حیا اور وفا

Modesty and loyalty

“حیا اور وفا “

آخر کب تک؟ قسط نمبر:2

✿کالم نگار: افزینش رزاق کنیال✿⁠

اس قول پہ کوئی ہرگز اعتراض نہیں کر سکتا کہ عورت کی “حیا اور وفا” اُسکا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔

مشہور مقولہ ہے کہ:

“عورت اگر با وفا نہ ہو تو وہ عورت کہلانےکی اہل نہیں.”

مگر یہاں میں کہتی ہوں کہ:

“جس مرد میں وفا نہیں وہ بھی مرد کہلانے کا اہل نہیں۔”

عورت کے پاس سب سے بڑا پردہ “حیادار آنکھیں” ہیں۔ حقیقتاً ایک خوش صفت عورت کی آنکھیں ہی اُس کی حیا کی ضامن ہوتی ہیں۔ بے شرم اور بے باک عورت اِس نظریے سے کوسوں دُور ہے ۔

جب ایک عورت کسی غیر شخص کو دیکھ کر اپنی پلکیں جُھکا لیتی ہے تو اُسکی نظریں حجاب اور اُس کی آنکھیں پردہ کر لیتی ہیں، اور جب اسکی طرف کسی غیر مرد کی نگاہ اُٹھے تو وہ اس کی جانب سے منہ پھیر لیتی ہے اُسکی غیرت یہ گوارا ہی نہیں کرتی کہ وہ اُسے دیکھے۔ اس عورت کا رخ موڑ لینا دراصل اُس مرد کے منہ پہ طمانچہ مارنے کے مترادف ہے۔

اِس کے باوجود بھی جو دیکھتا ہے وہ

بقول خلیل الرحمٰن قمر:

“بھیڑیا” ہے۔۔!!

حدیثِ مبارکہ میں ارشاد ہے کہ

”تم حیا کرو اور اگر حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو“

لیکن یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اِس میں حیا کو مرد و عورت میں سے کسی ایک کے ساتھ منسوب نہیں کیا گیا۔ بلکہ یہ ہر ایک پہ برابر لاگو ہے۔ یعنی حیادار ہونا کسی خاص جنس پر فرض نہیں۔

پھر بالکل ایسا ہی معاملہ غیرت کے ساتھ بھی ہے۔ با عزت اور غیرت مندوں سی زندگی گزارنا ہر رُوحِ رَواں کا بنیادی حق ہے۔ مرد و عورت دونوں کو اپنی حُدُود کا خیال رکھتے ہوئے زندگی بسر کرنی چاہیئے اور اُنکی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ اِن طے شدہ حُدُود سے تجاوز نہ کریں جن کو ہم روایات یا اخلاقیات کہتے ہیں۔

حیا اور وفا محض عورت کی میراث نہیں۔ مرد پر بھی با کردار اور باوفا ہونا لازم ہے۔ یہ اُس کی مردانگی کے زُمْرے میں آتا ہے۔ اور اکثر ہوتے بھی ہیں۔ وہ اپنی تمام عمر ایک عورت سے وفا نبھاتے بسر کر دیتے ہیں۔ اُنکے نزدیک وہ ایک عورت ہی اُنکی کل کائنات ہوتی ہے۔

لیکن کچھ مرد جگہ جگہ منہ مارتے پھرتے ہیں۔

اُن کی حیا اور شرم مر چکی ہوتی ہے،

وہ زندگی گزارنے کے اِن اخلاقی ضوابط کو فراموش کر دیتےہیں کہ کسی بھی رشتے کی بنیاد محبت، وفا، احساس اور یقین ہر مبنی ہوتی ہے۔ اگر یہ رویے رشتے سے جدا کر دیے جائیں تو، رشتے ختم نہ بھی ہوں تو کھوکھلے ضرور ہو جاتے ہیں۔ اُن کی عدم موجودگی میں رشتے نبھائے نہیں بس چلائے جاتے ہیں۔

بے شمار ایسی مثالیں ہیں جہاں میاں بیوی ایک دوسرے کی غیر موجودگی میں ایک دوسرے کی عزت و حرمت پامال کرتے ہیں۔

استغفرُللہ خدا کی پناہ۔۔!!

