اسلام آباد اور پراپرٹی ٹیکس میں ظالمانہ اضافہ

سی ڈی اے اسلام آباد کا ترقیاتی ادارہ ہے۔ جبکہ لوکل گورنمنٹ کا ادارہ ایم سی آئی ہے ۔ جس کے پہلے سربراہ شیخ عنصر منتخب ہوئے. عوام نے انہیں منتخب کیا لیکن وہ بھی روائتی چیرمین سی ڈی اے بن گئے ۔ اور اسلام آباد کے شہریوں کے مسائل حل کرانے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔ بعد ازاں ایم سی آئی کی اسمبلی کی مدت ختم ہوئی تو شہر بیوروکریسی کے ہتھے چڑھ گیا۔ ریونیو اور ڈی ایم اے دو محکمے کماؤ تھے ان کا کنٹرول سی ڈی اے نے لے لیا ۔ اس کے علاوہ سینیٹیشن – روڈز ۔ واٹر سپلائی اور دیگر چھ محکمے بھی اپنی تحویل میں لے لئے جس پر کنٹرول سی ڈی اے کے افسران کے ذریعے حاصل کیا۔ باہر سے آنے والے افسران کو نہ تو اس شہر کے مسائل سے کوئی سروکار ہوتا ہے اور نہ ہی معلومات ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہوا ۔ ان کا مقصد ریونیو زیادہ سے زیادہ اکٹھا کرنا ہوتا ہے، جس میں کسی حد تک کامیاب رہے ۔ لیکن یہ ریونیو ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرنے کی بجائے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے استعمال کیا گیا . جس کے نتیجے میں ترقیاتی کام نہ ہونے کی وجہ سے اسلام آباد کی تقریباً تمام مارکیٹیں کھنڈرات میں تبدیل ہو گئی ہیں ۔ اسلام آباد کے عوامی نمائندوں کی عدم دلچسی بھی مسائل میں اضافہ کا سبب بن گئی ہے ۔ 2019 میں ایم سی آئی کے اس وقت کے ایڈ منسٹریٹر نے پراپرٹی ٹیکس میں یکمشت تقریباً تین سو فی صد اضافہ کیا۔ جس کے خلاف مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں اور اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے اس اضافہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور اضافہ کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔ فیصلہ کے مطابق سی ڈی اے کا اس ریونیو سے کوئی تعلق نہ ہے حتی کہ پراپرٹی ٹیکس اور واٹر چارجز کے بلوں پر سی ڈی اے کا مونو گرام بھی غیر قانونی قرار دیا. فیصلے میں سی ڈی اے اور ایم سی آئی کے اکاؤنٹس کا آڈٹ کرانے کا بھی حکم دیا ۔ اس فیصلہ کے خلاف سی ڈی اے اور ایم سی آئی انٹرا کورٹ اپیل میں چلا گیا ۔ جو کہ ابھی تک چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں زیر التوا ہے ۔ ابھی تک اس اپیل پر کوئی فیصلہ نہ ہوا ۔ پھر ایڈ منسٹریٹر ایم سی آئی نے ایک مرتبہ پھر پچھلے بڑھائے گئے پراپرٹی ٹیکس کی شرح سے چار سو فی صد تک اضافہ کر دیا ۔ جس کے لئے نام نہاد عوامی سماعت بھی کرائی گئی اس عوامی سماعت میں ایک افسر کے علاوہ تمام افسران کا تعلق اسلام آباد سے نہ تھا۔ ان کو اسلام آباد کی ترقی اور عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہ ھے ۔

اسلام آباد چیمبر آف کامرس

اینڈ انڈسٹری نے ایم سی آئی کے اعلیٰ افسران کے ساتھ بارہا مرتبہ مذاکرات کئے اور زیادتی تسلیم کرنے کے باوجود اچانک ایڈ منسٹریٹر نے نوٹفیکشن جاری کر دیا ۔ جس کے مطابق نہ صرف پراپرٹی ٹیکس میں اضافہ کر دیا بلکہ اسلام آباد کے دیہاتی علاقوں اور ہاوسنگ سوسائٹیوں کو بھی اس میں شامل کر دیا ۔ واٹر چارجز میں کئی گنا اضافہ اور بورنگ پر بھی ٹیکس نافذ کر دیا ۔ جو کہ سراسر زیادتی ہے۔ بعد ازاں اسلام آیا چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی ایگزیکٹو کمیٹی نے صدر احسن بختاوری کی قیادت میں کرنی کورٹ میں اضافہ کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا کیوں کہ تاجروں کی بہت بڑی تعداد اور انڈسٹری اس سے متاثر ہو رہی تھی ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن کیانی صاحب نے اس کیس کی سماعت کی اور قرار دیا کہ ایڈمنسٹریٹر صرف ڈے ٹوڈے معاملات دیکھ سکتا ہے۔ انہوں نے ٹیکسوں میں اضافہ اور نئے ٹیکس عائد کرنے کے تمام نوٹفیکشن معطل کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے الیکشن کی تاریخ مانگ لی ہے اور سی ڈی اے سے آڈٹ رپورٹ بھی طلب کی ہ
اسلام آباد کی یونین کونسلز میں ریونیو اکٹھا کرنے کی نیلامی ہو رہی ہے۔ ہائی کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں یہ نیلامی بھی غیر قانونی ہے۔ فوری طور پر نہ روکی گئی تو توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے

Comments are closed.