ہومیوپیتھی سے احتراز کیوں؟

Shahid Ewan

Why Avoid Homeopathy?

(بلاتامل، شاہد اعوان)

قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے ”واذا مرضت فھویشفین“ (ترجمہ: بیماری میری اپنی غلطی کا نتیجہ ہے اور میرا رب وہ ہے جو مجھے اس اذیت سے نجات کا راستہ دکھاتا ہے)۔ وادیئ فاران سے انسانوں کی بھلائی اور علاج کے لئے رحمت اور نور کا سورج طلوع ہوا جس نے بیماریوں کے اسباب اور علاج کے بارے ایسے جید اصول مرحمت فرمائے کہ سائنس آج ان میں سے ہر ایک کی تصدیق کرتی ہے جیسا کہ ۱) بیماری فرد کی اپنی غلطی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ۲) تندرست افراد مریض کے قریب نہ جائیں۔۳) وبا کے علاقہ میں جانا خطرناک ہے۔۴) قوتِ مدافعت کی کمی بیماریوں کا باعث ہوتی ہے۔ ۵) معالج کے لئے علم الامراض اور علم الادویہ کا علم ہونا ضروری ہے۔ ۶) ان پڑھ اشخاص علاج نہ کریں اور اگر وہ ایسا کریں تو ان سے ہرجانہ لیا جائے۔۷) مریض کو بھوکا رکھ کر اس کی قوتِ مدافعت کو کمزور نہ کیا جائے۔۔۔ یہ سنہری اصول بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے اور علاج میں اہمیت رکھتے ہیں۔ قرآن مجید اس امر کی تصدیق کرتا ہے اور ان کو علوم و فنون کے ساتھ حکمت سکھا دی گئی ہے۔ مملکتِ خداداد میں تین طرح کے علاج موجود ہیں: ایلوپیتھی طریقہئ علاج، طبِ نبوی اور ہومیو پیتھی۔ طب نبوی طریقہ علاج قدیم ترین ہے اور یہ قرآن پاک اور رسول پاکؐ کی احادیث سے ماخوذ ہے۔ ایلوپیتھی انگریز کا دیا ہوا تحفہ ہے یہ طریقہئ علاج پاکستان میں اس قدر زیادہ رائج ہے کہ ہم دیگر دوطریقہئ علاج سے تقریباٌ دور ہوتے جا رہے ہیں اس کی وجہ ”اشتہارات“ کی بھرمار بھی ہے اور انسانی نفسیات بھی اس کے قریب تر ہے کہ وہ جلد سے جلد ٹھیک ہونے کو ترجیح دیتا ہے لیکن اسے یہ معلوم نہیں کہ pain killerسے آرام تو جلد آجاتا ہے لیکن اس کے مضر اثرات انسانی زندگی پر کس قدر تباہ کن ہوتے ہیں وہ اس کی بقیہ زندگی کے لئے ہمیشہ کا روگ بن جاتا ہے، اسی طرح دیگر بیماریوں میں بھی اس طریقہئ علاج کو کبھی بہتر قرار نہیں دیاجا سکتا۔ پڑوسی ملک انڈیا میں حکمت کو بہترین قرار دیا جا چکا ہے جب وہاں سے کوئی مسافر پاکستان میں وارد ہوتا ہے تو وہ حکمت کی دکانوں کو تلاش کرتا ہے کہ وہ ایلوپیتھی کی تباہ کاریوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ہمارے ملک میں طب کو بھی ذریعہ شفا مانا جاتا رہا ہے اگر ہم اپنے بچپن کے زمانے کو یاد کریں تو سوائے جڑی بوٹیوں کے کوئی دوسرا علاج تھا ہی نہیں حتیٰ کہ بڑے سے بڑے زخم بھی صرف جڑی بوٹی کی مدد سے مندمل ہوجایاکرتے تھے۔ اگر ہم غزوات یا اپنے اسلاف کی جنگوں کی مثال لیں تو اس وقت تلواروں اور تیروں کے گہرے گھاؤ کا علاج محض جڑی بوٹیوں کی مدد سے انجام پاتا تھا اور سپاہی جلد صحتیاب ہو کر عام زندگی گزارتے تھے۔ متبادل علاج کے طور پر پاکستان میں 80کی دہائی میں جرمنی کا رائج طریقہئ علاج ’ہومیوپیتھی‘ متعارف ہوا تو پاکستانیوں نے قدرے سکھ کا سانس لیا کہ اس طریقہئ علاج میں مضر اثرات کا تقریباٌ نہ ہونا مریض کے لئے طمانیت کا باعث بنا مگرافسوس اس بات کا ہے کہ حکومتی سطح پر تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں، ضلعی اور ڈویژنل ہسپتالوں میں ہومیو ڈاکٹرز کی ایک ایک پوسٹ کا اعلان کرنے پر اکتفا کیا گیا اسی طرح سرکاری ہسپتالوں میں ایک ایک حکیم کی پوسٹ بھی منظور کیں اور یوں حکومت نے آدھا تیتر آدھا بٹیر کی عظیم مثال قائم کر دی کہ ہسپتالوں میں ہومیو ڈاکٹر اور حکیم کی پوسٹیں تو قائم کر دیں لیکن پورے ملک میں سرکاری سطح پر ہومیو پیتھک کالجز کا قیام عمل میں نہ لایا جا سکا جس کی وجہ سے ملک بھر میں نجی ہومیو کالجز قائم ہوئے اور لاکھوں کی تعداد میں خواتین و مرد اس علاج کی بڑھتی ہوئی مانگ کو دیکھتے ہوئے ”ڈاکٹر“ بن گئے اتنی بڑی تعداد میں ڈاکٹروں کو کھپانے کے لئے محض ایک اسامی ناکافی تھی اگر حکومت ہومیو پیتھی کو ترقی دینا چاہتی ہے تو سرکاری ہسپتالوں میں کم ازکم دو شفٹوں میں دو ڈاکٹر اور دوکمپاؤڈر بھرتی کرے تو بہت سے ہومیو ڈاکٹر مریضوں کے متبادل کے طور پر میسر آجائیں۔ اس شعبہ کو حکومتی سرپرستی میں لینے کے بجائے حکومت پنجاب نے چند ماہ قبل ہومیو پیتھی طریقہئ علاج کے سرے سے خاتمے کے لئے ”جدوجہد“ کا آغاز یوں کیا کہ آئندہ کوئی ہومیو ڈاکٹر بھرتی ہی نہ کیا جائے یعنی نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔۔۔ جبکہ اس وقت 60%مریض عملی طور پر ہومیو پیتھی کی جانب ناصرف راغب ہو چکے ہیں بلکہ انہوں نے مکمل طور پر ہومیو پیتھی ہی کو بطور علاج کا بہترین ذریعہ اپنا لیا ہے جس سے وہ خوش حال زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ ایک تو یہ طریقہئ علاج ایلوپیتھی کے مقابلے میں انتہائی سستا اور زیادہ مؤثر ہے دوسرا ایلوپیتھی کے مضر اثرات کے مقابلے میں بالکل پاک ہے۔ اس ضمن میں ہومیو ڈاکٹروں اور ان کی تنظیموں میں اضطرابی کیفیت پایا جانا ایک فطری عمل ہے ہومیو مریضوں کی بڑی تعداد جو ایک محتاط اندازے کے مطابق لاکھوں میں ہے وہ بھی اس نامناسب حکومتی فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ پنجاب حکومت فی الفور اس فیصلے کو واپس لے اور ہومیو طریقہئ علاج کو جاری رکھا جائے اور سرکاری سطح پر ہومیو کالجز بنائے جائیں۔ پاکستان کے دیگر صوبوں میں یہ طریقہئ علاج کامیابی سے جاری و ساری ہے جبکہ پنجاب حکومت علاج کے اس مؤثر طریقہ کو ختم کر کے صرف ایلوپیتھی کو کیوں فروغ دینا چاہتی ہے؟ وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر صوبے کی ایک بڑی آبادی کے اس مطالبے کو پذیرائی بخشیں تاکہ عوام اس سستے اور مؤثر ترین طریقہئ علاج سے استفادہ کر سکیں۔

Comments are closed.