کسی بھی فرد کا (خواہ مرد ہو یا عورت) کسی کے نکاح میں ہوتے ہوئے نامحرم کے ساتھ تعلقات قائم کرنا یقینًا انتہائی غلط بات ہے، یہ بڑا گناہ کا کام ہے, اکثر اس وجہ سے خاندان کے خاندان تباہ ہو جاتے ہیں اور بچوں کی زندگی بھی خراب ہو جاتی ہے۔ یقینًا یہ بے حیائی کا کام اور شیطانی فعل ہیں، لیکن میرا نقطہ یہ ہے کہ ایسے سنگین معاملات میں ہمیشہ محض عورت کو ہی کیوں قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے؟

آخر کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا؟

عورت ایک قوم کو بنانے میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے، وہ ایک نسل کو پروان چڑھاتی ہے۔ عورت ماں ہو، بہن ہو ، بیٹی یا بیوی ہر روپ میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔

مگر کیوں ہمارا معاشرہ عورت کے ساتھ منافقت کا رویہ اپناتا ہے؟؟

اور کیوں معاشرے کی تمام تر برائیوں کی جڑ عورت کو ہی تصور کیا جاتا ہے؟

اور آخر کب تک ہر گناہ کا قصوروار عورت کو ہی ٹھہرایا جائے گا؟

اسلام نے تو عورت کو وہ اعلیٰ مقام دیا ہے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ لیکن عورت کے لئے ہمارے معاشرے کے قوانین اسلام کے بالکل برعکس بنائے گئے ہیں۔ اُن قوانین کی رو سے جب بھی گناہوں کی یا آخرت کے عذاب کی بات کی جاتی ہے تو عورت کو ہی سب سے زیادہ سزا کا حقدار بتایا جاتا ہے۔ یہ زمینی خدا ہر ایک گناہ کو عورت سے منسوب کردیتے ہیں۔ گناہ ہر کوئی کرتا ہے لیکن ہمیشہ الزام تراشی اور تنقید کا نشانہ عورت کو بنایا جاتا ہے۔

آخر کب تک حیا کی توقع محض عورت سے ہی کی جاتی رہے گی، آخر مرد کا اس میں کوئی کردار شامل کیوں نہیں ہے؟؟

جب لڑکی تھوڑی سمجھدار ہونے لگتی ہے تو اسے ہمیشہ ایک ہی بات سکھائی جاتی ہے کہ بیٹا کبھی بھی گھر کی عزت پر آنچ نہ آنے دینا۔ اپنی اور ہماری آبرو کی حفاظت کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بر عکس، بیٹے کو کبھی یہ نہیں سکھایا جاتا کہ بیٹا تم کسی کی عزت پر بری نگاہ نہ ڈالنا، یا کوئی ایسا قدم نہ اٹھانا جس پر ہمیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔ اُسے کبھی اپنی اور دوسروں کی عزت کی حفاظت کا درس نہیں دیا جاتا۔ یہ تمام ہدایات اور حکمتیں بس عورتوں تک محدود رہتی ہیں۔

لڑکا باہر کسی کی بیٹی کو چھیڑے بدتمیزی کرے یا اُس سے کسی قسم کی بدسلوکی کرے، کچھ بھی کر آئے تو اُسے ڈانٹنا ڈپٹنا تو دور کی بات ہے، اُس چیز سے روکا بھی نہیں جاتا، ماں باپ کی اس کھلی چھوٹ کے باعث آج لڑکیوں کا باہر نکلنا تک محال ہے۔ کیونکہ مرد حضرات کو تو کسی کا ڈر یا خوف ہی نہیں، مزید یہ کہ اگر کوئی شخص اُنکی شکایت لے کر گھر پہنچ جائے تب بھی اُس لڑکے کے اہل خانہ لڑکی کے کردار پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ کہ وہ تو ایسی ہے ویسی ہے، اور روک تھام بھی اُسی مظلوم پر لگائی جاتی ہے۔ اکثر باہر نکلنا تک بند کر دیتے ہیں۔ پابندیاں لگائی جاتی ہیں، اور وہ بے حیا ہر طرف دندناتا پھرتا ہے۔ نہ ماتھے پہ شکن ناں کوئی افسوس۔۔ بس اپنی دھن میں مگن۔۔!!

