ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں بے گناہ افراد کو تشدد کر کے ان سے رقم بٹورنا اصول بن گیا

پاکستان میں بے گناہ افراد کو گرفتار کرکے تشدد کرنے کے بعد ان سے رقم منگوانے کا رواج عروج پر ہے۔ ایسا تقریباً ہر سیکورٹی ادارے میں ہوتا ہے مگر پاکستان کی فیڈرل انوسٹی گیشن ایجسنی کے سائیبر کرائم ونگ میں ایسا ہونا وہاں کا اصول بن چکا ہے۔ پاکستان بھر میں ایف آئی اے سائیبر کرائم ونگ کے ساڑھے تین سو ملازمین کو گزشتہ آٹھ ماہ سے تنخواہیں نہیں مل رہی اور نہ وہ اپنی تنخوائیں حکومت سے مانگتے ہیں۔ ملک بھر میں مفت میں ایف آئی اے سائیبر کرائم کا سسٹم کیسے چل رہا ہے اس پر ابھی تک حکومت نے سوچا تک نہیں۔ سائیبر کرائم ونگ کے پاس اسٹیشنری، پین، کاغذ اور پیٹرول تک کا فنڈ نہیں مگر پھر بھی سائیبر کرائم ونگ کے ملازمین خوشی سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جب اس بات پر تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ ایف آئی اے سائیبر کرائم ونگ کو ملک بھر سے ہر ماہ ہزاروں شکایات موصول ہوتی ہیں جن میں جعل سازی سے رقم ٹرانسفر کرنا، جنسی ہراسمنٹ، چائلڈ پورنو گرافی اور موبائل و کمپیوٹر کے ذریعے کیئے جانے والے کرائم شامل ہیں۔ ایف آئی اے سائیبر کرائم ونگ کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ وہ جس شخص کو گرفتار کرتے ہیں تو اسے بغیر وارنٹ گرفتار کیا جاتا ہے جسے سائیبر کرائم کے تھانوں میں لاکر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے یہاں تک کہ پکڑا جانے والا شخص موت کی بھیک مانگنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ تب ایف آئی اے سائیبر کرائم ونگ کے افسران پکڑے جانے والے شخص کو اس کے دوست یا رشتہ داروں کو کال کرکے رقم لانے کا کہتے ہیں جب رقم آجاتی ہے تو شکایت کرنے والے شخص کو کچھ رقم واپس کرکے باقی آپس میں بانٹ لی جاتی ہے جبکہ کبھی کبھار تو وہ رقم شکایت کنندہ کو دی ہی نہیں جاتی اور آپس میں بانٹ کر ملزم کو رہا کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ کئی کیسوں میں سائیبر کرائم ونگ کا اسٹاف رقم بھی وصول کر لیتا ہے اور ملزم کو جیل بھی بھیجوا دیتا ہے۔ سائیبر کرائم کے ملزمان کو جب ریمانڈ کے لیئے عدالت پیش کیا جاتا ہے تو ان کو دباؤ ڈالتے ہوئے پہلے سے بتا دیا جاتا ہے کہ وہ جج کے سامنے یہ نہ کہیں کہ ان پر تشدد ہوا ہے ورنہ بعد میں دوبارہ مار پڑے گی جس پر عدالت پیش ہونے والا ملزم خاموش رہتا ہے اور ایف آئی اے سائیبر کرائم مذید ریمانڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ اگر ریمانڈ نہ ملنے کا خدشہ ہوتو جج کے اسٹاف کو رشوت دے کر جج کی غیر موجودگی میں ریمانڈ دے دیا جاتا ہے۔ اکثر ملزمان کو ایف آئی اے سائیبر کرائم کے ججز اپنے چیمبر سے ہی ریمانڈ دینے کا حکم جاری کر دیتے ہیں جو ایک غیرقانونی عمل ہے۔ ججز کو چاہیئے کہ وہ ملزم کو ون ٹو ون مل کر حقیقت سے خود کو آگاہ کریں تب ریمانڈ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کریں۔ مگر پاکستانی عدالتوں میں ایسی اصول پسندی ناممکن ہے۔ ایف آئی اے سائیبر کرائم ونگ کا سارا خرچ بغیر تنخواہوں اور فنڈز کے اسی طرح چل رہا ہے اور وہاں باراں سال پہلے تین سال کے کنٹریکٹس پر بھرتی ہونے والے ساڑھے تین سو افسران کو بار بار توسیع دی جا رہی ہے کیونکہ یہ گینگ اب ایک بااثر مافیا بن چکا ہے اور اپنے کنٹریکٹس کی مدت میں توسیع کروانے کے لیئے یہ آپس میں رقم اکٹھی کرکے وفاقی وزارت داخلہ کو بطور رشوت دیتے ہیں جو کروڑوں میں بنتی ہے۔ اسی طرح دیگر معاملات میں ایف آئی اے سائیبر کرائم ونگ کی جانب سے حکومت کو بھیجی جانے والی رشوت اربوں روپے ہے۔ آٹھ ماہ سے تنخواہیں نہ ملنے کے باوجود سائیبر کرائم ونگ کے کنٹریکٹس افسران لگژری گاڑیوں اور مہنگے ترین موبائل فونز کے مالک ہیں جن کے اسلام آباد، لاہور اور کراچی سمیت بیرون ممالک میں اربوں روپے کے ناجائز اثاثے اور بزنس ہیں۔ جس کی مثال اسلام آباد سائیبر کرائم سرکل میں فرانزک لیب کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر چوہدری ایاز خان کی ہے جو پہلے کنٹریکٹ پر سائیبر کرائم ونگ میں فرانزک ایکسپرٹ بھرتی ہوا اور بعد میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیئے بغیر کنفرم ہو گیا اور اب تین عہدوں پر ایکسٹرا چارج لے کر کام کر رہا ہے جن میں ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سائیبر کرائم اسلام آباد سرکل، ڈپٹی ڈائریکٹر فرانزک لیب اور ایڈیشنل ڈائریکٹر آپریشن جیسے عہدے شامل ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ گجرات سے تعلق رکھنے والا مذکورہ ڈپٹی ڈائریکٹر چوہدری ایاز خان اس وقت ایف آئی اے کا امیر ترین افسر ہے جو ملک کا قرضہ دس دن میں ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی طرح ایف آئی اے کاؤنٹر ٹیرریزم ونگ میں ملتان سے تعلق رکھنے والا ڈپٹی ڈائریکٹر عامر نذیر بھی قابل ذکر ہے جو کنٹریکٹ پر بھرتی ہونے کے بعد غیرقانونی طور پر کنفرم ہوا تھا ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ ڈپٹی ڈائریکٹر عامر نذیر پر ماضی میں سرکاری مال خانے سے پکڑا جانے والا گیٹ وے چوری کرکے اسے چلانے کا الزام تھا جس میں اس نے اربوں روپے کا منافع کیا جب یہ بات حکومت کو پتہ چلی تو حکومت نے اسے معطل کرکے اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا مگر بھاری رقم کا استعمال کرکے ڈپٹی ڈائریکٹر عامر نزیر نے خود کو کلیئر کروا لیا اور اب ایف آئی اے کی کاؤنٹر ٹیراریزم ونگ کے خفیہ راز لیک غیرملکیوں کو لیک کرکے کمائی کر رہا ہے ۔ ایف آئی اے سائیبر کرائم ونگ کو اگر سرکاری طور پر کڈنیپنگ ایجنسی کا نام دیا جائے تو یہ برا نہیں ہو گا کیونکہ ملک بھر سے ایف آئی اے سائیبر کرائم ونگ کی جانب سے گرفتار کرکے جیل بھیجے جانے والے ستر فیصد لوگ بے گناہ ہیں جو اپنی ضمانتوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ، وفاقی سیکرٹری داخلہ یا ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے سمیت کسی اعلی افسر نے اب تک ملک بھر میں قائم ایف آئی اے کے تھانوں کی حوالاتوں کو دورہ نہیں کیا۔ ایف آئی اے کے تمام تھانوں کی حوالاتیں پولٹری فارم سے بھی بدتر ہیں۔ جہاں ہر وقت غیرقانونی طور پر گرفتار افراد کو مغویوں جیسا رکھا جاتا ہے جن کو ان کے وکیل یا فیملی تک رسائی بھی نہیں دی جاتی۔ ملک بھر میں سائیبر کرائم ونگ کا مافیا اتنا بااثر ہو چکا ہے کہ ان کے خلاف ڈائریکٹر جنرل یا سیکرٹری داخلہ بھی آواز اٹھانے کی جرات نہیں کرتا۔ سائیبر کرائم کے افسران کے خلاف ہونے والی ننانوے فیصد انکوائریاں غائب یا ختم کر دی جاتی ہیں۔ بغیر تنخواہ اور مراعات کے کام کرنے والا ایف آئی اے سائیبر کرائم ونگ کا یہ ادارہ اس وقت سونے کی کان بن چکا ہے جہاں کا خاکروب بھی ماہانہ لاکھوں روپے کما رہا ہے۔ ان کی جانب سے قبضہ میں لیا جانے والا مال مقدمہ جن میں قیمتی موبائل فونز، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور دیگر قیمتی سامان شامل ہے وہ بھی آپس میں بانٹ لیا جاتا ہے مگر قومی احتساب بیورو اور دیگر انٹیلیجنس ادارے اس کرپشن اور بدعنوانی پر آنکھیں بند کیئے ہوئے ہیں۔

Comments are closed.