’’حافظ لا سے مارشل لا‘‘ کی جانب سفر کیوں؟

محاسبہ
ناصرجمال

چیختی کیوں ہیں شہر کی گلیاں
میں تو چُپ ہوں کئی زمانوں سے
(امین اڈپرائی)
کنفیوشس نے کہا تھا کہ ہمیشہ تشدد کے علاوہ بھی ایک راستہ موجود ہوتا ہے۔
”فرض کرلیں کہ ایک مچھر مرد کے نازک ترین مقام پر بیٹھ جاۓ تو، آپ کیا کریں گے۔
ڈی۔ جی(آئی۔ ایس۔ پی۔ آر) کی تباہ کُن پریس کانفرنس، سُنی اور دیکھی تو، مشرق پاکستان یاد آیا۔
اس وقت بھی بیانات دیئے جارہے تھے۔ سفید زمین چاہئے ہے۔ پھر کیا ہوا۔ سب تاریخ ہے۔ آج بنگلہ دیشی ٹکے کے سامنے، ہمارا روپیہ ’’ٹکا ٹوکری‘‘ ہے۔ ہم نے کیا سیکھا۔ ککھ نہیں سیکھا۔ وہاں بھی یہی دعوے تھے۔ بات نہیں کریں گے۔ آج بھی 54 سال کے بعد وہی بیانات ہیں۔ بات نہیں ہوگی۔ سید مشاہد حسین جو ہر صحیح وقت پر صحیح بات ضرور کرتے ہیں۔انہوں نے ازراہ تفنن کہا ہے کہ اس سے پہلے کے امریکہ سے کال آئے۔بہتر ہے قیدی نمبر 804 کو چھوڑ دیں۔
جرنیل جی کی پوری پریس کانفرنس میں صرف ایک بات سچ تھی کہ ’’ملک میں جھوٹ کا بازار گرم ہے“۔
یقینی طور پر پنڈی کے باسیوں کو اس میں کوئی نہیں ہرا سکتا۔یقین نہ ائے تو شیخ رشید اور حنیف عباسی سے پوچھ لیں۔
سپریم کورٹ کے ججز برملا کہہ رہے ہیں کہ ’’دبائو‘‘ ہے۔ ہمیں ماننا پڑے گا۔ چیف جسٹس اور قیوم صدیقی کے علاوہ پوری قوم کو پتا ہے کہ ’’انصاف‘‘ ملک سے رخصت ہوچکا ہے۔وہ بیچارہ طاقت وروں کی ابرو کی جانب دیکھتا ہے۔ ملک ریاض کے ساتھ ہونیوالے سلوک کے بعد تو یقین مانیے پیسے اور احسان سے بھی ایمان اٹھ گیا ہے۔
یہ انتہائی بودی دلیل ہے کہ عمران خان اور پی۔ ٹی۔ آئی کو کل رجسٹر 13 کروڑ 1 لاکھ 36 ہزار تین سو گیارہ ووٹوں کا صرف تیس فیصد ووٹ پڑا ہے۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان کو تین کروڑ نوے لاکھ سے زائد ووٹ پڑے۔ 48 فیصد ٹرن آئوٹ مان لیا جائے تو کل ووٹ جوکاسٹ ہوئے۔ وہ چھ کروڑ 24 لاکھ کے قریب یا زائد بنتے ہیں۔
یہ آپ ہی کے بیان کردہ اعداد و شمار ہیں۔ جس کے مطابق 30 فیصد ووٹ لینے والا حکومت سے باہر ہے۔ 18 فیصد والے، حکومت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
اگر 48 فیصد ووٹنگ تناسب کو سو فیصد مان لیا جائے جو کہ چھ کروڑ 24 لاکھ بنتا ہے۔ تو 3 کروڑ نوے لاکھ ووٹ 5.62 فیصد بنتے ہیں۔ جبکہ مخالف پارٹیوں کو 5.37 فیصد ووٹ بنتے ہیں۔ جن میں مولانا فضل الرحمٰن دوسرے اپوزیشن کے لوگ بھی ہیں۔ اس لئے، میڈیا نے کہا کہ قوم نے نو مئی کا بیانیہ صرف مسترد نہیں کیا، بلکہ دفن کردیا ہے۔
یہ اعداد و شمار آپکے ہیں۔ 52 فیصد لوگ تو ووٹے ڈالنے نہیں آئے۔ وہ ویسے ہی، آپکے نظام پر عدم اعتماد کرچکے ہیں۔انہیں اپنا عاشق نامراد بتانا شدید زیادتی ہے۔
