ہماری کوئی دوسری برانچ نہیں ہے

باعث Engineer Iftikhar Chaudhary

آج کل مارکیٹ میں مختلف پارٹیاں آ رہی ہیں ان میں تحریک انصاف پالیمیٹرین بھی ہے جو سابق وزیر دفاع اور وزیر اعلی پرویز خٹک نے رجسٹر کرائی ہے میرا خیال ہے وہ اس کا نشان بھی بلے کے نشان کی طرح لیں گیں الیکشن کمیشن ہر وہ کام کرے گا جو وہ پہلے بھی کر چکا ہے مثلا وہ کھلاڑی کا نشان بھی دے سکتا ہے اور بیث کے مقابلے میں پنسل کا نشان بھی دے سکتا ہے ۔آج کل عمران خان زیر عتاب ہیں ان ہر دو سو کے قریب پرچے بھی ہو چکے ہیں جس کے لیے لاہور اسلام آباد آتے جاتے رہتے ہیں ۔شاہد خاقان عباسی نے ان پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ چھتری رکھتے ہیں ۔جو ایک غیر مناسب مذاق تھا خان پر آپ کو پتہ ہے وزیر آباد میں قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے یہ ان کے بازی گارڈ 36 کلو میٹل پارٹس اٹھائے عمران خان کی حفاظت کرتے ہیں ۔شاہد خاقان عباسی کے اس جملے کو انٹر نیٹ پر لوگوں نے برا منایا ہے اور انہیں امریکہ وزٹ پر تضحیک کا نشانہ بنایا ہے

خیر یہ تو بات دو سابق وزراء اعظم کی ہورہی تھی یہاں پرویز خٹک کی نئی پارٹی بنانے کی بات ہو رہی ہے جس میں دو ایک معروف ناموں کے علاوہ کوئی نام نہیں ۔

یہ وہ لوگ ہیں جو ٹھیکیدار گروپ بھی کہلاتے ہیں  جنہوں نے گزشتہ دور حکومت میں بڑے بڑے ٹھیکے لے رکھے تھے سرمایہ دار کو سب سی بڑی مار اس کے بزنس کی پڑتی ہے ۔ا ھی کچھ اور بھی لوگ جائیں گے

پی ٹی آئی کاساتھ دینے والوں کو ان اوچھے ہتھکنڈوں کا نشانہ بنا گیا جس کس نتیجہ گجرانوالہ فیصل آباد سیالکوٹ میں پی ٹی آئی لیڈران کو اپنے بزنس بچانے کے لیے سیاست چھوڑنے کا اعلان کرنا پڑا

 خواتین کو اپنی اولاد کے لالے پڑھ گئے اور یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ چادر اور چار دیواری کا تقدس بھی پامال ہوا۔

جناب پرویز خٹک نے پارٹی چھوڑی اس کی جو وجہ بھی ہو انہیں علی محمد خان شہر یار آفریدی مراد سعید کو سامنے رکھتے ہوئے حالات کا سامنا کرنا چاہئے تھا وہ بے شک پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرین نام رکھیں یا جنت پارٹی  یہ دکان نہیں چلے گی 

عمران خان کے بارے میں ماضی کے بھگوڑے  سیکرٹری انفارمیشن نے کہا تھا  کہ یہ پارٹی کسی کے باپ کی  جاگیرنہیں ہے جس کے جواب میں میں نے کہا تھا واقعی کسی کے باپ کی نہیں ہے لیکن پی ٹی آئی کا باپ ایک ہی ہے اور وہ ہے عمران خان

لہذہ پرویز خٹک اور محمود خان  صالح سواتی اینڈ کمپنی اس ٹریڈ مارک کو بہتر ہے نہ ہی استعمال کریں 

پرویز خٹک کے دیگر ثھیکے دار ساتھی کب ان کو جوائن کر رہے ہیں یہ بھی دیکھتے ہیں ہزارہ میں پرویز خٹک نے سردار شیر بہادر جیسے بندے گنوا کر بڑا نقصان کیا ہے مرحوم نعیم الحق اور میری کوششیں ناکام ہوئیں اور ہم نے جوہر گنوا دئے 

پرویز خٹک پیسہ بری بلا ہے آپ نے پیسے کی خاطر اپنا بہت بڑا نقصان کر لیا آپ نے الزام یہ لگایا کہ ۔لک میں فتنہ اور فساد پھیل رہا تھا اور اب ہم امن کے لیے کوشاں ہیں پی ٹی آئی نے جو اچھے کام کئے اس کا زمہ خود کے رہے ہیں اور برے کام عمران خان کے ذمے ۔یعنی میٹھا میٹھا ہڑپ اور کڑوا کڑوا تھو۔

آپ کو جرگہ بنا کے بھیجا تھا آپ خود ہی بک گئے اچھے دوستوں کا کام ہوتا ہے کہ وہ مشکل حالات میں 

معاملات کو سدھارت ہیں ۔پی ٹی آئی کے لوگ کون سے دشمن ملک کے لوگ تھے جو آپ نے اکیلے چھوڑ دئے 

میری بات یاد رکھیے جانے والے کے ہاتھ منہ کرپشن سے لتھڑے تھے جو ہر وقت قابل فروخت ہوتے ہیں میرا اللہ بہتر کرے گا یہ ملک کی افواج اور سیاسی پارٹیاں اسی ملک کے لیے ہیں اور وہ پاکستان کو مشکلات سے نکال باہر کریں گے 

 آپ کی ہٹی نہیں چلنے والی بہر حال دکان یہی چلے گی جس کا نام تحریک انصاف ہے

ذات دی کوہڑ کرلی

باعث Engineer Iftikhar Chaudhary

ویسے اس شخص کو عمران خان کا نام لینے کی جرات نہیں ہے جو اسے ،،منے کا ابا،،کہہ کر پکار رہے ہیں 

کسی نے کیا خوبصورت بات کی ہے کہ ذار دی کہوہڑ کرلی شہتیراں نوں جپھے 

قربان جائوں ان صاحب کا کہنا ہے کہ میرے مقابلے میں وہ شخص آئے جو پاکستان کا ہی نہیں نہیں امت مسلمہ کا لیڈر ہے 

پتہ نہیں پدی خان  کو خون کی کمی کی وجہ سے کوئی دورہ پڑا ہے 

یہ صاحب جب پی ٹی آئی میں آئے تو گولی چل گئی تھی اسی وقت لوگوں نے اسے قبول نہیں کیا تھا اور جتنا عرصہ یہ صاحب پی ٹی آئی میں رہے کسی پریشانی کا شکار رہے ایک بار ہم بنی گلہ میں بیٹھے ہوئے تھے تو اس کو بلاوا آ گیا اس نے ابھی سگریٹ سلگایا ہی تھا کہ ایک دم پائوں کے نیچے مسل کر دوڑ کر خان کے کمرے کی طرف بڑھ گیا وہاں بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہا کتنی عزت کرتا ہے اپنے لیڈر کی میں اس کی آئے روز کی باتیں سنتا رہتا تھا میں نے کہا یہ بندے ہر وقت اپنے ٹارگٹ کی طرف دیکھتا رہتا تھا ایک اور بار جب پی ٹی آئی نے پچیس اراکین کو نکالا تھا تو اس کا کہنا تھا کہ خان صاحب کو نہیں نکالنا چاہئے میرے ساتھ بیٹھے ہوئے اس مشہور زمانہ پریس کانفرنس میں یہ آخر دم تک چیئر مین ہو سمجھاتا رہا کہ انہیں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو نکالنا نہیں چاہئے اوپر سے الیکشن بھی ہیں خان صاحب جب اوراق سمیٹ کر پریس سے گفتگو کرنے والے تھے کہ اس نے ان کے کان میں کچھ کہا جس کا خان صاحب نے برا منایا اور آپ نے دیکھا 2018 کے الیکشن سے پہلے وہ فیصلہ سنا دیا  پی ٹی آئی کا ایک سنہرا فیصلہ تھا 

میں نے کئی برس پارٹی میں گزارے ہیں اس بندے نے سوائے اپنے کاروبار کے کچھ نہیں سوچا خان نے کئی بار کہا بھی لوگوں نے اپنے گھروں کی نوکرانیوں کو بھی ٹکٹ دے دئے اور وہ اس تیلی پہلوان کے بارے میں کہا تھا جس نے دائیں بائیں سے خٹک خٹک اکٹھے کر لیے تھے این اے 60 کے ٹکٹ بھی ان لوگوں کے وجہ سے کارکنوں کے ہاتھوں سے گئی جس میں اسد قیصر  علی امین گنڈا پور پرویز خٹک نے خاں صاحب کو مجبور کیا خان صاحب نے ارشد داد ہر بات چھوڑ دی اور یہ سارے لوگ ان کے دفترمیں آن اکٹھے ہوئے اور 2018 کا میرا ٹکٹ بھی ضائع ہو گیا  حالانکہ یہ ٹکٹ مجھے ملنے والا تھا 

 ان لوگوں نے پاکستان تحریک انصاف نے ہر وہ کام کیا جو اس کے منشور کے خلاف تھا اور یہی لوگ تھے جو اپنے اثر رسوخ کو استعمال کرتے تھے 

اسے سب سے بڑا دکھ یہ تھا کہ مجھے وزیر اعلی کے پی کے کیوں نہیں بنایا گیا 

میں نے اسے کہہ دیا تھا کہ خان کو تم نے ناکوں چنے چبوائے ہیں ۔ بات  یہ ہے کہ عمران خان نے دن رات ان لٹیروں کو حکومت تو دے دی تھی مگر اسے ان کی رکھوالی کرنے ہر بڑا ٹائم لگ جاتا تھا  جو سچے اور حقیقی دوست تھے انہیں منسٹریاں ملی بھی تو چھوٹی ملیں آج آپ ہی دیکھ لیں علی محمد خان شہر یار آفریدی  کس قدر تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں 

یاد رکھئے جو آج تکلیف میں ہیں وقت آیا تو پھر تکلیف میں ہوں گے کیوں کہ میرا خان بہت اچھا ہے مگر کانوں کا کچا ہے پھر اسے لوگ کچھ بتائیں گیں لوگ کہتے ہیں کہ خان اب سمجھ جائے گا نہیں میں نے اس خان اور اپنے لیڈر کے ساتھ عمر گزاری ہے 

میرے بیٹے کا ٹکٹ دینے کے وقت خان نے کہا تھا کہ تمہارا باپ بڑ دلیر ہے تم کس نام سے اپنے نام کے سپیلنگ لکھتے ہو تو پھر ٹکٹ دوسرے کو دے دیا اور وہ بھی بدل دیا اور کسی کے کہنے پر بدل دیا کوئی اصول کوئی ضابطہ نہیں ہے پی پی  6کا ٹکٹ کے ساتھ بھی کیا ہوا صرف تیس ووٹوں سے ہارنے والے کو دیا گیا  مگر کسی اور کہ کہنے پر وہ بھی کرنل شبیر سے لے کر  کسی اور کو دے دیا گیا 

یہاں صرف میں یہ بات کرنا چاہتا ہوں کہ پارٹیاں آج کی تاریخ تک ادارے نہیں بن سکیں بڑے شوق سے منشور بناتی ہیں مجھے وہ دن یاد ہیں کہ ابوالحسن انصاری مرحوم  جھنگ سے آکر کام میں جت جاتے ہم بھی اس کمیٹی میں شامل تھے لیکن جب جی چاہئے اس آئین کو بالائے طاق رکھ دیا گیا جب ترمیم کا وقت آیا تو اخبار لہرا کر ترمیم کر لی خان صاحب میرے اعتراض کرنے ہر خفا بھی ہو گئے 

کیئوں نے کہا کہ تمہیں ٹکٹ نہیں ملے گا وہ خود تحریک استحکام میں چلے گئے اور میں ادھر ہی کھڑا ہوں  اسی دن جب خان صاحب نے کہاں تھا کہ افتخار تم تو وجہیہ الدین ہو تو میں نے پاس سے گزرتے ہوئے کہا تھا جب یہ لوگ آپ کو چھوڑ گئے تو میں کھڑا ہوں گا 

دوستوں بات تیلی پہلوان کی ہو رہی تھی کہاں چلی گئی 

پتہ نہیں لوگ کیسے بدل جاتے ہیں 

لگتا ہے ان کا بلڈ کم ہو گیا ہے  عمران خان کا یہ مقابلہ کرے گا تمہارے مقابلے میں علی محمد خان اور شہریار آفریدی ہی کافی ہے

خواب کس کا تھا

باعثِ Engineer Iftikhar Chaudhary

اب سارے ہی مان گئے ہیں کہ چوہدری رحمت علی ہی نظریہ پاکستان کے خالق ہیں اور لوگوں کو بس علامہ اقبال کے نام سے ڈر لگتا ہے کہ 75 سال گزرنے کے بعد اگر قوم کو یہ بتا دیا گیا کہ علامہ نے کبھی الگ وطن کا نہ تو خواب دیکھا اور نہ ہی ان کی خواہش تھی کہ مسلمانان ہند الگ وطن  کا مطالبہ کریں حتی کہ خطبہ الہ بار میں بھی 

 وہ ہندوستان  کے اندر ہی محدود آزادی کی بات کرتے ہیں 

حال ہی میں معروف صحافی نے چوہدری خلیق الزمان کی کتاب پاتھ ٹو پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں ہم نے پاکستان کی بات چوہدری رحمت علی سے سنی ہے میں نے اس سے پہلے بھی کہا تھا کہ علامہ اقبال کسی صورت بھی پاکستان کے نظریے کی خلق نہیں اسی لیے ہندوستان بھی ان کی گن گاتا ہے 

اقبال امت مسلمہ کی نشاط ثانیہ کے لئے کوشش کی 

وہ ہندوستان کے اندر رہ کر محدود آزادی کی بات کرتے ہیں 

صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پابگل بھی ہے   انہی پابندیوں میں رہ کر حاصل آزادی کو تو کر لے 

میرا مطالبہ ہے کہ چوہدری رحمت علی جو اس کا مقام دیا جائے انہوں نے جو کامنکیا ہے وہ لوگوں کے سامنے رکھا جائے پتہ نہیں پاکستان کی حکومت میں کچھ ایسے خفیہ دستاویز ہیں جن میں ان کے جسد خاکی جو پاکستان میں لانے کی ممانعت کی گئی ہے میں خود بھی اس وقت حیران ہوا جب اسد عمر کو میں نے چوہدری رحمت علی کی کتاب پیش کی اور کہا کہ ہی ٹی آئی نے تو لوگوں کے سامنے وعدہ کیا تھا کہ چوہدری رحمت علی کو کو اس کا مقام دیا جائے گا اور اقتتدار میں آنے کے بعد تین مہینے کے اندر اندر پاکستان لایا جائے گا میں نے صدر پاکستان عارف سے دو بار ملاقات کی اور دونوں بار ہی یہ مطالبہ کیا کہ چوہدری رحمت علی کو پاکستان لایا جائے اس کی وجہ بھی بتائی کہ وہ امانتا دفن ہیں اور یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ وہ پاکستان آئیں 

ان کی اس غلط فہمی ہو بھی دور کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ مولانا جوہر علی بھی اسرائیل میں دفن ہیں میں نے کہا حضور مولانا جوہر علی اس وقت دفن ہوئے جب اسرائیل کا وجود بھی نہیں تھا اور اور پاک سر زمین فلسطین میں دفن ہوئے 

لیکن اس توجیہ کا کیا فایدہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایک ہی پارٹی میں رہنے کی وجہ سے ہماری بات کیوں نہیں مانی جاتی 

حضور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ اسمبلی میں جائوں تو شور شرابہ کروں وہ تو ناممکن ہے یہاں ٹکٹ ان لوگوں کو ملتے ہیں جو پیسہ کھاتے ہیں جیسے ہر قومی اسمبلی والا اپنے ساتھے صوبائی کا امیدوار کاتا ہے جو اس کا خرچہ اٹھائے   جو ان کو جتوانا پر مال پانی لگاتا ہے ماضی کے سارے ٹکٹ دیکھ لیں اور حال میں میں بھی جو ملا وہ سب کو پتہ ہے 

