بشکیک واقعہ پر کرغز حکومت معافی مانگے

تحریر: اعجازعلی ساغراسلام آباد

Ijaz Ali saghar

20 دسمبر 1991 کو پاکستان ترکی کے بعد وہ دوسرا ملک تھا جس نے کرغزستان کو تسلیم کیا خانہ بدوشوں جیسی زندگی گزارنے والی کرغزستان کی عوام جو چاروں طرف سے پہاڑوں سے ڈھکی ھوئی ہے جہاں آدھی سے زیادہ عوام غربت کی لیکر سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہے اس ملک کے دارالحکومت بشکیک میں پاکستان,بھارت,مصر اور بنگلہ دیش سمیت غیر ملکی طلبہ پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں وہاں طالب علموں کی زندگی اجیرن ھوچکی ہے انہیں سرعام مارا پیٹا جارہا ہے ان کے ہاسٹلز میں گھس کر انہیں لہولہان کیا جارہا ہے اس واقعے کی آخر وجوہات کیا ہیں؟ اس حوالے سے پاکستانی اور دوسرے غیر ملکی طلبہ کی مختلف وڈیوز سوشل میڈیا پر آچکی ہیں اور یہ معاملہ اتنا وائرل ھوا ہے کہ سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے۔
کرغزستان میں پاکستان و غیر ملکی طلباء پر تشدد، اصل معاملہ ہے کیا؟
پاکستانی اور دوسرے غیر ملکی طلباء کے مطابق یہ واقعہ مقامی طالب علموں کی جانب سے مصری لڑکیوں کو چھیڑنے پر پیش آیا جسکے رد عمل میں مصری طالب علموں نے مقامی طلبہ کو منع کیا جس کے بعد یہ پرتشدد واقعات نے جنم لیا۔
کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں بلوائیوں کی جانب سے پاکستانی اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے طالبعلموں پر پرتشدد حملوں میں اب تک 50 سے زائد طالب علموں کے زخمی ہونے اور درجن بھر شر پسندوں کے گرفتار ہونے کی اطلاعات ہیں,مقامی میڈیا کے مطابق بشکیک میں 13 مئی کو مصری اور کرغز طالبعلموں کے درمیان ہونے والی لڑائی کے بعد اس وقت خراب ہوئی جب معاملے کی وڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں,سوشل میڈیا پر وائرل وڈیوز میں مشتعل کرغز ہجوم کو بشکیک میں مختلف ہاسٹلز اور اپارٹمنٹس میں رہائش پزیر پاکستانی اور دیگر ممالک کے طالبعلموں پر تشدد کرتے اور ان کی املاک کو نقصان پہنچاتے دیکھا گیا۔
مشتعل ہجوم کی جانب سے پاکستانی، بھارتی اور بنگلا دیشی طالبعلموں کی اکثریت رکھنے والی یونیورسٹی کے ہاسٹلز اور اپارٹمنٹس پر حملے کیے گئے جس کے بعد پاکستانی اور بھارتی سفارتخانوں کی جانب سے اپنے شہریوں کو صورتحال کنٹرول میں آنے تک باہر نہ نکلنے کی ہدایت کی گئی لیکن جب اس حوالے سے طالب علموں سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ جب حالات زیادہ خراب ھوئے تو ھم نے بشکیک میں موجود پاکستانی ایمبیسی سے رابطہ کیا مگر انہوں نے اپنے نمبرز بند کردیے,طالب علموں کی جانب سے الزام عائد کیا گیا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں پاکستانی ایمبیسی نے ھمارا ساتھ نہیں دیا بلکہ جب معاملہ سوشل میڈیا پر وائرل ھوا اور مختلف پاکستانی ٹی وی چینلز نے براہ راست طالب علموں سے رابطہ کرکے معاملے کو ہائی لائٹ کیا تو پھر پاکستانی ایمبیسی کو ہوش آیا مگر پاکستانی ایمبیسڈر مسلسل جھوٹ بولتے رہے اور عوام کو سوشل میڈیا پر وائرل ھونیوالی وڈیو پر یقین نہ کرنے کا کہتے رہے اس کے بعد ایمبیسی کی جانب سے مختلف نمبرز جاری کیے گئے اور طلبہ کو کہا گیا کہ وہ اپنے ہاسٹلز تک ہی محدود رہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کرغزستان میں پاکستانی طلباء پر تشدد کے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی سفیر حسن علی ضیغم سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور انہیں پاکستانی طالبعلموں اور دیگر شہریوں کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنانے کی ہدایت کی,مگر جب بشکیک صورتحال کی نزاکت سے وزیراعظم کو آگاہ کیا گیا تو انہوں نے ڈپٹی وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار اور وزیر امور کشمیر انجینئیر امیر مقام کو بشکیک بھیجنے کا فیصلہ کیا اور وہاں خود حالات و واقعات کو دیکھنے اور طالب علموں کی بخیریت واپسی یقینی بنانے کیلئے کرغز حکومت سے ملاقاتیں کرنے کی تاکید کی,وزیرخارجہ اسحاق ڈار کی ہدایت پر پاکستانی طلباء کی حفاظت کیلئے پاکستانی سفیر حسن علی ضیغم نے کرغزستان کے نائب وزیرخارجہ امنگا زیف الماز سے ملاقات کرکے پاکستانی طالب علموں کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا جس کے بعد بشکیک سے پاکستانی طالب علموں کو لیے پہلی پرواز ہفتے کی رات لاھور ائیر پورٹ پر اتری۔
بشکیک میں صرف پاکستانی طلبہ پر ہی تشدد نہیں ھوا بلکہ انڈین,مصری اور بنگالی طلبہ پر بھی تشدد کیا گیا ہے۔
کرغزستان میں پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے جاری بیان میں بشکیک میں دیگر ممالک کے طالبعلموں پر حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا گیا کہ دوسرے ممالک کے طالب علموں کو بھی نہیں چھوڑا گیا کرغز حکومت کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ حملوں میں کسی پاکستانی کی ہلاکت نہیں ہوئی دوسری جانب کرغزستان حکومت کی جانب سے معاملے کی جاری بیان میں بتایا گیا کہ حملوں میں کوئی ہلاکت یا زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ملی، بشکیک میں صورتحال مکمل کنٹرول میں ہے اور تمام ریلیوں کو منشتر کر دیا گیا ہے، سڑکیں ہر قسم کی ٹریفک کے لیے کھلی ہیں جبکہ حالات اسکے برعکس ہیں پولیس اور فوج کے بلانے کے باوجود بلوائی طالب علموں پر تشدد کررہے ہیں اور مقامی پولیس اور فوج خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے,ادھر کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں زیر تعلیم پاکستانی طالبعملوں کا کہنا ہے کہ اس وقت صورتحال انتہائی کشیدہ ہے اور مشتعل کرغز ہجوم پاکستانی طالبعلوں کے ہاسٹلز اور اپارٹمنٹس کو سوشل میڈیا پر ہائی لائٹ کرکے دیگر افراد کو بھی اشتعال دلا رہا ہے پاکستانی طالبعلموں نے مزید بتایا کہ کرغز طلباء نے مصری طالبعلموں کو پاکستانی سمجھا اور پھر پاکستانی طالبعملوں کی املاک کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا اور مار پیٹ کی وڈیوز مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر براہ راست نشر بھی کی گئیں،پاکستانی طالبعلموں نے کرغز حکومت اور پاکستانی سفارتخانے سے مطالبہ کیا ہے کہ غیر ملکی طالبعلوں کی جان و مال کی حفاظت کی جائے، حملوں کے باعث بڑی تعداد میں لڑکیاں اور لڑکے خوف کا شکار ہیں، فوری طور پر ان کی مدد کی جائے۔