جبکہ آزاد ذرائع اور میڈیا، الیکشن کمیشن کے مشکوک اعداد و شمار پر یقین نہیں رکھتا۔ ان کا خیال ہے کہ ٹرن آئوٹ ساٹھ فیصد سےزائد تھا۔ جس کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ابھی عوام کے ڈالے گئے پندرہ فیصد تک ووٹس کو شمار ہی نہیں کیا گیا۔ پندرہ فیصد ووٹ دو کروڑ کے قریب ووٹ بنتے ہیں۔ جو یقینی طور پر ہماری مسلط، محبوب حکومت اور اس کے اتحادیوں کو تو قطعاً نہیں ملے ہونگے۔ یہ صورتحال قطعاً خوش کُن تو نہیں ہے۔ چھ کروڑ کے قریب لوگوں نے تمام سیاسی اور عسکری بیانیے،نظریے اور جبر و تشدد مکمل طور پر مسترد کردیئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے جو بات کہی ہے کہ ہمیں مان لینا چاہئے کہ ’’دبائو‘‘ ہے۔
اسی طرح اس ملک کے ہر ذی الشعور مان چکا ہے کہ 77 سال کے تجربات ناکام ہوچکے ہیں۔ ’’مداخلت‘‘ نہیں بدترین مداخلت کو وہ سچ سمجھتا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ پر مسلح یلغار کو وہ نو مئی کا تسلسل سمجھتا اور مانتا ہے۔
کیا آٹھ فروری کو سیاسی جماعتوں کے وسیع تر اتحاد اور اسٹیبلشمنٹ کو مکمل شکست نہیں ہوئی۔
بندوق سے فارم 47 تو تخلیق کیا جاسکتا ہے۔ مگر اخلاقی اور سیاسی جواز فراہم نہیں کیاجاسکتا۔
نو مئی کی طرح پی ۔ ٹی۔ وی حملہ، فالس آپریشن تھا۔ پولیس والوں نے سفید لباس اور واسکٹس پہن کر، طاہر القادری کے لوگوں کو ورغلایا۔ وہ شاہراہ دستور والے گیٹ سے، طاہر القادری کے ورکروں کو پی۔ ٹی۔ وی کے اندر لائے، خود دوسرے عقبی دروازے، (عوامی مرکز) والے روڈ سے باہر نکل گئے۔ اُسے پہلے سے تیار پرویز رشید اور ماروی میمن نے پی۔ ٹی۔ وی پر حملہ بنا دیا۔ محض چند منٹ کے اندر یہ پی ٹی وی پہنچ چکے تھے۔
سیاسی ورکرز اور نانگا مست بھی بتاتے ہیں۔کیسے سرخے سے لیگی چوگا پہننے والے ایک رہنما ضیاء الحق کے مارشل لاء میں،خود کو اگ لگانے والے ورکروں پر ڈالنے والا کمبل لیکر غائب ہوئے۔ مبینہ خودسوزی کا ڈرامہ حقیقت بن گیا تھا۔
ویسے، آپس کی بات ہے۔ میاں نواز شریف سے پوچھ نہ لیاجائے۔ 2014ء کا پارلیمنٹ کا دھرنا، کس نے کروایا۔ مسلم لیگی، کس کو اس کا مجرم گردانتے تھے۔ عمران خان، طاہر القادری، کس کی گود میں فیڈر پی۔ رہے تھے۔ عمران خان کنٹینر سے کہاں جاتے تھے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کیا ہوا تھا۔ اے۔ پی۔ ایس پشاور کے بعد، گیم کیسے بدلی۔ ایک اور دھرنا، کیسے وجود میں آیا۔ پانامہ پیپرز میں کیا ہوا۔ میاں نواز شریف سے بھی تو پوچھیں انھیں کیوں اور کس نے نکالا۔
بدقسمتی ہے کہ ہم چھوٹے بچوں کی طرح، آپس میں دست و گریبان ہیں۔ ریاست، سیاست، ملک اور عوام کو آگے نکلنے کا راستہ نہیں دے رہے۔
پہلے پیپلز پارٹی، بے نظیر زرداری۔۔۔۔ پھر نواز شریف خراب ہوگئے۔ پھر محترمہ کو لایا گیا۔ پھر نوازشریف محبوب بن گئے۔ پھر نواز شریف دشمن قرار پائے۔
اقتدار پر قبضہ ہوگیا۔ پھر محترمہ اور نواز شریف نیک اور محترم ہوگئے۔ مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر باہر بھجوا دیا گیا۔ پھر زرداری ٹارگٹ پر آگئے۔ پھر نواز شریف کو پُچکارا گیا۔ پھر اُن سے دل بھرگیا۔
عمران خان سے اتنا لاڈ کیا گیا۔ سب جلنے لگے۔ پھر وہ بھی راندہِ درگاہ ہوگئے۔ پھر سے آصف زرداری اور میاں صاحب کو سات خون معاف کر دیئے گئے۔ اب لاڈلا ترین عمران خان، بدترین دشمن ہے۔
قارئین!
