کیا ہم مسلمان ہیں؟

Is Islamic state still active

ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں نے ہمارا استقبال کیا۔ ہواؤں کی ٹھنڈک سیدھی ریڑھ کی ہڈی کو جا کر لگ رہی تھی۔ ہم سب نے مفلر،دستانے اور جیکٹ پہنے ہوئے تھے۔اس کے باوجود ہم لوگ جوں جوں آگے برھتے گئے،سردی کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ راستہ بھی انتہائی کٹھن اور دشوار گزار تھا۔ ہم لوگ ایک دوسرے کو آوازوں سے پہچان رہے تھے۔ میں نے کچھ فاصلہ اونٹ پر بیٹھ کر طے کیا۔ ایک مقام ایسا آیا کہ اونٹ نے بھی ہمارا ساتھ دینے سے انکار کیا۔اب آگے ہمیں یہ سفر پیدل ہی طے کرنا تھا میں اپنی زندگی میں پہلی بار اُونٹ پر بیٹھا تھا۔ اگر اونٹ تھوڑا سا بھی سرک جاتا تھا نہ جانے میں اس گھپ اندھیرے میں پہاڑوں کے درمیان کہاں سے کہاں پہنچ جاتا لیکن میرے پروردگار کا شکر ہے کہ اونٹ نے مجھے اپنے آخری سٹاپ تک خیر خیریت سے پہنچا دیا۔ میں نے اونٹ سے اترتے ہی آسمان کی طرف دیکھا اور اپنے رب کا شکر ادا کیا۔ ہمارے زیادہ تر ساتھیوں نے پیدل ہی سفر طے کیا۔ دستانے نے پہننے کے باوجود میرے ہاتھ یخ ہو رہے تھے۔اللہ بھلا کرے ڈاکٹر شاہد کا جو مجھے اپنے موبائل ٹارچ کی روشنی سے راستہ دکھاتے رہے اور میرے ساتھ چلتے رہے،اگر وہ میرے ہمسفر نہ ہوتے تو شاید میرے لئے بہت مشکل ہوجاتا۔
آج سے سو سال پہلے لوگ یہ سفر ننگے پاؤں طے کیا کرتے تھے اور ان نوکیلے پتھروں کی وجہ سے ان کے پاؤں بھی زخمی ہوتے اس کے علاوہ پھسل کر گزرنے سے کئی لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان واقعات کے بعد سے لوگوں کو جوتے پہن کر جانے کی اجازت دی گئی ہے۔ جی جناب! ہمارا قافلہ کوہ طور کی جانب رواں دواں تھا۔ جاوید چوہدری صاحب اس قافلے کے سردار تھے، دوران سفر ہمارے چند ساتھیوں کی طبیعت خراب ہوئی،جنہیں ڈاکٹر شاہد صاحب نے فرسٹ ایڈ دے کر فوراََ ٹھیک کروا دیا۔
صبح فجر کی اذان کے وقت ہمارا قافلہ کوہ طور پر تھا، ایک اندازے کے مطابق یہاں کا درجہ حرارت مائنس16سے20ڈگری تک ہو گا۔کوہ طور پر ایک مسجد اور ایک چرچ موجود ہیں،یہاں مسلمان، عیسائی اور یہودی تینوں مذاہب کے لوگ موجود تھے،یہاں پر کسی کو بھی کسی سے کوئی غرض نہیں تھی،کون کیا ہے؟پر کوئی اپنے طور طریقے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول تھا، سب لوگ اپنی اپنی عبادات سے فارغ ہوئے تو صبح کی سرخی نے پہاڑوں کی چوٹیوں کو اپنی آغوش میں لپیٹنا شروع کیا، پہاڑوں کی چوٹیاں سرخ نظر آرہی تھیں۔
یہاں پر موجود سب لوگوں کے لئے یہ منظر بہت ہی دلفریب تھا، لوگ اس منظر کی بڑے ہی خوبصورت انداز میں تصویر کشی بھی کررہے تھے لیکن میرے لئے یہ منظر کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا تھا کیونکہ میں پہاڑوں کے دامن مین رہنے کا عادی تھا اور اس طرح کے مناظر سردیوں میں سکردو کے پہاڑوں پر دیکھا کرتا تھا، سکردو میں بھی صبح کے وقت سورج کی پہلی کرن پڑتے ہی، پہاڑ کی چوٹیاں سرخ ہو جاتی ہیں۔
کوہ طور سے وہ تمام پہاڑ نظر آرہے تھے جہاں پر اللہ تعالیٰ نے اپنی تجلی دکھائی اور وہاں پر اب تک درخت کا ایک پتا یا پھر سبز ہ نام کی کوئی شے نظر نہیں آتی۔ ہمارے قافلے نے واپسی کا ارادہ کیا۔ہم لوگ جب نیچے پہنچے تو یہاں پر Burning Bush کو دیکھا،یہ وہی پودا ہے جس میں حضرت موسیٰ ؑ نے آگ جلتی ہوئی دیکھی اور جب وہ اس کے قریب پہنچے تو آواز آئی کہ موسیٰ ؑ! رک جاؤ اپنے جوتے اتار دو۔ میں ابراہیم ؑ کا خدا ہوں، اسحق ؑ کا خدا ہوں،یعقوب ؑ کا خدا ہوں، تم فرعون کی امت کو یہ بتا دوکہ اللہ نے ان کی فریاد سن لی ہے، اس جگہ پر سینٹ کیتھرین نے حضور ؐ کی بعثت سے تین سو سال قبل چرچ بنا دیا ہے، آج بھی لوگوں کو Burning Bush کے قریب جانے پر پابندی ہے۔