دوسری بات جو لوگ جیت کے گئے انہوں نے کیا کیا۔

ویسے بھی میں کسی گجر کا نام نہیں لیتا کہ چوہدری رحمت علی نے کسی گجرستان کی بات نہیں کی تھی ایک ایسا شخص جو اس وقت کی دنیا کا ایک ستارہ تھا اسے گجر ثابت کر کے ہم کیا کام کرنا چاہتے ہیں ۔نرحوم رؤف طاہر کہتے ہیں کہ ایک بار جب جنرل ضیاء الحق شہید ہرارے کانفرنس میں ایران کو شامل کرانے کے بعد لاہور آئے تو لاہور ایئر پورٹ پر چوہدری حمد حسین مرحوم صحافیوں کے ایک گروہ کے ہوتے ہوئے کہنے لگے جناب ضیاء صاحب آپ نے پرسوں آرائیوں کا ایک کنونشن ہےاس میں شرکت کرنی ہے ایک دو بار کہنے پر جب ضیاء صاحب نے خجالت محسوس کی تو ایک صحافی نے کہا کہ جناب ہم ضیاء صاحب کو امت مسلمہ کا لیڈر بنانا چاہتے ہیں آپ انہیں آرائیوں کا لیڈر بنا رہے ہیں 

یہی بات میں کرنا چاہتا ہوں کہ خدا را چوہدری رحمت علی کو بر صغیر کا لیڈر بنائیں گھروں کا نہیں 

 یہ جو برادری کے کنونشن ہوتے ہیں میرے نزدیک یہ صرف نمائشی ہوتے ہیں  

 ہر ایک کو پانی پارٹی میں اپنا نام چمکانا ہوتا ہے ہر دوسرا بندہ سردار قوم بنا پھرتا ہے حالت ان کی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے سربراہ کے سامنے ہاتھ باندھ کر ایسے کھڑے ہوتے ہیں جیسے ،،لب کہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری ،،،پڑھ رہے ہوتے ہیں 

میں اس موضوع پر پھر کبھی لکھوں گا کہ اس سے ناراضگیاں پیدا ہوتی ہے ویسے وہ بھی جانتے ہیں کہ جس طرح صوبہ ہزارہ بنانے کا ایک موسم ہوتا ہے یہاں بھی چوہدری رحمت علی کو لانے کا ایک سیزن ہوتا ہے 

بہر حال اس وقت چوہدری رحمت علی کو اس جائز مقام دینے کی بات کرنا چاہتا ہوں انہیں ان کا مقام بحیثیت خالق نظریہ پاکستان مل گیا تو یہ سچ کی جیت ہوگی

یہ ہے بھارت

باعثِ Engineer Iftikhar Chaudhary

چلئے ہم اور آپ آج کل بھارت کے بارے میں بہت کچھ سنتے ہیں  اور سر جھکائے اپنے آپ کو کوستے  ہیں  کچھ تو کہتے ہیں ہم پیدا ہی کیوں ہوئے یعنی پاکستانی کیوں بنے؟پاکستان میں ہزار خرابیاں ہیں مگر پاکستان ہے پاکستان ،گرچہ بہت دکھ میرے دیس میں مگر کسی یہ دکھ نہیں دیکھا ۔

مجھے آج یہ خبر پڑھ کر انتہائی دکھ ہوا ہے کہ بھارت کی ایک ریاست میں فٹ پاٹھ پر بیٹے دلت لوگوں پر اعلی زات کے ہندو پریوش شکلا نے پیشاب کر دیا ہے 

بی بی سی کی خبر کے مطابق اس نوجوان کا تعلق  بھارتی جنتا پارٹی سے ہے گرچہ پارٹی نے اس بات کی تردید کی ہے لیکن اس واقعے نے بھارتی معاشرے کا پول کھول کے رکھ دیا ہے گرچہ نچلی زات کے ہندوؤں کا جینا پہلے ہی سے انڈیا میں حرام کر دیا ہے ۔یہ وہ لوگ ہیں جو اچھوت کہلاتے ہیں  اور بھارت میں انہیں گھٹیا سمجھا جاتا ہے 

بزرگ بتاتے ہیں کہ یہاں متحدہ ہندوستان میں بھی کوئی مسلمان ان کے باورچی خانے میں چلا جاتا تھا تو اسے ،،بھرشٹ،، قرار دیتے تھے ۔ہندو پانی مسلمان پانی تو الگ بات ہے ہندو کمرشل بینک اور مسلم کمرشل بینک بھی ہوا کرتے تھے ۔پاکستان ویسے ہی نہیں بن گیا تھا  ۔پرویش شکلا ایک اکیلا بھارتی نہیں ہیں جو ان بے بس لوگوں پر پیشاب کرتا ہے اس میں بھارتی جنتا پارٹی کا وہ انوکھا طرز عمل بھی ہے جو اس خطے کے ہر ملک اور ہر دیس کو اکھنڈ بھارت بنانا چاہتا ہے ۔ایک طرف بھارت دنیا میں،، روشن آنڈیا ،، کا نعرہ لگا رہا ہے جس کے پردھان منتری کو دنیا کے امیر ترین شخص  ایلون مسک اپنا آئیڈیل قرار دیا ہے 

میرا خیال ہے اسے بھارت کے اس روپ کو دیکھ کر شرم تو آئی ہو گی 

خیر اس مسئلے پر آگے چل کر بات کی جائے گی میں پاکستان کے ان لوگوں سے بات کرنا چاہوں گا جو ہندؤں کی جبری اسلام قبول کرنے پر واویلا کرتے رہتے ہیں 

مجھے مختلف ٹاک شو پر جانے کا اتفاق ہوا ہے جہاں مختلف این جی او کی خواتین ٹسوے بہاتی نظر آتی ہیں کہ فلاں بچی کو جبرا مسلمان بنا لیا گیا ہے 

ایک دفع سندھ زمینوں پر جانے کا اتفاق ہوا راستے میں ڈھرکی کے قریب پیربھر ونڈی  شریف رکنے کا اتفاق ہوا اتفاق سے اسی دن ایک نوجوان لڑکی نے اسلام قبول کرنے آنا تھا  راجکماری نے اسلام قبول کرنے سے پہلے اپنے گھر والوں سے ملاقات کی اس میں لڑکی کے ماں اور باپ اوران کے قبیلے کے لوگ  تھے ان لوگوں نے راجکماری کو بہتیرا سمجھایا کہ تم اپنے دین اور دھرم میں واپس لوٹ ائو لیکن اس نے ان کی ایک نہیں مانی اور پھر پیر آف بھرچونڈی میاں منان مٹھا نے کلمہ طیبہ  پڑھا کر اسے دائرہ اسلام میں داخل کیا راجکماری کا اسلام نام رکھا گیا مین نے اسے دین حق میں داخل ہونے پر مبارک بادی میاں جاوید میاں نورادین  ایک مشہور سندھی چینل کے صحافی برادری جاوید بھی شامل تھے ۔

مین نے ان غریب ہندوؤں سی بات چیت کی یہ لوگ نچلی زات کے ہندو تھے جن کی ذات پر  آج پیشاب کیا گیا ہے۔

میرا اپنا خیال ہے کہ راجکماری کو اسلام میں داخل ہونے کا بنیادی سبب یہی ہے ۔اسلام میں داخل ہونے کے بعد آپ اسے کوئی نہیں کم تر سمجھے گا  اور نہ ہے فٹ پاتھ پر بیٹھا پریوش شکلا کوئی پیشاب کرے گا  بلکہ اسے دین اسلام کے جملہ فوائد بھی ملیں گے 

اسلام آباد  کے ایئر کنڈیشنڈ چینیلوں میں بیٹے آزاد خیال عورتیں نہ تو راجکماری کی دکھ کو سمجھتی ہے کہ وہ اسلام کو قبول کرنے کے بعد پیر سید لوگوں میں برابری کی حیثیت سے بیٹھ سکتی ہے اور اپنے حقوق بھی لے سکتی ہے  ۔چند ٹکوں کی خاطر یہ این جی آواز عورت کے نام پر مال پانی کماتی ہیں کبھی چائیلڈ لیبر کے نام پر ۔

آج اس ملک میں جس کانام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اسلام کی تبلیغ کرنے ہر پابندی ہے  لوگ کہتے ہیں کہ کہ ایک اور مسلمان بننے سے کیا فایدہ ہو گا حضور یہ اس سے پوچھئے کہ  جو جہنم کی آگ سے بچ نکلا ہے 

میں چوہدری نثار علی خان کو خراج تحسین پیش کروں کا جنہوں نے ان مادر پدر آزاد این جی اوز کو لگا ڈالی تھی ۔میاں مٹھا کی بھی سنئے انہیں پہلے پاکستان کی ایک بڑی پارٹی نے اپنا ٹکٹ دیا تھا لیکن یہ بعد میں اس لئے واپس لے لیا گیا کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ ہم دقیانوسی پارٹی ہیں اور یوں میاں مٹھا ترانوے ہزار ووٹ لے کر ہار گئے ۔افسوس کی بات ہے کہ وہی پارٹی پر الزام بھی لگا کہ وہ زیادہ اسلام پسند ہے 

مزید افسوس یہ ہے کہ ہر پارٹی اور جماعت میں اس قسم کے اسلام  بیزار لوگ پائے جاتے ہیں  اور ایک ڈھونڈھو ہزار ملتے ہیں  کبھی قادیانیوں کو پناہ دیتے ہیں اور کبھی آزاد خیالی کے نام پر ملک کو بدنام کیا جاتا ہے 

آج کل میں انڈین چینل پر نہیں آتا اگر موقع ملے تو میجر گورو آریہ اور جنرل بخشی سے یہ پوچھوں کہ پریوش شکلا نے جو دلتوں کے اوپر پیشاب کیا ہے کیا یہ پیشاب بھارت ماتا کے منہ پر نہیں کیا؟میرے ملک کے لوگوں کے بارے میں پروگرام کرتے رہتے ہو اور خاص طور پر سکھر میں ایک ہندو لڑکی پر اس کے محلے دار  نے حملہ کیا تو تم چیخ اٹھے تھے اب بتائو کہاں ہیں تمہارا ،،روشن انڈیا،،

گمنام راہوں کے شہید

باعث Engineer Iftikhar Chaudhary

ان کو بھی،، ہیپی فادر ڈے ،،جن کے نوخیز بچوں کو باپ نے دلاسہ دیا کہ تمہراے لئے گڑیا لائوں گا اور ماں کو کہا اماں دعا کرنا میں چلا گیاتوسارے گھر کی تقدیر بدل دوں گا 

اور بہن کو گلے سے لگاتے ہوئے کہا پگلی روتی کیوں ہیں  میں تیری شادی ایسی کروں گا کہ خاندن والے دنگ رہ جائیں گا 

یہ سفر آج سے نہیں 1947 میں بھی شروع ہوا تھا جب پہلی ٹرین نے لاہور کو چھوا تھا 

آج مک گئی اے غماں والی شام

تینوں ساڈا پہلا سلام 

1977 میں میں بھی گجرانوالہ اسٹیشن سے کراچی پہنچا وہاں سے عمرے ویزے پر جدہ روانہ ہوا 

اس وقت ایک دو سال لگانے کا پروگرام تھا 

میری ماں نے میرے آنسوؤں کو پوچھتے ہوئے کہا تھا کہ جائو بیٹا جوان اور گھوڑے کاکوئی دیس نہیں ہوتا 

اور میں  اوکھے سوکھے   ویلا گزار گیا ایک کمرے میں سات گدوں پر دس سو کر گزارا کیا  اس سعودی بچی نوراں کو سلام جو ہمیں رمضان میں برف دے کر جاتی 

من کو سکون ملتا میری عنابیہ نے اس بار عزیزیہ میں لوگوں کو اگطارکا سامان دیا تو مجھے سعودی عرب کی نوراں یاد آگئی جس کو عروہ اور عنابیہ کے دادا کو کلو خمسہ میں برف دی تھی ۔

دو سال والے نے ستائیس سال گزارے اور دوسری نسل کو بھی اسی ویلنے  کا ایندھن بنا دیا 

ایک بار نواز شریف نے نے ہم سے وعدہ کیا کہ میں بیرون ملک پاکستانیوں کو پاکستان سے باہر نہیں رہنے دوں گا 

اور دوسری بار  خان نے کہا کہ ملک میں لوگ بیرون ملک سے نوکریاں کرنے آئیں گیں 

بہت سے لوگ ا بھی گئے اور پھر خان کی حکومت کو چلتا کر دیا ۔آج باجوہ کے دیس کے لوگ یونان میں شہید ہو گئے 

جن کی لاشوں کا پتہ نہیں چلا رہا ۔

کب ختم ہو گی غموں والی شام 

کب صبح طلوع ہو گی 

اللہ تعالیٰ خود ڈانگ نہیں مارے گا اس کے کام بولتے ہیں ۔یہ زلزلے یہ طوفان یہ نو مئی یہ سب اللہ کی طرف سے ہیں ۔قائد اعظم کا نواسہ کرایے کے مکان پر زلیل ہو رہا ہے اور اس کے نانا کے مکان کی حرمت پر دس ہزار قیدی بنا لئے گئے اور سنا ہے کہ چند لوگوں کو فوج عدالتیں بھی سزا دیں گے ۔اللہ نہ کرے ایسا ہو 

خدا کا خوف کرو اس سے پہلے کہ ملک پر طوفان آئیں زلزلے آئیں اپنی عزت اور حرمت کو ادارے بچائیں 

کون آپ کا مخالف ہے یہ لوگ 65 اور 71 میں بھی آپ کے ساتھ تھے  اور اب بھی ساتھ ہیں میجر گورو آریہ کو کون جواں دیتا ہے اور جنرل بخشی کو کون  ہیں ںخشےا؟میں انجنیئر افتخار چودھری ۔

مشرقی پاکستان میں لوگوں نے رات کے اندھیروں میں اور دن کے روشنی میں آپ کا ساتھ دیا آج بنگالی بہاری پھانسیوں پر جھول رہے ہیں 

نہ اپ کو فکر ہے اور نہ ہمیں  لاکھوں کی تعداد میں افغانی پاکستان کے کونے کونے میں رہتے ہیں دو اڑھائی لاکھ بہاری نہیں بلائے جاتے ۔ ہم فوج ہیں اوررہیں گے  اسلیے کہ ہمارے گھروں میں شہید ہیں اور غازی بھی 

آج طارق ملک نے استعفی دیا کہ رانا ثناء اللہ ان سے غیر قانونی کام کرا رہا ہے ۔اپ اڑھائی لاکھ کو کے ائو اور فیصل آباد میں درج کروا کو تمہارے سینے میں ٹھنڈ پڑ جائے گی اور ان کی شام الم ختم ہو گی 

کاش ان لوگوں میں کوئی زرداری کا بیٹا بھی ہوتا اور نواز شریف کا بھی ،جنہوں نے اس ملک کے وسائل کو بے دردری سے لوٹا اور پاکستان کی تھالی سے سب چٹ کر گئے 

یہ سب لوگ سپنوں کے سوداگر تھے یہ ان ملکوں میں جا رہے تھے کہ جہاں انسانیت زندہ ہے 

جہاں لوگوں کو بھوکا نہیں  مرنے دیا جاتا 

افسوس تہ یہ ہے کہ خواجہ آصف نے یورپ اور امریکہ میں بسنے والے پاکستانیوں کو ،،گالیاں،، دیں  اج امریکہ کو آپ اور ہم گالیاں دیتے ہیں آج۔بارڈر کھولیں تو ہم سب لائن میں لگ کر ویزے لیں گے 

یہ ملک جسے ،،ملک بے آئین ،، کہا گیا ہے 

جسے ایک پنجابی شاعر نے کچھ یوں بیان کیا ہے 

چھڈدے چوڑے والیے کڑیے  چھڈ دے چھڈ دے میری باں   میں نیں رہنا  ایس گراں

جتھے شاعر بھول نہ سکن  دل دیاںئ گنجلاں کھول نہ سکن  میں نیں رہنا ایسی تھاں

وہ ہمیں اچھے نہیں لگتے اگر زندہ بچ جاتے تو ان کے ڈالر اچھے لگنے دیں ۔

 آج مجھے شہر یار آفریدی سے بھی معذرت کرنی ہے میں نے اسے جرمنی جانے سے منع کیا تھا 

اسی 502 میں میں نے اسے تلقین کی پاکستان چھوڑ کے مت جائیے گا اور اس کے بعد وہ رکا اور پاکستان کی جی بھر کے خدمت کی  اور آخر میں اس کے ساتھ ہم نے اس کے ساتھ کیا کیا ؟

افسوس سب کام پی ڈی ایم اور رانا ثناء اللہ کرتا ہے اور نام ایسٹیلشمنٹ کا لگا دیتا ہے 

کشتی یونان کے مسافرو آپ کی شہادت کو سلام ان باہوں بہنوں مائوں کے معذرت جن کے خواب ادھورے رہ گئے ۔ان گمنام راہوں کے شہیدوں کو سلام

گجری زبان

باعث افتخار مرتب کردہ Engineer Iftikhar Chaudhary

گوجری زبان اس خطے کی قدیم ترین زبان ھے. اردو پر سب سے زیادہ اثر گجری زبان کا ھے. یہی دراصل اردو کا سب سے قدیم ماخذ ھے. اسی طرح پنجابی اور دوسری زبانیں بھی گوجری زبان سے ھی نکلی ھیں.