طاقت اور ایکسٹینشن کے اس کھیل میں، ریاست اور عام آدمی تباہ و برباد ہوگئے۔ محمد خان جونیجو جیسا، شریف اور ایماندار شخص بھی کس سے برداشت نہیں ہوا۔ عدالتوں نے اسمبلی توڑنے کے حکم کو غلط قرار دینے کے باوجود، کس کے دبائو پر حکومت بحال کرنے کی بجائے، عام انتخابات کروانے کا حکم دیا۔ کون تھا، جو بے نظیر کو اقتدار دینے کو تیار نہیں تھا۔ جہاں آج عمران خان اور پی۔ ٹی۔ آئی۔ کھڑے ہیں۔ یہ سب کچھ پیپلز پارٹی نے دوبار سہا ہے۔ وہ تو آصف زرداری کی قیادت میں، اسٹیبلشمنٹ کو پیاری ہوئی۔
بات پھر وہیں سے شروع کرتے ہیں۔
ہم کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ اس ملک میں مداخلت، دبائو، ذاتی بیانیے، ذاتی مفادات، مخصوص مفادات اور مفادات کی کشمکش، حقیقت ہیں۔ نہ ماننے سے کچھ نہیں بدلے گا۔ ہاں اگر یہ سب تسلیم کر یا جائے تو آگے کا راستہ نکل سکتا ہے۔ عسکری ادارےاگر ڈھائی سو ارب سے زائد کا ٹیکس دے رہے ہیں تو انھیں یہ بھی پتا ہونا چاہئے کہ ساڑھے تین سو ارب سے زائد کی ان کی پنشن سویلین بجٹ میں شامل ہیں۔ کوڑیوں کے بھائو زمینیں لیتے ہیں۔ بغیر مقابلے کے ٹینڈرز لے اڑتے ہیں۔ مراعات اور بہت کچھ ہے۔
بات نہیں کرینگے کا ، مینڈیٹ آپکا کب سے ہوگیا۔ پھر کہتے ہیں۔مداخلت نہیں کرتے۔
یہ مینڈیٹ، آئینِ پاکستان، مقننہ اور انتظامیہ کو دیتا ہے۔اس ملک میں تین ہی ادارے ہیں۔ جن کو کوئی نہیں مانتا۔ بدقسمتی سے سروسز والے خود کو ادارہ کہتے ہیں۔
77 سال کے بعد، آج ہم انہی لچھنوں اور کرتوتوں کی وجہ سے اس بدترین مقام کھڑے ہیں۔ ہم جس راستے پر ہیں۔ وہ تباہی کا راستہ ہے۔ عوام کو حق حکمرانی واپس کرنا ہوگا۔ آئین کے تابع ہونا ہوگا۔ حکومت اور تخلیق کاروں کو کاروبار سے دستبردار ہونا ہوگا۔
نو مئی پر حکومتی اشتہارات، آئی۔ ایس۔ پی۔ آر کی پریس کانفرنس، تحریک انصاف کا احتجاج کا اعلان، ریاست، سیاست اور عوام کے لئے نیک شگون نہیں ہیں۔ ایسے ملک جمہوریت نظام اور معیشت مضبوط نہیں ہوا کرتے۔ ’’ضد اور تصادم‘‘ اس ملک کو کھا جائے گا۔
ہم حافظ لا سے مارشل لا کی وادیوں میں داخل ہوچکے ہیں۔ کرائون پرنس کی آمد سے پہلے، یہ لڑائیاں، یہ ثابت کررہی ہیں کہ جو بھی لوگ سسٹم پر قابض ہیں، یا سسٹم پر دوبارہ کنٹرول چاہتے ہیں۔ وہ ذات اور طاقت کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ انھیں ریاست، نظام، عوام اور نسلوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
اللہ ملک پاکستان کی خیر ہو۔۔۔۔
کیسے دستار سنبھالیں کہ انہی ہاتھوں سے
ہم نے مضبوطی سے کشکول پکڑ رکھا ہے
(مرغوب حسین طاہر)

Comments are closed.