پھر اگر بیٹی سے کچھ غلطی سرزد ہو جائے، نا سمجھی میں وہ کوئی کوتاہی کر بیٹھے تو اسے مارا پیٹا جاتا ہے، گھر میں قید کر لینا اور یہاں تک کہ اُس کی پڑھائی وغیرہ بھی روک لی جاتی ہے، اکثر اوقات تو غیرت کے نام پر قتل تک کر دیا جاتا ہے۔ اس پر نہ تو کوئی نادم ہوتا ہے، اور نہ ہی کسی کو رحم آتا ہے۔

کوئی غلطی ہو جائے تو بےشک سزا دینا ماں باپ کا اختیار ہے، مگر اتنی زیادتی۔۔۔!!

انہیں چاہیے کہ بیٹی پر بھی اتنا بھروسہ کریں جتنا بیٹے پر کرتے ہیں۔ اور دونوں کو ایک جیسا ہی سمجھنا چاہیے کہ گھر کی عزت پر کبھی بھی آنچ نہ آنے دینا اور نہ کبھی کسی کہ گھر کی عزت کو داغ دار کرنا۔ پھر کوئی اگر ایسا کرے تو برابری کی سزا دینا۔

بچے اگر کالج یونیورسٹی میں پڑھتے ہوں تو یہاں بھی لڑکیوں کو معاشرے کے ہزار الزامات اور باتیں سہنی پڑتی ہیں، ہر کوئی اپنی چھوٹی سوچ کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور بولتا ہے۔ لڑکوں کو یہاں بھی کھلی آزادی دی جاتی ہے، جو مرضی کرتے پھریں کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔

بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ عورت کو تو تعلیم کی آزادی ہے پھر ہم تعلیم کا رونا کیوں روتے ہیں۔ تو جناب کچھ علاقوں میں عورت کو تعلیم کی اجازت بہت مشکل سے ملتی ہے اگر مل بھی جائے تو ایسی باتیں ہر وقت اس کے کانوں میں ڈالی جاتی ہیں کہ

”پڑھ کہ کیا کرنا ہے ویسے بھی تو پرائے گھر جانا ہے۔“

” پڑھ لکھ کر کیا کر لو گی آخر پکانی تو روٹیاں ہی ہیں۔”

“اتنا زیادہ پڑھ لکھ گئی تو ہاتھوں سے نکل جائے گی.”

“لڑکیاں زیادہ پڑھ جائیں تو اچھے رشتے نہیں ملتے۔”

“کافی پڑھ لیا باقی تعلیم شادی کے بعد پوری کرنا.”

اور پھر اگر کسی وجہ سے ایک عورت شادی کرنے کے بعد اپنا رشتہ نہ بچا سکے اور طلاق لے کر گھر واپس آجائے، بھلے ہی قصور اس کا ہو یا نہ ہو سارا الزام اسے ہی سہنا پڑتا ہے۔ اس کے کردار پہ انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں، معاشرہ اس کے ساتھ ایسا رویہ اپناتا ہے کہ عورت ایک بار یہ ضرور سوچتی ہوگی۔۔

کہ کیا واقعی میں ایک انسان ہی ہوں؟

کیونکہ جس طرح ہمارا معاشرہ بیوہ اور ایک طلاق یافتہ عورت کے ساتھ کرتا ہے شاید ہی کہیں اور ایسا ہو۔ دوسری طرف مرد حضرات آج بیوی کا انتقال ہوا، کل سر پہ سہرا باندھ لیا۔

