر عمل کرنے سے دوسرے ہی دن ہم سب حیران کن نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ان شاء اللہ

تحریر: ناصر محمود بٹ

Comments are closed.