سوشل میڈیا کے اثرات

تحریر: سویرا اللہ دتہ

(Social media)

Sawira Allah Ditta

سوشل میڈیا(Social media) انسانی زندگی کا ایک اہم حصہ بن گیا ہے۔عالمی اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں سماجی روابط کی ویب سائٹس کے صارفین کی تعداد 4.9 ارب تک پہنچ چکی ہے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق سال 2027تک یہ تعداد بڑھ کر 5.85 ارب تک پہنچ جائے گی۔اس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال ہونی والے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں فیس بک ، جی میل، یوٹیوب، وٹس ایپ ،انسٹا گرام، وی چیٹ اور ٹک ٹاک ہیں جن کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں ہر ماہ لاکھوں کی تعداد میں اضافہ ہوتاجا رہا ہے۔سوشل میڈیا نے جہاں سماجی روابط میں آسانی پیدا کی وہاں اس کے منفی اثرات سے بھی انکار ممکن نہیں۔

سوشل میڈیا (Social media)کا آغاز بیسویں صدی کے آخر میں اس وقت ہوا جب پوری دنیا معاشی دوڑ میں تیز رفتاری سے بھاگ رہی تھی۔ مسابقت کی اس فضا میں سوشل میڈیا کا انقلاب سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس انقلاب نے برق رفتاری سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

باہمی روابط کے ذرائعے نے فاصلوں کوممکنہ حد تک کم کر دیا ہے۔ دور دراز علاقوں تک نہ صرف معلومات پہنچائی جاسکتی ہیں بلکہ تصویروں اور ویڈیوز کے ذریعے مکمل تفصیل سے بھی آگاہ کیا جاسکتا ہے۔سمندر پار بیٹھے دوست احباب اور رشتہ دار ایک دوسرے سے آمنے سامنے بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں ۔ سوشل میڈیا نے پوری دنیا کو حقیقی معنوں میں گلوبل ولیج بنا کر ایک جال میں بن دیا ہے جس کی مدد سے پل بھرمیں پوری دنیا میں رابطہ ممکن میں ہے۔یہ کاروبار کے فروغ کا ایک بااعتماد ذریعہ بھی بن چکا ہے۔ 

اِن ذرائع کی ایجاد کا مقصد سماجی روابط میں آسانی بہتری اور تیزی لانا تھا لیکن اکیسویں صدی میں سوشل میڈیا(Social media) کا کردار کافی حد تک منفی رجحان میں ڈھلتا ہوا محسوس ہو رہا ہے.روابط میں آسانی اور برق رفتاری نے جہاں فاصلے کم کیے ہیں وہیں غیر مصدقہ خبروں اور سنسنی خیزی نے بہت سے سماجی مسائل کو بھی جنم دیا ہے ۔معاشرتی و اخلاقی قدریں تیزی سے زوال پذیر ہیں۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے بے دریغ استعمال نے قابل اور محنتی دماغوں کو دیمک لگا نا شروع کر دیا ہے۔

کم عمر طالب علم کے ہاتھ میں موبائل اور انٹرنیٹ کی رسائی کے بعد پوری دنیا کا مواد اُن کی ہتھیلی پر ہے ۔ ایسا نو جوان اگر اس کے غلط استعمال کا اسیر ہو گیا تو نہ صرف اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہوگی بلکہ اس کی ذاتی زندگی اور کردار بھی بری طرح متاثر ہو کر پورے معاشرے کے لیے سنگین خطرہ ثابت ہو گا۔سوشل میڈیا کی غیر متعین آزادی نوجوان نسل کے لیے فتنہ ہے ۔ سوشل میڈیا پر دنیا کی ثقافت کا ہر رنگ ہر پہلو اور ماحول دیکھایا جاتا ہے جس میں مغربی اقدار واطواراور طرز زندگی کا اثر نمایاں ہے ۔

مغربی لباس اور پرتعیش رہن سہن نے نوجوان نسل کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پاکستان جیسا ملک جس کی بڑی سے زیادہ آبادی نوجوان نسل پر مشتمل ہے آج فیشن ، ماڈرن ازم اور مادیت پرستی کے بخار میں مبتلا ہیں. جو عریاں لباس، مغرب پسندی کل تک بری سمجھی جاتی تھی آج وہی اونچے معیار کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ اس کھوکھلے معیار زندگی نے پسماندہ اور متوسط طبقات کو کسی حد تک احساس کمتری کا بھی شکار بنایا ہے۔

جس کے نتیجے میں لوگ حلال اور حرام کا فرق بھولتے جارہے ہیں۔ جدت کے نام پر سوشل میڈیا(Social media) پر تشہیر ی مواد میں عریاں لباس ، شہوت انگیز رومانوی گفتگو اور بے ہنگم زندگی کی تصویر ہماری معاشرتی روایات، قومی تشخص اور اسلامی اقدار پر کاری وار ہیں۔ سماجی روابط کے حصول کے لیے بنائے گئے ذرائع شاید اپنے اس مقصد کی طرف بڑھ رہے ہیں جسے ففتھ جنریشن وار کا نام دیا جا رہا ہےسوشل میڈیا ڈپریشن ، پریشانی تنہائی اور خود کشی جیسے سماجی مسائل میں اضافے کا بھی باعث ہے –

غیر موزوں مواد ہمیں حقیقت پسندی سے دور کر کے غیر حقیقی آئیڈیل امیدوں اور خواہشوں کے حصول کی طرف دھکیل رہا ہے ۔اسلام دشمن عالمی طاقتیں طالب علموں کو کم عمری میں تعلیم و تربیت، اقدار کی پاسداری ، حق و انصاف ،حلال و حرام کی تعلیمات سے دور کر کے مصنوعی اور ظاہری سحر میں جکڑ نے کی سرتوڑکوششوں میں مصروف ہے۔

جس سے ہماری نو جو ان نسل میں قابلیت کا فقدان پیدا ہو رہا ہے ۔ سوشل میڈیا کے بے دریغ استعمال پر نظر رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔یہ والدین کی بھی ذمہ داری ہے اور اساتذہ کی بھی فرائض کا حصہ ہے کہ وہ نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے نقصانات اور امت مسلمہ کے خلاف عالمی اہداف سے آگاہ کریں۔ سوشل میڈیا کے بامقصد کردار کو اجاگر کر کے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے اور اپنی آئندہ نسلیں سنواریں جا سکتی ہیں۔

Comments are closed.