موجودہ حکومت اور معیشت کی بحالی

Dr.-Ibraheem-Mughal

از: ڈاکٹر ابراہیم مغل

قارئین کرام، اب تو یہ خبر عام ہو چکی ہے کہ سعودی عرب نے اسٹیٹ بینک میں دو ارب ڈالر جمع کروا دیے ہیں۔ وزرات خزانہ اور آئی ایم ایف کے درمیان ایکسٹرنل فنانسنگ کا معاملہ بھی طے پا گیا ہے، آئی ایم ایف نے 8.2ارب ڈالر کی فنانسنگ گیپ کا منصوبہ بھی مان لیا ہے۔ پاکستان کا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ قرض کا معاہدہ ہوتے ہی معیشت کے مستحکم ہونے کے آثار پیدا ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
اِس معاہدے کے لیے پاکستان کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑے اور government کو کتنی یقین دہانیاں کرانا پڑیں یہ سب کو معلوم ہے، تاہم اچھی بات یہ ہے کہ محنت رنگ لے آئی اور بالآخر ہم عالمی مالیاتی ادارے سے معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ پاکستان کی کمزور ہوتی معیشت کو اِس سے گویا نئی زندگی مل گئی ہے اور مثبت خبریں آنا شروع ہو چکی ہیں۔
زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ، اسٹاک ایکسچینج میں تیزی، مہنگائی کے اعشاریوں میں کمی اور روپے کی قدر میں بہتری آنے والے اچھے دِنوں کی نوید تو ہے لیکن ہنوز دِلی دور است۔ وزیراعظم شہباز شریف درست کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ لمحہ فخریہ نہیں لمحہ فکریہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ استحکام عارضی ہے یا واقعی اس کے ذریعے کوئی ایسی مثبت تبدیلی آتی ہے، جس کے ثمرات عام آدمی تک بھی پہنچیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ بہت سے معاشی ماہرین یہ بتا رہے ہیں کہ پاکستان میں بننے والی نئی government کو فوری طور پر ایک اور نئے پروگرام میں جانا پڑے گا۔ آئی ایم ایف کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان دو ریویوز ہوں گے، جن کی کامیاب تکمیل پر ہر ریویو کے بعد ایک، ایک ارب ڈالر جاری ہوں گے جب کہ پروگرام کی منظوری ملنے کے بعد آئی ایم ایف 1.1بلین ڈالر دے گا۔
پاکستان نے لیٹر آف انٹینٹ میں آئی ایم ایف کو متعدد یقین دہانیاں کرائی ہیں جن میں یہ یقین دہانی بھی شامل ہے کہ پاکستان آئندہ 9 ماہ کے دوران کوئی نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم نہیں دے گا، اس کے علاوہ پاکستان قرض دینے والے دوست ممالک اور اداروں کی یقین دہانیوں پر عمل درآمد کرائے گا۔
آئی ایم ایف کو یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے کہ پاکستان اپنے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھائے گا اور سرکاری اداروں میں اصلاحات کی جائیں گی۔ دنیا کے ممالک اور اداروں کی معیشت کی درجہ بندی کرنے والے بین الاقوامی شہرت کے حامل ادارے موڈیز نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف معاہدہ پاکستان کی معیشت کو استحکام دے گا اور اس سے حکومت کی مالی گنجائش میں معمولی بہتری آئے گی۔
جن اصلاحات پر آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی طرف سے زور دیا جارہا ہےgovernment ان کا سارا بوجھ عوام پر ڈالتی ہے جب کہ بڑی مچھلیاں اس کے جال میں آتی ہی نہیں ہیں۔ یہ صورتحال افسوس ناک بھی ہے اور قابلِ مذمت بھی، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عام آدمی تو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے اور سب سے زیادہ ٹیکس کا بوجھ بھی اس پر ڈالا جارہا ہے۔