کتب تواریخ کے دیکھنے سے معلوم ھوتا ھے کہ ہندوستان اور عربوں میں مدت دراز سے سلسلہ تجارت قائم تھا. عربی تاجر بحری سفر کرکے ھندوستان کی مغربی بندرگاہوں جس میں گجرات قابل ذکر ھے آتے. انھی تاجروں کی زبانی ھندوستانی کی زرخیزی اور اھل ھند کی دولت وثروت کا حال سن کر عرب مسلمانوں کی ایک جماعت 637ء میں جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ تھا ھندوستان کے مغربی علاقے گجرات پر حملہ آور ھوئی. ساتویں صدی کے آخر تک اس طرح کے کئی حملے ھوئے. اس وقت ھندوستان میں متعدد زبانیں رائج تھی. ان میں ماگدھی، مہاراشٹری، گجری وغیرہ شامل تھی. گجری زبان ان چند زبانوں میں امتیازی حیثیت رکھتی تھی کیونکہ وہ گجر راجاؤں جو کہ آریہ کھشتری نسل سے تعلق رکھتے تھے ان کی زبان تھی. بیرونی حملہ آوروں کے بعد تمام شعراء کی شاعری میں گوجری زبان کی جھلک صاف دکھائی دیتی ھے. باجن، جیو گام دھنی، محمود دریائی اور خوب محمد چشتی یہ چاروں نام گجری اردو ادب کے ممتاز ترین نام ھیں. شیخ محمد خوب نے مثنوی ” خوب ترنگ” 986 ھجری میں لکھی. شیخ اس کو گجری بولی کہتے ھیں.

جیوں دل عرب عجم کی بات 

سن بولی، بولی گجرات 

اسی طرح شاہ علی محمد جیو گام دھنی کی ” جواہر اسرار اللہ ” کو اس کا مرتب شیخ حبیب اللہ قریشی الاحمدی گوجری کہتا ھے. چنانچہ دیباچے میں لکھتا ھے.

” دربیان توحید و اسرار بالفاظ گوجری بطریق نظم فرمودہ. دریں مختصر آوردہ و جمع کردہ.” 

محمد امین نے اپنی مثنوی ” یوسف زلیخا ” بعہد عالمگیر 1109 ھجری میں نظم کرتا ھے. وہ اس کو گجری زبان کے نام سے سے یاد کرتا ھے. چنانچہ وہ کہتا ھے

سنو مطلب اھے اب یو امین کا 

لکھے گوجری منے یوسف زلیخا 

ہر یک جاگے قصہ فارسی میں 

امین اس کو اتاری گوجری میں 

کہ بوجھے ہر کداماس کی حقیقت 

بڑی ھے گوجری جگ بیچ نعمت 

شاہ برھان الدین جانم 990 ھجری …. جو کہ خاص دکن کے باشندے ھیں. اپنی تصنیف میں کئی جگہ اپنی زبان کو” گجری ” کہتے ھیں. کلمتہ الحقائق میں ایک جگہ لکھتے ہیں. 

” سبب یوں زبان گجری نام ایں کتاب کلمتہ الحقائق. ” 

ارشاد نامہ میں یہ شعر ملتا ھے

یہ سب گجری زبان کر یہ آئینہ دیا نمان

حجتہ البقا میں لکھتے ہیں 

جے ہوویں گیان پجاری 

نہ دیکھیں بھاکا گجری

فتح گجرات کے دس بارہ سال کے اندر سیاسی و معاشرتی پر اتنی تبدیلی آئیں کہ نئے معاشرتی ڈھانچے نے پرانے کی جگہ لے لی.جو لوگ فارسی جانتے تھے معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے. رفتہ رفتہ گجری جاننے والوں کی وھی حیثیت رہ گئی جو برطانوی دور میں اردو جانے والوں کی تھی. صرف گجری جاننے والوں پر ملازمتوں کے دروازے بند ھو گئے. اور معاشرتی طور پر وہ بے علم لوگوں کی فہرست میں شامل ھو گئے.

سلامت رہے ہماری فوج  

باعث Engineer Iftikhar Chaudhary

ویسے ہم نہ کب سوچا تھا کہ اس دوران نو مئی آ جائے گا جسکی آڑ میں ہمیں یہ دن بھی دیکھنا پڑیں گے کہ دس ہزار جیل میں اور اتنے  باہر جبری چھٹیاں منانے عزیزوں دوستوں کے ہاں مہمان بنیں گئے 

لوک طعنے دیتے ہیں کہ آپ لوگ نعرے تو لگاتے تھے کہ ،، ہم لے کے رہیں گے آزادی، تیرا باپ بھی دے گا ازادی،، او بابا ہم تو یہ نعرے لگاتے تھے کہ  بابا شریف حاکم علی زرداری مفتی محمود سے ہم آزادی لیں گیں یہ تو نہیں پتہ تھا کہ تم جنرل عاصم منیر ہمارے مقابل کھڑے کر دو گئے 

وہ کیا کہتے ہیں ماں سے لڑائی ہو گئی ہتھ کس جگہ پائیے 

ماں سے لڑائی ہو گئی تو ہاتھ کہاں ڈالیں اس فوج کے ساتھ کس نے کہا تھا کہ ہم ان سے آزادی مانگتے تھے ویسے میاں نواز شریف کو میں سمجھاتا رہا لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد ہم نے بھی پنگا لے لیاوہ ریٹائر جنرل تھے جو سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر تھے اور مجھے نواز شریف کا ساتھی قرار  دے کر جدہ  جیل میں بند کرا دیا  میں وہاں اکہتر دن بند رہا واپس پر ماں کا جنازہ دیکھا اس طرح عظمت نیازی کے والد صاحب اس دنیا سے اپنے بیٹے کے غم میں چلے گئے ۔استحکام پاکستان میں لوگوں نے اپنے آپ کو مستحکم کیا ہم تو ،،لیا نہ دیا گلاس توڑے بارہ انے،،ہم تو خوامخواہ ہی رگڑے میں آگئے 

لیکن کیا کریں دل کے ہاتھوں مجبور ہیں کسی کو مصیبت کے دنوں میں چھوڑ نہیں سکتے اور قاسم کے آبا سے تعلق بھی بہت پرانا تھا  

اسی لیے لوگوں کو سمجھاتا رہا کہ فوج میں کوئی ریٹائر نہیں ہوتا باز آجائو یہ نیوٹرل کا نعرہ بھی نہ لگائو اور کسی کو برا بھی مت کہو ۔مشاہد حسین کہا کرتے تھے میاں صاحب کڈ کڑاکے دیو اور بعد میں یہی مشاہد ق لیگ میں چلے گئے  اور مزے کئے اور میاں نواز شریف سرور پیلیس پہنچ گئے  

اس طرح عمران خان کے وزیر مشیر اسے دھکہ دے کر استحکام پاکستان بنا بیٹھے 

اللہ کرے گا کہ چیزیں جلدسامنے آجائیں گی  لیکن ضرورت اس بات کی ،،پہلے جو آگ لگی ہے بجھادی جھائے،، 

کتنا افسوس کی بات ہے  کہ جو لوگ فوج کے خلاف تھے وہ فوج کے ساتھ مل گئے اور پاکستان تحریک انصاف کو آگے رکھ لیا 

یہ سال 2001 کی بات ہے میاں نواز شریف نے کہا کہ اس فوج کو ۔۔۔۔مارنے  چاہئے میں نے کہا میاں صاحب ایک فوج کے حوالدار کو سنبھال نہیں سکتے اور آپ پوری فوج کو گالیاں دے رہے ہیں پاس بیٹھے میاں شہباز شریف نے اس بات کو سراہا 

اور آخر آپ نے دیکھ لیا کہ جیت اسی سوچ  کی ہوئی جو میں کہتا تھا 

دنیا میں جمہوریتوں کے کئی رنگ ہیں ترکی کی جمہوریت کو جنرل کنعان کے دور سے دیکھیں 

اور آج طیب اردوگان کو سامنے رکھیں 

ایک دم ہی یہ سفر طے نہیں ہوا ویسے میرا اپنا خیال ہے کہ کنٹرولڈ جمہوریت ہونا چاہئے 

وگرنہ یہ سیاست دان اس ملک کو بیچ کر پتیسہ کھا جاتے 

نواز شریف اور زرداری کا دور دیکھیں 

اور آج کل وہ لوگ بھی سامنے آ گئے ہیں جنہوں نے عمران خان کے دور میں پاکستان کے وسائل کو مادر وطن کا دودھ سمجھ کر پیا ۔ 

وہی لوگ جو جیلوں کی چیز تھے انہوں نے اب نعرہ لگایا ہے کہ پاکستان کو استحکام بخشا جائے گا۔ہم نےایک  وقت کہا  تھا کہ کیانی کی جیب پھٹی ہوئی ہے اور جناب بزدار وسیم پلس نہیں ہیں  افسوس کہ لوگ بولنے نہیں دیتے اور پارٹی کے اندر رہ کر بھی گونگھے  بنا دیتے ہیں 

اس وقت اندر کی بات کرنے کو نہیں چاہتا کہ پارٹی مصیبت میں ہے اور مصیبت میں گلے شکوے نہیں کرتے 

لیکن اتنی بات ضرور کروں گا کہ آپ کو کس نے کہا تھا کہ ایسٹیلشمنٹ کے ساتھ پنگا لیں 

کون آپ کو شہ دیتا رہا 

آپ سمجھتے رہے کہ مولوی فضل الرحمن کا باپ پاکستان کو تسلیم نہیں کرتا تھا اور کہتا تھا کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں ہیں حاکم علی زرداری قائد اعظم کا مخالف تھا خود میاں شریف گورنر جیلانی کو رشوتیں دے کر بیٹے کو آگے بڑھاتا  رہا 

ان لوگوں نے گجرانوالہ میں جنرل باجوہ جنرل فیض حمید کے خلاف ہذیان بکا اور مولوی فضل الرحمان نے کہا کہ ہم جی ایچ کیو آئیں گے زرداری نے کہا کہ تم تین سال رہو گے اور ہم ادھر ہی ہیں 

لیکن ان کی یہ ،،ستم ظریفیان،، معاف کر دی گئیں اور ہمیں دھر لیا گیا  ایک بات کا بھی دکھ ہے نو مئی کے واقعات جو ہوئے وہ بغیر تحقیق کے پی ٹی آئی پر ڈال دیے گئے 

پاکستان تحریک انصاف اچھا کرے کہ اگر جلسوں کی اجازت ملے تو پہلا جلسہ جی ایچ کیو کے سامنے کریں اور فوج کے شہداء کے ساتھ اظہار یک جہتی کریں اس طرح جناح ہائوس کے  سامنےبھی جلسہ کیا جائے

یہ فوج ہماری ہے 

یہ کسی کانگریسی ملا کی نہیں اور نہ ہی حاکم علی زرداری اور میاں شریف کی

یہ ہماری اور عمران خان کی فوج ہے۔

ویسے ہم نہ کب سوچا تھا کہ اس دوران نو مئی آ جائے گا جسکی آڑ میں ہمیں یہ دن بھی دیکھنا پڑیں گے کہ دس ہزار جیل میں اور اتنے  باہر جبری چھٹیاں منانے عزیزوں دوستوں کے ہاں مہمان بنیں گئے 

لوک طعنے دیتے ہیں کہ آپ لوگ نعرے تو کھاتے تھے کہ ،، ہم کے کے رہیں گے آزادی تیرا باپ بھی دے گا ازادی،، او بابا ہم تو یہ نعرے لگاتے تھے کہ  بابا شریف حاکم علی زرداری مفتی محمود سے ہم آزادی لیں گیں یہ تو نہیں پتہ تھا کہ تم جنرل عاصم منیر ہو ہمارے مقابل کھڑے کر دو گئے 

وہ کیا کہتے ہیں ماں سے لڑائی ہو گئی ہتھ کس جگہ پائیے 

ماں سے لڑائی ہو گئی تو ہاتھ کہاں ڈالیں اس فوج کے ساتھ کس نے کہا تھا کہ ہم ان سے آزادی مانگتے تھے ویسے میاں نواز شریف کو میں سمجھاتا رہا لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد ہم نے بھی پنگا لے کیاوہ ریٹائر جنرل تھے جو سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر تھے اور مجھے نواز شریف کا ساتھی قرار  دے کر جدہ  جیل میں بند کرا دیا  میں وہاں اکہتر دن بند رہا واپس پر ماں کا جنازہ دیکھا اس طرح عظمت نیازی کے والد صاحب اس دنیا سے اپنے بیٹے کے غم میں چلے گئے ۔اسحکام پاکستان میں لوگوں نے اپنے آپ کو مستحکم کیا ہم تو ،،لیا نہ دیا گلاس توڑے بارہ انے،،ہم تو خوامخواہ ہی رگڑے میں آگئے 

لیکن کیا کریں دل کے ہاتھوں مجبور ہیں کسی کو مصیبت کے دنوں میں چھوڑ نہیں سکتے 

اسی لیے لوگوں کو سمجھاتا رہا کہ فوج میں کوئی ریاٹیر  نہیں ہوتا باز اجائو یہ نیوٹرل کا نعرہ بھی نہ لگائو اور کسی کو برا بھی مت کہو ۔مشاہد حسین کہا کرتے تھے میاں صاحب کڈ کڑاکے دیو اور بعد میں یہی مشاہد ق لیگ میں چلے گئے  اور مزے کئے 

اس طرح عمران خان کے وزیر مشیر اسے دھکہ دے کر اسلام پاکستان بنا بیٹھے 

اللہ کرے گا کہ چیزیں جلدسامنے آجائیں گی  لیکن ضرورت اس بات کی ،،پہلے جو آگ لگی ہے بجھائی جھائے،،

کتنا افسوس کی بات ہے  کہ جو لوگ فوج کے خلاف تھے وہ فوج کے ساتھ مل گئے اور پاکستان تحریک انصاف کو آگے رکھ کیا 

یہ سال 2001 کی بات ہے میاں نواز شریف نے کہا کہ اس فوج کو ۔۔۔۔مارنے  چاہئے میں نے کہا میاں صاحب ایک فوج کے حوالدار کو سنبھال نہیں سکتے اور آپ پوری فوج کو گالیاں دے رہے ہیں پاس بیٹھے میاں شہباز شریف نے اس بات کو سراہا 

