ساجو کی نقل

Money

ساجو(فرضی نام) اکثر معین صاحب سے تھوڑی دھمکی آمیزانہ درخواست کرتا رہتا کہ مجھے اپنے ساتھ کام پہ رکھ لیں لیکن معین صاحب ہر بار صاف انکار کردیتے کہ میرا مزاج اور میرا کام تمہارے (ساجو) انداز کا نہیں اور ویسے بھی میری (معین صاحب) اور آپ (ساجو) کی عمر میں کافی فرق ہے (معین صاحب ایک پڑھے لکھے شخص تھے اور ساجو سے کم از کم دس سال چھوٹے تھے) لہذا بہت سارے ایسے کام ہونگے جو آپ کو کہنے میں مجھے بھی جھجک محسوس ہوگی لیکن اس کے باوجود ساجو ضد کرتا کہ بس میرے کام کے لئے کچھ کریں۔
ساجو کی ضد سے مجبور ہوکر معین صاحب نے وعدہ کرلیا کہ ٹھیک ہے مجھے کچھ وقت دو تو میں تمہارے کام کے سلسلے میں کچھ کرتا ہوں۔ دو تین مہینے گزرے تو معین صاحب بینک کسی کام سے گئے جہاں اُن کا ایک دیرینہ دوست بھی کام کرتا تھا۔ بینک والے دوست نے معین صاحب سے کہا کہ ہمیں اپنے بینک کیلئے ایک ایسا بندہ درکار ہے جو قسطوں پر دی گئی گاڑیوں کی قسطیں Collectکیا کرے اور قسطیں نہ ملنے کی صورت میں گاڑی Recoverکروا دیا کرے۔
یہ بات سنتے ہی معین صاحب کے دماغ میں ساجو آگیا اور دوست سے بولا کہ اس کام کے لئے میرے پاس ایک معقول بندہ موجود ہے اگر اجازت دیں تو اسے ابھی یہاں بلوا دوں۔ بینک والے دوست نے بھی فوراً کہا کہ ضرور بلادیں۔ ساجو کو کال کرکے بینک بلایاگیا اور اُسے ساری کہانی کام سے متعلق سمجھائی گئی جسے سن کر ساجو خوش ہوگیا اور بولا کہ یہی کام ہے جو صرف میں ہی کرسکتا ہوں۔ بات بن گئی Contractہوگیا اور ساجو نے بینک کے لیے کام شروع کردیا۔
اب روزانہ کی بنیاد پر ساجو اچھی خاصی اقساط کی Recoveryکرتا اور جن لوگوں کی زیادہ اقساط واجب الادا ہوتیں اُن سے گاڑی واپس لاکر بینک کے حوالے کردیتا۔ اس کام سے ساجو کے حلال طریقے سے اچھے پیسے اکٹھے ہوجاتے۔چار پانچ ماہ کے بعد ساجو کے رنگ بالکل ہی بدلنے لگے۔ روزانہ نیاسوٹ، اچھے ریسٹورنٹ میں کھانے کی محفلیں اور گاڑی بھی خرید لی۔
اس دوران بینک والوں کو بھی محسوس ہوا کہ ساجو کی کارکردگی پہلے جیسی نہیں رہی۔ ناتو قسطیں وقت پر موصول ہورہی ہیں اور نا ہی گاڑیاں Recoverہورہی ہیں۔ پوچھنے پر ساجو کوئی نہ کوئی لارا لگا کر کئی کئی دن بینک چکر ہی نہ لگاتا۔ بینک آفیسر پر جب بینک کی اعلیٰ اتھارٹی سے سرزنش بڑھنے لگی تو بینک آفیسر نے ساجو کی انکوائری پر ایک بندہ تعینات کردیا کہ ساجو کے کام میں کمی کی وجوہات جان سکیں۔
اب جو بھی کام ساجو کو بھیجا جاتا اُسی کام کے پیچھے دو سے تین دن بعد دوسرا بندہ بھی بھیجاجاتا۔ اس طرح سے بات کھلتی گئی اور معلوم ہوا کہ موصوف ساجو صاحب بینک کے Clientsباہر ہی باہر معاملہ تہہ کرلیتے کہ بینک گاڑی پکڑ کے لانے کے اگر پچیس ہزار دیتا تھا تو Client(جس کے ذمہ دو یا تین لاکھ Dueہوچکا ہوتا) سے ساجو پچاس ہزار سے ایک لاکھ کی Dealکرلیتا اور اسے کھلی چھٹی دے دیتا کہ فکر نہ کرواس سے زیادہ بھی Dueہوں تو بھی میں ہی آؤں گا پکڑنے تو آپ(Client)مجھے پھر کچھ پیسے دے کر گاڑی چلاتے رہنا اچھی خاصی حلالی نوکری کو حرام میں بدل دیا اورClientsنے بھی اپنے ساتھ سود کو ایسا جوڑا کہ رشوت بھی دی جاتی اور Principal Amountمیں بھی کوئی کمی نہ آتی۔
بات کھل جانے کے بعد ساجو کو بینک والوں نے بلایا اور اُس سےContractختم کردیا اور ساتھ ساتھ یہ بھی بولا کہ بینک آپ کے خلاف کاروائی کرے گا۔ یہ سن کر ساجو بینک سے قہقہے لگاتا ہوا اٹھا اور الٹا بینک والوں کو دھمکا آیا کہ آپ سے میرا معاہدہ ہی غلط تھا کیونکہ بینک نے کوئی Officialمعاہدہ نہیں کیا تھا بلکہ ایک سادہ کاغذ پر میرے ساتھ شرائط لکھی گئیں جس کاغذ کی کوئی حیثیت نہیں۔
ات سچ تھی کیونکہ بینک آفیسر نے ایسا ہی کررکھا تھا اور ساجو کو بینک کا Official Contractنہیں دیا تھا بلکہ اپنی ذاتی حیثیت میں ساجو سے کام لے رہا تھا اور بینک میں اپنی Good willبنارہا تھا نتیجہ خرابی کی صورت میں سامنے آیا کیونکہ دونوں فریق کی نیت میں بے ایمانی تھی اب ساجو آزاد پھرتا ہے۔
اگر مذکورہ بالا سچی کہانی کو ہم Pakistan میں بدلتی حکومتوں کے احتساب کے عمل کے تناظر میں پڑھیں تو کچھ بھی مختلف دکھائی نہیں دیتا۔ ہر ایک نے دوسرے (حزب اختلاف) کا احتساب کرنے کا ڈھونگ رچایا، ایک دوسرے کے گریبان چاک کئے، چوکوں میں لٹکانے کے وعدے کئے لیکن خاتمہ سب کا ”چور مچائے شور“پہ ہی ہوا۔
نام لینا شائد مناسب نہ ہو کیونکہ تاثر غلط آئے گا کہ کسی ایک نے ہی ڈرامہ رچایا لیکن یہ ضرور لکھا جاسکتا ہے کہ جس جماعت نے سب سے زیادہ احتساب کرنے کا ڈھنڈورا پیٹا، اس جماعت کا مقرر کردہ نمائندہ ہی ساجو کی خوبخو نقل نکلا۔ جون ایلیا سے معذرت کے ساتھ۔

Comments are closed.