راولپنڈی ، مون سون الرٹ ، پہلی بارش نے ضلعی انتظامیہ کی نااہلی کا پول کھول دیا

راولپنڈی ، مون سون الرٹ ، پہلی بارش نے ضلعی انتظامیہ کی نااہلی کا پول کھول دیا

پانی لوگوں کے گھروں میں داخل ، لاکھوں کا سامان تباہ ، نیندیں حرام ، رات جاگ کر گزاری

راولپنڈی

شمشاد مانگٹ 

ملک بھر میں مون سون الرٹ جاری کردیا گیا جس کی پہلی بارش نے ضلعی انتظامیہ راولپنڈی کی نااہلی کا پول  کھول دیا ، پانی لوگوں کے گھروں میں داخل ، لاکھوں کا سامان تباہ ، نیندیں حرام ، رات جاگ کر گزاری

کمشنر و ڈپٹی کمشنر آگاہی کے باوجود نالہ لئی صاف نہ کروا سکے 100 مشینوں کے بجائے 2 لگا کر تھک تھگڑی سے کام چلانے کو ترجیع ، نہ کچرا اٹھایا نہ نالہ لئی کھلی کی بلکہ فلمی سین ادھر کی مٹی ادھر ادھر کی ادھر فلمی سین بنا کر وقت ٹپا دیا عوام جائے بھاڑ میں ہماری جیبیں بھاری رہیں ۔

مون سون کی پہلی بارش نے اس کی کلعی کھول دی ہے ، نالہ لئی اور 14 نالوں کی صفائی نہ ہونے کے باعث ہے، نالہ لئی میں سیلاب آنے کا خطرہ بڑ گیا ہے، جس کی وجہ سے شہریوں  کی قیمتی جانیں ضائع ہونے اور بھاری نقصان کا بھی اندیشہ ہو گیا ہے ۔

یاد رہے کہ واسا نے ٹھیکیداروں کو 50 فیصد سے زائد بلو پر ٹھیکے دیے ہیں، یہ کسی بھی ٹھیکیدار کے لیے ممکن نہیں ہے، واسا افسران اور ٹھیکیداروں کی مبینہ ملی بھگت سے  یہ کام صرف کاغذات کی حد تک مکمل کر کے یہ سارا پیسہ ہڑپ کرنا ہے، واسا راولپنڈی کے افسران کی مبینہ طور پر سنگین بےضابطگیوں اور ممکنہ مالی کرپشن کا انکشاف ہوا ہے۔

شہریوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب، انٹی کرپشن راولپنڈی ،صوبائی محتسب سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ گزشتہ دنوں سیکرٹری ہاوسنگ پنجاب نورالاامین مینگل نے بھی واسا راولپنڈی میں دورے کے دوران بھی نالہ لئی کو جلد سے جلد مکمل کرنے کے احکامات دیے تھے ۔

تحقیقات کے مطابق، ان ٹھیکوں کا بڑا حصہ صرف دو سے تین ٹھیکیداروں کو دیا گیا، جن میں سے ایک نے اکیلا 8 سے10 نالوں کی صفائی 50% بلو پر حاصل کیے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس تمام عمل میں 3  افسران نے کلیدی کردار ادا کیا، منیجنگ ڈائریکٹر، واسا راولپنڈی سلیم اشرف، اور سادون بسرا (ڈپٹی ڈائریکٹر سیوریج / ایکس ای این) ، احمد حسین (سب انجینئر، جسے ایڈیشنل چارج دے کر اسسٹنٹ ڈائریکٹر سیوریج لگایا گیا ،