اور آخر آپ نے دیکھ لیا کہ جیتی وہی سوچ جو میں کہتا تھا 

دنیا میں جمہوریتوں کے کئی رنگ ہیں ترکی کی جمہوریت کو جنرل کنعان کے دور سے دیکھیں 

اور آج طیب اردوگان کو سامنے رکھیں 

ایک دم ہی یہ سفر طے نہیں ہوا ویسے میرا اپنا خیال ہے کہ کنٹرولڈ جمہوریت ہونا چاہئے 

وگرنہ یہ سیاست دان اس ملک کو بیچ کر پتیسہ کھا جاتے 

نواز شریف اور زرداری کا دور دیکھیں 

اور آج کل کو وہ لوگ بھی سامنے آ گئے ہیں جنہوں نے عمران خان کے دور میں پاکستان کے وسائل کو مادر وطن کا دودھ سمجھ کر پیا ۔

وہی لوگ جو جیلوں کی چیز تھے انہوں نے اب نعرہ لگایا ہے کہ پاکستان کو استحکام بخشا جائے گا۔ہم نے کسی وقت کہا بھی تھا کہ کیانی کی جیب پھٹی ہوئی ہے اور جناب بزدار وسیم پلس نہیں ہیں  افسوس کہ لوگ بولنے نہیں دیتے اور پارٹی کے اندر رہ کر بھی گونگھے  بنا دیتے ہیں 

اس وقت اندر کی بات کرنے کو نہیں چاہتا کہ پارٹی مصیبت میں ہے اور مصیبت میں گلے شکوے نہیں کرتے 

لیکن اتنی بات ضرور کروں گا کہ آپ کو کس نے کہا تھا کہ ایسٹیلشمنٹ کے ساتھ پنگا لیں 

کون آپ کو شہ دیتا رہا 

آپ سمجھتے رہے کہ مولوی فضل الرحمن کا باپ پاکستان کو تسلیم نہیں کرتا تھا اور کہتا تھا کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں ہیں حاکم علی زرداری قائد اعظم کا مخالف تھا خود میاں شریف گورنر جیلانی کو رشوتیں دے کر بیٹے کو بڑھتا رہا 

ان لوگوں نے گجرانوالہ میں جنرل باجوہ جنرل فیض حمید کے خلاف ہذیان بکا اور مولوی فضل الرحمان نے کہا کہ ہم جی ایچ کیو آئیں گے زرداری نے کہا کہ تم تین سال رہو گے اور ہم ادھر ہی ہیں 

لیکن ان کی یہ ،،ستم ظریفیان،، معاف کر دی گئیں اور ہمیں دھر لیا گیا  ایک بات کا بھی دکھ ہے نو مئی کے واقعات جو ہوئے وہ بغیر تحقیق کے پی ٹی آئی پر ڈال دیے گئے 

پاکستان تحریک انصاف اچھا کرے کی اگر جلسوں کی اجازت ملے تو پہلا جلسہ جی ایچ کیو کے سامنے کریں اور فوج کے شہداء کے ساتھ اظہار یک جہتی کریں اس طرح جناح ہائوس کے بھی جلسہ کیا جائے

یہ فوج ہماری ہے 

یہ کسی کانگریسی ملا کی نہیں اور نہ ہی حاکم علی زرداری اور میاں شریف کی

فواد گیا سواد گیا

  باعث افتخار۔  

Engineer Iftikhar Chaudhary 

بہت سے لوگوں کو پتہ نہیں ہم مشرف دور میں جنرل اسد درانی کی مہربانیوں کا شکار رہے ہیں اور بڑی جانفشانی سے 71 دن کی جیل کاٹی ہے 

ستم ظریفی دیکھیئے مرے تھے جن کے لئے وہی اب ،،۔مہربان،، ہیں 2002 کے دن 19 مارچ سے کے کر 29 مئی تک کسی کو یاد نہ ہوں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو یاد ہیں یاد رکھیں اس وقت عمران خان مشرف کے ساتھی تھے ریفرینڈم کے دنوں میں میں جدہ جیل میں تھا اور یار لوگ جدہ سے بھاگ نکلے تھے  جس دن میں پکڑا گیا جہاز فل بٹہ فل پاکستان پہنچے 

پتہ نہیں دل ہے کی مانتا نہیں لدھر گھرانے کے روح رواں چوہدری فواد حسین عمران خان کا ساتھ چھوڑ گئے اشتیاق عباسی نے ان کی رخصتی کے موقع پر مجھے چھیڑا اور کہا فواد گیا سواد گیا وہ شروع دن ہی سے نواز شریفیئے ہیں دیہات کے ایڈیٹر ہیں پیارے بھائی ہیں آج سات دن ہو گئے ہیں کہ اس موضوع پر لکھنا چاہتا ہوں 

سوچتا ہوں کیا لکھوں مجھے وفا کے اس پیکر سے اس قدر لگائو تھا کہ میں سمجھتا تھا کہ سب چھوڑ جائیں گے یہ نہیں چھوڑے گا اس گھرانے سے میرا تعلق تقریبا پینتیس سال سے ہے۔ سیدھی شہباز حسین میرے دوستوں میں سے ہیں جو فواد حسین کے ماموں ہیں جدہ میں ایک عرصہ گزارا ہے ان کے ساتھ بیت اچھے ایام گزے یہی تعلق جاندار تھا  بہادری فواد سے پہلی بار لدھڑ میں ملاقات ہوئی بعد میں جب چوہدری شہباز حسین اور فواد حسین پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تو بنی گالہ میں اس شمولیت جلسہ میں میں بھی موجود تھے چوہدری شہباز حسین اور ہم حلقہ ء یاران وطن کے دوستوں کا خاصہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی عزت بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے  اس جلسے میں چوہدری صاحب نے عزت افزائی کہ افتخار آپ کا ایک ایسا مجاہد ہے جس نے ہمیشہ پی ٹی آئی میں شمولیت کی دعوت دی اسی محفل میں عمران خان نے کہا افتخار میرا ڈائہارٹ ورکر ہے جس کے لیے میں چوہدری  شہباز صاحب کا شکر گزار ہوں اور اپنے قائد کا بھی جنہوں نے ہمیشہ شفقت کی ۔

پھر سنگتوں کا سفر جاری رہا اس میں نوید افتخار کا آنا مزید دوستی کو بڑھاوا دے کیا 

چوہدری فواد کا لبرل ہونا اور میرا کہہ لیں رجعت پسند ہونے کی باوجود چلتا رہا جب وہ پی ٹی آئی میں نہیں تھے تو ممتاز قادری کی شہادت کا سانحہ ہو گیا 

پی ٹی آئی میں ہر قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں جس کا اظہار میں نے سی ای سی میں بھی کیا تھا ۔پتہ نہیں لوگ لیڈروں کو خدا کیوں مان لیتے ہیں میں نے ممتاز قادری کی شہادت پر پارٹی میں طوفان مچایا بعض میں نعیم الحق نے کہا ان کی شہادت پر جو جانا چاہتا ہے جائے فواد چوہدری جیسا کے میں نے کہا ہے پارٹی میں نہیں تھے ان کی فیس بک پر اس سلمان تاثیر کی موت کے واقعے کو ممتاز قادری کا احسن اقدام قرار دیا جہاں ریاست اپنا کردار نہ ادا کرے وہاں فرد آگے بڑھتے ہیں ۔ممتاز قادری غازی علم دین کی طرح ایک شہید تھا اس میں۔ اہے عمران خان ہو یا فؤادی چودہری قبر اپنی میں جانا ہے میں نے ان دنوں نوائے وقت میں کالم لکھے اور فواد جو بھی جواب دیا بعد میں پی ٹی آئی میں آئے تو چوہدری شہباز کو کہا کہ فواد کی آمد اچھی ہے مگر مجھے لگتا ہے ان کا آزاد خیال ہونا ٹھیک نہیں ہو گا 

اور یہ بھی آپ نے دیکھ لیا پی ٹی آئی نے ہر مذہبی جماعت سے لڑائی کی ۔خاص طور پر لبیک کے ساتھ  جھگڑا میں نے اس کی پر زور مزمت کی اور خادم رضوی صاحب کے فیض آباد دھرنے کی حمایت کی 

ممتاز قادری کے جنازے میں بھرپور شرکت کی پارٹی کے اہم لوگ شریک جنازہ ہوئے اس طرح فیض آباد دھرنے میں میں خود تو نہیں گیا البتہ بیٹے کو بھیجا 

پارٹی کے چند لوگوں نے کہا کہ یہ پارٹی پالیسی نہیں جس کے جواب میں کہا میری مذہبی  پالیسی یہ ہے لہذہ بکواس بند کریں 

آپ اندازہ لگائیں میں کن لوگوں کی مخالفت برداشت کرتا رہا ایک طرف شیریں مزاری فواد چوہدری مذہب بیزار دوسری جانب علی محمد خان شیر یار آفریدی اعجاز چوہدری ۔اس میں سلمان گانے والا بھی شامل 

ریاست مدینہ کا نعرہ اور ہم

ایک عمران خان ہی تھا جو آزاد خیال لوگوں کے ہوتے ہوئے اپنی سوچ کو لئے آگے بڑھتا رہا 

گرچہ بت ہیں جماعت کے آستینوں میں والا معاملہ ہے 

مگر اس سیاسی دنیا میں فواد چوہدری کا غائب ہونا نا قابل سمجھ ہے 

کیا ان ہر تشدد زیادہ تھا محمود الرشید اور اعجاز چوہدری سے یا وہ جماعت اسلامی کی بھٹی سے نکلے ہوئے تھے 

ویسے اس کی جملے بازی اور باتوں کا جواب نہیں 

اور اس سواد کو ترستے ہیں جو فواد کی باتوں میں تھا 

جلد ملیں گیں کہ کم از کم ہمیں تو بتائیں کہ دیوانوں ہر کیا گزری 

اتنی تیزیاں اور اتنی جلد بازیاں 

بچے تو ہمارے بھی چھوٹے چھوٹے تھے

ظلم نہ کیجئے

باعث Engineer Iftikhar Chaudhary

جون کے مہینے میں پنڈی کا۔موسم ہنزہ کی یاد دکا رہا ہے ظاہر  ہے ہنزہ کسی اور ٹھنڈے شہر کو شرما رہا ہو گا 

اللہ کاکرم دیکھئے تو آسمان سے باد برس رہے ہیں لیکن پاکستان کے سیاسی آسمان پر قہر آلودگی کا شکا ہے بہت عرصہ ہوا یہ تباہیاں اور بربادیاں پاکستان نے نہیں دیکھی تھیں البتہ پاکستان میں ضیاء الحق کے دور میں کچھ اسی طرح کا دور گزرا تھا تھا ہم ان دنوں گجرانوالہ رہتے تھے میں سالانہ چھٹی پر سعودی عرب سے آیا ہوا تھا ذوالفقار علی بھٹو کو انہی دنوں پھانسی دی گئی تھی 

4 اپریل 1979 کا وہ قیامت خیز دن تھا جب ذولفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا 

آج کل جہاں میکڈونلڈز ہیں اوپر کچہری کے سامنے انہیں پھانسی دے دی گئی تھی اور علی اصبح انہیں لاڑکانے کی آبائی قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا لوگ اسے عدالتی قتل کہتے ہیں اور کچھ مکافات عمل کا شکار بھی 

عامت الناس  اسے عدالتی قتل اور کچھ لوگ ان لوگوں کے قاتل کو پھانسی پانے کا دن کہتے ہیں جو احمد رضا قصوری کے والد اور ان کے دور میں ہوئے سیاسی قتلوں کو ذولفقار علی بھٹو کے سر قرار دیتے ہیں ۔اس کا فیصلہ اللہ رب العزت کریں گے اور ہم بعد از مرگ پتہ چلے گا ۔یوں ہم اسے رب کے اوپر چھوڑتے ہیں 

میں ان دنوں ہی کی بات کرنا چاہتا ہوں ۔جاوید ہاشمی ہمارے زمانے کے اسٹوڈنٹ لیڈر تھے 

اللہ ان کی لمبی زندگی کرے 

یہ تاریخ کے واحد سچے سیاست دان ہیں جو ہر وقت سچ بولتے ہیں یوں تو شیخ رشید بھی اس وقت کے لیڈر ہیں اور میرے جیسے ستر کی دہائی کے لوگ زندہ ہیں ۔ہو سکتا ہو کہ سب ہی سچے ہیں ہوں مگر جاوید ہاشمی کو میں ایک معتبر اور مصدق سمجھتا ہوں انہیں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے چالیس رکنی مجلس عاملہ میں سے اڑتیس لوگ ان کا ساتھ چھوڑ چکے تھے پتہ نہیں وہ کون سے دو لوگ رہ گئے تھے لیکن یہ کہنا کہ پیپلز پارٹی نے جیلیں کاٹیں کوڑے کھائے ۔لہڈر تو بھاگ کھڑے ہوئے البتہ کارکن اسی طرح مار کھا رہے ہیں جس طرح تحریک انصاف کے بڑے بڑے بھاگ کھڑے ہوئے اور کارکنوں کو جیلیں نصیب ہوئیں۔

میرا ارباب حکومت سے درخواست ہے کہ ان بھاگنے والوں کو جیلوں میں رکھیں انہیں ان کے گناہ کی سزا دیں 

ان سے پوچھیں کہ آپ نے عمران خان کے دور میں جو لوٹ مار کی اب آپ ان کے معاون کیوں بن رہے ہیں ؟ہم تو شروع دن سے کہتے آئے ہیں کہ ہماری اور آپ کی صفوں میں جو چور ہیں انہیں پکڑیں ۔ویسے پنجابی میں کہتے ہیں کہ منجھاں ،منجھاں دیا پہناں ہوندیاں نیں ۔

کند ہم جنس باہم پرواز کبوتر با کبوتر باز با باز 

مزہ تو تب تھا کہ غریب کارکنوں کو رہا کیا جاتا اور مکان کے جگہ چوروں اور اچکوں کو لٹکایا جاتا ۔ہمیں تو بتایا جاتا رہا کہ یہ عمار کیانی ہے اس نے دوائیوں کی قیمتیں بڑھائی تھی اور اربوں روپیہ بنایا تھا ۔سوچا حکومت بدلنے کے ساتھ ہی یہ نیب کے ہتھے چڑھیں گے  مگر اگلے دن ان کے بیان لئے کہ میں نو مئی کے واقعات کی مذمت کرتا ہوں میرا تعلق فوجی خاندان سے ہے میں پی ٹی آئی چھوڑ رہا ہوں 

بس یہی ایک بیان سب سے لیا گیا اور ان کی جان بخشی کر دی گئی ۔ںے شمار آئے اور نو مئی کے واقعات کی مذمت کی اور اڑنچھو ہو گئے ۔کاش بقول آپ کے ان سے اربوں روپے نکلوائے جاتے اور عوام کی فلاح بہبود پر لگائے جاتے ۔ویسے حیرانگی یہ ہے کہ یہ سب ،،صاف و شفاف،، نکلے اور علی محمد خان جیسے لوگ گنہگار نکلے ۔ایسا شخص جو شروع سے ہی پی ٹی آئی کے عقابوں کے نظر میں رہا جس نے فوج کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولا ۔میرے پاس ثبوت ہیں کہ وہ آخری دم تک اس موقف کی خلاف تھا کہ فوج کے خلاف بولا جائے ۔آج دیکھ رہا ہوں  وہ روز ایک عدالت سے نکلتا ہے اور نکل کر دوسری گاڑی میں شرافت سے بیٹھ جاتا ہے نہ وہ وکٹری کا نشان بناتا ہے 

میرا سوال یہ ہے کہ چوروں لٹیروں اور فوج کے خلاف بولنے والے آپ کے دوست بن گئے اور جو دوست تھے وہ دشمن ۔اس سوال کا جواب مجھے دیجئے 

