تحریر: خالد چوہدری
بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں نے آئی ایم ایف کی ڈائریکشن پر بجلی کے بلوں میں اتنے زیادہ ٹیکس شامل کر دیئے ہیں کہ عوام اور تاجروں کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ کاروباری حالات سب سے نچلی سطح پر ہیں۔ بجٹ میں بھی دیگر ٹیکسوں کی بھر مار کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے کاروبار انتہائی مشکل ہو گئے ہیں ۔ بل میں دو سو یونٹ تک کا سلیب ہے لیکن اگر استعمال شدہ یونٹ دو سو ایک ہو جائے تو گھریلو اور کمرشل صارفین کے سلیب ڈبل ہو جاتا ہے۔ اگر دو سو یونٹ تین ہزار کا ہو تو دو سو ایک آٹھ ہزار روپے سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ٹیکس بھی بڑھ جاتے ہیں اور ماہانہ فیول ایڈجسمنٹ چارجز میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر وقت پر بل جمع نہ ہو سکا تو سود کی مد میں بھی اضافہ ہوگا جبکہ ٹوٹل بل جس میں فیول ایڈجسمنٹ چارجز پر بھی ٹیکس شامل کیا جاتا ہے۔ ٹیکسوں کی بھر مار ھے اور ٹیکس لگانے والوں کو بھی علم نہیں کہ یہ بلوں میں تیرہ اقسام کے ٹیکس کس اکاونٹ میں ہیں۔ ان ٹیکسوں کے نام بھی ختم ہو گئے ہیں۔ ایکسٹرا ٹیکس ۔ فردر ٹیکس ۔ نا معلوم ٹیکس ۔ ایڈیشنل ٹیکس جیسی اصلاحات استعمال کی جا رہی ہیں اور عوام کو لفظوں سے بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ عید کی چھٹیوں کی وجہ سے میٹر ریڈنگ کی تاخیر کی گئی اور سلیب تبدیل ہونے کی وجہ سے ڈسٹری بیوشن کمپنیوں نے اربوں روپے عوام کی جیب سے نکلوائے ۔
آج کے دن میں بجلی کی پروڈکشن بیس ہزار میگا واٹ ھے ۔ جبکہ طلب 26 ہزار میگا واٹ ہے ۔ پاکستان کے پاس 48 ہزار میگا واٹ کی پیداواری گنجائش ہے سمجھ سے بالا تر ہے کہ بجلی فالتو ہونے کے باوجود لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے اور کوئی بھی حکومتی ادارہ پوچھ نہیں سکتا ۔ پاکستان کے دفاع کا دو ہزار ارب روپے ہے ۔ جبکہ حکومت ا 2500 آئی پی پیز کو سالانہ ا ادائیگی کرے گی کئی کمپنیاں ا بجلی کی پروڈکشن بھی نہیں کرتی لیکن کپیسٹی پروڈکشن کے نام پر بھاری رقوم وصول کرتی ہیں ۔ آئی پی پیز جونک کی طرح پاکستان کی اکانومی کا خون چوس رہی ہیں ۔ اگر فوری طور پر معاہدوں پر نظر ثانی نہ کی گئی تو پاکستان معاشی بد حالی سے کبھی باہر نہ آسکے گا۔ واپڈا اور تمام ڈسٹری بیوشن کمپنیاں اپنے ملازمین کو مفت بجلی سپلائی کرتے ہیں جس کی تقریباً تین سو بلین روپے عوام کی جیب سے نکال لئے جاتے ہیں۔ کچھ افسران اور یونین کے عہدیداروں کو اختیار ہے کہ وہ کسی بھی تعلق والے کو مفت بجلی دے سکتے ہیں ۔ آئیسکو میں بجلی کے لائن لاسسز تقریباً 9 فی صد ہے جو کہ پاکستان بھر کی کمپنیوں میں سب سے کم ہے ۔ کچھ صوبوں میں ساٹھ سے ستر فی صد تک بجلی چوری ہوتی ہے چوری دیگر صوبوں میں ہوتی ہے لیکن ادائیگی آئیسکو کے صارفین کرتے ہیں ۔ جو ظلم کی انتہا ہے۔
پاکستان میں سب سے مہنگی بجلی تاجروں اور کمرشل استعمال کرنے والوں کو دی جاتی ہے۔ جبکہ شام 7 بجے سے رات 11 بجے تک پیک آورز میں تقریبا ایک سو روپے فی یونٹ فروخت کی جاتی ہے ۔ بجلی ایک ہی ہے کمرشل – گھریلو اور صنعتی صارفین استعمال کرتے ہیں ، اب ظلم کیا گیا ہے کہ پیک آورز کا دورانیہ بڑھا کر 5 بجے سے رات 11بجے تک کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے تاجروں کو مزید 2 بلین روپے کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے ۔ آئیندہ بجٹ میں گھریلو اور کمر شل صارفین پر کم از کم
200 سو روپے اور زیادہ 1000
روپے کا فکس ٹیکس لگایا گیا ہے ۔ جس سے صارفین کی جیبوں سے مزید 15 بلین روپے نکلوائے جائیں گے۔
دو برس پہلے نیپرا کی ویب سائیٹ پر ایک انکوائری رپورٹ مجود تھی کہ تمام ڈسٹری بیوشن کمپنیاں اپنی چوری ۔ لائن لاسسز اور کرپشن پر قابو پانے کے لئے 30 فی صد تیز میٹر لگائے ہیں یہ بھی ڈکیتی کے زمرے میں آتا ہے ۔ سولر لگانے کا رحجان بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے بجلی کی طلب میں کمی واقع ہو رہی ہے ۔ آئیسکو کے علاقے میں چھ ہزار گرین میٹر لگائے جاتے ہیں ۔ اگر یہی حالات رہے تو واپڈا والے ٹوکریوں میں بجلی لے کر گھومیں گے لیکن خریدار کوئی نہ ہوگا ۔ یہی وجہ سے کہ سولر پر بھی ٹیکس لگا دیا جائے گا اور سی این جی کی طرح سولر انڈسٹری بھی برباد کر دی جائے گی ۔ حکومت نے ڈسٹر بیوشن کمپنیوں کے معاملات پر غور یا ایکشن نہ لیا تو بھر پاکستان کی اکانومی درست کرنا ممکن نہیں رہے گی۔
Comments are closed.