کرغز بلوائیوں کے حملوں میں زخمی ہونے والے پاکستانی اور دیگر غیر ملکی طالبعلوں کی صحیح تعداد کے حوالے سے کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے تاہم کرغز میڈیا کی جانب سے 29 افراد کے زخمی ہونے کی رٹ لگائی جارہی ہے جبکہ سوشل میڈیا پر سینکڑوں پاکستانی و غیر ملکی طالب علموں کے زخمی ہونے کی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں۔
کرغزستان میں پاکستان کے علاوہ بھارت، بنگلا دیش اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے طالبعلموں کی بڑی تعداد مختلف یونیورسٹیز میں زیر تعلیم ہے اور کرغز حکومت غیر ملکی طالب علموں سے فیس کی مد میں خطیر رقم حاصل کرتی ہے اس کو چاہیئے تھا کہ وہ ان غیر ملکی طلباء کی سکیورٹی کو یقینی بناتی کیونکہ یہ غیر ملکی طلبہ اس خانہ بدوش قوم کی روزی روٹی کا اہم ذریعہ ہیں دوسرا اس واقعے کے بعد کرغزستان میں سیاحت کو بہت نقصان پہنچے گا جو اس حکومت کی آمدنی کا دوسرا بڑا ذریعہ ہے۔
اس حوالے سے وزارت خارجہ اور اسپیشلی بشکیک میں موجود پاکستانی ایمبیسی اور ایمبیسڈر کی نااہلی کھل کر سامنے آئی ہے اگر ایمبیسی بروقت مداخلت کرلیتی تو یہ نوبت نہ آتی وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہبازشریف اور وزیرخارجہ اسحاق ڈار کو چاہیے کہ کرغزستان میں تعینات سفیر حسن علی ضیغم کو نااہلی پر فی الفور برطرف کریں اور وزارت خارجہ کی کارکردگی کا ازسرنو جائزہ لیں۔
میں ایک بار پھر کرغز حکومت کے اس رویے کی مذمت کرتے ھوئے اسے مشورہ دوں گا کہ وہ اس واقعے پر ان تمام ممالک کے طلبہ سے معافی مانگے اور تمام شر انگیزوں کو سخت سے سخت سزائیں دی جائیں کیونکہ غیر ملکی طلبہ کے ساتھ مقامی افراد اور طلبہ نے پہلی دفعہ تشدد نہیں کیا بلکہ چار سال پہلے بھی اسطرح کے واقعات رونما ھوچکے ہیں مگر موجودہ واقعات نے کرغز حکومت کا سر جھکا کے رکھ دیا ہے یہ خانہ بدوش قوم شاید ہی اب سر اٹھا سکے۔

Comments are closed.