میں نے اس کا جواب انڈین ٹیلیویژن پر دینا ہے فوج کے دشمنوں کو دینا ہے میجر گروآریہ کو دنیا ہے جنرل بخشی کا منہ بند کرنا ہے ۔ 

سنا ہے شہر یار آفریدی کا بازو مفلوج ہو گیا ہے اور عمران ریاض کسی دوسری ملک میں ایکسپورٹ کر دیے گئے ہیں 

دیکھئے 

اس وقت papa Jhones 

میں بیٹھا پرویز الٰہی کو گھسیٹتے ہوئے گرفتار ہوتے ریکھا رہا ہوں اور یہ خبر بھی مجھے ملی ہے کہ عمران خان کی مذاکراتی ٹیم جس میں پرویز خٹک اسد قیصر شامل ہیں انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا اور وہ اب تھوڑی دیر میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں ۔

خدا دیکھ رہا ہے

19 مارچ سے 29 مئی تک

باعث Engineer Iftikhar Chaudhary

آج کے دن میں اکہتر دن کی جیل کاٹ کر  لاہور ایئر پورٹ پر اترا

 بات پرانی ہے کوئی زیادہ پرانی بھی نہیں کوئی اکیس سال پرانی ۔ہمیں جدہ میں ترحیل بند کیا گیا تھا 23 مارچ والے دن برادر حامد صدیقی کے بیٹے بھی ہمارے ساتھ بند تھے صبح سویرے اٹھے ناشتے کے بعد ہم سارے سیاسی قیدی گہ شپ لگاتے تھے وسیم صدیقی نے کہا چوہدری صاحب دل تو کرتا ہے کہ بھارت کا یوم آزادی منائیں 

یہ سن کر میرے ہوش اڑ گئے 

میں نے فورا جواں دیا کہ کوئی کرایہ دار اگر مکان پر قبضہ کر لے تو گھر کے شیشے نہیں توڑے جاتے ۔ان دنوں ملک مارشل لاء کی زد میں تھا مجھے اس ترحیل جیل آئے کوئی چار روز ہوئے تھے ۔ترحیل اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں ملک سے باہر جانے والوں کو بند کیا جاتا ہے 

یہ باقاعدہ طور پر جیل تو نہیں ہوتی البتہ لوگوں کو بیرکوں میں رکھا جاتا ہے 

یہ جد ہ میں محمود سعید مارکیٹ کے سامنے جہاں کبھی جدہ ایئر پورٹ ہوتا تھا یہ بیرک کسی وقت سعودیہ ایئر لائن کے ہینگر ہوتے تھے 

یہی کوئی بار پانچ سو مختلف بیرکوں میں رکھے جاتے تھے 

انسانی حقوق کا خیال رکھا جاتا تھا بہترین قسم کے عربی کھانے پیش کیے جاتے تھے بیرکوں کا گرمی کے موسم میں میں اے سی کی ٹھنڈک اتنی ہوتی ہر کوئی کمبل لے کر سوتا تھا 

ہمارے ساتھ جو لوگ تھے ان میں اکثر مسلم لیگ نون کے تھے کچھ ایسے بھی تھے جن کا تعلق مسلم لیگ ق سے تھا اور جو جنرل مجید کے قریب تھے کچھ ایسے بھی تھے جو اعجاز الحق اور شیخ رشید کے قریبی ساتھی تھے 

ہم سب ہی ،،جماع نواز شریف،، کے جرم میں اندر تھے میرے کبھی بھی مسلم لیگ ن سے تعلق نہ تھا البتہ جب ایک بار سوپر مینوں نے پوچھا کہ آپ کا نواز شریف کے ساتھ کیا تعلق ہے تو میں نے جواب دیا کہ پہلے تو نہیں تھا اب ہے جو کرنا ہے کر لو ۔سعودی عرب میں کون سی پارٹی شغل میلہ لگانے کے لیے لوگ چھوٹے موٹے فنکشن کر لیا کرتے تھے ۔

ہوا یوں کہ عظمت نیازی جن کا تعلق مسلم لیگ ق سے تھا وہ کسی وجہ سے دھر لیے گئے انہوں نے ایک دن مجھے فون کیا کہ آپ دو اخبارات کے نمائندے ہیں آپ بھی ہمارے لئے آواز نہیں اٹھاتے 

پھر انہی دنوں اسکول کی مینیجنگ کمیٹی کے انتحابات ہو رہے تھے لوگوں نے مجھے کمیونٹی می طرف سے ہیڈ بنایا گیا ۔پاکستانی سفیر جنرل اس درانی تھے اور ان کا نائب کرنل طارق تھا اوپر سےمارشل لاء کا دور تھا انہی کی چلتی تھی قونصل جنرل بے چارے دپک کے رہتے تھے ۔سب کچھ فوجیوں یا سابق فوجیوں کے ہاتھ میں تھا 

اسکول کی ایک کمیونٹی میٹینگ قونصل خانے میں تھی جس کی صدارت سفیر پاکستان کر رہے تھے ۔ساتھ میں جماعت اسلامی کے مرحوم دوست مسعود جاوید بٹھائے گئے 

میں نے اعتراض اٹھایا کہ سر ہم نے جس کے خلاف یہ اجلاس منعقد کیا ہے آپ نے انہیں اپنے پہلو میں بٹھایا ہوا ہے انہیں نیچے ہمارے ساتھ بڑھائیں 

جس کا موصوف نے برا منایا 

اور مجھے بیٹھنے کے لیا حکم دیا گیا ۔میں نے احتجاج کرتے ہوئے تقریب کا بائیکاٹ کیا یہی وجہ تھی کہ موصوف کی طبع نازک پر گراں گزرا اور مجھے بھی ،،جماع نواز شریف،،، میں ڈال دیا گیا واقع کے دو۔ آر روز۔ عد مجھے میرے کمپنی سے سعودی اتھارٹی نے اٹھا کیا اور یوں میں ترحیل میں آگیا 

بیت سوں کا خیال ہے کہ آپ کو سعدی عرب سے کیوں گرفتار کیا گیا ۔۔بس اتنا جان کیجئے جنرل مشرف پاکستان کے کل فی کل تھے بلکہ اس خطے میں امریکہ کے نمائندہ خاص تھے اور ان کا سعودی حکومت پر رعب داب تھا 

نایین الیون میں سعودی عرب پر بھی نزلہ ھرا جس میں شاہ عبداللہ نے مشرف کی مدد سے جان خلاصی کرائی 

اسی وجہ سے کرنل طارق سعودی اینٹیلجنس سے مل کر پاکستانیوں پر قہر بن کر ٹوٹے 

یہ فرق ہوتا ہے سیاسی اور فوجی حکمرانوں میں ۔ویسے تو موجودہ حکومت نے بھی فوجیوں کی حکومت کو کی ھے چھوڑ دیا ہے 

مزے کی بات ہے میں نے جنرل اسد درانی کے اس فعل کو پوری فوج کا قصور نہیں فرار نہیں دیا اور ہمیشہ فوج کا ساتھ دیا 

مشرف کے بعد جب پیپلز پارٹی اور ن کی حکومت رہی میں نے سر توڑ کوشش کی کہ فوج کو بدنام کرنے والوں کا ساتھ نہیں دیا 

اس وقت آپ کو پتہ چل گیا ہو گا کہ میں کیسے ن لیگ میں چلا گیا ۔اور ایک اہم واقعہ بھی ان دنوں ہوا میری چچا اور بیگم کے والد صاحب اس دنیا سے رخصت ہو گئے اس اندوہناک خبر نے ہمیں ہلا کے رکھ دیا لیکن بیگم کے حوصلے کی داد دیتا ہوں قونصل جنرل کی بیگم پیغام کے آئیں اگر نوید کی امی پاکستان جانے چاہیں تو ہم حاظر ہیں جس ہر میری بیگم نے جواب دیا میں اپنے خاوند جو چھوڑ کر نہیں جا سکتیں ۔یہ بات رہتی دنیا تک یاد رہے گی 

میں در اصل بتانا چاہتا ہوں کی یوم پاکستان پر ہم پر کیا بیتی اس سے پہلے والے یوم پاکستان کو ہم نے نے اپنی گھر کی چھت پر منایا میں نے ایک Audi کسٹمر سے کہہ کر جو پاکستانی تھے اور ان کی الیکٹریشن کی دکان تھی سے کہہ کر اپنی بلڈنگ کی چھت پر چراغاں کیا 

لوگ میری رہائش گاہ کو پاکستان بلڈنگ کہا کرتے تھے 

اسی بلڈنگ کو چراغاں کر کے میں نے ایک انفرادیت پیدا کی ۔نہ اس سے پہلے اور نہ ہی اس کے بعد جدہ کیا پوری مڈل ایسٹ میں یہ اعزاز مجھے ہی حاصل رہا جو پردیس میں یہ کام کر گیا ۔اسی بلڈنگ کی چھت پر بچے ٹیبلو پیش کرتے تقریریں کرتے صدارتی ایوارڈ یافتہ نور جرال نے بھی نعت سنائی رو ء ف طاہر مرحوم نے بھی تقریر کی مشہور صحافی خالد منہاس بھی ان میں شامل تھے 

آج کے بچے پاکستان کو لیڈ کر رہے ہیں ان میں پاکستان تحریک انصاف اور دیگر پارٹیوں میں اپنے کارنامے دکھا رہے ہیں 

آج ہم ناشتے کی ٹیبل پر وسیم صدیقی کی بات کو یاد کرتے ہیں وسیم بیرون ملک سے ایم بی اے کی ڈگری کر کے آیا تھا وہ مشہور نقاد عرش صدیقی کا بھتیجا تھا ہم سب سے زیادہ اچھے مشاہرے پر بن لادن کمپنی میں کام کرتا تھا باقی دوست معمولی ملازمت کرتے تھے 

لیکن اپنی اپنی جگہ اہم تھے البتہ عظمت نیازی کا کاروبار اچھا تھا بعد میں ہمارے ساتھ مسعود پوری بھی ان ملے ایک دو روز کے لئے ارشد خان بھی رونق بخشنے آ گئے مرحوم سعودی عرب مسلم لیگ کے صدر تھے ان کے بیٹے نے انہیں چھڑوا لیا بڑی چیز تھے شریفیہ خاندان سے بہت گہرا تعلق تھا 

میں ان دنوں کی یاد کرتا ہوں تو ان کا تقابل آج سے کرتا ہوں ملک پاکستان میں لوگ سیاسی قیدی ہو رہے ہیں ان کی لسٹیں بھی عام کو چکی ہیں ان کے ساتھ تشدد کیا جا تا ہے اور جب پنجاب پولیس تشدد کرتی تو چوہا بھی ہاتھی بن کر کھیت سے نکل پڑتا ہے 

انگیرز دور کے جنرل ڈائیر کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ۔بادر اور چار دیواری کے تقدس کو مجروح کیا جاتا ہے اس میں سینیٹر رکن اسمبلی بوڑھے جوان سب ایک ہی بھائو بیچے جاتے ہیں 

 اور تو اور چھوڑیں اس ملک میں شہباز گل کے ساتھ جو سلوک ہوا آپ کو علم ہے 

اس قدرتشدد کے صرف موت نہیں 

 اسی دوران ارشد شریف کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھی دنیا جانتی ہے ۔ملک سے بھگایا گیا اور اور ابو ظہبی سے کینیا تک موت کو اس کے پیچھے لگایا گیا 

ظل شاہ کل پی کی بات ہے ۔اوع افسوس یہ ہے کہ فتنہ گر کہتے ہیں کہ روڈ ایکسیڈینٹ میں مارا گیا 

اعظم سواتی پچھہتر سالہ شخص کے ساتھ ہائی برڈ حکومت نے جو کچھ کیا وہ بیان کے قابل نہیں وہ آج بھی ان دنوں کو نہیں بھولتے ۔اس کے بر عکس سعودی عرب میں جو میں نے 71 دن گزارے ان کی تعریف نہ کروں تو اچھا نہیں ہو گا اللہ سعودی عرب کے شاہوں کو درازی عمر سے نوازے ۔اپ اگر کام کریں اور بس کام ان کے نظام کو نہ چھیڑیں تو آپ کو کچھ نہیں ہو گا اور ہاں اگر پنگے لئے تو پھر خیر نہیں ۔

نوجوان کیپٹن محمد زہرانی کی جتنی تعریف کروں کم ہے اس نے میرے فنگر پرنٹ نہیں ہونے دیے اگر فنگر پرنٹ ہو جاتے تو دوبارہ نہیں جا سکتا تھا 

 مجھے ہر طرح کی سہولت دی مستنصر حسین تارڑ کے نوجوان بیٹے نے میرا بہت خیال رکھا غالبا ان کا نام سلجوق تھا 

قونصل جنرل نواز چوہدری نے فلیگ والی گاڑی سمیت جیل کا وزٹ کیا 

غرض جدہ کی وہ جیل ان پاکستانی ظالموں کی جیل سے بہت بہتر تھے 

ہمارے کھانا باہر سے آتا تھا 

مسعود پوری کو تو میں ایک عرصے جانتا تھا ہماری فیملی تعلقات تھے لیکن جیل میں رہ کر ان کی ذاتی خصوصیات سے واقف ہوا 

ہر دل عزیز اور مہربان حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے بھائی نہ صرف پاکستانیوں کے کام آتے بلکہ اپنے موبائل سے مصریوں صومالیوں اور دیگر ملکوں کے لوگوں کو انہیں فون کی سہولت دیتے ۔لاہور کے میاں منیر نے چوہدری فاروق جاوید کے کہنے پر جنرل مشرف کو شکائت لگائی کہ پاکستانی مارے گئے 

مسعود پوری کا فون ہر ایک کے لیے کھلا رہتا ۔وہ اپنے اکائونٹ سے اپنے ہوٹل سے کھانا منگواتے ۔

میں نہیں سمجھتا کہ ان جیسا سچا پیار کرنے والا بھائی کوئی اور ہو گا ۔

یہاں میں ان لوگوں کا بھی ذکر کرنا چاہوں گا کہ جو میرے گرفتار ہوتے ہی پاکستان اور دوسرے ملکوں کو فرار ہو گئے خود احس رشید لندن چلے گئے تھے میں ان کا نام لے کر انہیں رسوا نہیں کرنا چاہتا لیکن وہ بھی یاد رہیں گے 

میرے گھر اور میری بلڈنگ میں لوگ آتے نہیں تھے کہ کہیں پکڑے نہ جائیں ۔میرے بچے پریشان رہے ۔

چوہدری اکرم کو کبھی نہیں بلا سکتا جس نے جنرل اسد درانی کو کہااپ نے چار نامور پاکستانی بند کرا دیے ہیں جس ہر ان کا کہنا تھا یہ چار ہیں چار سو بھی ہوں تو بند کرایوں گا 

وہ شہ سے زیادہ شہ کی وفاداری کر رہے تھے 

ان سے بہت لوگوں نے بات کی وہ جو الریاض میں ان کے ساتھ رہے 

قونصلیٹ کے چند لوگ میری جاسوسی کرتے تھے ان کا کام تھا کہ وہ اپنی بیگمات کے ذریعے معلومات حاصل کرتے ان کی خواہش تھی کہ پوچھا جائے یہ کب جا رہے ہیں تا کہ باقیماندہ لوگ رہا ہو سکیں ۔جنرل۔مشرف نے تو ہمیں رہا کرنے کا آرڈر دے دیا تھا یہ جنرل اسد درانی اور کرنل طارق تھے جو میرے جانے کے منتظر تھے اور وہی ہوا جو یہ چاہتے تھے 

مجھے مسعود پوری نے کہا تھا کہ آپ چند دن ٹھہر جائیں ہمیں آرڈر آنے والا ہے  آپ رک جائو اور ایی پورٹ سے واپس آ جائیں مگر میری صد تھی اب جانا ہی جانا ہے آخری بار کیپٹن صفر سے ہوئی اور وہ بھی الوداعی ملاقات تھی 

