ڈاکٹر سکندر حیات تمغہئ امتیاز کے حقدار!
(بلاتامل، شاہد اعوان)
لاہور کے ایک بڑے جاگیردار گھرانے کا تعلیم یافتہ فرد جب مجلس قانون سازی اسمبلی کا ممبر بنا تو اس نے پنجاب اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر کا آغاز ان الفاظ سے کیا ”میری بڑی بڑی جاگیریں اور زمینداریاں میرے بڑوں کی غداری کا انعام ہیں اس میں میری کوئی خوبی نہیں میری ذات ان عنایات سے پاک ہے“۔ تاریخ ایسے لوگوں کا بھی ذکر کرتی ہے جو کٹھن حالات میں بھی محب وطن رہے مفلسی میں پروان چڑھے محنت مزدوری کر کے تعلیم مکمل کی اور آسمانِ علم پر آفتاب بن کر چمکے پھر دنیا میں انمٹ نقوش چھوڑ کر چلے گئے۔ زندگی میں کامیابی پانے کے لئے دو طرح کی صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے ایک کردار کی مضبوطی اور دوسری خود اعتمادی۔ میرے مربی ڈاکٹر سکندر حیات میں مذکورہ دونوں صفات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں وہ 60ء کی دہائی میں جہلم سے نقل مکانی کر کے تاریخی شہر حسن ابدال میں ایک سرکاری ڈاکٹر کی حیثیت سے وارد ہوئے اور انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنایا۔ اس زمانے میں علاقہ میں وہ واحد ڈاکٹر تھے اور صرف انسانی خدمت ان کا مطمع نظر تھا انہوں نے خلقِ خدا کے لئے آسانیاں بانٹنے کی ٹھانی اور پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا رات کو کسی دور دراز گاؤں سے بھی مریض ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے اپنی نیند اور آرام کو قربان کر کے اس کا بہترین علاج معالجہ کیا تب آمدورفت کے ذرائع انتہائی محدود تھے چنانچہ ڈاکٹر صاحب لوگوں کے ساتھ دس دس کلومیٹر کا سفر پیدل کیا کرتے۔ اہلِ علاقہ کی ضروریات کے پیش نظر جب انہوں نے محسوس کیا کہ شہر میں نجی ہسپتال کا قیام ناگزیر ہو چکا ہے تو ڈاکٹر سکندر حیات نے چند دکانوں پر مشتمل ایک پرائیویٹ ہسپتال کا قیام عمل میں لایا بس پھر نہ دن دیکھا نہ رات لوگ کشاں کشاں ان کے پاس آتے اور ہسپتال میں نوجوان ڈاکٹر مریضوں کے آگے یوں بچھ بچھ جاتا کہ کوئی عزیز رشتہ دار بھی ایسی تیمارداری نہ کرے۔ ہسپتال آنے والے مریضوں میں اکثریت کا تعلق غریب اور ناداروں سے ہوتا جنہیں ہسپتال سے ادویات بھی مفت مل جاتیں یہاں تک کہ واپسی کا کرایہ بھی ڈاکٹر صاحب اپنی جیب سے ادا کرکے انہیں رخصت کرتے اس کارِخیر میں ان کی اہلیہ محترمہ نسیم سکندر بھی ان کے شانہ بشانہ ہوتیں اور خواتین کے پیچیدہ امراض کو سمجھنے میں ایک فری نرس کی ذمہ داریاں بھی خوب نبھاتیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے سرکاری ملازمت ترک کر کے نجی ہسپتال کو وسعت دی جس پر ان کے مریضوں کو بھی سکون ملا، ڈاکٹر سکندر اور ان کی اہلیہ کی خدمتِ انسانی کے چرچے خاص و عام میں ہونے لگے۔ 