اسلام آباد (شمشاد مانگٹ)وفاقی پولیس کے افسران اور اہلکار بار بار سرکاری کھاتے میں انوکھے طریقے سے حج کرتے رہے۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق بار بار سرکاری کھاتے میں معاونین حج کے طور پر حج کے لیے جانے والے زیادہ تر پولیس افسران اور اہلکاروں میں ایسے لوگ شامل تھے جو سپریم کورٹ کے جج صاحبان ، ہائی کورٹس کے جج صاحبان یا کسی وفاقی وزیر کے ساتھ ڈیوٹی کر رہے تھے۔ حج 2023ء کے لیے آئی جی اسلام آباد ناصر اکبر درانی نے پالیسی بنائی تھی کہ بار بار حج کرنے والوں کسی بھی پولیس افسر یا اہلکار کو این او سی نہیں ملے گا۔ اس بندش کے بعد جو اہلکار بطور گارڈز اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے ساتھ فرائض سرانجام دے رہے تھے انہوں نے اِدھر سے دبائو ڈلوانا شروع کر دیا اور جو اہلکار وفاقی وزراء اور بیورو کریٹس کے ساتھ ڈیوٹی کر رہے تھے انہوں نے اُدھر سے پریشر ڈالنا شروع کر دیا لیکن آئی جی اسلام آباد ناصر اکبر درانی ڈٹے رہے البتہ 17پولیس افسران اور اہلکاروں میں سے ایک کے سامنے ناصر اکبر درانی نے ہتھیار ڈال دیے۔ فیاض نامی حوالدار جو کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا ذاتی گارڈ ہے نے ٹریفک پولیس میں موجود اپنے بھائی سکندر زیب کی سفارش کروائی ۔ جب آئی جی اسلام آباد نے اسحاق ڈار کو انکار کیا تو وزیر خزانہ نے آئی جی سے کہا کہ کیا میں اب میاں نواز شریف کو کہوں؟ اس پر آئی جی ناصر اکبر درانی پیچھے ہٹ گئے اور سکندر زیب کا این او سی جاری کر دیا۔ بعد ازاں 16پولیس اہلکاروں اور افسران نے ذاتی اثر و رسوخ اور وزارت مذہبی امور سے گٹھ جوڑ کر کے اپنے ویزے لگوا لیے اور اس کی خبر جب آئی جی اسلام آباد کو ہوئی تو انہوں نے 16اہلکاروں اور افسران کا نام ڈی جی ایف آئی اے محسن بٹ کو دیکر ایئرپورٹ واچ لسٹ میں ڈال دیا اور ان تمام کی ڈیوٹیاں اس جگہ سے ختم کر دیں جہاں سے سفارش کرواتے تھے اور آج کل یہ 16اہلکار حوالات کی سخت ڈیوٹی کر رہے ہیں۔ ان 16پولیس افسران اور اہلکاروں میں سب انسپکٹر نعیم یوسف، سب انسپکٹر ذوالفقار علی، سب انسپکٹر عمران خان ، سب انسپکٹر ثاقت علی خان، اے ایس آئی عاصم جاوید ، اے ایس آئی عرفان خان ، حوالدار امجد علی ، حوالدار پروان علی شاہ، حوالدار انعام الحق ، حوالدار لیاقت علی ، سپاہی گلاب اللہ، سپاہی انعام اللہ اور او ایس عدیل محبوب شامل ہیں۔ ان میں ایسے بھی ملازم شامل تھے جو گزشتہ 15سال سے لگارتار معاونین جج کے طور پر مال، ثواب، سرکاری رہائش، کھانے اور دیگر مراعات حاصل کر رہے تھے۔
Comments are closed.