ادھر میاں نواز شریف شہباز شریف کلثوم نواز نے بھی برابر رابطہ رکھا ۔میاں صاحب نے تو میرے ساتھ مسعود پوری کے فون ہر بات بھی کی حوصلہ دیا اور کہا کہ میں کوشش کر رہا ہوں ۔اپ کی دلیری کو سلام 

اعجاز الحق تو آئے روز فون کر کے بے جی کو بتایا کرتے کہ افتخار ٹھیک ہے 

ماں بڑا حوصلہ دیتی رہیں مگر جہاں واپس آ کر پتہ چلا کہ ان کا حوصلہ فون کی حد تک تھا اور وہ دن بھر روتی تھیں اور رات کو مصلی ہر دعا کیا کرتی تھیں 

ان ظالموں کو کوئی دعا بد دعا کام نہیں کرتی تھیں اور میرے پاکستان آنے کے بعد چند روز ہی ذندہ رہیں 

آج جب جنرل اسد درانی بات کرتے ہیں تو دل مسوس جاتا ہے ماں جی کہا کرتی تھی ،،او جانے،، میں بھی صبر کر لیتا ہوں

آج 23 مارچ ہے اور وہ بھی تھے آج میں گھر سے باہر کسی نامعلوم جگہ سے کالم لکھ رہا ہوں کہ ہارٹ آپریشن کے بعد میری صحت اچھی نہیں اگر صحت اچھی ہوتی تو کیا میں اسلام آباد میں عمران خان کا استقبال نہ کرتا اور میرے ہاتھ مائیک نہ ہوتا میں جو ایک شعلہ بیان ھونے کہ باوجود گونگے کی طرح 502 میں دبک کے نہ بیٹھا رہتا 

جیلیں سونے کی بنی ہوں تو جیل ہی ہوتے ہیں مگر جدہ سعودی عرب کی جیل کے تقابل ان ظالموں کی جیل سے کرتا ہوں تو دلی افسوس ہوتا ہے 

آپ شاہی نظام کو برا کہتے ہو اگر میں صرف صبح کا ناشتہ ہی لکھ دوں تو آپ حیران ہوں مکھن،جام اور روٹی اور دوپہر میں گوشت والے چاول اور رات کو اسی طرح ویسے ہم باہر سے کھانا منگواتے تھے یہ ان کی طرف سے تھا  اور یہاں تو انسان کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا 

سنا ہے عمران ریاض خان اب اس دنیا میں نہیں رہے اللہ نہ کرے اور یہ بھی سنا ہے کہ شہر یار آفریدی کے بازو مفلوج ہو گیا ہے 

پتہ نہیں ظالم کس منہ سے اللہ کے سامنے جائیں گے 

دعا کریں کہ پاکستان بچ جائے آمین

پی ٹی آئی کے دشمن

باعث Engineer Iftikhar Chaudhary

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عادل راجہ اور مہدی اور اس قماش کے لوگ پی ٹی آئی کے دوست ہیں ؟بعض اوقات لڑائی جھگڑوں میں اس قسم کے لوگ بڑا نقصان کرا دیتے ہیں اپنے دائیں بائیں نظر دوڑائیں ،،اگ لایا مت،، انہیں ہی کہتے ہیں خود بیرون ملک بیٹھ کر گوگل سے پیسہ بٹورتے ہیں اور لیڈران کے کچے کانوں میں آگ بھرتے رہتے ہیں 

عدنان خان کے دائیں بائیں بھی اسی قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔کوئی سمجھ دار بزرگ نہیں آپ نے دیکھا ہو گا کہ خان صاحب نے اس قسم کے لوگوں کو بھی مشیر رکھا ہوا ہے 

اچھا مشیر اور دوست وہ ہے جو دوست کو اچھے کام کا مشورہ دے  زندگی میں بہت سے جذباتی فیصلے کرتے کرتے میں اپنی دوست ملک محی الدین کی وجہ سے بچا ہوں کاش اس کا ساتھ بچا ہوں کاش اس کا ساتھ پاکستان میں بھی ہوتا 

خان صاحب یہ جو بھی حالات ہیں اس میں ہمارا قصور بھی ہے  اور ان دوستوں کا بھی جو آپ کی ہر بات ہر آمین کہتے ہیں میں جب بھی اپنے ساتھ بیٹھا آپ کو مشورے دیے اور آپ برہم بھی ہو جاتے یہی وجہ ہے کہ پورے ساڑھے تین سال کے اندر صرف ترجمانوں کی میٹینگ میں ایک بار شریک ہوا اور وہ بھی کسی مہربان کی وجہ سے اور وہاں بھی ہاتھ اٹھاتا ہی رہ گیا شہباز گل نے کہا آپ کیوں ہاتھ اٹھا رہے تھے میں نے کہا میں کہنا چاہتا عثمان بزدار کو ہٹائیں گل بولا چوہدری صاحب بات وہ کرتے ہیں جو لیڈر کو اچھے کھیل ۔آج وہی کچھ ہوا کہ لیڈر کی بات کو ٹوکنے والے پی ٹی آئی میں دور دور تک نظر نہیں آتے اور لیڈر کو مشکل میں دھکیلنے والے  دور بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں 

لیکن ہم ہی ہیں جو مشکل وقت کے ساتھ قائد کے ساتھ کھڑے ہیں ۔فوج کے ساتھ ٹکرائو کا مشورہ دینے والے ،،بیوقوف دوستوں،، کو سلام ۔افسوس صد افسوس کے اچھی خاصی کامیابیوں کے حصول کے بعد ہم نے راکھ چھاننے کو پسند کیا 

سوچتا ہوں میں اتنا بڑا شخص نہیں نہ ہی میں عمران خان جیسے بڑا سیاست دان ہوں 

پھر سوچتا ہوں وہ اکیلا رہ جائے گا میرے جیسے کئی صرف یہ جان کر عمران خان کا ساتھ دے رہے ہیں کہ وہ اکیلا ہے اور ہجوم میں بھی اکیلا ۔یہ زمان پارک اب تحریر سکوائر کیوں بن گیا ہے 

مجھے ڈر ہے کہ وہ مرسی نہ بنا دیا جائے 

  آپ کو پتہ ہے وہ اپنے دکھ چھپا رہا ہے احمد سلطان صاحب کبھی آپ عمران خان کو روتے دیکھا ہے جی میں نے دیکھا ہے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ کسی پتھر دل کا بنا ہوا ہے نہیں وہ عام آدمی کی طرح سوچتا ہے 

 چند سال پہلے پنجاب یونیورسٹی میں عمران خان گئے ان کے اس دورے کی روداد تو آپ کو پتہ ہو گی

 البتہ ایک تصویر دیکھی اس کے گریبان میں ایک طالب علم نے ہاتھ کچھ ایسے رکھا ہوا کہ جیسے وہ اس کے سانس کو ختم کرنا چاہتا ہو ۔ اس ایک تصویر نے آئی ایس ایف بنا دی 

تصویر دیکھی تو سات نمبر گلی کے میرے دوست جو ایئر پورٹ سوسایٹی آفس میں کام کرتے تھے وہ شہر یار کے گھر سے نیچے کی طرف آ رہے تھے نیازی صاحب کا ایک ہی ڈریس تھا بوسکی کی قمیض اور سفید شلوار 

میرے پاس سے گزرے تو میں نے خبریں اخبار میں چھپی تصویر انہیں دکھائی اور کہا بھائی دیکھو عمران خان کے ساتھ کیا ہوا ہے ؟ وہ بولے،، چوہدری صاحب چنگا ہویا اے،، یہ بندہ میرا رشتے دار ہے اسے خاندان کے لوگوں نے ہزار بار سمجھایا کہ تم شہزادوں جیسے زندگی گزار رہے تھے بلکہ کئی شہزادے وہ تمنا کرتے تھے کہ وہ عمران جیسی شہرت پائیں اس نے نہ اپنے باپ کی سنی نہ رشتے داروں کی اور آج یہ واقعہ ہو گیا۔

 نیازی کو میں نے بیٹھک میں بٹھا لیا اور اس سے سننے لگا ۔

میں سعودی عرب سے 2002 میں جبری طور پر نکالا گیا تھا یہاں اسلام آباد میں موٹروں کی ایک کمپنی میں کام کرتا تھا ۔نیازی صاحب بولے جا رہا تھا اور میرے دل کے اندر طوفان اٹھ رہا تھا میں اس وقت پی ٹی آئی میں شمولیت کر چکا تھا اور مجھے عمران خان نے ڈپٹی سیکرٹری نامزد کیا تھا وہ کہے جا رہا تھا کہ عمران خان کیسی شاہانہ زندگی گزار رہا تھا جمائمہ کی قصے شہزادی ڈائنا کی باتیں دنیا کے ایک بڑے بزنس مین کا داماد بن جانا، کچھ میں جانتا تھا کچھ نیازی نے بتایا ۔میں میری سوچ اور طرف جا رہی تھی 

رشتے دار کہہ رہا تھا کہ اس کو سیاست جیسے ،،گندے،، کام میں نہیں آنا چاہئے تھا آرام سے مزے کرتا شہرت اور دولت تو اس نے کما ہی لے تھی۔ اب لونڈوں کے ہاتھوں زلیل ہوریا ہے خود تو زلیل ہوا ہماری قبیلے کو بھی بدنام کر دیا ۔ 

پھر اس کے ایک اور ساتھی احسن رشید جنہوں نے مجھے پی ٹی آئی میں شامل کرایا وہ بھی یاد آئے جس کا ذکر بعد میں کسی اور کالم میں کروں گا 

نیازی صاحب اور نمبر سے رخصت ہوئے تو میں نے سوچ لیا کہ نیازی عمران کو افتخار گجر کا ساتھ مل جائے تو کیا بات ہے ۔

میں نے زندگی بھر مظلوم کی خدمت کی ہے جدہ جیل بھی بھگتی وہ بھی ایک اور نیازی کے کہنے پر اشتعال میں آکر سفیر پاکستان کو للکارا تھا اس نیازی کا نام عظمت ہے اور آج کل رحیم یار خان میں رہتا ہے اس نے جیل سے مجھے فون ہے کہا کہ آپ اخباری نمائندے ہو ہماری مدد کرو ہمیں مشرف کے ٹوڈی نے بند کر رکھا ہے 

میں نے اس نیازی کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں میں بھی چند دنوں میں اس کے پاس جیل میں پہنچ گیا ۔

عمران خان نے کتنے دکھ جھیلے یہ ایک لمبی داستان ہیں تحریک انصاف ، افسوس ہے اس جدوجہد کو کتابی شکل میں نہیں لا سکی یوں تو ہمارے پاس پڑھے لکھے لوگوں کی کمی نہیں لیکن اس جانب توجہ نہیں دی ۔ اور یہ کمی محسوس کی جائے گی ۔اعجاز رفیع بٹ شعبہ تعلیم و تربیت کے انچارج بنے ہیں انکے جذبے بھی ان کی قامت کی طرح ہیں انشاللہ امید ہے کہ وہ کریں گے 

یہ سیاست در اصل ہے کیا اگر یہ ،،گند،، ہے تو پھر اچھے لوگوں نے اسے کیوں اپنایا ۔یہ الہی سنت ہے یہ اس لیے کہ اللہ کے بندوں کے کام آنا ہی سیاست ہے یہ الگ بات ہے کہ یہ سیاست غلط بندوں کے ہاتھ لگ گئی ۔آپ نے کبھی سوچا کہ چند لوگ ہماری دائیں بائیں ہوتے ہیں اور وہ ایک الگ دنیا کی باسی دکھائی دیتے ہیں فلاحی کام اور اور معاشرے کو خوبصورت بنانا ان کا مطمع نظر ہوتا ہے 

اور وہ چند لوگ معاشرے کو بدل دیتے ہیں اسٹینلے والپرٹ نے کہا تھا کہ بعض لوگ تاریخ کو بدل دیتے ہیں اور جناح ایسے شخص ہیں جنہوں جغرافیہ بدلنے کے ساتھ تاریخ بھی بدل دی ۔قائد نے کھوٹے سکوں کے ساتھ پاکستان بنا ڈالا 

بڑے لوگوں کی زندگی میں بڑے موڑ آتے ہیں وہ اپنی زندگی کو اللہ کی دی ہوئی امانت سمجھتے ہیں آپ مولانا مودودی کو دیکھ لیں انہوں نے اپنی زندگی میں کتنے لوگوں کو متاثر کیا ۔ایک وقت میں انکی مخالفت میں کتنے لوگ اکٹھے ہوئے ۔اور بہت سی مثالیں ہیں 

لیکن عمران خان کی جدوجہد تو ہم نے اپنے سامنے دیکھی ہے ۔ایک اینکر نے پی ٹی آئی کے اوائل دنوں میں مجھ سے پوچھا عمران خان کو فلاحی کام ہی کرنے چاہئے تھے یہ سیاست میں ا کر انہوں نے کیا کمایا 

میرا جواب تھا آپ کی مرضی ہے کہ وہ واشنگ پاؤڈر کی ،،مشہوری،، میں آتا اور کہتا پھرتا یہ لے لو،اچھا گند صاف کرے گا ا

اللہ نے اس سے بڑے کام لینے ہیں لوگ پوچھتے ہیں کہ عمران خان نے کون سے ایسا تیر مارا ہے اور اس نے اپنے ساڑھے تین سالہ کیا کیا کوئی میگا پراجیکٹ ؟میں یہاں تحریک انصاف کے وہ کام نہیں گنوانا چاہتا جو اس نے کیے ہیں اور جسے دنیا کے بہترین پروگرام گردانا گیا آپ آٹے تقسیم کرنے گئے تو 58 جانیں گنوا دیں 

ان سب باتوں کو چھوڑ دیں آپ لوگوں کے میگا پراجیکٹ کیا تھے جس سے مال پانی بنتا وہ ہیں آپ کے میگا پراجیکٹ ہمراہ میگا سے بہت بڑا پراجیکٹ اپنے نبی کی حرمت کا عالم سے اعتراف کرانا ہے ۔

یوں تو کرونا کے دو سال ہمارے دور میں آئے ہم نے پاکستان میں بند صنعتوں کو چلایا آپ دیکھ لیں اب کیا حال ہے ٹیکسٹائل کی صنعت تباہ ہو گئی کئی ہزار لوگ بے کار پھر رہے ہیں مہنگائی کا جن بوتل سے باہر نہیں لوگوں کے گلے تک پہنچ گیا ہے ۔ہمیں اس بات ہے بھی گلہ نہیں کہ اب مہنگائی کے خلاف میڈیا بھی نہیں بولتا ۔اس دور میں تاریخ میں ایسی مہنگائی نہیں ہوئی لیکن اس میڈیا نے چپ سادھ رکھی ہے 

سیاست کو خدا را گند نہ سمجھیں چند گندے لوگوں کی وجہ سے اس کام کو برا سمجھا گیا یہ کوئی ہمہ وقتی کام نہیں آپ اپنے روز مرہ کے کام کرتے ہوئے بھی سیاست کر سکتے ہیں ہاں اسے زریعے معاش بنانا غلط ہے 

ضروری نہیں ہر سیاست دان زرداری اور نواز شریف یا فضل الرحمن ہیں اور میں یہ بھی کہتا ہوں کہ سارے لوگ تحریک انصاف کے ہی اچھے نہیں ان میں بھی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی دور میں غلط کام کئیے ہوں گے زرداری اور نواز شریف ہونا ایک کیفیت کا نام ہے جو کسی ہر بھی طاری ہو سکتی ہے یہ بیماری کا نام ہے ۔یہی وجہ ہے میں کہتا ہوں کہ تحریک انصاف کو اکثر ،ٹکٹ بدلنے کی ضرورت ہے ۔میں نے ایک پوسٹ لگائی کہ اگر عمران خان نواز شریف کو بھی ٹکٹ دیں تو ہمیں منظور ہے ۔

