چھینک میل فی گھنٹہ کی رفتار سے کیسے سفر کرتی ہے۔

کچھ افراد کی چھینکیں ڈرا دینے کی حد تک بلند کیوں ہوتی ہیں؟

 

ایک چھینک کی رفتار 100 سے 500 میل فی گھنٹہ ہوسکتی ہے اور یہ ایک ایسا خودکار جسمانی ردعمل ہے جو سانس کی نالی کھلی رکھنے کے لیے ہوتا ہے۔

مگر کچھ لوگ اتنی زور سے چھینکتے ہیں کہ اسے سن کر اردگرد موجود افراد غیر ارادی طور پر اچھل پڑتے ہیں۔

چھینک کی آواز اتنی اونچی ہوتی ہے کہ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ آخر کوئی فرد اتنی زور سے کیسے چھینک سکتا ہے۔

مگر اس کے پیچھے کافی دلچسپ وجہ چھپی ہوئی ہے اور ایسا لوگ جان بوجھ کر نہیں کرتے

طبی ماہرین کے مطابق کچھ افراد زور دار آواز میں ہنستے ہیں جبکہ کچھ خاموشی سے، ایسا ہی چھینک کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ چھینکیں بنیادی طور پر ہماری شخصیت اور شخصی عادات کا اظہار کرتی ہیں، چاہے آپ کو اس کا احساس ہو یا نہ ہو۔

یہی وجہ ہے کہ خواتین کے مقابلے میں عموماً مردوں کی چھینکوں کی آواز زیادہ بلند ہوتی ہے، کیونکہ ان پر خاموش رہنے کا سماجی دباؤ نہیں ہوتا۔

ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 45 فیصد مرد بلند آواز سے چھینکنا پسند کرتے ہیں جبکہ 32 فیصد خواتین چھینکوں کو ہر ممکن حد تک روکنے کی کوشش کرتی ہیں


یہ پڑھیں: سرحدوں کی محافظ عظیم سپاہ


لاشعور کے ساتھ ساتھ پھیپھڑوں کا حجم اور گنجائش بھی چھینک کی آواز پر اثر انداز ہونے والے عناصر ہیں۔

ماہرین کے مطابق آپ جتنی دیر تک سانس روکتے ہیں، چھینک کی آواز اتنی زیادہ ڈرامائی ہوگی۔

تو کیا چھینک روکنے کی کوشش آواز کو کم کرتی ہے؟
حقیقت تو یہ ہے کہ چھینک روکنے کی کوشش کبھی نہیں کرنی چاہیے۔

جی ہاں واقعی چھینک روکنے کی کوشش کرنا زیادہ اچھا خیال نہیں، کیونکہ اس سے سانس کی نالی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

کچھ عرصے قبل برطانیہ میں ایسا ہی ایک عجیب کیس سامنے آیا تھا۔

اس کیس میں ایک شخص نے چھینک روکنے کی کوشش کی تو اس کی سانس کی نالی میں سوراخ ہوگیا۔

خوش قسمتی سے اس شخص کو کوئی خاص نقصان نہیں ہوا اور علاج کے بعد ٹھیک ہوگیا۔

مگر ڈاکٹروں نے بتایا کہ ناک کو دبا کر چھینک روکنے کی کوشش نہیں کی جانی چاہیے کیونکہ اس سے سانس کی نالی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

Comments are closed.