اک ستارہ تھا کہکشاں ہو گیا

Osman Yasin

از قلم : عثمان یاسین

۳۱ جولائی کی خوبصورت مگر افسردہ افسردہ سی صبح تھی ۔ ہم اپنے کمرے میں لیٹے تھے جب ایک جانکاہ خبر سننے کو ملی۔ وہ ایک خبر تھی جان نکال لینے والی صور کی آواز ۔ لمحے بھر کیلئے تو ہم حواس باختہ ہی ہو گئے تھے ۔ پتا نہیں کتنی ہی دیر ہم بے یقینی کے عالم میں بیٹھے رہے اور اس خبر پر یقین کرنے کیلئے ذہنی طور پہ خود کو تیار کرنے لگے

خبر تھی ولی کامل، پیر طریقت، استاذ العلماء، شیخ الحدیث، حضرت الاستاذ حضرت مولانا ارشاد احمد صاحب بقضائے الٰہی وفات پا گئے ہیں ۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

شیخ ارشاد احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ آج سے 62 سال قبل ڈیرہ غازی خان کے شہر شادن لنڈ کے ایک پسماندہ علاقے شیر گڑھ میں 1955 میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے علاقے سے ہی حاصل کی ۔ تیرہ سال کی عمر میں حفظ قرآن مجید کی سعادت حاصل کی اور چودہ سال کی عمر میں جامعہ احیاء العلوم مظفر گڑھ میں درس نظامی کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی ۔ بعد ازاں جنوبی پنجاب کی قدیمی و تعلیمی درسگاہ جامعہ مظاہر العلوم کوٹ ادو تشریف لے گئے اور مفتی عبد الجلیل اور مولانا فیض الباری صاحب سے فیض حاصل کیا ۔ یہ اس دور کی بات ہے جب فاضل دارالعلوم دیوبند مولانا عبد الخالق ملتانی صاحب نورا اللہ مرقدہ نے کبیر والا کی سر زمین پر دارالعلوم کبیر والا کے نام سے ایک مدرسے کی داغ بیل ڈالی۔ جس کا شہرہ دور دور تک پھیل چکا تھا اور شائقین علوم نبوت کشاں کشاں اس طرف کھنچے چلے آ رہے تھے ۔ دارالعلوم کا شہرہ سن کر آپ نے بھی دارالعلوم کبیر والا کا رخ کیا اور بقیہ تعلیم آپ نے دارالعلوم کبیر والا میں حاصل کی ۔ تمام اساتذہ سے زانوئے تلمذ طے کیئے۔

لیکن جس ہستی کی صحبت صالحہ کا رنگ آپ پر چڑھا، وہ مفتی عبدالقادر رحمہ اللہ تعالیٰ کی شخصیت ہے ۔ ظاہر و باطنی علوم کی آمیزش نے آپ کے ظاہر و باطن کو ایسا کندن بنایا کہ آپ ایسے لوگ خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں ۔
تعلیمی سفر سے فراغت کے بعد آپ نے اپنے تدریسی سفر کا آغاز شورکوٹ کے قدیمی دینی ادارے جامعہ عثمانیہ سے کیا ۔ تین سال تک پہلے ابتدائی درجات پڑھاتے رہے۔

1932ء میں مادر علمی دارالعلوم کبیر والا میں تشریف لائے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے ۔
طرزِ تدریس کے حوالے سے آپ کے تلمیذ مولانا کلیم اللہ حنفی صاحب لکھتے ہیں کہ ” طریقہ تدریس میں آپ کے چند ایسے امتیازات ہیں جو آپ ہی کا خاصہ تھے ۔ ٹھہر ٹھہر کر ایک ایک لفظ کو واضح کر کے سبق پڑھاتے، مشکل سے مشکل سبق آسان سے آسان الفاظ میں سمجھاتے، ایک ہی بات کو بار بار مختلف انداز میں دہراتے، سمجھاتے وقت سوال و جواب کا ایسا انداز اپناتے کہ آپ کی بات مکمل ہوتے ہی طالب کی زبان پہ اس کا جواب آ چکا ہوتا، طلباء کی اکتاہٹ دور کرنے کیلئے فحش گوئی سے پاک لطائف سناتے جس سے بوریت زائل ہو جاتی، طلباء تازہ دم ہو جاتے اور انسان کو زندگی کا ایک سبق بھی حاصل ہو جاتا، کلاس میں موجود طلباء کو یکساں توجہ دینے کی کوشش فرماتے۔ درس نظامی میں اکثر کتب عربی میں ہیں، عربی زبان کے قواعد و ضوابط اور گرامر کی مضبوطی سے اس کا صحیح فہم واضح ہوتا ہے ۔ اس میدان میں آپ کو امام الصرف و النحو کا اعزاز حاصل رہا ہے ۔”