70ء کی دہائی میں مسز سکندر نے خواتین کو ہنر مند بنانے کے لئے سماجی تنظیم کی بنیاد رکھی اور شہر و دیہات سے آنے والی خواتین میں مفت سلائی مشینیں تقسیم کیں اور گھریلو خواتین کو باعزت آمدن کا ذریعہ فراہم کیا، سینکڑوں بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا، بے شمار یتیم بچیوں کی شادیاں کرائیں اور ان کے جہیز کے اخراجات اٹھائے، بے گھروں کو رہنے کے لئے ذاتی گھر بنا کر دئیے۔۔۔ ڈاکٹر حیات فیملی کی فلاح و خدمت کے اس سلسلہ کو کبھی بریک نہیں لگی فلاحِ انسانیت کے ان ماہ و سال کو اگر انگلیوں پر شمار کیا جائے تو شاید ممکن نہ ہو کہ اس مشن کو چھ دہائیاں بیت چکیں۔ گو یہ خاندان سیاسی طور پر پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ وفاداری نبھائے ہوئے ہے ڈاکٹر سکندر حیات جس طرح بطور معالج اپنے پیشے کے ساتھ مخلص ہیں عین اسی طرح ان کی تیسری نسل ایک ہی پارٹی کے ساتھ اپنی سیاسی وفاداری کو جاری رکھے ہوئے ہے جو انہیں دیگر سے منفرد و ممتاز کرتا ہے۔ ڈاکٹر سکندرحیات نے اپنی ساری زندگی خلقِ خدا کے لئے وقف کی جس کا بدلہ نہ کبھی مخلوق سے مانگا نہ کسی حکومت سے کبھی اس کا معاوضہ طلب کرنے کی کوشش کی، ڈاکٹر سکندر اور ان کی اہلیہ سماجی شعبہ میں اپنے علاقہ کے غرباء و مساکین کے لئے عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی سے کسی طور کم نہیں لیکن افسوس کبھی کسی حکومت نے ان کی خدمات کو پذیرائی نہیں بخشی۔ ان دنوں مذکورہ دونوں عظیم شخصیات پیرانہ سالی کے باعث بستر علالت پر ہیں اور یادداشت متاثر ہونے کی وجہ سے اپنے قریبی رشتہ داروں تک سے ”انجان“ ہیں مگر حیرت انگیز طور پر ہر خوشی کے تہوار پر وہ اپنے چھوٹے صاحبزادے ذوالفقار حیات سے ان مستحقین کا ضرور معلوم کرتے ہیں کہ انہیں باقاعدگی سے ماہانہ امداد پہنچ رہی ہے یا نہیں۔۔۔ ہم ان سطور کے ذریعے حکومتِ وقت سے پرزور مطالبہ اور سفارش کرتے ہیں کہ ڈاکٹر سکندر حیات اور ان کی رفیقِ حیات کو ان کی سماجی خدمات کے اعتراف میں تمغہئ امتیاز سے نوازا جائے کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی مجبور و لاچار انسانیت کے لئے وقف کیے رکھی۔۔۔ حکومتیں ایک واقعہ کو بنیاد بنا کر لوگوں کو سرکاری اعزازات سے نواز دیتی ہیں جبکہ مذکورہ شخصیات کی پوری زندگی مخلوقِ خدا کی فلاح و بہبود میں گزری ہے۔ اس ضمن میں ڈپٹی کمشنر اٹک راؤ عاطف رضا سے بھی خصوصی درخواست ہے کہ وہ بطور ضلعی سربراہ ڈاکٹر سکندر حیات کی ان بے لوث خدمات کو اپنے ذرائع سے تصدیق کرائیں اور ماہِ اگست میں حکومت پاکستان سے ان کو تمغہئ امتیاز دلوانے میں اپنا انتظامی کردارادا کریں۔ ڈاکٹر صاحب کی نذر احمد ندیم قاسمیؔکے چند اشعار:
اشک تھا چشمِ تر کے کام آیا
میں بشر تھا، بشر کے کام آیا
میری قسمت میں شب تھی لیکن
شمع بن کر سحر کے کام آیا
روح میری شجر کی چھاؤں بنی
جسم گرد و سفر کے کام آیا
زندگی، اہلِ شر کے گھر کی کنیز
خیر کا کام، مَر کے کام آیا!!
Comments are closed.