اکٹر لوگوں نے اسے سراہا لیکن میرے اچھے دوست حاجی عمران نے لکھا کیوں جی ہمیں یہ شعور عمران خان نے ہی دیا ہے کہ اچھے امیدواروں کا انتحاب کیا جائے حاجی عمران جیسے لوگ کسی بھی پارٹی کی شان ہوتے ہیں میں راشد حفیظ سے کہوں گا ان کا گلہ دور کریں ۔اصل بات یہ ہے کہ عمران خان کہ کہنے پر لوگ چلیں گے ان کے ٹکٹ کو بھی عزت دی جائے گی لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ان لوگوں کو منظر سے ہٹا دیا جائے جن پر کوئی کرپشن کا الزام ہو ۔

ایم کیو ایم کی ایک بات مجھے اچھی لگی کہ اس نے الیکٹیبل نہیں بننے دیے آج اللہ کے فضل سے پی ٹی آئی تیسرے انتحابات میں جا رہی ہے کچھ لوگ 2013 کے انتحابات میں سامنے آئے جن کے معاشی حالات ٹھیک نہ تھے ان کے ان کےوارے نیارے ہیں پارٹی کو چاہئے اب انہیں ،،مکمل ارام،، کرنے کا موقع دے اور ان لوگوں کو آگے لائے جو پارٹی کے ہر مشکل وقت میں فرنٹ لائیں ہر رہے ۔میری ان باتوں سے دوست ناراض ہوتے ہیں 

بھلے سے ناراض ہوں کچھ لوگوں کا خیال ہے ہمارے بہت سے لوگ کرپشن اور لوٹ مار میں بدنام زمانہ پارٹیوں کو بھی پیچھے چھوڑ چکے ہیں 

عمران خان ان ٹکٹ نہ دیں اور پھر وہ لوگ آگے لائیں جو صاف ستھرے ہوں ۔

ہم جب برے کو برا کہیں تو یہ نہ سوچیں کہ یہ ہماری برادری کا ہے یہ ہمارا رشتے دار ہے مزہ تو تب ہے کہ ہم سوچیں کہ ایماند دار ہے شکیل گجر میرا ایک دوست ہے اس نے جب میری پوسٹ ہڑھی تو کہا کہ چوہدری صاحب میں آپ کو جانتا ہوں لیکن خدا را یہ کام نہ کریں اچھا بندہ کوئی بھی ہو اسے آگے لائیں 

بات اصل میں یہ ہے کہ اچھے برے کی پرکھ میں میرا عمران خان مارا جائے گا اس طرح تو پارٹی ہار جائے گی تو عمران خان خان تو گیا ۔ ہمارے منتحب شدہ لوگوں نے کارکنوں کو اس قدر تنگ کر رکھا ہے کہ لوگ نکو نکو ہو چکے ہیں ایسے میں افتخار چودھری کیا کرے ۔

اس کا حل یہ ہے کہ لوگ پارٹی سے وابستہ رہیں اور ہر برے شخص کو احساس دلاتے رہیں کہ تم برے ہوئے اور ہم ووٹ عمران خان کو دے رہے ہیں تمہیں نہیں 

یہ بات بھی سچ ہے کہ ووٹ ہے ہی عمران خان کا 

سیاست ایک جہد مسلسل ہے ایک اچھے لیڈر کے ارد گرد اچھے لوگ ہی رہ جائیں گے

میری بے جی

باعث Engineer Iftikhar Chaudhary

ملک سے باہر سعودی عرب سے میرے ایک  دوست وقار صاحب بیت عرصہ رہے ہیں  کچھ عرصہ پہلے انہوں نے ایک پوسٹ لگائی۔۔پوسٹ میں چند دوستوں کی بیٹھک کا ذکر تھا سب دوست ایک دوسرے کو بتا رہے تھے کہ میری ماں کو کھانے میں کیا پسند تھاہر کوئی کچھ نہ کچھ بتا رہا تھا لیکن ایک دوست نے آسمان کی طرف دیکھ کر گھورنا شروع کیا۔وہ بتا نہیں سکا سوچتا رہا کہ اس کی ماں کو کیا پسند تھا وہ اپنے خیالات کو جمع نہ کر سکا۔اس نے کہا دوستو!بہت سوچا بہت کچھ ذہن میں آیا زور دیا بس اتنا یاد ہے میری ماں کو،، بچا کھچا ،پسند تھا۔جو بھی بچ جاتا میری ماں اسے کھا لیتی تھیں 

میں اس وقت سے سوچ رہا ہوں کہ اس محفل میں بیٹھا شخص میں تھا۔میں نے اپنی ماں کے ساتھ زندگی کے 47 سال گزارے ہوش کے 40 سمجھ لیں میں نے بے جی کو اہتمام سے کسی میز پر بیٹھے کھانا نہیں کھاتے دیکھا البتہ جب ماں جدہ آئیں تو ہم نے ریجیں نکالیں۔پانچ بھائیوں اور ایک بہن کے ساتھ ہم چھ بچے تھے ہر ایک کی اپنی فرمائش ہوا کرتی ماں محدود وسائل سے سب کو پورا کرنے کی کوشش کرتیں میری عادت تھی رات کے آخری پہر اٹھ جاتا ٹھنڈی چائے یا ٹھنڈے دودھ میں گڑ ملا کر روٹی کے ساتھ کھاتا۔ایک بار قلعہ دیدار سنگھ کسی شادی پر گئے۔بے جی نے میزبان خاتون سے کہا جو چائے مجھے دینی ہے وہ الگ کسی برتن میں ڈال دیں میرا بیٹا رات کو اٹھ کر مانگتا ہے میں اسے دوں گی۔میرے بچپن کی یادوں میں یہ ایک یاد ان دنوں کی ہے جب میں تقریبا ۵ سال کا  تھا۔

مائیں تو ساری دنیا کی انمول ہوتی ہیں میری ماں بھی ان جیسی ماؤں کی طرح تھیں لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ ماں اپنی ہی بہترین ہوتی ہے ۔آج جب وقار بھائی زندگی کی ایک مشکل لڑائی میں مصروف ہیں آگیں دعا کریں وہ ٹھیک ہو جاءیں اللہ نے انہیں ٹھیک کر دیا ہے   انہوں نے ذکر چھیڑا تو ماں یاد آ گئی۔ہمارے گھر میں جب کوئی خاص مہمان آتا تو آلو گوشت شوربے والا بنتا سبزی والے چاول توے کی روٹیاں۔گلابی رنگ کا کسٹرڈ بنایا جاتا جس میں کیلے ڈالے جاتے۔مہمانوں کے جانے کے بعد ماں ہمیں سیڑھیوں کے نیچے بنے چولہے کے پاس بٹھا کر کھانا کھلاتیں۔بعد میں  خود ٹھنڈی روٹی کے ساتھ شوربے سے کھا کر اللہ کا شکر ادا کرتیں۔70سال کی عمر میں جدہ میں ایک مصری ڈاکٹر کے پاس لے گیا اس نے جب بے جی کا بلڈ پریشر چیک کیا تو کہا ما شاء اللہ بہت اچھا ہے۔ماں جی اس عمر میں دبلی پتلی تھیں پوتوں کے ساتھ مل کر خوب رونقیں لگاتیں۔بڑا بھاری سا گدا بغل میں دبا کر ایک کمرے میں لے جاتیں پوتے پوتی خوش ہو جاتے بے جی کی Raybone کی میری لگا کر تصویریں بناتے  ۔ڈاکٹر دوست تھا کہنے لگا اپنی ماں سے پوچھیں کیا کھاتی ہیں بے جی نے بتایا زندگی میں کبھی ایک روٹی سے زیادہ نہیں کھائی اور پنکھے کے نیچے نہیں سوئی۔ایک بار گھر میں ہی گم ہو گئیں ہم عزیزیہ اسکول کے ساتھ والی گلی میں رہتے تھے پاکستانی دوست اس گلی کو چودھری والی گلی کہتے تھے۔بڑا تلاش کیا تو جائے نماز کے اوپر سوئی ہوئی پائی گئی اور وہ بھی بڑے ڈائنینگ ٹیبل کے نیچے۔ آج دلدار جو بیٹی کا باپ ہے اس نے ڈھونڈا کہ بے جی میرا چھوٹا کمبل ۔

اپنی بیگم سے ایک روز پوچھا کہ تم ہی بتاؤ کہ بے جی کو کھانے میں کیا پسند تھا تو اس نے بتایا کہ رمضان میں گھر کے بنے ہوئے دہی بھلے شوق سے کھاتی تھیں۔یقین کیجئے یہ اس نے بتایا تو مجھے پتہ چلا۔ایران میں چھوٹے بھائی کے پاس رہیں واپسی پر آ کر ایرانی لوگوں کے طرز حیات پر باتیں کرتیں ان کی یہ بات سن سن کر ہنسی چھوٹ گئی جب جبین نے بتایا کہ تہران چھت ہر چڑھ کر بادلوں سے باتیں کر رہی تھیں میریا حامد توں کدھر ہے؟, ۔چھوٹی بھاوج نے کہا بے جی یہ ایران یے حامد کینیڈہ میں ہے٫ حامد نواسہ تھا وہ اسے یاد کرتی تھیں 

جدہ میں جب دفتر سے واپس آتا تو انہیں مکان کی بالکونی میں منتظر پاتا۔وقار صاحب مائیں تو سب ہی کی اچھی ہوتی ہیں میری بھی ان میں سے ہی ایک تھیں۔آج آپ نے ماؤں کی پسند کا کھانا پوچھا تو میرا جواب بھی آپ کی بھیجی ہوئی پوسٹ والے دوست کا تھا کہ میری ماں بچا ہوا کھانا پسند کرتی تھیں۔

دوست احباب انہیں ملنے آتے دعائیں لیتے تھے۔ماں جی اللہ والی تھیں اپنے گھر کی چھت پر تبلیغی جماعت کے اجتماع کروایا کرتی تھیں۔مولانا عبداللہ درخواستی بھی ہمارے گھر تشریف لا چکے ہیں۔ایک بار میرا ایک غریب دوست جسے تنگی ٗ حالات نے اس قدر مجبور کیا کہ وہ گھر چھوڑ کر چلا گیا اس کے پانچ بچوں اور بیوی کو گھر لے آئیں۔بہوئیں دیکھتی رہیں اور بے جی نے کہا یہ میرے بیٹے کا وہ دوست ہے جس نے اس کی گرفتاری کے موقع پر پولیس سے ہاتھا پائی کی تھی اور بیٹے کو اکیلے نہیں جانے دیا تھا۔فاروق میرے بچپن کا دوست تھا تحریک ختم نبوت میں مجھے اندیشہ ء نقص امن کے تحت باغبانپورہ چوک گجرانوالا  سے گرفتار کیا گیا تو اس نے مجھے گرفتار کرنے پر مزاحمت کی۔مدرسہ اشرف العلوم  کے پاس مجھے 1974 میں تحریک ختم نبوت میں حصہ لینے کی پاداش میں گرفتار کیا

 گیا تھا۔وہ بچے پندرہ دن تک گھر رہے،ماں جی اس دنیا سے 2002 میں گئیں۔ان کا جہاں سے جانا اللہ کی رضا تھی۔لیکن اس میں جنرل مشرف دور کی سفاکیوں کا بڑا ہاتھ ہے۔مجھے جدہ میں چند دوستوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا جس میں قاری شکیل مرحوم ارشد خان مرحوم مسعود پوری مرزا آفتاب ڈاکٹر قسیم،عظمت نیازی،شہباز بٹ  وغیرہ شامل تھے۔ان میں اکثر میاں نواز شریف کے قریبی تھے۔جنرل اسد درانی ان دنوں سفیر پاکستان تھے۔یہ وہ جنرل ریٹارڈ مرد آہن ہیں جنہوں نے اصغر خان کیس میں نام کمایا ہے مہران بینک سکینڈل میں رخ سیاہ کیا۔ٹھگز آف پاکستان سیریز میں اس قسم کے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے اس قوم کا بیڑہ غرق کیا۔ان مہاکلاکاروں میں جہاں سیاست دانوں کی لمبی لسٹ ہے  اس میں کچھ لوگ پاکستان کے ایک معتبر ادارے سے ریٹائر ہو کر ملک عزیز کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے میں بھی لگے رہےمیاں نواز شریف گرچہ ایک معاہدے کے تحت وہاں تھے جس میں یہ شق شامل تھی کہ وہ سیاست نہیں کریں گے مگر مسلم لیگی دوستوں کی سیاست جاری تھی میں پاکستان کے ایک نامور اخبار کا نمائیندہ تھا جس سے حکومت وقت کو اس لئے تکلیف تھی کہ میں جدہ سے میاں نواز شریف اور ان  کے ساتھیوں کی کوریج کرتا تھا۔بادشاہ کو یہ تکلیف تھی کہ نواز شریف کی کوریج کیوں ہوتی ہے معاف کرنا یہ وقت تھا جب عمران خان کو جنرل مشرف پسند تھے اور مجھے سخت نا پسند ۔مسلم لیگیے پکڑے گئے اور مجھے بھی ایک روز اوڈی کے سروس سنٹر سے اٹھا لیا گیا یہ 19 مارچ 2002 کی دوپہر تھی  ساماکو کا دفتر آج کل جہاں ریلوے اسٹیشن ہے وہاں تھا  اس سڑک کو شارع علی المرتضے کہتے تھے ایک کونے پر بالبیدکمپنی تھی اور دوسرے پر الناغی  ۔ میری 71 دن کی جیل نے بے جی کوتوڑ کے رکھ دیا تھا۔ماں جی کو جب 29 مئی 2002 کو ملا تو وہ بہت کمزور تھیں ساتویں روز برین ہیمرج ہوا قومے میں چلی گئیں  ۔ لوگوں نے جمہوریت کے لئے بہت قربانیاں دیں میرے حصے میں ماں آئی جو میری گرفتاری کی نظر ہو گئیں ۔پمز کے بستر پر بے جی کی حالت دیکھتا تو دل کرتا گردنیں اڑا دوں جس دن ان کی ڈیڈ باڈی  میرے سامنے آئی دل کیا کہ بم باندوں اور پھٹ جاؤ ں مگر بے جی کا ایک تکیہ کلام تھا،، او جانے،،۔اس او جانے میں کتنے صبر کی تلقین تھی اس کا پتہ مجھے بعد کی زندگی میں ملا۔میری زندگی میں بعد میں بڑی خوشیاں آئیں اسی شہر جدہ جہاں سے جیل میں بند ہو کر گیا تھا عزتیں سمیٹیں پر ماں نہ تھی۔

2019 میں جدہ گیا تھا وہی گلیاں راستے پرانے گھر وہیں تھے لوگوں کے مکان تھے لیکن ہم کرائے دار ہو کر بھی مالک مکان تھے ماں جس جس گھر میں رہی ان کے دروازوں پر جا کر کھڑا ہوا جن گھروں میں گئی خاموش کھڑا دیکھتا رہا ایک شخص نے پوچھا کہ صاحب کیا ڈھونڈتے ہو میں نے کہا ماں ڈونڈتا ہوں۔وہ مجھے گھر کے اندر لے گیا ہر کمرے میں دیکھا جھانکا دیواریں کچن سب کچھ وہی تھا لیکن  ماں نہ تھی  نہ وہ رونقیں۔بڑی دل چسپ یادیں تھیں اس گلی کو لوگ انجینئر افتخار والی گلی کہتے تھے لوگ کون پاکستانی کہتے ۔گھر کی بالکونی کے پاس پارکنگ جہاں میری گاڑی کھڑی ہوتی تھی میں نوے کے دنوں کو یاد کرتا رہا 

 یہاں بڑے بڑے مہمان آئے۔نامی گرامی لوگ۔بڑے ڈرائینگ روم پر بچھائے گئے گدوں پر پاکستان کے نامور شاعر ادیب سیاست دان۔کچھ بچے جن میں حمزہ شہباز خرم دستگیر  کچھ بڑے شہر کی نامور ہستیاں یہاں اے سی کے ساتھ ایک فیکس مشین ہوتی تھی جسے لوگوں نے مشین گن کا نام دے رکھا تھا۔

