چیئرمین سنیٹ نے سیاسی رہنمائوں کو گرفتار کر نے اور 90 روز تک حراست میں رکھنے کا بل روک دیا

اسلام آباد(زورآورنیوز)چیئرمین سینیٹ نے حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی مخالفت پر پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کا بل 2023 ڈراپ کر دیا۔چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کا بل وزیر مملکت شہادت اعوان نے پیش کیا، جس کے بعد چیئرمین سینیٹ نے مجوزہ بل پر ایوان سے رائے مانگی۔بل پیش کرنے پر اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے جس پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ بل کمیٹی کو بجھوانے کا فیصلہ تو کرنے دیں، آپ کو بولنے کا موقع دیا جائے گا۔پی ٹی آئی سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ اتنا اہم بل ہے اور یہ لوگوں کی زندگی پر اثر ڈالے گا، لگتا ہے رانا ثنا اللہ کا یہ بل تحریک انصاف کو الیکشن سے روکنے کا بل ہے، اس بل کی تمام شقوں سے تحریک انصاف کے خلاف بو آ رہی ہے، اس بل کے دور رس نتائج نکلیں گے۔حکومتی اتحادی جماعت جے یو آئی اور نیشنل پارٹی نے بھی عجلت میں قانون سازی کی مخالفت کر دی جبکہ سینیٹر کامران مرتضی اور طاہر بزنجو نے اعتراضات اٹھا دیئے۔سینیٹرعرفان صدیقی نے کہا کہ پرتشدد انتہاپسندی کی روک تھام بل 2023 اہمیت کا حامل ہے، اس بل کو پاس کرنے سے پہلے کمیٹی میں پیش کرنا چاہیے تھا، کل کو کوئی بھی اس بل کا شکار ہو سکتا ہے، ابھی جلد بازی میں بل پاس ہو رہا ہے، کل کہا جائے گا بل پاس ہورہا تھا تو آپ کہاں تھے۔جماعت اسلام نے بھی بل مخالفت کر دی، سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ یہ بل ایک نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کے خلاف ہے، یہ بل جمہوریت کے خلاف ہے اور اس بل کو پاس کروانے والے پارلیمنٹ کے ذریعے جمہوریت کی تدفین چاہتے ہیں۔چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اس حوالے سے کہا کہ آج اجلاس بل کے لئے نہیں بلکہ ایوان کے دن پورے کرنے کیلئے بلایا تھا، حکومت اس بل کو ڈراپ کرے نہ کرے، میں ڈراپ کرتا ہوں۔حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی شدید مخالفت کے بعد بل پر مزید کارروائی روک دی گئی۔