آپ نے اکتالیس سال کا طویل عرصہ دارالعلوم کبیر والا میں گزارا ۔ ان اکتالیس سالوں میں طلباء علوم دینیہ کو سیراب کیا، تدریس کی شہسواری کی اور گزشتہ اٹھارہ سالوں سے دارالعلوم کبیر والا کی مستقل دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی احسن طریقے کے ساتھ نبھائی۔
آپ ایسے لوگ صدیوں میں ایک بار جنم لیتے ہیں۔ بندہ نے پانچ سال کا عرصہ دارالعلوم کبیر والا میں گزارا ۔ ان پانچ سالوں میں ہمیشہ آپ کق متبع سنت پایا، کبھی کوئی کام خلاف شریعت کرتے نہیں پایا، آپ طلباء میں جب بھی اصلاحی بیان فرماتے تو سنت و شریعت کو لازم پکڑنے کی بارہا تاکید فرماتے۔ بڑوں کا ادب کرنے کی ترغیب دیتے ۔ آپ انتہائی شفیق تھے، کبھی طلباء پر بےجا سختی و پابندیاں نہیں لگائیں ۔ اگر کبھی کسی طالب علم سے کوئی غلطی سر زد ہو جاتی اور بات آپ تک پہنچ جاتی تو درگزر سے کام لیتے ۔
آپ کے سانحہ ارتحال نے صرف دارالعلوم ہی نہیں بلکہ پورے کبیر والا کو غمزدہ کیا ۔
اللہ تعالیٰ آپ کو کروٹ کروٹ چین و راحت نصیب فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین

آخر میں “زرناب علی صاحب” کا کلام جو انہوں نے خصوصاً آپ کے سانحہ ارتحال پہ رقم کیا ملاحظہ ہو

استاذ الاساتذہ حضرت مولانا ارشاد احمد رحمہ اللّٰہ تعالیٰ کے سانحہِ ارتحال پر!

(تضمین)

کیا ہوا؟ کیوں آج چپ ہیں طائرانِ خوش نوا؟
برگ و گل کا رنگ اڑا ہے ، ہیں عنادل بے صدا
اس قدر بے کیف کیوں ہے آج گلشن کی فضا؟
کیوں طبیعت مضمحل ہے،مضطرب ہے دل مرا؟

کچھ بتا! اے روز و شب کی گردشِ بیداد گر!
قلبِ پر اسرار میں تیرے نہاں ہے کیا خبر۔۔۔۔؟

آج تونے اے صبا! اوڑھی ہے کیوں غم کی ردا؟
کیا ہوا اے صبح؟ کیوں ہے سوگوار و بے ضیا؟
کیا کہا؟ اے قاصدِ غم! پھر سے کہنا، کیا کہا؟
لے چلی کیا حضرتِ ارشاد احمد کو قضا۔۔۔۔۔۔؟

“آگیا آج اس صداقت کا مرے دل کو یقیں
ظلمتِ شب سے ضیائے روزِ فرقت کم نہیں”

وہ کلیمِ طورِ الفت، پیکرِ صدق و صفا
مشفق اور شیخ و مربی، مہربان اور مقتدا
بزمِ “قال اللّٰہ اور قال النبی ” کی شان تھا
تشنہ کاموں کے لیے تھا چشمۂ آبِ بقا

“زمزموں سے جس کے لذت گیر اب تک گوش ہے
کیا وہ آواز اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے ۔۔۔۔۔؟”

وہ فرشتہ خصلت انساں ، جوکہ تھا عالی صفات
حسنِ باطن سے مرصع ، شفقتوں کی کائنات
اسوۂ اسلاف کا پیکر تھی زرناب اس کی ذات
اس کے چہرے کی زیارت مردہ دل کی تھی حیات

“یاد سے اس کی دلِ درد آشنا معمور ہے۔۔۔۔۔
جیسے کعبے میں دعاؤں سے فضا معمور ہے “

وہ محدث،جس کا سینہ علم سے معمور تھا
زہد و ورع و اتقاء اس کی جبیں کا نور تھا
بادۂ عرفاں سے وہ سرشار تھا ، مخمور تھا
وہ تصوف کا شناور، وقت کا منصور تھا

“جان کر منجملۂ خاصانِ میخانہ اسے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ اسے”

Comments are closed.