کورڈ کے دنوں میں  عمران خان کو روتا دیکھا تو سچ پوچھیں میں بھی رو دیا

یہ کالم انہی دنو لکھا تھا 

 تزیین اختر نے کیا خوب یاد کرا دیا گجر شاعر ساحر لدھیانوی کے اشعار ۔

کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا

بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا 

ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں

 ان کو کیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا 

کس لیے جیتے ہیں ہم کس کے لیے جیتے ہیں 

بارہا ایسے سوالات پہ رونا آیا 

کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست 

سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا۔                               ساحر لدھیانوی

بے جی کو ان کرونا کے دنوں میں پتہ نہیں کیوں یاد کرتا ہوں۔ایک عالیشان گھر کے خوبصورت کمرے میں موت سے ڈرا ہوا افتخار ماں کو یاد کر رہا ہے۔کہتے ہیں اوکھے ویلے ماں ہی یاد آتی ہے۔آج جب وزیر اعظم روئے تو سچ پوچھئے میں بھی رویا ہوں میں تو اس ماں کو یاد کر کے رویا ہوں جو زندہ ہوتی تو کہتی پتر او جانے اٹھ اندھیری قبر کی تیاری کر۔دوسرے کمرے میں ایک اور ماں روتے روتے اپنے جدہ کے بچوں کو یاد کر رہی ہے۔ شائد اس میری ماں کے حصے میں بچا کھچا تھا وہ اپنے  نصیب کو لے کر جون 2002 میں گجرانوالہ کے بڑے  قبرستان میں دفن ہو گئیں سلام اس شہر گجرانوالا کو جس نے ہزارہ سے آءے ہوءے لوگوں کو کھلے دل سے قبول کیا اور اتنا پیار دیا کہ والد صاحب نے کہا مجھے ادھر اسی شہر میں دفن کرنا جہاں خالی ہاتھ آیا تھا اور اب بھرے ہاتھوں جا رہا ہوں ۔ آج جب کوئی یہ کہتا ہے کہ پنڈی میں پشتون کیوں آباد ہیں تو مجھے اپنے باپ کی ہجرت یاد آ جاتی ہے اپنی ماں جی مسافرت کو ذہن میں رکھتا ہوں جنازہ زعیم ملت مولانا رحمت اللہ نوری نے پڑھایا دعا  مولاناعبدالرحمن مکی صاحب نے کرائی اس سہ پہر کو رم جھم بھی ہوئی جون کے آخری ہفتے میں قیامت کی گرمی میں جنت سے بارش کی بوندیں بے جی کو لینے آئیں۔اور وہ ہمیں روتا دھوتا چھوڑ گئیں۔دنیا کی ہر ماں اپنے بچوں کے لئے قربانیاں دیتی ہے یقینا میری ماں سے زیادہ دینی والی مائیں بھی موجود ہیں لیکن مجھے تو اس ماں کا ذکر کرنا ہے جس نے مجھے جنم دیا۔ہم انہیں بے جی کہتے تھے پورے محلے کی بے جی تھیں۔باغبانپورے کے  رہائیشی جانتے ہیں کہ بے جی سب کی ماں تھیں۔جون 2002 کی دوپہر کو بڑے قبرستان میں محو استراحت ہونے والی ماں کی دعائیں اب بھی پیچھا کرتی ہیں۔اللہ سب کی ماؤں کو محفوظ رکھے  اور وہ کسی بے رحم دکٹیٹر کے اقدامات کی نظر نہ ہو جائے۔ چاءے خانہ میں مجھے جنرل عاصم باجوہ مل گءے ہاتھ ملایا تو بڑا نرم ہاتھ تھا میں نے کہا جنرل صاحب فوج اچھی لگتی ہے لیکن کبھی کبھی مجھے اس کے چند کاموں ہر غصہ بھی آتا ہے کیا جواب دیا جاٹ کے بیٹے نے کہنے لگے فوج ہر بار اچھے کام بھی تو نہیں کرتی ۔میں نے دو نرم ملاءیم ہاتھوں والے انسان  دیکھے ہیں ایک جنرل عاصم دوسرے حافظ سعید اور دونوں ہی مجھے اچھے لگتے ہیں ۔ اور اب ان کو ،،برگر،، کے حوالے سے جانتا ہوں 

بچا کھچا کھانے والی مائیں  ہی دلوں میں زندہ رہتی ہیں۔۔انسان جتنا بھی بڑا ہو جائے ماں کے لئے چھوٹا ہی رہتا ہے  اور انسان میں یہ بھی ایک بڑی خوبی ہے کہ وہ ساری زندگی ماں کی تلاش میں رہتا ہے

بے جی کبھی جنت سے آ کر  ملو ناں 

کھلا ضرور

باعث افتخار Engineer Iftikhar Chaudhary

ابھی جام عمر بھرا نہ تھا 

کف دست ساقی چھلک پڑا

رہیں دل کی دل میں ہی حسرتیں

کہ نشان قضا نے مٹا دیا 

شاعر اس میں شعر میں سردار تنویر الیاس کے بارے میں کہتا ہے کہ سردار الیاس کے بیٹے نے اپنی تئیں بہت کوشش کی اور بڑے جان جوکھوں کے بعد آزاد کشمیر کی وزارت عظمی حاصل کی تھی کہ ،اوپر ،،سے ایک ایک جان لیوا حملے کے بعد وہ دھڑام سے نیچے آگرے اور ان کے وزارت اعلی ایک سال بھی گزار نہ پائی ۔کہتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم کی بد دعا کھا گئی 

یہاں شاعر کا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اوپر کوئی وہ اوپر والا نہیں جس کے دم قدم سے نظام ہستی چل رہا ہے یہ اسلام آباد ہے جس کی وجہ سے وہ منظر عام سے ہٹ گئے آج کل اسلام آباد سے زیادہ پنڈی کی چلتی ہے 

اب پتہ چلا ہے کہ سردار تنویر الیاس کو آزاد کشمیر کی عدلیہ نے بھی نا اہل قرار دیا ہے سری نگر کی منڈی راولپنڈی

ویسے سیانے کہتے ہیں کہ آزاد کشمیر کی عدالتوں کے فیصلے بڑے محترم فیصلے ہوتے تھے پتہ نہیں انہیں لاہور ہائی کورٹ کس نے بنا دیا 

سردار تنویر کے بارے میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ وہ جب سونے کا ٹائم ہوتا ہے وہ جاگتے ہیں اور جب جاگنےکا وقت ہوتا ہے وہ سوتے ہیں ۔یعنی لوگ کہنا چاہتا ہے کہ وہ جنرل یحیی خان کی طرح جیتے تھے اور انہی کی طرح عیش و عشرت کی زندگی گزارتے تھے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ مغل تھے اور مغلوں کی طرح ہندوستان گنوانے کی طرح آنکھوں نے آزاد کشمیر کو ہاتھوں سے جانا دئے ۔۔مغل سے مغل اعظم بننا آسان نہیں ۔ویسے سچ پوچھیں

  اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے 

پی ٹی آئی کے لوگ بھی بچھوؤں کی وہ قطار ہے جن سے پوچھا گیا کہ آپ کا لیڈر کون ہے اس نے کہا ہاتھ لگا کے دیکھ لے ۔سلطانی جمہور بھی ہے سپیکر صاحب کے تمکنت اور نیازی صاحب کا مل کے بچھڑ جانے کا دکھ

کارکن اپنی جگہ ناراض ۔لگتا ہے کہ سردار صاحب نے ایک کلہاڑا اپنے آپ کو زخمی کرنے کے لیے رکھا ہوا تھا 

ساتھی دوست سب ناراض کر لیے 

لوگ ان کے گھر تک بھی پہنچ گئے اور باپ بیٹے کی لڑائی بھی کرا دی 

میری تنویر الیاس سے ایک عرصے سے سلام دعا ہے 

میرے دوست چوہدری شہباز حسین کے حوالے سے انہی کی ڈور وزارت میں تعارف ہوا تھا اس کے بعد متعدد بار ان سے ملاقات ہوئی آخری بار ان کے عزیز کی نا گہانی موت کے وقت ان کی رہائش گاہ واقع اسلام آباد میں ہوئی ملاقات عبد الودد قریشی نے کرائی تھی 

میرے کالم بھی ان کی نظر سے گزرتے رہے جن کا وہ تذکرہ بھی کیا کرتے تھے 

البتہ سردار الیاس بھی انہی دنوں سعودی عرب گئے تھے جب ہم نے بھی خوابوں کی گھٹری اٹھائی تھی وہ منطقہ شرقیہ میں اترے اور ہم حجاز میں 

اس دوران جب دمام جانا ہوا تو ان سے ملاقاتیں بھی رہیں 

میں صرف ایک دو سوال کر کے اپنی بات کو ختم کرنا چاہوں گا کہ مجھے یہ بتائیں جس بندے کو اپنے باپ کے تعلق اور دوستوں کے دوستوں کا خیال رکھنے کی ایک انتہائی اچھی عادت ہو اسے لالہ موسیٰ کا جھوٹا چوہدری کہہ رہا ہے کہ مدہوش زندگی گزارتے ہیں 

یحی خان پاکستان کے وہ واحد حکمران ہیں جنہوں نے اسلام آباد بنوایا اور شنید ہے ان کا کوئی پلاٹ نہیں یہ بھی سنا ہے کہ 65 کی جنگ میں کھیم کرن کے محاذ پر انہوں نے شجاعت کے اعلی کارنامے انجام دیے ہیں ۔فوج کو بدنام کرنا مقصد تھا شاید اسی لیے انہیں جنرل رانی کے ساتھ اور حسینائوں کے ساتھ منسلک کر کے ایک اچھے آفیسر بدنام کیا گیا ۔شامی صاحب کہتے ہیں پاکستان کے توڑنے میں 1/3 ان کا ہے مگر یاروں نے سو فی صد ان کے نام کر دی گئی ۔بھٹو جو فوج سے بیر تھا 

اسی طرح سردار تنویر الیاس کو گندہ کرنے کی مہم میں بہت سے لوگوں کا ہاتھ ہے ۔

میرے پاس ایک دو گواہیاں ایسی بھی ہیں جن کو بڑے قریب سے جانتا ہوں ان میں سے ایک ان کے ساتھ کام کرنے والے صاحب ہیں جو ان کے قریب رہے ہیں ایک اور رشتے دار بھی ہیں ان میں سے کسی نے ایسی گواہی نہیں دی جو اب بیان کی جا رہی ہے 

بات صرف یہ نہیں کہ وہ اقتدار سے رخصت ہو گئے 

اصل مسلہ یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کے ایک ایسے شخص کے ساتھ کھڑے ہونے کا ثبوت دیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اسلام آباد کے مرضی کے بغیر بھی زندہ رہ سکتے ہیں اور پنڈی کو بھی نظر انداز کر کے عمران خان کا ساتھ دیا یہ سب بڑا جرم کیا ہے انہوں نے 

یہ کوئی چھوٹی بات تھی کہ انہوں عرصہ 32 سال بعد آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کا کامیاب انعقاد کرایا اور وہاں پی ٹی آئی کی حکومتیں قائم کیں ۔ان کے راستے کی رکاوٹیں اتنی کھڑی کیں وہ تلملا اٹھیں ۔میں حیران ہوں کہ ایک منثحب حکومت کے عوام کے جانں سے چنے گئے سردار تنویر الیاس کس مصیبت میں پھنسے رہے ۔

کیا تنویر الیاس جیسا کم و بیش ایک سو کمپنیوں کا چیف اس قدر غیر زمہ دار ہو سکتا ۔ان کے کاروبار دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں کہا وہ سو کر اور شام کو جاگ کر ان کو چلا سکتے تھے یہ ان کی ذات کو بدنام کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے 

آج سینٹورس کو بند کرنے کے واقع کو بھی سامنے رکھیں ایک بلڈنگ جس کا ایک حصہ جلا گیا ہو اسے پوری طور پر سیل کرنا کہاں کا انصاف تھا 

آساوری قصے کے پیچھے سردار تنویر الیاس کا پی ٹی آئی کے چیئر مین عمران خان کا ساتھ دینا ہے 

یہ عمران خان کو کمزور کرنا ہے 

کہا جاتا ہے گلگت بلتستان کے ساتھ بھی یہی ہونے والا ہے ۔ازاد کشمیر کے جس سربراہ نے اسلام آباد کو اپنی حیثیت جتلانے کی کوشش کی ہے اس کی خیر نہیں 

اب فیصلہ ا چکا ہے اس ہر بحث کی جا سکتی ہے مجھے میرے ایک دوست نے بتایا کہ ججوں میں ایک جج نے سیاسی جج بن کر فیصلہ کیا ہے اس سے پہلے بھی جسٹس قیوم یہ کام کر چکے ہیں انہوں نے بھی فرمائشی فیصلے کئے تھے 

بے نظیر نے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کو نواز حکومت کی بحالی کے فیصلے کو ،،چمک،،قرار دیا تھا 

 اس۔ اے جی گواہی تو میں بھی دوں گا جدہ کے لاہور ہوٹل واقع بنی مالک میں جسٹس صاحب سٹول پر کھڑے ہو کر اعلان کر رہے تھے اور اعلان بھی مسلم لیگیوں کے جلسے میں کر رہے تھے کہ ،،میں وہ فیصلہ کروں گا جس سے آپ خوش ہو جائیں گے ،،

مرنے والے نر گئے مگر ان کے فیصلے زندہ رہ گئے کہ ہمارے ہاں جی عدالتں ہر وقت صیح فیصلے نہیں کرتی پیپلز پارٹی کے دوست بے ذوالفقار علی بھٹو کو سیاسی قتل کہتی ہیں کہ کلاں اگر تنویز الیاس اور پی ٹی آئی آزاد کشمیر کے لوگ اس فیصلے کو بھی سیاسی فیصلہ قرار دیں تو آپ کیا کہیں گیں 

پاکستان بھر کے ماہر قانون حیران ہے ایک ایسی بات ہر نا اہل قرار دینا جو کسی بھی نجی محفل اور جلسے میں کی گئی ہو اس ہر ان کو ناہل قرار دیا جا سکتا ہے حال ہی میں ایک جلسے میں ہمارے ہزارہ کے ایک سیاسی لیڈر نے چیف جسٹس کے بارے میں نازیبا الفاظ کیےاس پر تو ججوں کو غصہ نہیں آیا 

کوہالہ کے اس پار کے جج بڑے غصیلے یں اور مری سائڈ کے ستو پی کے سوئےبڑے ہیں انہیں خیال نہیں آیا 

ویسے بھی لوگ دیکھ رہے ہیں کہ کہنے والا کون ہے اگر پیا من بھا گیا تو ٹھیک ورنہ تباہ کر دیں گے 

اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کی جمہوریت جیسے کی ولی خان نے کہا تھا کہ کسی جنرل نے کہا پاکستان کے سیاست دانوں کو جمہوریت کی اے بی سی کا نہیں پتا تو انہیں جواب دیا گیا آگے جی ایچ کیو آ جاتا ہے مانا ہے سردار تنویر الیاس پیسے کے زور پر آئے تھے پتہ نہیں وہ پیسہ صرف سال کے کیے تھا یا تین چار سال

آزاد کشمیر کی جمہوریت کی فائل کو پہیے لگانے والے بہت ہیں 

لوگ کہہ رہے تھے کہ اکثریت گجروں کی ہے گجر ہی بنے گا دنیا میں جتنی بے اتفاقی قوم میری ہے کوئی اور کیا ہو گی ایک بار تو لطیف اکبر شیروانی بھی لے آئے تھے مگر سعودی عرب میں رہنے والے ایک ٹھیکے دار نے ان کی تار کاٹ دی 

سردار تنویر الیاس کے لئے 

یہ پھول اپنی لطافت کے داد پا نہ سکا 

کھلا ضرور مگر کھل کے مسکرا نہ سکا

Comments are closed.