یہ بھی پڑھیں: چینی کی قیمت مقرر کرنے کا اختیار کین کمشنر کو دیدیا گیا


وفاقی وزیر شیری رحمان نے کہا کہ بل عجلت میں پاس کرنے میں کوئی ممانعت نہیں، ہم اس بل میں اپنی ترامیم لائیں گے۔بل کے متن کے مطابق پرتشدد انتہا پسندی سے مراد نظریاتی عقائد، مذہبی و سیاسی معاملات میں طاقت کا استعمال اور تشدد ہے، اس کے علاوہ اس میں فرقہ واریت کی خاطر دھمکانا یا اکسانا، فرقہ واریت کی ایسی حمایت کرنا جس کی قانون میں ممانعت ہو، پرتشدد انتہا پسندی میں شامل کسی فرد یا تنظیم کی مالی معاونت کرنا یا تشدد اور دشمنی کیلئے اکسانا بھی شامل ہے۔مجوزہ بل کے مطابق شیڈول میں شامل شخص کو تحفظ اور پناہ دینا پرتشدد انتہاپسندی ہے، پرتشد انتہاپسندی کی تعریف کرنا اور اس کیلئے معلومات پھیلانا بھی پرتشدد انتہاپسندی میں شامل ہے۔لسٹ ون میں وہ تنظیم ہوگی جو پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث ہو، جس کا سربراہ پرتشدد ہو، اس لسٹ میں نام بدل کر دوبارہ منظرعام پر آنے والی تنظیمیں بھی شامل ہوں گی۔بل کے مطابق لسٹ ٹو میں ایسے افراد شامل ہیں جو پرتشدد انتہاپسندی میں ملوث ہوں، لسٹ 2 میں پرتشدد ادارے، لیڈر یا پرتشدد ادارے کی مالی معاونت کرنے والے بھی شامل ہوں گے، حکومت پرتشدد فرد اور پرتشدد تنظیم کی میڈیا تک رسائی یا اشاعت پر پابندی لگائے گی۔بل میں کہا گیا کہ پرتشد فرد یا تنظیم کے لیڈر یا فرد کی پاکستان میں نقل وحرکت یا باہر جانے پر پابندی ہوگی، اس کے علاوہ حکومت پرتشدد تنظیم کے اثاثے کی چھان بین کرے گی۔بل میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ حکومت پرتشدد تنظیم کے لیڈر، عہدیداروں اور ممبران کی سرگرمیاں مانیٹر کرے گی، پرتشدد تنظیم کے لیڈر،عہدیداروں، ممبران کا پاسپورٹ ضبط ہوگا اور بیرون ملک سفر کی اجازت نہ ہوگی۔بل کے متن کے مطابق پرتشدد تنظیم کے لیڈر، عہدیداران اور ممبران کا اسلحہ لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا، اثاثے، پراپرٹی اور بینک اکانٹ منجمد کر دیئے جائیں گے، اس کے علاوہ پرتشدد تنظیم کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی اور کوئی مالیاتی ادارہ پرتشدد تنظیم کے لیڈر، ممبر یا عہدیدار کو مالی معاونت نہیں دے گا۔بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ لسٹ میں شامل شخص کو 90 دن سے 12 ماہ تک حراست میں رکھا جا سکے گا۔بل کے متن کے مطابق تعلیمی ادارے کسی شخص کو پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث ہونے یا اس کا پرچار کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، اس کے علاوہ کوئی سرکاری ملازم نہ خود نہ اہلخانہ کو پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث ہونے دے گا۔پرتشدد انتہا پسندی کے مواد کو سوشل میڈیا سے فوری اتار دیا جائے گا یا بلاک کر دیا جائے گا، قابل سزا جرم سیشن کورٹ کے ذریعے قابل سماعت ہوگا، جرم ناقابل ضمانت، قابل ادراک ہوگا۔بل میں کہا گیا کہ معاملہ کی پولیس یا کوئی اور ادارہ تحقیقات اور انکوائری کرے گا۔پرتشدد انتہا پسندی کے مرتکب شخص کو 3 سے 10سال تک سزا اور 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا، اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے شخص کو ایک سے 5 سال تک قید اور10 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا۔پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث تنظیم کو 50 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا، تنظیم تحلیل کر دی جائے گی، قانون کی خلاف ورزی کرنے والی تنظیم کو 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا، جرم ثابت ہونے پر فرد یا تنظیم کی پراپرٹی اور اثاثے ضبط کر لئے جائیں گے۔معاونت یا سازش یا اکسانے والے شخص کو بھی 10 سال تک قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔جرم کرنے والے شخص کو پناہ دینے والے کو بھی قید اور جرمانہ ہو گا، حکومت کو معلومات یا معاونت دینے والے شخص کو تحفظ فراہم کیا جائے گا، حکومت لسٹ میں شامل شخص یا تنظیم کے لیڈر اور ممبران کو گرفتار کر کے 90 روز تک حراست میں رکھ سکتی ہے، مدت میں 12 ماہ تک توسیع ہو سکتی ہے، متاثرہ شخص کو ہائی کورٹ میں اپیل کا حق

Comments are closed.