۵۲۶ عیسویں میں عیسائیوں نے ایک دفد آپ ؐ کی طرف روانہ کیا اور آپ ؐ سے مطالبہ کیا کہ ہمارے چرچ کو تحفظ چاہیے،آپ ؐ نے جو جواب بھیجا وہ آج تک محفوظ ہے، جس پرحضور ؐ کا مہر مبارک بھی موجود ہے، حضورپاک ؐ نے عیسائیوں کے نام لکھا گیا خط آج بھی اس چرچ میں موجود ہے،جسے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
حضور ؐ نے جب یہ معاہدہ عیسائیوں کے وفد کو دیا تو انہوں نے کہاکہ ہم مسلمانوں کو کیسے یقین دلائیں کہ یہ معاہدہ آپ نے ہی کیا ہے اس پر آپ نے اس معاہدہ پر اپنے پنجہ مبار ک نقش کیا۔ مسلمان دنیا فتح کرنے ہوئے صحرائے سیناپہنچے اور سینٹ کیتھرینپر حملہ کرنا چاہا توعیسائیوں نے مسلمانوں کو یہ معاہدہ دکھایا یہ معاہدہ دیکھتے ہی اس فوج کے کمانڈر نے معاہدے کو چوما اورواپس چلے گئے لیکن بدقسمتی دیکھیں اس معاہدہ کے باوجود آج پاکستان میں عیسائیوں کے چرچ اور ان کے گھر وں کو جلایا گیا۔ اس معاہدے میں آپ ؐ نے یہ لکھا ہے، یہ بنام محمد ؐ ابن عبداللہ کی طرف سے عیسائیت قبول کرنیوالوں کیلئے ہے خواہ وہ دور ہوں یا نزدیک،یہ عہد ہے کہ ہم ان کے ساتھ ہیں، بیشک میں میرے خدمتگار، میرے مددگار اور پیروکار ان کا تحفظ کریں گے کیونکہ عیسائی بھی میرے شہری ہیں اور خدا کی قسم میں اس بات سے پرہیز کروں گا،جو ان کو نا خوش کرے ان پر کوئی جبر نہیں ہو گا، نہ ان کے منصفوں کوان کے عہدوں سے ہٹایا جائے گا اور نہ ان کے راہبوں کو ان کی خانقاہوں سے ان کی عبادت گاہوں کو کوئی تباہ نہیں کرے گا۔ نقصان نہیں پہنچائے گا اور نہ ہی وہاں سے کوئی شے مسلمانوں کی عبادت گاہوں میں لے جائی جائے گی۔ اگر کسی نے وہاں سے کوئی چیز لی تو وہ خدا کا عہد توڑنے اور نبی ؐ کی نافرمانی کا مرتکب ہو گا۔
بے شک وہ میرے اتحادی ہیں اور انہیں ان تمام کے خلاف میری امان حاصل ہے۔ جن سے وہ نفرت کرتے ہیں، کوئی بھی انہیں سفر یاجنگ پر مجبور نہیں کرے گا۔ بلکہ مسلمان ان کے لئے جنگ کریں گے۔ اگر کوئی عیسائی عورت بھی مسلمان سے شادی کرے گی تو ایسا اس کی مرضی کے بغیر ہرگز نہیں ہو گا اور اس عورت کو عبادت کیلئے گرجا گھر جانے سے روکا نہیں جائے گا۔ ان کے گرجا گھر وں کا احترام کیا جائے گا۔ انہیں گرجا گھروں کی مرمت یا اپنے مجادروں کے احترام سے نہیں روکا جائے گا۔ قوم میں سے کوئی بھی فرد، یعنی کوئی بھی مسلمان روز قیامت تک اس معاہدے سے روگردانی نہیں کرے گا۔کیا اس معاہدے کے بعد جن لوگوں نے جڑانوالہ شہر میں عیسائی برادری کے ساتھ کیا۔ کیا یہ لوگ مسلمان کہنے کے قابل ہیں، اس میں غلطی ہمارے علما کی بھی ہے کیا کبھی کسی عالم دین نے اپنے جمعے کے خطبے میں اس معاہدے کے بارے میں ذکر کیا ہے۔ آج ہمیں سوشل میڈیا کے ذریعے اس معاہدے کو گھر گھر پہنچانا چاہیے تاکہ لوگوں کو پتہ چلے ہمارے آقائے نام دار حضرت محمدﷺ نے عیسائی برادری کے ساتھ معاہدہ بھی کیا ہوا ہے اور ان کی حفاظت مسلمانوں پر فرض ہے، جو مسلمان اپنے آقا کے معاہدے کا پاس نہ رکھے۔ کیا ہم آج بھی مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں؟
بحیثیت مسلمان ہم ہر طرح کے گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں مگر اب تو حضرت محمدﷺ کے معاہدے کا بھی پاس نہ رکھا۔ ایسے موقع پر اس قوم کے لئے فقط انا للہ و انا الیہ رجعون ہی پڑھ سکتے ہیں۔

وزیر نصرت علی کناپا

wazir nusrat

 

 

Comments are closed.