وہ طبقہ جو اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق ساڑھے سترہ ارب ڈالر کی مراعات سالانہ بنیادوں پر government پاکستان سے وصول کرتا ہے اس کی مراعات و سہولیات پر تو کوئی قدغن لگتی ہی نہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ان میں اضافہ ہوتا جاتا ہے جن کی وجہ سے عوام کو حقیقی ریلیف ملنا ممکن ہی نہیں۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی، این ایچ ڈی آر، جی ڈی پی کا تقریباً 6 فیصد حصہ اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات پر صرف ہوتا ہے۔ یہ رقم ساڑھے سترہ ارب ڈالرز کے لگ بھگ بنتی ہے اس جائزے میں جن تین گروہوں کو سب سے زیادہ مراعات حاصل کرنے والا بتایا گیا وہ بالترتیب کاروباری طبقہ، ایک فیصد امیر ترین افراد اور جاگیردار ہیں۔ کاروباری طبقے کی طرف سے لی جانے والی مراعات کا حجم اس رپورٹ کے مطابق، تقریباً پونے پانچ ارب ڈالرز ہے۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ ایک فیصد امیر ترین لوگ ملک کی مجموعی آمدنی کے نو فیصد کے مالک ہیں جب کہ جاگیردار جو ملک کی آبادی کا ایک اعشاریہ ایک فیصد ہیں بائیس فیصد قابلِ کاشت رقبے کے مالک ہیں۔ اس رپورٹ کے مندرجات سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے اندر واضح طور پر دو ریاستیں موجود ہیں ایک متوسط، غریب اور پس ماندہ طبقات پر مشتمل اور دوسری وہ جس کا نہ صرف وسائل پر قبضہ ہے بلکہ اقتدار و اختیار کی مختلف شکلیں بھی اسی کے زیرِ اثر ہیں، اسی لیے کوئی چاہ کر بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ این ایچ ڈی آر میں دولت اور وسائل کی جس غیر منصفانہ تقسیم سے متعلق حقائق سامنے لائے گئے ہیں اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں بیس فیصد امیر لوگ ملک کی تقریباً نصف آمدنی کے حامل ہیں اور ان کے مقابلے میں بیس فیصد غریب لوگ مجموعی آمدنی میں صرف سات فیصد حصہ رکھتے ہیں۔
وہ سرکاری افسران جنھیں سرکاری گاڑیاں اور سرکاری پٹرول حاصل ہے، ان کی پٹرول کی مراعات کم کی جانی چاہیے۔ تمام سرکاری افسران سے مفت بجلی کی سہولت واپس لی جانی چاہیے، سات ہندسوں میں تنخواہ وصول کرنے والے سرکاری افسران کی تنخواہوں میں بھی کمی کی جانی چاہیے، انتخابی مہم میں کروڑوں روپے خرچ کر کے اسمبلیوں میں پہنچنے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کی تنخواہوں، ایئر ٹکٹ، مفت علاج سمیت دیگر سہولیات فوری طور پر معطل کی جائے وفاقی اور صوبائی وزرا اور مشیروں کی مراعات کو بھی معطل کیا جائے، گھروں میں رکھے گئے اربوں ڈالر نکالنے کے لیے ایمنسٹی اسکیم لائی جائے، ہمارے ملک کی 65 فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے۔ اسی لیے کسان کو کھاد، بیج زرعی ادویات اور مشینری آسان اقساط پر فراہم کی جائے۔ بجلی ڈیزل اور پانی کم سے کم ریٹ پر فراہم کیا جائے۔
اس کے ساتھ فصل کی نقد اور مناسب ترین سرکاری ریٹ پر خریداری کو یقینی بنایا جائے تاکہ مڈل مین کا کردار ختم ہو۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اگر اصلاحات پیکیج کا پہلا نقطہ اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات ختم کرنے سے متعلق نہیں ہوگا تو ہم کبھی بھی معیشت کی گاڑی کو پٹڑی پر نہیں چڑھا سکتے خواہ اس کے لیے ہم کتنی ہی کوشش کیوں نہ کرلیں۔ وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق مئی کے آخر میں افراط زر کی سالانہ شرح 38 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی جب کہ جون کے اختتام پر یہ شرح کم ہوکر 29.4 کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ الیکشن کا سال ہونے کی وجہ سے مہنگائی کی شرح میں بتدریج کمی ہوسکتی ہے جب کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد بھی زر مبادلہ کے ذخائر اور شہریوں کو ریلیف مل سکتا ہے۔آئینی مدت کے مطابق رواں سال الیکشن کا انعقاد ہونا ضروری ہے جس کے لیے سیاسی جماعتیں معاشی بہتری کا سہرا اور آیندہ ملک میں اقتصادی بحالی کا منشور لے کر بھی سیاسی میدان عمل میں آسکتی ہیں۔
پاکستان کو آیندہ چند سالوں میں مالیاتی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھاری مالی امداد کی ضرورت پڑے گی، جب تک آئی ایم ایف سے کوئی بڑا قرض پروگرام نہیں ملتا، اِسے اپنے شراکت داروں، مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے فنڈز لینے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ آئندہ چند ماہ تک آئی ایم ایف سمیت دیگر قرض دینے والے مالیاتی ادارے بھی پاکستان کی نگرانی جاری رکھیں گے، یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا پاکستان مالیاتی نظم و ضبط کو برقرار رکھ رہا ہے یا نہیں کیونکہ بصورت دیگر اِسے دوبارہ لیکویڈٹی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
گزشتہ تین مالی سالوں کے دوران پاکستان کا بیرونی قرض جی ڈی پی کے 36 فیصد سے بڑھ کر 37 فیصد ہو چکا ہے جس کی بڑی وجہ روپے کی قدر میں کمی بتائی جاتی ہے۔ وزارتِ خزانہ نے آیندہ تین مالی سالوں کی درمیانی مدت کی قرض مینجمنٹ پالیسی جاری کی ہے جس کے مطابق government نہ صرف بیرونی قرضوں میں کمی کی کوشش کرے گی بلکہ اِس کی زیادہ سے زیادہ حد بھی جی ڈی پی کے 40 فیصد سے کم کرکے 35 فیصد مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔
اِس پالیسی کے تحت government قلیل مدتی غیر ملکی قرضوں کو کم کرنے کے لیے طویل مدتی غیر ملکی، سرکاری اور تجارتی قرضوں کو بڑھا کر ریلیف حاصل کرنے کے علاوہ بیرونی مالیاتی ضروریات پوری کرنے کے لیے طویل مدتی بانڈز کے اجراء اور رعایتی شرح کے قرضوں کے حصول کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔
اِس وقت پاکستان کو 22 سے 23 ارب ڈالر سالانہ کی بیرونی ادائیگیاں کرنا پڑ رہی ہیں۔ آئی ایم ایف معاہدے سے لیکویڈٹی بڑھانے کے علاوہ ادائیگیوں کی صلاحیت بہتر بنانے میں مدد تو ملے گی تاہم بین الاقوامی قرض کی منڈیوں کے پاکستان پر وسیع پیمانے پر کھلنے اور نئے طویل مدتی قرضوں تک رسائی یا فوراً ہی بڑی رقوم کا حصول آسان نہیں ہو گا۔ قرض کی مے پی کر اپنی فاقہ مستی پر اِترانے کے بجائے ہمیں معیشت کی مستقل بحالی اور قرضوں کے جنجال سے جان چھڑانے کے علاوہ غریب عوام کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے طویل مدتی مستقل معاشی پالیسی کی ضرورت ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم بطور قوم کمر کس کے اپنی تمام تر توجہ معاشی دلدل سے نکلنے پر مرکوز کر دیں۔ معاشی اصلاحات کے ساتھ اندازِ زندگی بدلنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے، ہمیں چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کی عادت اپنانا ہو گی، سادگی کو شعار بنانا ہوگا کیونکہ آمدنی اور اخراجات میں توازن پیدا کیے بغیر معاشی استحکام کا حصول ممکن ہی نہیں۔

Comments are closed.