اور پھر لوگ کہتے ہیں کہ عور تیں آزاد ہیں،

ارے کہاں؟ اُنہیں تو زندگی کے ہر موڑ پر ایک نئے چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کہ جب وہ جاب کرنے جاتی ہیں، کہیں پڑھنے جاتی ہیں، باہر اکیلی گھومنے جاتی ہیں ہر مقام، ہر جگہ عزت کا خطرہ بے چین رکھتا ہے۔ وہ پر سکون ہو کر کہیں جا بھی نہیں سکتی، اور مجبوراً کریں یا شوق کے تحت، ہر کوئی باتیں بناتا پھرتا ہے کہ انکو شوق ہے آوارہ گردی کا، گھر میں سکون سے بیٹھ نہیں سکتی وغیرہ وغیرہ۔۔!!

پھر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عورتیں پردہ کریں جناب عرض ہے کہ یہ معاشرہ پردہ کرنے والی عورت کو بھی نہیں چھوڑتا اسے بھی اپنی ہوس زدہ نگاہوں کا شکار بناتا ہے۔ میں خود پردہ کرتی ہوں لیکن پھر بھی اگر کبھی نگاہ اٹھا کر دیکھا ہے تو ہر غلیظ نظر ہم پر ہی جمی ہوتی ہے، جیسے کہ کوئی انوکھی مخلوق نظر آگئی ہو۔۔!! اور پھر پردے میں بھی ہزار نقص نکالے جاتے ہیں کہ برقعہ ٹھیک نہیں پہنا، نقاب ٹھیک نہیں تھا، برقعہ تنگ ہے، سکارف چھوٹا ہے، کوئی ان مردوں کو یہ بھی کہہ دو کہ اپنی نظروں کو جھکا لیں۔ اسلام میں بھی تو مرد کا اپنی نظریں جھکانے کا حکم دیا گیا ہے۔ جو پردہ اور حیا کا درس عورت کو دیا گیا، وہیں مردوں کو بھی تنبیہ کی گئی، مگر انہیں ہمارا یاد رہتا ہے اپنا بھول بیٹھتے ہیں۔

عورتوں کے پردے کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے!

اے نبی ! تم اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادریں اپنے (منہ کے) اوپر جھکا لیا کریں، اس طریقے میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی، تو ان کو ستایا نہیں جائے گا اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔

( سورہ الاحزاب )آیت نمبر ﴿۵۹﴾

اور مومن مردوں کے لئے ارشاد فرمایا!

مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ اُن کے لیے بہت ستھرا ہے بےشک اللہ کو اُن کے کاموں کی خبر ہے

( سورہ النور )آیت نمبر ( 30 )

جب اللّٰہ نے دونوں کو حیا اور پردے کا حکم دیا ہے، پھر کیوں صرف عورتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے؟ اور مرد ان احکامات پر عمل کیوں نہیں کرتے؟؟

دونوں کو چاہیے کہ اپنی اپنی جگہ خود کو جتنا ہو سکے بہتر کریں۔ مرد اپنی بہنوں بیٹیوں کی بے شک حفاظت نہ کریں وہ بس دوسروں کی عورتوں پر سے غلط نگاہیں ہٹا لیں تو کسی کو کسی سے حفاظت کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ جب مرد اپنی نگاہوں کی حفاظت کر لیں گے تو کسی کی آبرو یا عزت کو محافظ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ صرف تبھی یہ معاشرہ پروان چڑھ سکتا ہے اور خواتین کو بھی سکھ کا سانس نصیب ہو سکتا ہے۔ بس مرد حضرات دوسروں کی عزت کو اپنی عزت سمجھیں تو بہت بڑی سطح پر بدلاؤ آسکتا ہے۔

ایک شعر کہہ کر میں رخصت لینا چاہتی ہوں کہ

حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی

خدا کرے کہ جوانی تیری رہے بے داغ

از قلم: علامہ محمد اقبال

اللّٰہ تمام مومنین کو ہدایت دے اور سب بیٹیوں کی عزتوں کی حفاظت فرمائے۔ اور دوسروں کی عزت پر بری نگاہ ڈالنے والوں کو المناک سزا دے آمین یا رب العالمین

Comments are closed.