 قابلِ غور امر یہ ہے کہ احمد حسین کو باقاعدہ ترقی دیے بغیر، بطور سب انجینئر ہی چار سے پانچ اے ڈی لیول کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اس کو نظام کے اندر غیر معمولی اختیارات دیے گئے، کیا 50 فیصد بلوں پر معیاری کام ممکن ہے؟ ، کیا صفائی اور تعمیرات کا معیار متاثر نہیں ہو گا؟ کیا ان ٹھیکیداروں سے بعد میں مزید فنڈز نکلوائے جائیں گے؟ کیا یہ ساری بندربانٹ پہلے سے طے شدہ ملی بھگت کا نتیجہ ہے؟ شہریوں نے پرانے منصوبوں کی بھی چھان بین کا مطالبہ کیا ہے ۔

ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ سادون بسرا اور احمد حسین کی زیرنگرانی جو پچھلے منصوبے اور کوٹیشنز کے ذریعے کام کرائے گئے، ان میں بھی شفافیت پر سوالات اٹھے ہیں ۔

شہریوں کا کہنا ہے کہ ان پر بھی باقاعدہ تحقیقات کی جائیں تاکہ سسٹم کے اندر موجود خرابی کو جڑ سے نکالا جا سکے۔

شہریوں و سماجی حلقوں نے وزیر اعلی پنجاب چیف سیکریٹری پنجاب اور سیکرٹری ہاوسنگ پنجاب سے مطالبہ کیا ہے کہ ان ٹینڈرز میں ملوث افراد کے خلاف فوری انکوائری کی جائے ۔

اس سلسلے میں جب ایم ڈی واسا اور ترجمان سے موقف لیا گیا تو ان کا کہنا تھا، کہ ٹینڈر کیے گئے ہیں، جن ٹھیکیداروں نے کم ٹینڈر  بھرے ان کو ٹھیکے مل گے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت تک 20 سے 30 فیصد نالہ لئی کا مکمل ہو چکا ہے،  جبکہ عید سے پہلے 2 مشینیں لگی تھی اور اوپر سے کچرا اٹھا کر سائیڈوں پر رکھ دیا گیا ہے وہ بھی ابھی تک نہیں آتھایا گیا ہے، آج 4 مشینیں لگی ہیں،اس نالہ لئی کے ٹینڈر گھنٹوں کے حساب سے ہوئے ہیں، 1480 گھنٹوں میں 30 جون تک مکمل صفائی کرنی ہے،اب اگر 6 مشینیں 24 گھنٹے بھی لگی رہے کام کرتی رہیں ، تو پھر بھی 1480 گھنٹے نہیں پورے ہوتے ۔

جبکہ ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ ٹھیکیدار ایم ڈی واسا راولپنڈی کے دوست ہیں، اور کام لیٹ شروع کرتے ہیں اور بارشوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، اس وقت ٹھیکیدار کی طرف سے درخواست لی جاتی ہے، اس کام کرنا مشکل ہے، اس میں ہمیں نقصان ہو جائے گا، ٹھیکیدار مزید پیسوں کی ڈیمانڈ کرتا ہے، اس کو مزید پیسوں کی ادائگیاں کی جاتی ہیں اور مبینہ طور پر بعدازاں اس کی آپس میں بندربانٹ کر لیتے ہیں ۔

اس سلسلے میں علاقہ مکینوں ملک جاوید ودیگر نے کہا کہ  سامنے کی سائیڈ پر نالہ لئی میں ان دنوں میں ہی ٹرالیوں کے ذریعے مٹی پتھر وغیرہ ڈالے گئے ہیں ، عید سے ایک ہفتہ قبل ٹھیکیدار نے صرف گوالمنڈی پل ہی 4 سے 6 گھنٹے 2 مشینیں لگا کر اوپر اوپر سے یہ کچرا اکھٹا کیا گیا ہے، اور یہ کچرا اٹھا کر نہیں لیکر جاتے ہیں، بلکہ یہ کچرا دوبارہ اس جگہ سیدھا کر دیا جاتا ہے، جس سے قومی خزانے کو ہر سال مبینہ طور پر کروڑوں کا نقصان پہنچایا جارہا ہے، اعلیٰ حکام اس کا نوٹس لیں ۔

Comments are closed.